آنکھوں سے ہوتی ہوئی کئی کہانیاں دل کے دریچوں تک پہنچتی
ہیں اور پھر لفظوں میں ڈھلتے ڈھلتے اکثر دم توڑ جاتی ہیں۔ ہم حقیقت دیکھتے
ہیں محسوس تو کرتے ہیں لیکن خوف ہے جو ذہن کو منتشر کیے دیتا ہے، لفظوں کے
بے وقعت ہونے کا خوف، لفظوں کی پاداش میں عمرقید کاٹنے کا خوف، لفظوں کی
چبھن سے اپنا جسم لُہولہان کرنے کا خوف انہی لفظوں کے ڈراؤنے ہیولے سچائی
کو قلم تک آنے سے روکتے ہیں اور یوں زندگی کے بھت کہیں چھپ جاتے ہیں۔
رات کی تاریکی لفظوں کی چنگھاڑ کو سناٹے میں پناہ دیتی ہے اور دن کی روشنی
انہی لفظوں کو لوری دے کر سلا دیتی ہے۔ یونیورسٹی میں پڑھانے کی نوکری بھی
عجیب ہے۔ روز ایک چہرہ ایک کہانی لیے میرے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ یوں محسوس
ہوتا ہے ہر چہرہ اپنی کہانی کو لفظوں میں ڈھالنے کے لیے مجھ سے بھیگ مانگ
رہا ہو اور کسی نہایت بدمزاج اور کنجوس شخص کی طرح ان کہانیوں کو جو میرے
پیروں سے لپٹی اپنی بقاء کی بھیگ مانگ رہی ہیں، کو جھڑک کرمیں دور پھینک
دیتی ہوں۔
بھیک۔۔۔۔۔۔ہاں! اُس بھیک مانگتے بچے کی کہانی کی طرح جو روز میری گاڑی کا
شیشہ صاف کرنے کے لیے دوڑ لگاتا ہے اور میں نہایت بے نیازی سے اُس کی طرف
بیزاری کی نگاہ ڈال کر اُسے ہٹنے کا اشارہ کرتی ہوں۔ جتنی مجھے اُس کی عادت
ہوگئی ہے اتنی ہی شاید اُسے میری، اور میرے رویے کی بھی۔ وہ جانتا ہے کہ
میں نے ان تین سالوں میں فقط دس پندرہ دفعہ ہی اُس کے ہاتھ میں پیسے تھمائے
ہوں گے۔ تین سال پہلے وہ چھوٹا سا لگتا تھا، معصوم، کوئی چھے برس کا بھورے
اور ہرے رنگ کے امتزاج کی آنکھیں لیے ہوئے۔ سر پر رومال باندھے ایک ٹن میں
پانی کو سنبھالے ہوئے وہ گاڑیوں کی طرف لپکتا اور سگنل کھلتے ہی فٹ پاتھ پر
پہنچنے کے لیے دوڑ لگا دیتا۔ ان تین سالوں میں اُس کا دودھ کی سفیدی سا رنگ
زرد ہوتا جارہا تھا۔
کچھ عرصے سے مجھے اُس کی آنکھوں سے خوف محسوس ہونے لگا۔ نہ جانے کیوں، لیکن
تیزی سے اُس کا بڑا ہونا مجھے اندر سے کاٹ رہا تھا۔ اب وہ تیز رفتار گاڑیوں
سے ڈرتا نہیں تھا۔ اب سگنل کھل جانے پر بھی اُس کو خوف نہیں آتا تھا۔ وہ ا
تنی گاڑیوں میں بھی بہت سکون سے کھڑا رہتا۔کچھ عرصے سے وہ میری گاڑی کی طرف
نہیں آرہا تھا۔ مجھے اُس کا نہ آنا خوشی سے زیادہ یہ تشویش دے رہا تھا کہ
اس کے ہاتھ میں اب وائیپر نہیں ہوتا تھا۔ اُس کے چہرے پر معصومیت کی جگہ
وحشت کے سائے تھے۔ وہ مجھے دور سے یوں دیکھتا جیسے شکایت کررہا ہو اپنی اُس
زندگی کی جیسے وہ گزارنا نہیں چاہتا، اور ایسی زندگی کا قصور وار وہ مجھے
ٹھہرا رہا ہو۔ اُس کے چہرے پر دکھ کی لکیریں بڑھنے لگی تھیں۔
میں روز بے پرواہی سے یوں ہی سنگنل سے گزر رہی تھی۔ اب گاڑیاں رکتیں اور وہ
گاڑی میں سوار ہوکر میرے سامنے سے چلا جاتا۔ اُس روز بھی یہی کچھ ہوا۔ میری
گاڑی سگنل پر رکی میری نظریں اُسے تلاش کررہی تھیں۔ وہ شاید میرا ہی انتظار
کررہا تھا، آج اُس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ وہ میرے سامنے ایک کالے شیشے
والی گاڑی میں سوار ہوا اور سگنل کھل گیا۔ آج میرا تجسس کچھ زیادہ ہی بڑھ
گیا۔ آخر یہ مختلف گاڑیوں میں سوار ہوکر جاتا کہاں ہے؟ یہ نو دس سال کا بچہ
کسی کے کیا کام آتا ہوگا۔ اُس کی آنکھوں کی نمی! اُف...........۔
میں نے بِنا کچھ سوچے سمجھے اُس گاڑی کا پیچھا کرنا شروع کردیا۔ گاڑی ایک
جگہ سنسان سڑک پر کھڑی ہوئی۔ آگے بیٹھے دو نوجوان، جو امیر زادے لگتے تھے،
گاڑی سے اترے اور پیچھے بیٹھ گئے، جہاں کچھ دیر پہلے وہ بچہ اکیلا بیٹھا
تھا۔ کار کے دروازے بند ہوئے۔ کالے شیشوں کی وجہ سے میں دور سے یہ نہیں
دیکھ پارہی تھی کہ اند ر کیا ہورہا ہے، لیکن وہ گاڑی ہلکے ہلکے ہل رہی تھی۔
آہستہ آہستہ میری سمجھ آگیا کہ آخر ماجرا کیا ہے، لیکن میں یہ سمجھ نہیں پا
رہی تھی کہ میں کیا کروں اُس گاڑی کے قریب جاؤں یا رک جاؤں۔
گھڑی کی طرف نگاہ گئی تو صبح کے گیارہ بج رہے تھے۔ مجھے دیر ہورہی تھی کہ
اچانک گاڑی کا دروازہ کھلا۔ ایک نوجوان باہر آکر ڈرائیونگ سیٹ پر جابیٹھا
اور گاڑی اسٹارٹ کردی۔ دوسری طرف کا دروازہ کھلا اور اندر سے تیزی سے اس
بچے کو نیم برہنہ حالت میں فٹ پاتھ پر پھینک دیا گیا۔ ساتھ ہی اس کی میلی
کچیلی قمیص کے ساتھ دو لال رنگ کے نوٹ اس پر پھینک دیے گئے، اور گاڑی تیزی
سے آگے نکل گئی۔
قمیص اٹھانے سے پہلے اس نے دونوں سو سو کے نوٹوں کو اپنی مٹھی میں قید کیا
اور قمیص پہننے لگا۔ اچانک اس کی نگاہ مجھ پر پڑی میں دور سے اس کی نظروں
کی کاٹ محسوس کررہی تھی۔ اب باقاعدہ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ لیکن
مجھے دیر ہورہی تھی مجھے اپنے بچوں کے لیے پیسے کمانے کی فکر تھی۔ مجھے
اپنی نوکری بچانی تھی۔ مجھے وقت پر یونی ورسٹی پہنچنا تھا۔ پہلے ہی دیر
ہوچکی تھی۔ اس کے ساتھ جو ہوا وہ میری روح کو چھلنی کررہا تھا، لیکن مجھے
دیر ہو رہی تھی۔
میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور اپنی منز ل کی جانب چل پڑی۔ بیک مِرر میں کافی
دیر تک اُس کی آنکھیں میرا تعاقب کرتی نظر آئیں، لیکن یہ میرا مسئلہ نہیں
تھا۔ وہ دن وہ رات جیسے قیامت کی طرح مجھ پر گزر رہی تھی۔ اس کی بھیگی
آنکھیں میرا پیچھا کرتی رہیں۔
دوسرے روز میری گاڑی اُسی سگنل پر رکی۔ وہ اسی طرح مجھے دیکھتے ہوئے ایک
نئی کار میں سوار ہوا، ایک دفعہ پھر میں اپنی فکر میں مگن یونیورسٹی کی طرف
بڑھ گئی،...... اور کہانیاں میرے قدموں سے لپٹی مجھ سے اپنی بقاء کی بھیگ
مانگتی رہیں۔ |