ابوقرہ صاحب جاثلیق کے سوال کا جواب
صفوان بن یحییٰ السابری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ابو قرہ جاثلیق نے مجھ سے
کہا:تم میرے لئے اما م رضا سے شرف باریابی طلب کرو۔
میں نے امام سے اس کے لئے اجازت طلب کی تو آپ نے اجازت دیدی ۔
جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہواتو اس نے از راہ ادب آپ کی مسند کا بوسہ لیا
اور کہنے لگا کہ یہ ہمارے دین کا حکم ہے کہ ہم اپنے دور کے بزرگوں کا اس
طرح احترام کریں ۔
پھر اس نے آپ سے کہا:اﷲ آپ کو سلامت رکھے ! ایک فرقہ کسی بات کا دعویٰ
کرتاہے اور دوسرافرقہ اس کے صداقت کی گواہی دیتاہے ۔تو آپ اس پہلے فرقہ کے
متعلق کیا فرمائیں گے ؟
آپ نے فرمایا: ان کا دعویٰ ثابت ہے ۔
اس نے کہا:ایک اور فرقہ اسی طرح کا دعویٰ کرتاہے ۔لیکن اس کے دعویٰ کی
تائید ان کے اپنے افراد کے علاوہ دوسرا فرقہ نہیں کرتاہے۔تو آپ اس فرقہ کے
دعویٰ کے متعلق کیا کہیں گے ؟
آپ نے فرمایا:ان کادعویٰ ثابت نہیں ہوگا۔
یہ سن کر اس نے کہاـ:ہم نے دعویٰ کیا کہ حضرت عیسیٰ روح ا ﷲ اور کلمۃ اﷲ
ہیں اور مسلمانوں نے اس کی تصدیق کی ۔(لہٰذا ہمارا دعویٰ سچاثابت ہوا۔)
مسلمانوں نے دعویٰ کیاکہ محمد نبی ہیں مگر ہم نے ان کی تائید نہیں کی ۔اب
صور ت حا ل یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ پر اتفاق ہے اور محمد پر اختلاف ۔اب آپ
ہمیں بتائیں کہ ہمیں اجماع کی پیروی کرنی چاہئے یا افتراق کی ؟
امام رضا علیہ السلام نے اس سے فرمایا:تمہارا نام کیا ہے؟
اس نے کہا:میرا نام یوحنا ہے ۔
یوحنا سن لو !ہم اس عیسیٰ ابن مریم کے روح اﷲ اور کلمۃ اﷲ ہونے پر ایمان
رکھتے ہیں جو حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں ۔جو ان کی بشارت دیا
کرتے تھے اور اپنے متعلق عبد مربوب ہونا کا دعویٰ کرتے تھے ۔
اگر تم کسی ایسے عیسیٰ ابن مریم کو روح اﷲ اور کلمۃ اﷲ تسلیم کرتے ہو جو
حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ایمان نہ لائے تھے ،جس نے آنحضرت کی بشارت نہ دی تھی
اورجس نے اپنے متعلق عبد مربوب ہونے کا اقرا ر نہ کیا ہے تو ہم ایسے عیسیٰ
سے بیزار ہیں۔ذرا مجھے بتاؤ تو سہی ہم جمع ہوئے ہی کب ہیں ؟
آپ کا جواب سن کر وہ کھڑا ہوگیا اور صفوان ابن یحییٰ سے کہا:اٹھو ،چلیں ۔اس
مجلس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہے ۔(بحارالانوار ج ۱۰ ص ۳۰ ح۳۴۱)
اسحاق ابن عمار نے کہا کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے عر ض کیا کہ
اﷲ کے درج ذیل قو ل کا معنی ہے ؟
’’ولماجا ء ھم ۔۔۔علی الکافرین ۔‘‘
اور جب ان کے پاس خد ا کی طرف سے کتاب آئی جو ان کی توریت وغیر ہ کی تصدیق
بھی کرنے والی ہے اور اس کے پہلے وہ دشمنوں کے مقابلہ میں اسی کے ذریعہ طلب
فتح بھی کرتے تھے لیکن اس کے آتے ہی منکر ہوگئے حالانکہ اسے پہچانتے بھی
تھے تو اب کافروں پر خدا کی لعنت ہے۔(سورہ بقرہ ۸۹)
آپ نے فرمایا:جناب عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے درمیان ایک گروہ تھا جو
کافروں کو ایک نبی کے ذریعہ ڈرایا کرتاتھا اورکہاکرتاتھاکہ بے شک ایک نبی
آئے گا اور تمہارے بتوں کو توڑ دے گااور تمہارے ساتھ فلاں فلاں کام کرے
گا۔لیکن جب حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں تو وہ اپنے
ایمان سے الٹے پاؤں پھر گئے ۔(کافی ج ۸ ص ۳۱۰ح۴۸۲)
نوٹ:اس مضمون میں درایت اورروایت کے صحیح السندہونے سے قطع نظر صرف حضرت
عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق معلومات کو جمع کیا گیاہے۔(مترجم) |