قصور بچی سے زیادتی کے واقعہ پر ملک گیر غم وغصہ
پایاجاتاہے۔علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے زینب کی نماز جنازہ پڑھائی۔ لوگوں
کے پھرپور احتجاج تھا۔جس نے نظام زندگی مفلوج کرکے رکھ دیا۔ پولیس کو امن
وامان کنٹرول کرنے کے لیے فائرنگ اور شیلنگ کرنا پڑی۔ دو افراد اس دوران
جان گنوابیٹھے۔ علامہ خادم حسین رضوی صاحب نے مرنے والوں کا جنازہ پڑھانے
کی سعادت پائی۔مظاہرین نے عین اس دن جب وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف
متاثرہ فیملی سے اظہار افسوس کرنے پہنچے تھے۔ لیگی ایم این اے وسیم اختر
اور ایم پی اے نعیم صفدر کے ڈیروں پر دھاوہ بول دیا۔زبردست توڑ پھوڑکرنے کے
بعد ڈیر ے نظر آتش کردیے۔یوں لگا جیسے کوئی خفیہ ہاتھ اس افسوس ناک واقعہ
کی آڑ میں اپنا کام دکھانے کے چکر میں ہو۔اس واقعہ کو کوئی خاص رنگ ڈھنگ
دینے کی کوشش کررہا ہو۔اس طرح کا شر پسندانہ رویہ ہمارے ہاں نیا نہیں۔شیطان
صفت لوگ ہمہ وقت اس طرز کے ماحول کے متلاشی رہتے ہیں۔جوں ہی ایسا موقع
ملا۔اپنی رنگ بازی شروع کردی۔ اس طرح کے احتجاجی جلوسوں میں اپنے ٹرینڈ لوگ
گھسا کر حالات کو مذید خراب کیاجاتاہے۔یہ لوگ جلوس کو کوئی مخصوص سمت اور
منزل دے کر اپنے مزموم عزائم کی تکمیل کا ساماں کرتے ہیں۔بھولے بھالے
احتجاجی بے خیالی میں ان شرپسندوں کے دیے نعرے لگاکر پر امن ریلی کو پر
تشدد مظاہروں میں بدلنے کاسبب بن جاتے ہیں۔
قصور واقعہ میں بھی احتجاجیوں کو کسی مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے گمراہ
کرنے کے اشارے ملے ہیں۔سب سے پہلے تو ایسے وقت میں جبکہ زیادتی کی شکاربچی
کے والدین قصو رمیں موجود ہی نہیں اس قدر عوامی ہجوم کا اکٹھا ہوجانا حیر
ان کن ہے۔عام طورپر یو ں ہوتاہے کہ کوئی متاثرہ شخص کسی زیادتی کے خلاف
کوئی واویلہ کرتاہے۔ دیکھا دیکھی کچھ لوگ اکٹھے ہوجاتے ہیں۔کچھ لوگ ساتھ جڑ
جاتے ہیں۔کچھ چلتے بنتے ہیں۔ متاثر ہ شخص کی تکلیف کی شدت یا اس کے اظہار
کے سلیقے کے حساب سے مجمع بنتا اور گھٹتا بڑھتاہے۔یہاں جب والدین ہی موجود
نہیں تھے۔تو ا سکے باوجود سینکڑوں کی تعدادمیں لوگوں کاسڑکوں پر آجاناسمجھ
سے باہر ہے۔پھر ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے دے کر لیگی ایم این اے اور ایم پی اے
کے ڈیروں کی طرف بھجوادینا بھی سمجھ میں نہیں آتا۔لگتاہے جیسے کچھ لوگ اس
واقعہ سے اپنا مقصد پوراکرنے کی تمنا رکھتے ہوں۔انہیں متاثرہ خاندان کے
مفادات سے زیادہ اپنے دھندے سے غرض ہو۔تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خاں نے
درست کہا ہے کہ زینب قتل کیس نے ایک بار پھرقوم کو حکمرانوں کے خلاف متحد
کردیاہے۔یقینا اس واقعے کو وہ گونواز گو کے اپنے واحد ٹاسک کے لیے استعمال
کریں گے۔ان کے جوڑی دار علامہ طاہر القادری اس کار خیر کی ابتداکرچکے۔ بچی
کی نمازجنازہ پڑھانے کے لیے فوری قصور جانے او روہا ں کی جانے والی شعلہ
بیانیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیاہے۔مسلح مظاہرین کو ہلہ شیر ی دینے میں
یہی شعلہ بیانیاں مددگار بنیں۔اس جوڑی کے ایک نئے ہمنواعلامہ خادم حسین
رضوی صاحب بھی معاملے کو دوآشتہ کرنے کے لیے پولیس کے ہاتھوں مرنے والے دو
افراد کا جنازہ پڑھنے پہنچ گئے۔
زینب کے اغواء زیادتی اور قتل کا معاملہ ایک اچانک او راتفاقی معاملہ
تھا۔یہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت واقعہ ہے۔بچی کے والدین سے جس قدر
زیادہ اظہار افسوس و یکجہتی کیا جائے کم ہے۔مگرکچھ بے ایمان اس اتفاقی
واقعہ کو لیکر سیاستیں چمکارہے ہیں۔ایسی سیاستیں اس واقعہ سے بھی زیادہ
قابل مذمت ہیں۔شہرت او راقتدار کے بھوکے کچھ بہروپیے مگر مچھ کے آنسو بہاتے
قصور جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ان کا مقصد افسوس اور ماتم سے زیادہ اپنے اجڑے
سرکس کو کچھ دن متحرک کرنے کاسامان ڈھونڈنا ہے۔ بد نیت اور ڈھونگی کبھی بچی
کے والدین سے الٹا سیدھا کہلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔کبھی غمزدہ اہل قصور کو
بلوے پر اکسانے کی شیطانی کررہے ہیں۔عمران خاں یہ تو کہہ رہے ہیں کہ اس
واقعہ نے ملک میں ایک نئی یک جہتی پیدا کردی۔دراصل یہ قومی یک جہتی ان
موسمی بٹیروں کو پہچاننے سے متعلق ہے۔جو عام طو رپر تو کہیں چھپے رہتے
ہیں۔مگر جیسے ہی غرض جاگی باہر آگئے۔انہیں نہ تو ماحول سے کچھ غرض ہوتی
ہے۔نہ یہاں کے لوگوں کی۔یہ اپنی غرض کے لیے آتے ہیں۔جب بھی پوری ہوجاتی ہے
دوبارہ غائب ہو جاتے ہیں۔ زینب کے نام پر ان دنوں کچھ لوگ کفن فروشی کا
مکروہ دھندا کررہے ہیں۔مگر انہیں یاد رکھنا ہوگا کہ بے ایمانی اور فریب کا
یہ دھندا زیادہ دیر تک نہ چلے گا۔ |