اسلام فلاح انسانیت کا مذہب

انسانیت ایک (Common wealth and Joint owner ship)مسترکہ دولت و ملکیت ہے اسکی پاسداری و محافظت ہر ذی شعور کا ہر لحاظ سے بنیادی حق ہے جذبۂ خدمت خلق نہ صرف اسلامی قدار (Islamic values)کو بلند و بالا کرتا ہے بلکہ ما سوائے اسلام کو ئی تمدن بھی ایسا نہیں جس نے یہ بات ثابت کر دکھائی ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔کسی مفلس ولاچار کو دیکھ کر گھمنڈی ہونا یا اسکے سلام کا جواب نہ دینا اﷲ عزوجل کی صفتِ مخصوصہ ’’متکبر‘‘ اپنا لینے کے مترادف ہے ۔ ہر ایک کا اندرونی نظام ایک ساہے ایک کا غذ اٹھانے والے کی حیثیت ایک شاہ یا وزیر اعظم کے مساوی ہو سکتی ہے فرق صرف تقویٰ کی بنا پر ہے ۔آپ انسانیت کے کسی بھی پہلو کو جاپہنچیں تو آپ کو کوئی بھی انسان جذبۂ خدمت کے بغیر زیست کے لطفوں سے محظوظ و برہ یاب ہوتا دکھائی نہیں دے گا ۔اگر چہ انسان کو سرکش و جہول پیدا کیا گیا ہے لیکن ہر آن اسے مادر ،پدر برادر جیسے رشتوں سے دوچار بھی ہونا پڑا ہے ۔قرآن مبین سماج کو تذبذب سے پناہ دینے کا مکمل ضابطۂ عظیم ہے ۔ :’’خرابی ہے ایسے کے لئے جو پسِ پُشت عیب نکالے اور منہ در منہ طعنہ دینے والا ہو۔جو مال وہ جمع کرتا ہے اور اسکو بار بار گنتا ہے وہ اس گمان میں ہے کہ اس کا مال اُس کے پاس ہمیشہ رہے گا ۔’’ہر گز نہیں‘‘خدا کی قسم! یہ ایسی آگ میں ڈالا جائے کہ اس میں بھی پڑ جائے اُسے بر باد کر دے ۔‘‘(سورۃ ہمزہ آیت1تا 4)

مطلب یہ کہ جو مال اپنی ملکیت جان کر راہِ خدا میں صرف نہ کیا جائے وہ ایسا طوق و لعنت ہے جو گندگی کی ڈوری میں پروکر آدمی کے گلے میں ڈال دیا گیا ہو اسی وجوہ پر رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا :’’ کہ فرض روزوں سے افضل ہے کہ تم خدمت خلق کرو‘‘ جبکہ ایک اور حدیث کی تقسیم ہے کہ :’’تمہارے پوری حیات کے روزے رمضان کے ایک روزے کی قضا نہیں ہو سکتے ۔‘‘(بخاری و مسلم)

کس قدر عکاسِ انسانیت ہے رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمان : ’’ دوزخ ایسے ہر شخص پر حرام ہے جو نرم مزاج ہو ،نرم گفتار ہو ۔ملنسار ہو اور ہنس مکھ ہو۔‘‘(مستدرک الحاکم بحوالہ ضیاء النبی )

انسانیت کو احسن طریقے سے پایہ انجام تک پہنچانے کا مثبت راستہ ہر دوسرے کو اپنے۔ سے بر تر جاننا بھی ہے ۔ایک سبزی منڈی میں ایک آڑھتی کی بھی و ہی حیثیت ہے جو ایک چھا بڑی فروش کی ،اگر کوئی کوڑا اُٹھانے والا نہ ہوتو کوڑا کہاں جائے ،ہر کوئی کسی نہ کسی طرح محسنِ انسانیت ہے ۔کس قدر اعلیٰ تفہیم انسانیت فرمائی ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:’’یہ دنیا والے بھی کتنے عجیب ہیں ایماندار کوتمین بے ایمان کو ذہین اور بے حیا کو حسین کہتے ہیں ۔ استحصال انسانیت ایک گھناونا اور بے چھوٹ مذہبی ،سماجی ،اخلاقی و قانونی بر ترین جرم ہے وہ کھانا جو کسی کے استحصال جذبات سے حاصل کیا جائے سورکھانے سے بد تر ہے اسی بنا پر بعض علماء نے جبراً رشوت لینے کو جہنم کا بجولکھا ہے ۔(فتاویٰ رضویہ جلد 2)

اسی سبب ہی سود لینے والے کی سزاکی سب سے چھوٹی نوعیت اپنی ماں سے ہم بستر ہونا ٹھہرائی گئی ہے ۔(مسلم ،ابو داؤد)

حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا ارشاد ہے کہ :’’ بہت بڑا کفر کسی کے جذبات کو تلف کر دینا ہے ۔‘‘یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ نئے سال کی ابتدا پر لاکھوں ہوٹل بک کروانے اور راتوں کو جاگ کر بازاروں میں عیاشی پارٹیاں و مہمل ڈشیں و ڈنر اُڑاکر غربا کا تمسخر اُڑانے والوں کو اسکا بے رعایت کڑا حساب دینا ہو گا ۔رسول اﷲ ﷺ نے آخری خطبہ حجۃ الوداع دیتے ہوئے فرمایا تھا۔ َ’’لوگو! تمہاری جانیں اور مال اور تمہاری عزتیں یقینا ایک دوسرے کیلئے اس طرح قابلِ احترام ہیں جیسے تم آج کے دن اس شہر اور اس مہینے کا احترام کرتے ہو ۔تمہیں عنقریب اپنے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو، انہیں وہی کھانا دو جو خود کھاتے ہو ،انہیں وہی پہناؤ جو خود ہو پہنتے۔‘‘(صحیح بخاری )

اسی بنا پر اسلام نے سرِ بازار کھانے کو بھی مستحباب میں رکھا ہے کہ ممکن ہے کسی اور کو یہ چیز میسر نہ ہو اور اسکا دل دُکھ جائے ایسی جگہ رشک نہ کرتا جہاں دوسرے لوگ اپنی نظر میں حقیر ہو جائیں خاطر خواہ مثالِ ارفع و خدمت عالمگیری ہے ۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :’’میں تمہیں بتاؤں دوزخ کس پر حرام ہے ؟ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کی ہاں یا رسول اﷲ ﷺ !تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر آسانی پیدا کرنے والے پر ،نرم دل والے پر اور سہولت برتنے والے پر ‘‘ آج اسی مناسبت سے رضا کارانہ تنظیموں اور شعبۂ نرسنگ کی روایت کہن کو فروغ ملا ہے ۔حضرت ربیعہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺ کے ساتھ لڑائیوں میں شریک ہوتی ،سپاہیوں کو پانی پلاتیں، انکی خدمت کرتی اور زخمیوں کو اُٹھاکر واپس مدینہ لاتیں ۔‘‘(صحیح بخاری ج3 صفحہ 215) جنگ احد میں بھی انہی خواتین کے علاوہ تین ہزار نرسیں موجود ہوتی اور بعض تنخواہیں بھی وصول کرتی تھی ۔(رحمۃ اللعالمین از سلیمان سلمان منصوری)

آج جب رسومات و رواج انسانیت پر پل رہے ہیں تو ہمیں اپنی ہر مہمل ضرورت کو قوت دے کر کسی مسکین پر نظر ڈال لینے کا عہد کرنا ہو گا ۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ :’’ میری اُمت اس وقت تک فطری صلاحیت پر قائم رہے گی جب تک وہ امانت کو غنیمت کا مال اور زکوٰۃ کو جرمانہ نہ سمجھے گی ۔‘‘اگر آج ہم لفظاً و معناً انسان بننے کے حقدار ٹھہرتے تو ہمارے ملک میں 35لاکھ بھکاری کیونکر پیدا ہوتے تو مضَضَّبِ حقوق کے علمبردار ذرا یہ تو بتائیں کہ انکی دولت نے انکی کون کونسی پریشانی یا بیماری کو تھاما ہے ؟یا جائدادوں نے فرعون وہامان کو کونسی طمانیت سے نوازا تھا؟ باظلم کی لکیر کہاں تک کھینچی جا سکتی ہے ؟ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ :’’ اگر زمین و آسمان کی ساری مخلوق ایک مومن کے (ناحق) قتل میں شریک ہو جائے تو اﷲ ان سب کو منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں پھینک دے گا‘‘ ہر روز 20خودکشیاں یا روزانہ 2000بچوں کا بالیقین علاج بیماریوں سے سسک و ترپ کر مر جانے کا کون جوابدہ ہے ؟ آج ہر کوئی پڑھ لینے یا کہہ لینے پر پرُیقین ہے لیکن آئینہ ایمان میں یقین بغیر پریکٹیکل کے یقین غیر میں ہے اگر ہم واصفی پاسدارِ انسانیت ہیں تو پھر ہمارے غیر جانبدار نہ روئنیات وغیر مثبت پالیسیاں کس چیز کی عکاسی کر رہی ہیں ۔ سید نصیر الدین نصیر گولڑوی مرحوم رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ شعر ہم پر کس قدر عیاں ہے ۔
کس تکلف سے کیا اُس نے تماشا اپنا کس توجہ سے ہوئی انجمن آرائی بھی(دستِ نظر)

تاسف کہ آج سب سے زیادہ انسانیت کی بولی پر بولی گورنمنٹی و عدالتی طور پر لگائی جا رہی ہے ۔اس مناسبت سے سب سے بڑی ذمہ داری حکمرانوں پر بھی عائد ہوتی ہے تفہیم حدیث ہے جسکا کوئی وارث نہیں ہوتا اسکی حکومت وارث ہوتی ہے لیکن یہاں حالات اصلاً و نقلاً ہی بر عکس ہیں غالباً انہیں حکمرانوں کے متعلق رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ:’’ مجھے اپنی اُمت پر گمراہ کر دینے والے حکمرانوں کا خوف ہے ۔‘‘(جامع ترمذی)

’’لیکن آج واقعی آدمی کو میسر نہیں انسان ہونا‘‘ایک مسلم کے لئے بے زیبا ہے کہ وہ اپنی پہچان ورجحان کے لئے ماحول سے جداگانہ ایسی خصوصیات و پالیسیاں وضح کرے جو انسانی عقائدو ماحول و سماجی کے غیر موافق ہوں حد درجہ کی غیر موافقت یہ ہے کہ ہمارے دو ٹوک بات بھی کفر شرک کے فتوات سے لبریز ہے ۔آج یہی درجہ بندی دہشت گردی کا شطر نج کھیلا رہی ہے ۔بلاشبہ بے مذہب دہشت گرد و خارجی ہیں اگر اپنے فعل سے تائب ہوں توٹھیک ورنہ واجب القتل اور ناری ہیں نہ انکے لئے نمازِ جنازہ ہے نہ مسلموں کا قبرستان ، اسلام میں درندگی و سفاکیت کی ذرا بھر گنجائش ہیں۔ مسلمانیت اور انسانیت لازم و ملزوم ہیں ۔قرآن کی ایک ایک آیت انسان اور انسانیت پر بحث کر رہی ہے ۔اسلام کی سب سے بڑی پاؤر تربیتی لحاظ سے ہے ایک مرتبہ علی احمد لاہوری رحمۃ اﷲ علیہ ہاتھ میں چراغ لے کر بازار سے گزر رہے تھے کہ کسی نے پوچھا حضرت کہاں کے ارادے ہیں : فرمانے لگے کہ انسان ڈھونڈنے کے لئے جا رہا ہوں آدمی نے کہا حضرت یہ بازار میں انسان ہی انسان ہی تو ہیں۔ آپ رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا میں تو یہ بھیڑ اور بکریاں دیکھ رہا ہوں آج جب عصر جدیدہ ہمیں سوچنے سمجھنے کی وقعت سے عاری کر کے کچھ کروانے پر آمادہ ہے تو اس اثنا میں ہمیں رسول اکرم ﷺ نے اس فرمان کہ :’’تم میں کامل الایمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلم محفوظ رہیں۔‘‘ کو زیست کا اشعار باکر زندگی کی مہمل جھنجھٹوں سے چھٹکارہ حاصل کر کے ہر دوسرے کے لئے جلنا ہو گا اگر آج ہم نے اپنی زندگیوں کو بدل کر انقلاب بر پا نہ کیا تو دنیا کبھی بھی امن کا گہوارہ نہ بن پائے گی آئیے میدان کو للکاریں اور امر مشکل نہ ہے نہ ہی غیر ممکن ۔ اﷲ عزوجل ہمیں پیکر و حامل قرآن و سنت بنائے۔ (آمین)
 

Peer Tabasum
About the Author: Peer Tabasum Read More Articles by Peer Tabasum: 40 Articles with 69256 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.