نسائی تجربے کی جمالیاتی صورت گری

نسائی تجربے کی جمالیاتی صورت گری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شاعری انسانی شعور کی وہ گہری اور لطیف ترین صورت ہے جس میں فرد کا داخلی کرب، لاشعوری خواہشات، سماجی دباؤ اور وجودی سوالات ایک ساتھ اظہار پاتے ہیں۔ اردو شاعری کی تاریخ اگر بہ غور دیکھی جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس روایت میں عورت طویل عرصے تک خود بولنے والا وجود نہیں بن سکی۔ وہ یا تو محبوبہ کے طور پر موجود رہی، یا وفا، ناز، ادا اور جمال کی علامت کے طور پر، مگر اس کی اپنی نفسیات، اس کا داخلی خوف، اس کی خواہش، اس کی محرومی اور اس کی سماجی گرفت کو زبان بہت دیر سے میسر آئی۔ یہی وہ خلا ہے جہاں سے پروین شاکر کی شاعری کی معنویت شروع ہوتی ہے۔
پروین شاکر اردو شاعری میں عورت کی محض شمولیت نہیں بلکہ عورت کی مرکزی حیثیت کا اعلان ہے۔ ان کی شاعری میں عورت کوئی تصوراتی پیکر نہیں بلکہ گوشت پوست کی وہ ہستی ہے جو محبت کرتی ہے، ٹوٹتی ہے، سوال اٹھاتی ہے، سماج سے نبرد آزما ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر اپنے اندر جھانکتی ہے۔ یہ داخلی نظر ہی پروین شاکر کو محض رومانوی شاعرہ نہیں بلکہ ایک نفسیاتی اور سماجی مفکر بنا دیتی ہے۔
ان کی غزل میں رومانویت محض جمالیاتی سرشاری نہیں بلکہ ایک نفسیاتی عمل ہے۔ محبت یہاں صرف خوشی نہیں بلکہ عدمِ تحفظ، وابستگی کا خوف، کھو دینے کا اندیشہ اور خود کو مکمل طور پر حوالے کر دینے کی کشمکش ہے۔ عورت کے لیے محبت ایک جذباتی خطرہ بھی ہے، کیونکہ سماج اس کے جذبات کو اس کی کمزوری سمجھتا ہے۔ اسی لیے پروین شاکر کی شاعری میں محبت ہمیشہ ایک نازک توازن کے ساتھ سامنے آتی ہے—خواہش اور احتیاط کے درمیان، سپردگی اور خودداری کے درمیان۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے ابتدائی مجموعے میں بھی محبت کو کھیل یا عارضی کیفیت نہیں کہا گیا۔ وہ صاف لفظوں میں عورت کی جذباتی سنجیدگی کو واضح کرتی ہیں.
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کُھلتیں

کوئی موجۂ شیریں چوم کر جگائے گی
سورجوں کے نیزوں سے سیپیاں نہیں کھلتیں

ماں سے کیا کہیں گی دکھ ہجر کا کہ خود پر بھی
اتنی چھوٹی عمروں کی بچیاں نہیں کھلتیں

یہ نسائی شعور کا ایک بنیادی مقدمہ ہے۔ یہاں عورت مرد کی سطحی رومانویت کے مقابلے میں اپنی نفسیاتی گہرائی کا اعلان کرتی ہے۔ یہ محض عشق کا بیان نہیں بلکہ عورت کی جذباتی خودمختاری کا اعلان ہے۔ پروین شاکر کی شاعری اسی مقام پر روایتی غزل سے الگ ہو جاتی ہے۔
ان کے ہاں محبت ہمیشہ یاد کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، اور یاد محض رومانوی کیفیت نہیں بلکہ نفسیاتی تسلسل ہے۔ عورت محبت ختم ہونے کے بعد بھی اس کے اثرات سے آزاد نہیں ہو پاتی، کیونکہ محبت اس کے لاشعور میں پیوست ہو جاتی ہے۔ یہی نفسیاتی صداقت ان کی شاعری کو گہرائی عطا کرتی ہے۔ وہ محبوب کے جانے کے بعد بھی اس کی موجودگی کو محسوس کرتی ہیں ۔خاموشی میں، رات میں، تنہائی میں۔
“صد برگ” میں یہ نفسیاتی تجربہ زیادہ کڑا ہو جاتا ہے۔ یہاں عورت صرف چاہنے والی نہیں بلکہ ٹوٹنے والی ہستی بھی ہے۔ انتظار، محرومی اور نا مکمل پن اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں پروین شاکر کی شاعری محض رومان سے آگے بڑھ کر وجودی سوالات کو چھونے لگتی ہے۔ عورت یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ کیا محبت کا انجام ہمیشہ محرومی ہے؟ اور اگر ہے تو اس کا بوجھ ہمیشہ عورت ہی کیوں اٹھائے؟
ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیا
یہ شعر عورت کے اس کرب کو بیان کرتا ہے جہاں دینے والا اپنی بے نیازی میں اس درد سے بے خبر رہتا ہے جو عورت کے اندر جنم لیتا ہے۔ یہ صرف محبت کی ناکامی نہیں بلکہ جذباتی عدم مساوات کا بیان ہے، جو سماج میں عورت کے ساتھ روا رکھی جاتی ہے۔
پروین شاکر کی نسائیت کسی نعرے کی محتاج نہیں۔ وہ عورت کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتیں بلکہ اس کی حساسیت کو اس کی طاقت کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ ان کے ہاں عورت روتی ہے، مگر یہ رونا کمزوری نہیں بلکہ گہرے احساس کی علامت ہے۔ وہ خاموش ہوتی ہے، مگر یہ خاموشی خوف نہیں بلکہ سماجی مجبوری اور نفسیاتی دفاع ہے۔
“خودکلامی” اور “انکار” میں عورت اپنے جذبات کے ساتھ مکالمہ کرتی ہے۔ یہاں محبوب سے زیادہ گفتگو خود سے ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں عورت محبت کے تجربے سے سیکھتی ہے، خود کو پہچانتی ہے اور جذباتی خودداری کی طرف بڑھتی ہے۔ یہ نسائی شعور کی بلوغت ہے، جہاں عورت محبت سے انکار نہیں کرتی مگر خود کو مٹا دینے سے انکار ضرور کرتی ہے۔
پھر مرے شہر سے گزرا ہے وہ بادل کی طرح
دست گُل پھیلا ہُوا ہے مرے آنچل کی طرح
کہہ رہا ہے کسی موسم کی کہانی اب تک
جسم برسات میں بھیگے ہُوئے جنگل کی طرح
یہاں عورت کے جسم اور احساس کے فطری ربط کو ظاہر کیا گیا ہے، مگر اس میں کوئی سطحیت نہیں۔ یہ اظہار جمالیاتی بھی ہے اور نفسیاتی بھی، اور یہی پروین شاکر کا امتیاز ہے۔
پروین شاکر کی شاعری میں سماج ایک خاموش مگر طاقتور کردار کے طور پر موجود ہے۔ روایت، کردار، بدنامی اور خوف،یہ سب عناصر عورت کے رومانوی تجربے کو مسلسل متاثر کرتے ہیں۔ محبت یہاں ذاتی معاملہ نہیں رہتی بلکہ سماجی نگرانی کے دائرے میں آ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں اظہار اکثر محتاط، نیم گفتہ اور علامتی ہوتا ہے۔
کہاں تک چھپاؤں میں اپنے خوابوں کی حقیقت
کہ کون سنے گا مری خاموشی کی زبان
یہ شعر عورت کے اس المیے کو بیان کرتا ہے جہاں اس کی سچائی سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہ خاموش احتجاج ہے، جو چیخ سے زیادہ مؤثر ہے۔
پروین شاکر کی عظمت اس بات میں ہے کہ انہوں نے عورت کے جذبات کو نہ تو تقدیس کا بوجھ دیا اور نہ ہی انہیں گناہ کے دائرے میں رکھا۔ انہوں نے عورت کو انسان کے طور پر لکھا—ایک حساس، سوچنے والا، محبت کرنے والا اور سیکھنے والا انسان۔

پروین شاکر کی شاعری کو اگر نفسیاتی زاویے سے دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کا بنیادی مسئلہ محبت نہیں بلکہ محبت کے عمل میں عورت کی ذہنی ساخت ہے۔ وہ اس سوال سے براہِ راست مکالمہ کرتی ہیں کہ محبت عورت کے لاشعور پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے، وہ اس کے احساسِ تحفظ کو کس طرح مجروح کرتی ہے، اور وہ سماجی رویّے کس طرح عورت کے رومانوی تجربے کو جرم یا کمزوری میں بدل دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں محبت کبھی مکمل طمانیت نہیں بنتی بلکہ ایک ایسی کیفیت رہتی ہے جس میں سرشاری کے ساتھ خوف بھی شامل ہوتا ہے۔ عورت چاہتی ہے مگر ساتھ ہی ڈرتی ہے؛ وہ وابستہ ہوتی ہے مگر اپنی ذات کے بکھر جانے سے خائف بھی رہتی ہے۔
یہ نفسیاتی تضاد پروین شاکر کی شاعری کا مرکزی وصف ہے۔ ان کے ہاں عورت نہ تو روایتی مشرقی ادب کی طرح مکمل قربانی کا پیکر ہے اور نہ ہی جدید مغربی تصور کی طرح جذبات سے آزاد فرد ہے۔ وہ ایک ایسی عورت کو سامنے لاتی ہیں جو محبت کرتی ہے مگر شعور کے ساتھ، جو چاہتی ہے مگر اپنی حدوں سے آگاہ رہتی ہے، اور جو ٹوٹتی ہے مگر خود کو مکمل فنا نہیں ہونے دیتی۔ یہ رویّہ دراصل نسائی نفسیات کی بالغ سطح کی نمائندگی کرتا ہے۔
اردو غزل کی روایت میں عورت اکثر مرد کے جذبے کا عکس تھی، مگر پروین شاکر کی غزل میں مرد عورت کے جذبے کے آئینے میں نظر آتا ہے۔ یہاں محبوب کی بے نیازی، سرد مہری یا عدم توجہی عورت کے باطن میں نفسیاتی ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ یہ ارتعاش کبھی یاد کی صورت میں، کبھی خواب کی صورت میں، اور کبھی خاموش اضطراب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہی کیفیت عورت کے لاشعور میں مستقل رہتی ہے اور اس کی شخصیت کو تشکیل دیتی ہے۔
یہ بات نہایت اہم ہے کہ پروین شاکر کی شاعری میں عورت کا دکھ محض ذاتی نہیں رہتا بلکہ سماجی ہو جاتا ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ عورت کے جذبات کو سماج سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ عورت اگر محبت کرے تو اس پر سوال اٹھتے ہیں، اور اگر اس محبت کے نتائج بھگتے تو اسے تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہی سماجی حقیقت ان کی شاعری کو محض رومانوی نہیں بلکہ سماجی دستاویز بنا دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں خاموشی ایک مستقل علامت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ یہ خاموشی کسی کمزوری کا اظہار نہیں بلکہ ایک ایسی نفسیاتی حکمتِ عملی ہے جس کے ذریعے عورت خود کو سماجی فیصلوں سے بچاتی ہے۔ خاموشی یہاں احتجاج بھی ہے اور تحفظ بھی۔ پروین شاکر کی عورت چیختی نہیں، مگر اس کی خاموشی قاری کے شعور میں دیر تک گونجتی ہے۔
کہاں تک چھپاؤں میں اپنے خوابوں کی حقیقت
کہ کون سنے گا مری خاموشی کی زبان
یہ شعر دراصل عورت کے اس اجتماعی المیے کی علامت ہے جہاں اس کی سچائی سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہاں نسائیت کسی نعروں کے ذریعے نہیں بلکہ ایک گہرے داخلی دکھ کے ذریعے سامنے آتی ہے۔
پروین شاکر کی رومانویت کو اگر سماجیات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ محبت کو کبھی سماجی ڈھانچے سے الگ نہیں کرتیں۔ ان کے نزدیک محبت ایک نجی تجربہ ضرور ہے، مگر اس کے اثرات سماجی ہوتے ہیں، اور عورت ان اثرات کی پہلی شکار بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں محبت اکثر مکمل نہیں ہوتی، ادھوری رہتی ہے، یا کسی نہ کسی مرحلے پر قربانی مانگتی ہے۔اور یہ قربانی زیادہ تر عورت ہی دیتی ہے۔
نفسیاتی طور پر یہ کیفیت عورت میں عدمِ تحفظ کو جنم دیتی ہے۔ محبت کے ساتھ ساتھ کھو دینے کا خوف، بدنامی کا اندیشہ، اور تنہائی کا سایہ اس کے ساتھ چلتا ہے۔ پروین شاکر اس کیفیت کو نہایت شفاف انداز میں بیان کرتی ہیں، بغیر کسی جذباتی مبالغے کے۔ یہی شفافیت ان کی شاعری کو سنجیدہ تحقیقی مطالعے کے قابل بناتی ہے۔
“صد برگ” اور بعد کے مجموعوں میں عورت کا شعور مزید پختہ ہو جاتا ہے۔ اب وہ صرف جذبات کے بہاؤ میں نہیں بہتی بلکہ اپنے تجربے پر غور بھی کرتی ہے۔ وہ محبت کو پرکھتی ہے، اس کے اثرات کو سمجھتی ہے، اور اپنے زخموں سے سیکھتی ہے۔ یہ مرحلہ نسائی شعور کی بلوغت کا مرحلہ ہے، جہاں عورت جذباتی خودداری کی طرف بڑھتی ہے۔
ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گہر تم کو اس سے کیا
یہ شعر صرف ایک رومانوی شکوہ نہیں بلکہ جذباتی عدم مساوات کا استعارہ ہے۔ دینے والا اپنی ذمہ داری سے بے نیاز ہے، جبکہ سہنے والا اپنے اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ یہ کیفیت عورت کی نفسیاتی تنہائی کو مزید گہرا کر دیتی ہے۔
پروین شاکر کی شاعری کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ عورت کو مکمل طور پر محبت کے گرد متعین نہیں کرتیں۔ محبت اس کی زندگی کا ایک حصہ ہے، کل نہیں۔ وہ عورت کی ذات، اس کی خود آگہی، اس کی داخلی طاقت اور اس کے شعور کو مرکزی حیثیت دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ “انکار” میں عورت محبت سے نہیں بلکہ خود کو مٹانے سے انکار کرتی ہے۔ یہ انکار دراصل نسائی وقار کا اعلان ہے۔
پروین شاکر کی شاعری اردو ادب میں عورت کی داخلی دنیا کی سب سے معتبر دستاویز ہے۔ یہ شاعری ہمیں بتاتی ہے کہ عورت کی محبت صرف جذباتی وابستگی نہیں بلکہ ایک نفسیاتی، سماجی اور وجودی تجربہ ہے۔ ان کی غزل رومانویت کو سطحی جذبات سے نکال کر انسانی شعور کی گہرائیوں تک لے جاتی ہے، جہاں نسائیت کسی نظریے کے طور پر نہیں بلکہ ایک زندہ تجربے کے طور پر سامنے آتی ہے۔
پروین شاکر کی شاعری پر گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہوتا ہے کہ ان کے کلام کو محض نسائی شاعری یا محض رومانوی اظہار کہہ کر محدود کرنا دراصل ایک سطحی مطالعہ ہوگا۔ ان کی غزل نہ تو صرف عورت کی نمائندہ ہے اور نہ ہی محض جذباتی واردات کا بیان؛ بلکہ یہ اردو غزل کی روایت میں ایک نئے موضوعاتی اور نفسیاتی زاویے کا اضافہ ہے۔ تاہم اس اضافے کے ساتھ کچھ سوالات، حدود اور فکری تضادات بھی وابستہ ہیں جن پر سنجیدہ تنقید ضروری ہے۔
پروین شاکر نے اردو غزل میں پہلی بار منفرد انداز میں عورت کو بطور متکلم پیش کیا، مگر یہ متکلم ہر وقت طاقت ور یا خودمختار نہیں۔ وہ محبت کے تجربے کو اتنی شدت سے بیان کرتی ہیں کہ بعض مقامات پر عورت کی شناخت محبت کے گرد سمٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ رویہ عورت کی مکمل خودمختاری کی علامت ہے یا ایک نئی قسم کی جذباتی قید؟
یہ واضع ہے کہ پروین شاکر نے عورت کے احساسات کو زبان دی، مگر یہ احساسات زیادہ تر رومانوی تعلق کے تناظر میں ابھرتے ہیں۔ ان کے ہاں عورت کا دکھ، اس کی خوشی، اس کی محرومی اور اس کی خود آگہی زیادہ تر محبوب کے وجود سے جڑی ہوئی ہے۔ تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ رجحان اردو غزل کی اسی روایت کا تسلسل ہے جہاں ذات کی تکمیل کسی دوسرے کے ذریعے ہوتی ہے، چاہے متکلم عورت ہی کیوں نہ ہو۔
نفسیاتی سطح پر پروین شاکر کی شاعری ایک حساس مگر نازک ذہنی ساخت کو سامنے لاتی ہے۔ یہ ذہن محبت میں شدت اختیار کرتا ہے، مگر اسی شدت میں عدمِ تحفظ، خوف اور اندیشہ بھی شامل ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ نفسیاتی کیفیت عورت کی داخلی سچائی ہے یا سماج کی پیدا کردہ ذہنی تربیت کا نتیجہ؟ تنقید یہاں یہ کہتی ہے کہ پروین شاکر عورت کے دکھ کو فطری بنا کر پیش کرتی ہیں، جب کہ اس دکھ کی جڑیں سماجی طاقت کے غیر مساوی نظام میں پیوست ہیں۔
یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے کہ پروین شاکر کی غزل میں مرد اکثر ایک مبہم، طاقتور اور فیصلہ کن کردار کے طور پر موجود ہے، جبکہ عورت ردِعمل کی سطح پر زیادہ نظر آتی ہے۔ اگرچہ وہ سوال کرتی ہے، شکوہ کرتی ہے اور کبھی انکار بھی کرتی ہے، مگر یہ انکار اکثر جذباتی ہوتا ہے، ساختی یا سماجی نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں جدید نسائی تنقید ان کے کلام سے اختلاف کرتی ہے۔
پروین شاکر کی رومانویت اپنی جمالیات میں دلکش ہے، مگر بعض اوقات یہ جمالیات تجربے کی تلخی کو نرم کر دیتی ہیں۔ دکھ خوبصورت بن جاتا ہے، محرومی شاعرانہ ہو جاتی ہے، اور تنہائی ایک جمالیاتی کیفیت میں بدل جاتی ہے۔ تنقیدی سوال یہ ہے کہ کیا یہ حسن، دکھ کی شدت کو کمزور نہیں کر دیتا؟ کیا قاری دکھ سے متاثر تو ہوتا ہے مگر اسے چیلنج کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا؟
اس کے باوجود یہ ماننا پڑتا ہے کہ پروین شاکر کی غزل نے اردو شاعری کے قاری کی نفسیات کو بدل دیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ عورت کے جذبات محض نجی نہیں بلکہ ادبی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی زبان میں جو نرمی، شفافیت اور علامتی سادگی ہے، وہ اردو غزل کی روایت میں ایک نیا ذائقہ پیدا کرتی ہے۔ تاہم یہی سادگی بعض ناقدین کے نزدیک فکری پیچیدگی کی کمی کا سبب بھی بنتی ہے۔
کہاں تک چھپاؤں میں اپنے خوابوں کی حقیقت
کہ کون سنے گا مری خاموشی کی زبان
اس شعر کو تنقیدی نظر سے دیکھا جائے تو یہ عورت کی داخلی صداقت کا بیان ضرور ہے، مگر اس میں مزاحمت کی جگہ کم اور قبولیت کی کیفیت زیادہ ہے۔ خاموشی یہاں احتجاج کم اور مجبوری زیادہ بن جاتی ہے۔
سماجی تناظر میں پروین شاکر کی شاعری متوسط طبقے کی شہری عورت کی نمائندگی زیادہ کرتی ہے۔ دیہی عورت، مزدور عورت یا نچلے سماجی طبقات کی عورت ان کے کلام میں نسبتاً کم نظر آتی ہے۔ یہ حد بھی ان کی شاعری کے سماجی دائرے کو محدود کرتی ہے، اگرچہ یہ حد ان کے ذاتی تجربے اور مشاہدے سے فطری طور پر جڑی ہوئی ہے۔
اس کے باوجود، یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ پروین شاکر نے اردو غزل میں جذباتی سچائی کی ایک نئی سطح قائم کی۔ ان کی شاعری مکمل نسائی منشور نہیں، مگر یہ نسائی شعور کی طرف ایک مضبوط قدم ضرور ہے۔ ان کا کلام سوال پیدا کرتا ہے، مکالمہ کھولتا ہے اور قاری کو عورت کے باطن سے روشناس کراتا ہے—اور یہی کسی بھی بڑی شاعری کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے 
Dr Saif Wallahray
About the Author: Dr Saif Wallahray Read More Articles by Dr Saif Wallahray: 31 Articles with 9808 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.