ایک دن نادرا کے نام

دوستو!تحریر کے عنوان کا نام پڑھتے ہی شاید آپ کے ذہن میں کسی خاتون کا تصور آیا ہو،اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو یقین جانئیے بالکل صحیح نہیں بلکہ بالکل غلط سوچ رہے ہیں کیونکہ یہاں "نادرا"کسی خاتون کانام نہیں بلکہ اُس معزز ادارے کا نام ہے جو آپ کو آپ کی شناخت مہیا کرتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ مجھے اپنے متعلقہ بینک سے ایک لیٹر موصول ہوا جس میں لکھا ہو اتھا کہ آپ کا NIC(شاختی کارڈ)ایکسپائر ہوچکا ہے برائے مہربانی اپنا شناختی کارڈ Renewکرواکر اس کی ایک کا پی متعلقہ بینک کی برانچ میں جمع کرائیں تاکہ آپ کا اکاؤنٹ جاری رہ سکے۔

ویسے تو ہم طبیعت کہ اتنے سست ہیں کہ اگر بینک سے یہ لیٹر موصول نہ ہوتا تو NIC(شناختی کارڈ) Renew کرواناتو دور کی بات ہے ہم نادرا کے دفتر جانے اور پھر وہاں جاکر اس عمل(Process) کو پورا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی سستی اور کاہلی کی وجہ سے اسے ہر کام کیلئے ایک ریموٹ کنٹرول مہیا کردیا گیا جسے حاصل کرنے کے بعد اس شخص نے کہا کہ ریموٹ کنٹرول تو آپ نے مہیا کردیا جس کیلئے میں آپ کا شکر گزار ہوں لیکن یہ تو بتایئے کہ اس ریموٹ کو چلائے گا کون؟۔

بہرحال چونکہ ابھی اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں تھا لہذا ہم نے "ہمت مرداں مددِ خدا"کا نعرہ لگاتے ہوئے نیت کرلی کہ کل صبح اُٹھ کر یہ کام کر لیں گے او ر وہ صبح آگئی اور ہم جلدی جلدی "نادرا "کے دفتر روانہ ہوگئے ہیں ہم نے سوچا کہ دفتر کی ٹائمنگ صبح 9سے 5بجے تک ہے تو صبح 9بجے ہی پہنچ جانا چاہئیے تاکہ جلدی نمبر آجائے مگر اس کوشش کے باوجود ہم 9:30بجے نادراکے دفتر پہنچے تو دفتر کے باہر کا منظر دیکھ کر ہی کچھ خدشات ذہن میں گردش کرنے لگے کہ ابھی دفتر کھلے ہوئے آدھا گھنٹا گزرا ہوگا اور گاڑیوں کی اتنی لمبی قطار! پھر سوچا کہ ہوسکتا ہے دفتر کا عملہ بڑا ہو، اور پھر لوگ بھی شاید آج جلد ی پہنچ گئے ہوں، تو جیسے ہی دفتر کے اندر پہنچا تو اندر کا منظر تو اس سے بھی زیادہ حیران کُن تھا کیونکہ باہر جتنی لمبی قطار گاڑیوں کی تھی اس سے دُگنی لمبی قطار اندر انسانوں کی تھی جسے دیکھ کر دل میں خیال آیا کہ گھر واپس جانا چاہئیے لیکن پھر سوچا کہ اب آہی گئے ہیں تو کام مکمل کروا کر ہی جائیں گے پھر ایسا نہ ہو کہ دوبارہ آنے کا موڈ ہی نہ بنے۔

اب جیسے ہی قطار میں لگے تو ساتھ ہی آگے کھڑے فرد نے حیرت سے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور مجھ سے پوچھا کہ بھائی آپ ابھی آئے ہیں؟جس پر ہم نے جواب دیا جی بھائی! اس نے بڑے ہی طنزیہ لہجے میں کہا! کہ بھائی آپ بہت جلدی آگئے، در اصل یہ نمبر کی لائن ہے ابھی یہاں نمبر ملیں گے اور آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ ایک دن میں صرف 100نمبر ہی بانٹے جاتے ہیں جس کا پروسس شام 5بجے تک پورا ہوتا ہے اور ہاں!ایک اہم بات اور کہ اس اوریجنل ٹوکن نمبر کو حاصل کرنے کیلئے صبح 7بجے سے لوگ یہاں آجاتے ہیں جنہیں "نادرا"کے ایک(Unofficial) ایجنٹ کی جانب سے آپ کے ہاتھ پر ایک لوکل نمبر دیا جاتا ہے، اس لوکل نمبر کو دکھا کر یہاں سے اصلی نمبر ملتا ہے۔ اس فرد کی جانب سے دی گئی معلومات کو سن کر تو جیسے چند منٹ کیلئے مجھ پر سکتا طاری ہوگیا! اس نے مجھے متوجہ کرتے ہوئے کہا! ہیلو بھائی جان کہاں کھو گئے؟ جائیے اب کل صبح دفتر کھلنے سے دو تین گھنٹے قبل تشریف لائیے گا تو امید ہے کہ آپ کا کام ہوجائے گا، ہم دلبرداشتہ ہو کر واپس لوٹ گئے۔

اگلی صبح6بجے کا الارم لگایا اور جلدی جلدی پہنچنے کی کوشش کی اور بالآخر صبح 7:00بجے "نادرا"کے دفتر پہنچے میں کامیاب ہوگئے اس کے باوجود بھی وہاں پہنچ کر ایجنٹ سے جو نمبر ملا وہ ابتدائی نمبروں کے بعد کا ہی نمبر تھا جس پر ایک صاحب سے گفتگو ہوئی کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ اتنی جلدی پہنچنے کے باوجود بھی شروع کا نمبر نہیں مل سکا! تو اس شخص نے بتایا کہ بھائی سب قائد اعظم کا کمال ہے، میں نے اس سے کہا کہ بھائی اس میں قائد اعظم کا کیا قصور ہے؟ اس نے کہا!ارے یار مطلب یہ کہ کچھ صاحب ثروت حضرات گھر بیٹھے پیسہ خرچ کرکے شروع کے نمبر حاصل کر لیتے ہیں اس کے بعد سے پھر ہمیں نمبروں کی تقسیم شروع ہوتی ہے! میں نے کہا حد ہو گئی کہ ایک عام آدمی تو سارا دن دھکے کھائے اور ایک پیسے والا شخص گھر بیٹھے سہولت حاصل کرلے! اس شخص نے کہا بھائی کیا کریں ایسا ہی ہورہا ہے۔

ایک طویل وقت لائن میں کھڑے رہنے کے بعد وہ وقت بھی آن پہنچا کہ جب ہمارا نمبر بالکل قریب رہ گیا اور "نادرا "کے کمرہ امتحان میں اور ہم میں کچھ وقت کا فاصلہ باقی رہ گیا اور جب کچھ وقت گزارنے کے بعد کمرے میں داخلے کی اجازت ملی تو وہاں مختلف ٹیبلز (Tables) لگی ہوئی تھیں۔ ایک صاحب نے کہا کہ سب سے پہلے تصویر لی جائے گی،اس دن یہ راز عیاں ہوا کہ شناختی کارڈ میں اکثر لوگوں کی تصویر ایسی کیوں آتی ہے جیسے کسی اغوا کئے گئے شخص کو یرغمال بنا کر تاوان حاصل کرنے کیلئے اس کی تصویر اس کے گھر والوں کو بھیجی جاتی ہے کہ اتنی رقم بھیج دو اور اپنے بچے کو لے جاؤ، ظاہر ہے کہ جب لائن میں لگے لگے انسان کو صبح سے دوپہر ہوجائے گی تو پھر ایسی ہی حالت ہوگی لہذا اس دن ہم نے پکی نیت کرلی کہ آئندہ کسی کا شاختی کارڈ دیکھ کر اس کی تصویر کا مذاق نہیں اڑائیں گے۔

تصویر لینے کے عمل کے بعد عملے کی جانب سے ہمارے فنگر پرنٹس لئے گئے اور کہا گیا کہ اب انتظار فرمائیے آپ کا نام پکارا جائے گا۔ ہم بیٹھ گئے اور کافی دیر انتظار کرنے کے بعد جبکہ دوپہر کے 03:00بج چکے تھے ایک خاتون نے ہمارا نام پکارا۔ بس جی پھر کیا تھا ہم نے بھی جواباً اس شدت سے فوراً سیٹ سے اُٹھ کر ہاتھ اٹھاتے ہوئے جواب دیا!جی میڈم! جیسے کوئی نیو(New) ایڈمیشن بچہ چھٹی کے وقت اپنے کسی گھر والے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے اور ٹیچر اس کا نام پکارتی ہے کہ جائیے آپ کو لینے آپ کے گھر سے کوئی آگیا ہے! ہماری کیفیت بھی کچھ ایسی ہی تھی جسے دیکھ کر وہ لیڈی آپریٹر بھی اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ سکیں اور پھر انہوں نے تمام تفصیلات طلب کرنے کے بعد ایک کمپیوٹرائز فارم نکال کر دیا جس پر ہم نے سوچا کہ چلو شکر ہے کہ جس مقصد کیلئے تقریباً آدھا دن صرف ہو چکاہے اس مقصد میں کامیابی تو حاصل ہوئی! لیکن نہیں جناب یہ ہماری غلط فہمی تھی اس خاتون نے وہ فارم دیکر ہم سے کہا کہ اس فارم کو کسی 18گریڈ کے آفیسر سے تصدیق(Attest) کرواکر دوبارہ یہاں جمع کروائیں اس کے بعد آپ کے NIC(شاختی کارڈ) Renewہونے کا پروسس مکمل ہوجائے گا۔

تصدیق کیلئے بھاگم بھاگ اپنے علاقے کے اس اسکول پہنچے جہاں سے ہم نے میٹرک کیا تھا کیونکہ "نادرا "کے دفتر میں کوئی 18گریڈ کا آفیسر موجود نہیں تھا جس سے تصدیق کرائی جاتی۔ اسکول پہنچے تو وہاں دوپہر کی شفٹ کے ہیڈ ماسٹر صاحب "ہاف ٹائم "کے اختتامی وقت پر ٹیچرز کے ہمراہ آفس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم آفس میں داخل ہوئے،سلام کیا! ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا جی فرمائیے! سر یہ فارم کی تصدیق (Attestation) کروانی ہے! اچھا دکھائیے، آپ کیا کام کرتے ہیں؟ یہاں کیسے آئے ہیں؟ پیدل یا بائیک پر؟ میں انکے ان عجیب سے سوالوں کا مقصد سمجھا نہیں۔ پھر بعد میں سمجھ آیا جب انہوں نے کہا کہ آپ کا فارم اٹیسٹ ہوجائے گا کوئی مسئلہ نہیں! لیکن اصل میں ابھی ہم کھانا کھاکر بیٹھے ہیں اور اب چائے کا بڑا موڈ ہو رہا ہے! میں نے دل میں سوچا کہ ہم تمنا کرتے ہیں کہ ہمیں گورنمنٹ جاب حاصل ہوجائے لیکن اگر گورنمنٹ ادارے کے ایک 18گریڈ کے افسر کا یہ حال ہے کہ وہ ایک فارم کی تصدیق کرنے کیلئے بھی چند روپیوں کی چائے کا سوال کر رہا ہے تو ہم پرائیوٹ ملازم ہی اچھے ہیں جو کم از کم کسی سے ایسے نچلے طبقے کے سوال تو نہیں کرتے بلکہ کسی مجبوری کی صورت میں کبھی سوال کرنا بھی پڑجائے تو عزت نفس اس کی اجازت نہی دیتی! انہی خیالات کو سوچ کر دل میں افسوس کرتے ہوئے ہم نے چائے کے پیسے اسکول کے ملازم کو دئیے اور فارم لیکر "نادرا "کے دفتر جمع کرایا اور سکھ کا سانس لیا۔
قارئین کرام اس تحریر کو لکھنے کا مقصد تو فقط آپ کے چہرے پر مسکان لانا اور اس ٹینشن بھرے دور میں چند لمحوں کیلئے آپ کے قلوب و اذہان میں خوشی داخل کرناتھا لیکن اگر سنجیدگی سے چند پہلوؤں پر غور کیا جائے تودل جلتا ہے کہ اس ترقیاتی یافتہ دور میں ہمارے ملک کے بڑے اور اہم اداروں کا یہ حال کہ اس میں ایک عام آدمی کو صرف اپنی شناخت حاصل کرنے کیلئے اتنے جتن کرنے پڑتے ہیں دوسری طرف کرپشن کا یہ حال ہے کہ اتنی بڑی بڑی پوسٹوں پر براجمان آفیسرز چند روپیوں کیلئے سوال کرتے ہیں اور اپنی عزت نفس کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام مسائل کا آخر حل کیا ہے! تو جہاں تک میرا مشاہدہ ہے کہ ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے برائی کو دیکھ کر اس پر چُپ سادھ لینا اور حق بات بولنے سے گریز کرنا اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پالیسی پر عمل کرتے رہنا کہ "یا شیخ اپنی اپنی دیکھ"!لیکن اگر ہم حق گوئی کا مظاہر ہ کریں اور اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنی آواز بلند کریں، نیک کام کی دعوت دیں اور برائیوں پر نظر رکھتے ہوئے ممکن ہو تو ہاتھ سے یا زبان سے اسے روکنے کو شش کریں تو کافی حد تک حالات میں بدلاؤ آسکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہمارے وطن عزیز اور اس کے اداروں کے حالات مزید ابتر ہوتے چلے جائیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن فرمائے اور ہمیں اپنی اصلاح کرنے اور حق گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کی اصلاح کرنے کی بھی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 

Waqas Qureshi
About the Author: Waqas Qureshi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.