بیٹی زینب کا قتل، دلخراش سانحہ

ایک درندہ صفت، جنسی ھوس کے پجاری کے ہاتھوں قصور کی ننھی منھی بیٹی زینب کے لرزہ خیز قتل کے واقعے نے دنیا بھر میں ہر درد دل رکھنے والے فرد کو خون کے آنسو رلا کے رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ ظلم و بربریت کی انتہا اور پوری پاکستانی قوم کی بد نامی کا سبب بھی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں صرف قصور میں پیش آنے والے اس نوعیت کے واقعات کی تعداد درجنوں میں ہے۔اس کے علاوہ بھی ہر روز درندگی کی ایسی کئی وارداتیں وطن عزیز کے مختلف حصوں میں ہوتی ہیں۔ کچھ تو بوجوہ ذرائع ابلاغ کے پردوں سے بھی غائب رہتی ہیں۔ جو ریپورٹ ہوتی ہیں وہ بھی ایک دن اخبارات اور ٹی وی نیوز کی شہہ سرخی بنتی ہیں۔ آہستہ آہستہ کوئی دوسرا واقعہ اس منظر کونظروں سے اوجھل اور دلوں سے محو کر دیتا ہے۔ مظلوم سسک سسک کر زندگی کے دن پورے کرتے ہیں اور ظالم متکبرانہ انداز میں ہاتھوں کو فضاء میں لہرا کر ظالمانہ نظام عدل اور حکمرانوں کی نا اہلی پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہوتے ہیں۔ عوام الناس کے جان و مال کا تحفظ حکومت وقت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جن ممالک میں قانون کی حکمرانی ہے۔ رشوت، سفارش اور اقرباء پروری جیسی لعنتوں سے سماج پاک ہے، وہاں معاشرے کافی حد تک پر امن اور عوام پر سکون ہیں۔ اس کے برعکس جہاں حکمران طبقہ اپنے اللوں تللوں میں مصروف ہو۔ تھانے بکتے ہوں اورعدالتیں انصاف مہیا کرنے کی بجائے وڈیروں اور امیروں کی لونڈیاں بن جائیں۔ وہاں زینب بیٹی کی المناک موت جیسے واقعات کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ایسے ماحول میں قانون کے محافظ بد عنوان حکمرانوں کی آشیر باد پر اتنے بے حس اور سنگ دل بن جاتے ہیں کہ ان روح فرسا واقعات پر احتجاج کرنے والوں پر سیدھی گولیاں چلا کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتےہیں۔ جس سوسائٹی میں مظلوم کی آہوں اور درد بھرے آنسوؤں کی تہہ میں چھپے درد و الم کو سمجھنے کا احساس بھی مر جائے، اسے قدرت کی طرف سے مکافات عمل کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ اگر قصور اور ملک بھر میں اس سے قبل پیش آنے والے اس نوعیت کے واقعات کی منصفانہ تفتیش ہوتی۔عدل کا بول بالا ہوتا۔ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے انصاف پر مبنی فیصلے کر کے مجرموں کو سر عام پھانسی دی جاتی تو زینب کی درد ناک موت جیسے واقعات پیش نہ آتے۔ ہم مارشل لاء کے حامی نہیں البتہ بطور مثال ایک مشہور واقعہ ہے کہ جنرلضیاءالحق کےمارشل لاء کے دوران1981میں لاہور باغبانپورہ تھانے کی حدود میں "پپو نامی" بچہ اغوا ہوا اوراسکی لاش ریلوے کے تالاب سے ملی تھی۔ جلد ہی قاتل گرفتار ہوئے اور فوجی عدالت کے فیصلے کے نتیجے میں انہیں سولی پر لٹکانے کا حکم جاری ہوا۔ تین دن بعد سولی پر انہیں وہاں لٹکایا گیا جہاں آجکل بیگم پورہ لاہور والی سبزی منڈی ہے۔ چاروں اغواکار اور قاتل پورا دن پھانسی پر جھولتے رہے۔عدالت کا حکم تھا کہ لاشیں غروبِ آفتاب کے بعد اتاری جائیں گی۔ مجرموں کوعبرت ناک سزا کے بعد دس سال تک کوئی بچہ اغوا ہوا اور نہ ہی قتل ۔ پھر ہماری لاڈلی اور پیاری جمہوریت بحال ہو گئی ۔عصمتوں کے لٹیرے، قاتل، اغواکار اور جنسی ھوس کے پجاری سیاستدانوں کے آلہ کار بن گئے۔ سر عام اور بلا روک ٹوک پولیس کی سرپرستی میں منظم جرائم ہونے لگے۔ معمول یہ ہے کہحکمران اور سیاستدان رٹے رٹائے مذمت کے الفاظ ذرائع ابلاغ میں دے کر سمجھتے ہیں کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دی ہے اور یہی کافی ہے۔ نہیں اب ایسا نہیں ہوگا۔ عوام الناس کو بیدار مغظ اور چوکس ہونا پڑے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ارباب اختیار کی انتظامی و عدالتی کوہتاہیاں اور کمزوریاں سماجی جرائم کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اپنے سماج کی کمزوریوں پر نگاہ رکھنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ فحش فلمیں اور تصاویر نوجوانوں میں ذہنی اور فکری بگاڑ پیدا کرکے جنسی ہیجان ابھارنے کا سبب بنتی ہیں ۔نوجوان نسل کی یہی سوچ اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیتی ہے۔ بالآخر معاشرہ جنسی جرائم کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ اسی منفی اور پراگندہ سوچ سے سماجی برائیاں عام ہوجاتی ہیں۔ اس واقعہ کے ذمہ داران پر مثبت تنقید کے ساتھ ساتھ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی منصبی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ماں باپ اپنے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔ بری صحبت سے انہیں بچائیں۔ جب شادی کی عمر کو پہنچ جائیں تو غیر ضروری تاخیر سے بچیں اور انہیں حسن و خوبی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک کریں۔ سکولوں، کالجوں اور مدارس میں اخلاقی اقدار کے فروغ اور طلبہ کے حسن تربیت کو شامل نصاب کیا جائے۔ اہل محلہ اور اہل علاقہ جرائم پیشہ افراد پر نظر رکھیں۔ جب غیر معروف یا مشکوک شخص کسی بچی یا بچے کی انگلی پکڑ کے جارہا ہو تو نظر انداز کرنے کی بجائے اس سے پوچھیں کہ کون ہے اور اس نونہال کو کدھر لیجا رہا ہے؟ اہل خانہ یا پولیس کو فورا اطلاع دیں۔ کئی اہل محلہ اور جاننے والوں نے دن دیہاڑے پھول جیسی بیٹی زینب کو انگلی پکڑ کے لیجانے والے منحوس درندہ صفت شخص کو دیکھا ہوگا۔دیکھنے والے غفلت کا مظاہرہ نہ کرتےتو شاید یہ روح فرسا منظر ہمیں نہ دیکھنا پڑتا۔

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218917 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More