لفظوں کی سرسراہٹ ہی دراصل الفاظ کی خوشبو ہے۔ اول الذکر
آپکے کان پر اچھا اثر چھوڑتی ہے اور آخر الذکر ناک پر۔ ملاحظہ کیجئے الفاظ
کی بھیڑ بھاڑ میں خیالات کی مڈ بھیڑلیکن خیال رکھئیے گا خوشبو کی بجائے
کہیں آپکی ناک میں خشک بو نہ بس جائے :۔
٭ بھوکی بلی:۔
اتنے سارے کبوتر دیکھ کر بلی کے منہ میں پانی آگیا۔ پہلے وہ چھیچڑے دیکھتی
تھی۔ پھر اسے خواب میں کبوتر نظر آنے لگے۔
٭ ’’چ‘‘ :۔
چور نے چور نظروں سے چاروں طرف دیکھا۔ جب کسی کی چاپ سنائی نہیں دی تو چپ
چاپ چہار دیواری پر چڑھا اور طلائی چوڑیوں کے چار ڈبے اٹھاکر رفو چکر ہوگیا۔
٭ مجبوری کا نام بہانہ :۔
ایک دن اخبار کے دفتر میں ٹائپسٹ نہیں آیا، لیڈی سکریٹری کو انفلو ئنزا
ہوگیا اور اخباری رپورٹر اپنی شادی میں بطور دولہا شرکت کرنے چلا گیا۔ اس
دن اخبار شائع نہیں ہوا۔ دوسرے دن ایڈیٹر نے بہانہ تراشا ’’قارئین کرام،
گذشتہ کل چونکہ دنیا میں کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا اس لئے ہم نے اخبار
شائع نہیں کیا۔ بے کار میں آپ کا ٹائم اور پیسے ضائع کرنے سے فائدہ؟‘‘
٭ مجبوری کا نام دامادی:۔
’’اچھا تو تم میرے داماد بننے کے خواہش مند ہو؟‘‘
’’نہیں جناب ایسی خواہش قطعاً نہیں لیکن چونکہ آپ کی صاحب زادی سے شادی
کرنے چلا ہوں اس لئے مجبوراً داماد بننا ہی پڑے گا‘‘
٭ مجبوری کا نام فائدہ :۔
ہماری تو کبھی دال نہیں گلتی اس لئے ہم گوشت پر گزارا کرتے ہیں۔
٭ سیاست کا پہلا اصول :۔
بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھونا کفران نعمت ہے
٭ انتقال مسکراہٹ :۔
ایک دیوانہ شکاری ہنستا ہوا شیر کی کچھار میں داخل ہوا۔ تھوڑی دیر بعد شیر
باہر نکلا تو شکاری شیر کے پیٹ میں تھا اور شیر مسکرارہا تھا۔
٭ معذور اور بوڑھی خبر :۔
افریقہ میں ایک نوے سالہ بوڑھے اپاہج کو پھانسی دے دی گئی۔
٭ کالی خبریں:۔
’’اخبار کا فائدہ؟‘‘
’’اخبار سے منہ کالا کیا جاتا ہے‘‘
٭ باؤلنگ یا بمباری :۔
بڑے بڑے چھکے بازوں کے چھکے چھڑادیئے اس باؤلر نے۔ حیرت ہے بالنگ تھی یا
بمباری یعنی ایک بال میں دو کھلاڑیوں کو ’’آؤٹ کلاس‘‘ کردیا۔
٭ نو لفٹ:۔
اس نے کار روک کر لڑکی سے پوچھا ’’مس، آپ لفٹ لینا پسند کریں گی؟‘‘
’’نہیں میں دو دفعہ لفٹ لے چکی ہوں۔ اب اپنے گھر جارہی ہوں‘‘
٭ آپریشن برائے شادی :۔
’’ہسپتال میں آپریشن کے بعد تمہارے بھائی کا کیا حال ہے؟‘‘
’’’’زیادہ اچھا نہیں‘‘
’’کیوں، کیا آپریشن کامیاب نہیں رہا؟‘‘
’’کامیاب تو رہا مگر کچھ الجھنیں بھی پیدا ہوگئیں‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’بھائی نے ہسپتال کی نرس سے شادی کرلی‘‘
٭ حسابی گتھی :۔
’’یہ مقدمہ میں سو فی صدی جیت جاؤں گا‘‘
’’وہ کیسے‘‘
’’میرا وکیل ہر دس میں سے ایک کیس جیت جاتا ہے اور پچھلے نو کیس وہ ہار چکا
ہے‘‘
٭ جواب درست ہے:۔
’’دودھ والی چھ چیزوں کے نام بتاؤ‘‘
’’آئس کریم، دہی، قلفی، بکری، گائے اور پانی‘‘
٭ ’’بے‘‘ فضول آرزو:۔
’’کوئی خواہش؟‘‘
٭ بیوی یا بیوہ :۔
’’کیا آپ ہی مسٹر رابرٹ کی بیوہ ہیں؟‘‘
’’میں رابرٹ کی بیوی ہوں، بیوہ نہیں‘‘
’’زیادہ خوش فہمی اچھی نہیں، وہ دیکھئے لوگ کندھوں پر کسے اٹھائے لارہے
ہیں‘‘
٭ قیمتی مشورہ : ۔
’’کبھی میرا جی چاہتا ہے چلتی ریل سے چھلانگ لگالوں۔ کبھی میرے جی میں آتا
ہے گلے میں پھندا لگاکر لٹک جاؤں۔ کبھی زہر کھانے کو جی چاہتا ہے۔ آپ مشورہ
دیں، کیا کروں؟‘‘
’’آپ سب سے پہلے اپنی لائف انشورنس کرالیں‘‘
٭ حیرت مستزاد :۔
ان حضرات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے جن کے بیٹے امیر ہوتے ہیں مگر وہ خود
پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوتے ہیں۔ مزید حیرت ان حضرات کو دیکھ کر ہوتی ہے جن
کے بیٹے دندان ساز ہوتے ہیں مگر خود ان کے منہ میں ایک بھی دانت نہیں ہوتا۔
٭ زندہ مجسمہ : ۔
ایک دفعہ مارک ٹوئن کو پتہ چلا کہ بلدیہ نے اپنے اجلاس میں ایک پارک میں اس
کا مجسمہ نصب کرنے کے لئے ایک لاکھ ڈالر منظور کئے ہیں۔ اس نے بلدیہ کو خط
لکھا کہ ایک لاکھ ڈالر مجھے دے دیئے جائیں۔ میں خود مجمسہ کی جگہ بت بنا
کھڑا رہوں گا۔
٭ خوش کن جدائی :۔
’’ہماری جدائی میں جناب کو نیند کیسے آگئی؟‘‘
’’وہ اس لئے کہ خواب میں تم ہی تم تھیں …… مگر رات بے قراری سے خواب چنتی
رہی اور تمہارا انتظار کرتی رہی‘‘
٭ فکر برائے فکر :۔
’’ابھی تو آپ جوان ہیں پھر سر کے بال کیسے اُڑ گئے؟‘‘
’’عمر کی وجہ سے نہیں اڑے۔ فکر سے اڑے ہیں‘‘
’’کس بات کی فکر؟‘‘
’’بال اڑنے کی فکر‘‘
٭ یادوں کی قوس و قزح :۔
بیتے واقعات کا قافلہ ذہن کے دروازے پر دستک دینے لگااور دماغ کے دل فریب
گوشوں میں ماضی کی رنگین تصویریں متحرک ہوگئیں۔
|