بعض دفعہ انسان کسی نہ کسی شوق میں اتنا یکسو ہو جاتا ہے
کہ اس شوق میں وجدان کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں اسے
محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس کے اندر روحانی صلاحیتیں پیدا ہونا شروع ہو رہی
ہیں۔ یہی مرحلہ اگر آگے بڑھتا رہے تو بالآخر مختلف قسم کی روحانی طاقتیں
حاصل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس مرحلے میں اگر کسی کا فیضان نظر نہ ہو
تو انسان تکوینی حکمتوں کو سمجھے بغیر الٹا اپنا ہی نقصان کر بیٹھتا
ہے۔روحانی قوت ہو یا علمِ لدنی ہو اسمِ اعظم ہو یا کوئی بھی اسرارورموز ہوں
ان کا حامل ہونا کوئی مذاق نہیں ہوتا۔
کہتے ہیں کہ ایک نوجوان نے حضرت موسی علیہ السلام سے عرض کیا کہ مجھے
جانوروں کی زبان سکھائیے ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا تُو اس کا اہل
نہیں ہے۔ بالآخر اس کے اصرار پر آپ نے اسے جانوروں کی بولی سکھا دی۔ اس شخص
نے اپنے گھر میں ایک کتا اور ایک مرغ پال رکھا تھا ایک دن اس کی خادمہ نے
کھانا کھانے کے بعد دستر خوان کو جھاڑا اور اس سے روٹی کا ایک چھوٹا سا
ٹکڑا زمین پر گرا مرغ اور کتا دونوں اس روٹی کے ٹکڑے پر جھپٹے مگر مرغ اس
کو اچک کر لے گیا کتے نے مرغ سے شکایت کی تو مرغ نے کہا کل ہمارے آقا کا
گھوڑا مرجائے گا تم پیٹ بھر کر اس کا گوشت کھانا اس شخص نے جب یہ سنا تو
اسی وقت گھوڑا بازارلے جا کر فروخت کر دیا وہ گھوڑا دوسرے دن واقعی مر گیا
اور یہ شخص نقصان سے بچ گیا۔اگلے دن یہی بات اس نے خچر کے بارے سنی تو اس
کو بھی بیچ کر خود کو نقصان سے بچا لیا۔ پھر اگلے دن یہی بات اس نے اپنے
غلام کے بارے سنی تو اس کو بھی فروخت کے کے خود نقصان سے بچ گیا اور بہت
خوش ہوا ۔ لیکن جب اگلے دن اس نے یہی بات اپنے مر جانے کی سنی تو اس کے
پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور بھاگا بھاگا حضرت موسٰی علیہ السلام کے پاس
گیا اور کہنے لگا اے اللہ کے پیغمبر میری مدد فرمائیں بے شک مجھ سے غلطی
ہوگئی جو میں نے جانوروں کی بولیاں سیکھنے کا اصرار کیا میں آپ سے معافی
مانگتا ہوں مجھے موت کے منہ میں جانے سے بچا لیں حضرت موسی علیہ السلام نے
اس شخص کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا اے بے وقوف اب یہ بات بڑی دشوار ہے
کیونکہ آئی ہوئی قضا ٹل نہیں سکتی میں نے تو اس قضا کو اسی دن دیکھ لیا تھا
جو تجھ پر آج نازل ہوئی ہے لہذا اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا تمہاری موت واقع
ہونا اٹل ہے چنانچہ اگلے دن اس شخص کا انتقال ہو گیا۔بار بار اس کے پاس
مواقع آتے رہے کہ وہ مالی نقصان سے اپنی جان کو بچا سکتا تھا لیکن سچ کہتے
ہیں نا کہ اسرارورموز کا اہل ہر کوئی نہیں ہوتا۔ واقعہ اپنی سند کے لحاظ سے
کچھ بھی ہو لیکن ہماری زندگی میں آنے والا ہر واقعہ بہت سی حکمتوں سے بھرا
ہوا ہوتا ہے۔مصیبت ہو یا خوشی ہو سب اسرارورموز سے بھرے ہوتے ہیں بات صرف
اتنی سی ہوتی ہے کہ ہم نے ان سے کیا سیکھا کیا سمجھا
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمتہ لکھتے ہیں کہ ایک صاحب کو اسم
اعظم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا وہ ایک بزرگ کے پاس گیا اور کہنے لگا مجھے
اسمِ اعظم سکھائیے انہوں نے فرمایا کہ تُو اس کا اہل نہیں ہے بالآخر اس کے
اصرار پر اس بزرگ نے فرمایا کہ اچھا چلو تمھارا امتحان لیتے ہیں انہوں نے
کہا کہ کل شہر کے دروازے پر جا کر بیٹھ جانا اور شام کو آ کر مجھے بتانا کہ
کیا کیا واقعات دیکھے۔ شام کو آ کر بتانے لگا کہ میں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا
آدمی سارے دن کی محنت سے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لا رہا تھا کہ دروازے پر
ایک پولیس والے نے اس کو مارا اور لکڑیوں کا گٹھا بھی چھین لیا۔ اس بزرگ نے
کہا کہ اگر تمھارے پاس اسمِ اعظم ہوتا اور تم اس پولیس والے کو سبق سکھانے
کی پوری طاقت کے حامل ہوتے تو تم کیا کرتے۔ وہ بولا میں اس کو زندہ زمین
میں گاڑ دیتا۔ اس بزرگ نے کہا ارے نادان اسی لیے کہا تھا کہ تُو اس کا اہل
نہیں ہے اگر ایسا ہی کرنا ہوتا تو وہ بوڑھا آدمی میرا پیر تھا جس نے مجھے
اسم اعظم سکھایا تھا۔
ہر کام ہر مصیبت ہر خوشی ہر آزمائش میں خدا کی حکمتوں کو تلاش کرنے والے
اور پھر اس پر راضی رہنے والے ہی روحانی علوم کے حق دار ہوتے ہیں |