کہانی سننا اور پڑھنا انسان کی جبلی اور فطرتی شے ہے ہم
بھی بچپن میں جب کھبی دادی یا نانی کے ساتھ بیٹھتے تو کہانیاں سنتے آج دادی
اماں نہیں رہی مگر انکی سنائی ہوئی کہانیاں اب بھی اسی طرح کانوں میں
گونجتی رہتی ہے آج بھی وہی کہانی ہے جسے میں سنا رہا ہوں۔۔۔پرانے زمانے کی
بات ہے کہ گاؤں سے دور ایک جنگل ہوا کرتا تھااس جنگل میں ایک پہاڑ بھی تھا
وہ ایک خوفناک پہاڑ تھا گھنے درخت ،جھاڑیاں ،اور خوف کو بڑھانے والی تاریکی
تھی کیونکہ دن کے اجالے میں بھی رات جیسا سماں ہوتا اس پہاڑ کے ایک کوہ پر
ایک سفید محل بنا تھاہر شب اس محل سے ایک روشنی نمودار ہوتی اور اس کے بعد
ایک چیخ سنائی دیتاس کے بعد دیر تک خاموشی چھا جاتی اور پھر کچھ دیر بعد وہ
خاموشی قہقہوں میں بدل جاتی تھی گاؤں کے سب لوگ اس سے کافی پریشان رہتے مگر
کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے کرتے بھی کیا جنہوں نے کبھی جنگل جا کر دیکھنے کی
کوشش ہی نہ کی ہو وہ اور کیا کرسکتے ہے سواے باتیں کرنے کے ۔۔سن رہے ہو کہ
نہیں ۔۔۔دادی اماں ہم سے پوچھتی۔۔۔جی جی دادی ۔۔ہم سن رہے ہیں ۔۔اور کوئی
بچہ کہتا ۔۔دادی جلدی سنایں آگے کیا ہوا جنگل کا کیا بنا ۔۔۔کچھ نیں بنا
اگر دھیان سے سننا ہے تو ٹھیک ورنہ میرا وقت ضائع نہ کرنا ۔۔۔دادی خبردار
کرتی اور اس کے بعد ہم سب بچے تمام تر سوچ دادی کی طرف لگانے کی کوشش
کرتے۔۔اچھا سنو ! بننا کیا تھا ایک دفعہ یوں ہوا کہ پوری رات اس محل کی
روشنی کی وجہ سے گاؤں روشن رہاگرمیوں کی راتیں تھی سب باہر سوتے لیکن خاک
آنکھ لگے جب اجالا اتنا ہو کہ سوی تک نظرآ سکے ۔۔اس رات کے بعد ۔۔دادی نے
نسوار پھینکا اور انگلی چارپای کے پیر سے مل کر صاف کردی اور پھر کہانی
سنانی شروع کردی۔۔۔اس رات کے صبح ہونے کا سب انتظار کرنے لگے جیسے ہی موذن
نے ڈھلوان پر چڑھ کر آذان دی سب مرد مسجد چلے گئے اور اس کے بارے میں غور
وفکر کرنے لگے کہ آخر اس محل میں ایسا کیا ہے کہ جس کی وجہ سے سب لوگ
پریشان ہے مولوی صاحب نے نماذ کے بعد سب بزرگوں کو جمع کیا اور ان سے مشورہ
کیا کہ اس کا کیا کیا جاے سب لوگوں نے اپنی اپنی رائے دی کوئی کہتا کہ اس
میں جن ہے تو کوئی کچھ اور۔۔خیر طے یہ ہوا کہ اس پہاڑ پر چڑھ کر دیکھ لیا
جاے کہ آخر اس میں ایسا ہے کیا۔۔اس کے لیے گاوں کے رواج کے مطابق ان
نوجوانوں کا چناو کیا گیا جو گاوں کے دوسروں لوگوں سے سخت جسم اور مضبوط
تھے اور جن کو رات کے وقت ڈر نہیں لگتا تھاان میں ایک رسول خان بھی تھا
رسول خان ایک نڈر انسان تھا گاوں کے سب لوگ جانتے تھے کہ وہ واحد شخص ہے جو
رات کو کھیتوں کو پانی دیا کرتا ہے اور اس کے علاوہ اس کی بہادری یہ بھی
تھی کہ اس نے ایک دفعہ چار ڈاکوں مارے تھے اس طرح ان جوانوں کو رات سے پہلے
پہلے گاوں سے جانے کا کہا گیا تاکہ وقت پر پہنچ کر وہاں کسی ایسی جگہ قیام
کیا جاے کہ کوئی دیکھ بھی نہ لے اور یہ بھی معلوم کیا جاے کہ یہ کیا ہورہا
ہے ان سب جوانوں کے ہاتھوں پر امام ضامن باندھا گیا گاوں کے سب لوگوں نے
گاوں کے مشترکہ ہجرے میں مل کر کھانا کھایا اور اس کے بعد سب نے ان
نوجوانوں کو دعائیں دی کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے اور ان کی حفاظت
کے لیے انکو آوزاریں بھی دی تاکہ وہ کسی بھی قسم کے خطرے کا مقابلہ کرسکے
بزرگوں نے ان کو سمجھایا کہ پہاڑ پر پہنچ کر آگ جلایا جاے تاکہ گاؤں والوں
کو پتا چل سکے کہ وہ وہاں تک پہنچ گیے ۔۔اس طرح گاؤں والوں سے رخصت لے کر
انہوں نے جنگل کا رخ کیا جنگل سے ہوتے ہوتے وہ پہاڑ پر پہنچ گئے اور آگ
روشن کیا تاکہ گاؤں والوں کو پتہ چل سکے کہ وہ پہنچ گئے اور اس کے بعد سفید
محل کے آس پاس خفیہ جگہوں پر بیٹھ گئے اور تاریکی کا انتظار کرنے لگے نیم
شب جب ستارے چاند آسمان کے بیچوں بیچ تک پہنچ گیا تو کیا دیکتھے ہیں کہ دور
سے ایک شغلہ محل کی طرف آتا ہوا دکھای دیا اس کے بعد غایب ہوگیا اور پھر
کچھ دیر بعد محل میں کہرام مچ گیا عجیب قسم کی آوازیں آنی شروع ہو گئی اس
دوران رسول خان جو محل کے ساتھ ایک درخت میں چھپا تھا اس نے چھلانگ لگای
اور محل کے چھت سے نیچے اتر کر محل میں داخل ہوا باقی جوانوں نے بھی جب اسے
دیکھا تو وہ بھی اس کے ساتھ ہولیئے اور سب اندر داخل ہوے کیا دیکھتے ہیں کہ
ایک لمبا اور موٹا شخص ان کے سامنے کھڑا ہے اور اس کے منہ سے خون نکل رہا
ہے اس کے سامنے کئی مہ جبں عورتیں سر جھکاے بیٹھی ہیں اور رورہی ہیں جیسے
ہی اس نے نوجوانوں کو دیکھا تو وہ غصے سے لال ہوگیا رسول خان نے اس موقع کو
بھانپ گیا اور اپنا وزار ہاتھ میں سنبھال لیا سب نوجوانوں نے اس کا ساتھ
دیا اور اس سے یکدم پوچھا کہ تم کون ہو اور یہاں کیا کرنے آئے ہو لیکن اس
نے کوئی جواب نہیں دیا اس کے بعد رسول خان نے اسے سخت لہجے میں خبردار کیا
کہ ہم تمیں جان سے مار دینگے ورنہ بتاو کہ کیا کررہے ہو یہاں ۔اس بدنما شخص
کے لمبے بال تھے جس سے اس نے ان عورتوں کو باندھا تھا اور انکھوں میں آگ جل
رہا تھا رسول خان نے باقی جوانوں کے ساتھ مل کر اس پر حملہ کیا اور اس کو
لہولہان کردیا اس کی آنکھوں سے آگ برس رہا تھا اور اسکی چیخوں کی گونجیں
گاوں میں سنای دے رہی تھی جب سب جوانوں نے اس کو زخمی کیا اور اس کے جسم سے
بہت زیادہ خون بہا تو پھر وہ ہوا میں تحلیل ہوتا گیا اور کچھ ہی دعر میں
اسکا نام وہ نشان ختم ہو گیا تمام عورتوں کے باندھے ہوے ہاتھ خودبخود کھلتے
گئے اور وہ آزاد ہو گیئں رسول خان نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو اور یہ سب
کیا ہے تو ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر بتایا کہ ہم پریاں ہے اور یہ دیو
تھا ایک دفعہ ہم مل کر ایک جگہ نہانے گئی تھی تو وہاں سے اسکا گزر ہوا اور
ایک پری اسے پسند آی تو روز اسے دیکھنے آتا لیکن وہ پری کسی اور جگہ چلی
گئی اس وجہ سے یہ روز ہمیں یہاں لے آتا اور ہم میں سے ایک کو کھا جاتا اس
کے بعد یہ چلاجاتا اسکے بعد ان پریوں نے نوجوانوں کا شکریہ ادا کیا اور
رسول خان کو ایک دفعہ پرستان بھی لے گئی وہاں کی خوب سیرکرائی کہا جاتا ہے
کہ اس وقت کے بعد اس محل میں سناٹا ہے لیکن سال میں ایک بار پریاں آتی ہے
اور اس محل میں ماتم کرتی ہیں ۔۔۔اس کہانی کو سن کر ہم سب بچے دادی اماں کے
اردگرد جمع ہو کر اسے دبانے لگتے کوئی سر دباتا کوئی پیر ۔۔ہم سب بچوں کو
اسی سے خوشی ملتی اور دن بھر یہی انتظار کرتے کہ کب رات ہو کہ کہانی سن
سکے۔۔داد ی اماں ہر بار کہانی سنانے کے بعد کہتی کہ اب کیا کہانیا ہیں
کہانیاں تو تب ہوا کرتی تھی جب ہم چھوٹے تھے اب تو زمانہ ہی بدل گیا آنگریز
آئے اور سب کچھ تتر بتر کردیا ہائے کیا زمانہ تھا اب کوی کیا سنے کہانی اور
کیا سنائے کہانی ہم سب تو کہانیاں بن گئے۔۔۔ |