حکیم الامّت مجددالملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی
نور اللّٰه مرقدہ کی قیمتی نصیحت
⚫ایک بات اہلِ علم کے کام کی بتاتا ہوں کہ دین پر عمل کرنے کا مدار سلف
صالحین کی عظمت پر ہے، اس لیے حتی الامکان ان پر اعتراض اور تنقیص کی آنچ
نہ آنے دیں
⚫(صرف )مولوی ہونا کوئی خوشی کی بات نہیں ہے،(مولوی ہونے کے ساتھ ) دین دار
ہونا خوشی کی بات ہے
⚫علم کے ساتھ صحبت (اولیاء )کی بڑی ضرورت ہے، صحبت سے واقفیت بھی ہوتی ہے
اور عمل کے ساتھ مناسبت بھی ہوتی ہے
⚫(اکثر )علماء کو ہمیشہ غریب ہی رہنا چاہیے، جس قوم اور جس مذہب کے (اکثر
)علماء امیر ہوئے، وہ مذہب برباد ہوگیا
⚫دو چیزیں علماء کے واسطے بہت ہی بری معلوم ہوتی ہیں، حرص اور کبر*
⚫مناسب ہے کہ قلم اور کاغذ جیب میں پڑا رہے، جس وقت جو مضمون ذہن میں آئے
اس کا اشارہ لکھ لیاجائے، پھر دوسرے وقت ان میں ترتیب دے دی جائے
⚫دو باتیں مجھے بہت ناپسند ہیں: ایک تو تقریر میں لغت (مشکل الفاظ) بولنا
دوسرے تحریر میں شکستہ لکھنا،کیوں کہ تحریر و تقریر سے مقصود افہام ہوتا ہے
اور یہاں ابہام ہوتا ہے
⚫جب آدمی دین کا پابند نہ ہو اس کی کسی بات کا اعتبار نہیں، کیوں کہ اس کا
کوئی کام حدود کے اندر تو ہوگا نہیں، دوستی ہوگی تو حدود سے باہر، دشمنی
ہوگی تو حدود سے باہر، ایسا شخص خطرناک ہوگا، ہر چیز کو اپنے درجے میں
رکھنا یہی بڑا کمال ہے. آج کل اکثر مشائخ و علماء میں اس کی کمی ہے
⚫میں تو اپنے دوستوں کو بھی مشورہ دیتا ہوں کہ اگر اللّٰه تعالیٰ ان کو کسی
دینی مدرسے میں درس و تدریس کا موقع نصیب فرمائیں تو انتظام و اہتمام کو
اپنے لیے قبول نہ کرو، کیوں کہ دونوں میں تضاد ہے، مدرس اور علمی خدمات
کرنے والوں کے لیے یہی زیبا ہے کہ اپنے آپ کو اسی شغل میں لگا ئے رہیں
⚫چھوٹی جگہ میں رہ کر کام زیادہ ہوسکتا ہے کیوں کہ وقت فراغت کا زیادہ ملتا
ہے اور بڑی جگہ رہ کر چھوٹا کام بھی نہیں کر سکتا، اور نہ ہوسکتا ہے، کیوں
کہ زیادہ وقت لوگوں کی دل جوئی میں گزرتا ہے. کام تو گم نامی ہی میں ہوتا
ہے
(ماخوذ از العلم و العلماء)
|