پروفیسر رشید انگوی
پاکستان ایک عظیم ٗ قابلِ فخرفرزند ٗ عظیم ہیرو عظیم انسان ائیر مارشل اصغر
خان سے محروم ہوگیا۔تین سال کم ایک صدی کی خوب صورت زندگی بسر کرکے مالکِ
حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔اناﷲ وان الیہ راجعون ۔ خدا مغفرت کرے ۔ عجب آزاد
مرد تھا۔افسوس کہ ہمارا حال بڑے انسانوں سے اتنا خالی ہوچکا ہے کہ اصغر خان
جیسے بڑے انسان کی رحلت ایک بڑا نقصان بن چکی ہے۔ ایسا خوب صورت ٗ ڈسپلنڈ ٗ
وطن پر قربان ہونے والا فرد ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔وطن پاک کی ترقی واستحکام
کے لیے اﷲ تعالیٰ نے اُن کو مواقع بھی دیئے اورانہوں نے خوب کوب کام کرکے
دکھایا اوراپنے ہر منصب کے لحاظ سے انسانوں اورانسانوں کے رب کے سامنے
سرخرو ہوئے۔اﷲ کریم نے ان کی شخصیت کی تخلیق ہی بڑے مقاصد اوربڑے کردار کے
لیے کی تھی۔کسی عہدے کے لحاظ سے انہوں نے قوم کو مایوس نہیں کیا ۔اُن کی
زندگی تین بڑے ادوار سے منسوب کی جاسکتی ہے یعنی بطور سربراہ فضائیہ ٗ بطور
سربراہ پی آئی اے اوربطور سیاست دان۔ہر ایک مناسبت سے وہ بلند ترین مقام پر
جلوہ افروز ہیں ۔جب جنگ ستمبر کا واقعہ پیش آیااوربھارت کو عبرت ناک شکست
کا سامنا کرنا پڑااورایم ایم عالم جیسے عظیم پائلٹ نے ایک منٹ میں پانچ
بھارتی طیارے شکار کیے اوربحیثیت مجموعی فضائی نے بری فوج کے ساتھ جنگی ہم
آہنگی کا مظاہرہ کیا تو جنگ کے بعد ایک عظیم فلسفہ وتبصرہ زبان زد عام تھا
کہ یہ جنگ ’’تھری ایز‘‘کی وجہ سے جیتی گئی اوروہ تین ’’اے‘‘تھے ’’اﷲ ٗ اصغر
خان ٗ ائیر فورس‘‘عملاً اس وقت ائیر فورس کے لیڈر ائیرمارشل نور خان تھے
مگر بحیثیت مجموعی پوری ائیر فورس اپنی تمام تر مہارتوں اورقابلیتوں
وکمالات کے ساتھ ائیر مارشل اصغر خان کی تربیت اورشاگردی کے مترادف سمجھی
جاتی تھی۔ بعض لوگ ان تھری ایز میں ایوب خان کو شمار کرکے یوں کہتے ہیں
’’اﷲ ٗ ائیر فورس ٗ ایوب خان‘‘۔ائیر مارشل اصغر خان کی عظیم قیادت پر
اعتماد کی بنیاد پر ریٹائر ہونے کے بعد انہیں پی آئی اے کا چارج دے دیا
گیاتو انہوں نے اسے ہواؤں وضاؤں کی برادری میں بہت اونچے مقام تک پہنچا دیا
اوراس کے ساتھ ’’باکمال لوگ ٗ لاجواب سروس‘‘جیسے محاورے وابستہ ہوگئے۔افسوس
کہ آج کی نااہل اوربددیانت قیادتوں نے پی آئی اے کا جو حشر کردیا ہے اورایک
حد تک اسے منشیات کی ہوائی سمگلنگ جیسے برے تعارف سے جوڑ دیا ہے ۔ اسے دیکھ
کر اصغر خان اورنور خان جیسے عظیم لیڈر یاد آتے ہیں مگر اُس دور کے
حکمرانوں نے اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود سوئس خزانوں ٗ پنامہ کمپنیوں
اوردبئی محلات نیز اقاموں ولندنی فلیٹوں جیسی بدنما تاریخ رقم نہیں کی تھی
کہ اب تو حکمرانوں کی اندھا دھند کرپشن نے ملک کے چپے چپے پر نحوستوں کے
جال بچھا دیئے ہیں اورکچھ سمجھ نہیں آتی کہ ’’موت سے پہلے آدمی ان سے نجات
پائے کیوں‘‘کا منظر بنا ہوا ہے۔ غضب خدا کا کہ مجبور وبے کس اوربے بس محکوم
انسانوں نے ایسی بدقماش قیادتوں کو گویا اپنا پیرومرشد بنا کر خانوادوں
اورقبروں سے عقیدتیں قائم کررکھی ہیں ۔ بات اصغر خان کی ہو رہی ہے کہ ایک
لائق فائق شائستہ اوردیانتدار انسان تھے۔ بھٹو کی سیاست اورہردلعزیزی کا
سورج عروج پر تھا جب اصغر خان جرأت اورسچائی کا نشان بن کر منصۂ سیاست پر
جلوہ گر ہوئے اورآناً فاناًراتوں رات قوم کے ہیروبن گئے ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ
بھٹوکے مقابلے میں عوامی مقبولیت کے عروج پر پہنچ گئے اورانہیں بجا طور پر
بھٹو کا مقابل ومتبادل لیڈر سمجھا جارہاتھاتاہم ملکی سیاست نے پھر جو پلٹا
کھایا تو اُس کے بعد آنے والے وقتوں میں وہ ایک غیر مقبول جسٹس پارٹی کے
لیڈر بن کر رہ گئے اورعملاًوہ ریٹائرمنٹ کی زندگی میں چلے گئے۔ اِس دوران
اُن کے فرزند عمر اصغر نے پنجاب یونیورسٹی کی پروفیسری اوربعد ازاں این جی
اوز سرگرمیوں سے وابستہ رہ کر اصغر خان کا حوالہ زندہ رکھامگر اُن کے قتل
کا سانحہ اصغر خان کے لیے بہت بڑے دکھ کا باعث بنا اورپھر ائیر مارشل نے
آخری دم تک پُروقار انداز میں ریٹائرمنٹ کا طویل زمانہ ایبٹ آباد میں رہ کر
ہی گزارا اورراقم اُن کے ریٹائرمنٹ کے دورانئے کو اُن کی زندگی کا چوتھا
دور قراردیتا ہے جو مذکورہ بالا تین ادوار کی طرح انتہائی خوبصورت ٗ دلکش
اورپُراثر ہے ۔ سنا تھا کہ اُن کی یااُن کی اہلیہ محترمہ کی جانب سے مولانا
مودودیؒ کے گھرانے سے بھی کوئی رشتہ داری کی نسبت موجود ہے جو بہرصورت ایک
قابلِ رشک نسبت ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ ہمارے میڈیا کے مختلف شعبوں سے
وابستہ جواں عمر قیادتیں ائیر مارشل کے حقیقی تعارف سے تقریباًلاتعلق اوربے
خبر ہیں۔ اس لیے ہمارے چینلوں نے اُن کا شایانِ شان تذکرہ تک نہیں کیاالبتہ
مختلف بحثوں میں سپریم کورٹ میں پڑے ہوئے اصغر خان کیس کے ذکر سے کبھی
کبھار بات ہوتی رہتی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲ کریم پاکستان کے اس عظیم محب
وطن اورقائد اعظم کے سچے پیروکار اوروفادار فرزندِ پاکستان کو جنت میں
اعلیٰ ترین درجات عطا فرمائے ٗ اُن کی۹ بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے
اورفضائیہ ٗ پی آئی اے اورسیاست کے میدانوں میں کام کرنے والے لوگوں کو اُن
کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اوروطنِ پاک کو ایک بار پھر ائیر
مارشل اصغر خان اورائیر مارشل نور خان جیسے بہادر سپوت عطا فرمائے جو وطنِ
پاکستان کی گرتی ہوئی ساکھ کو پھر بحال کرسکیں۔ |