’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے سنا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانچ نمازیں ہیں جن
کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے جس نے ان نمازوں کو بہترین
وضو کے ساتھ ان کے مقررہ اوقات پر ادا کیا اور ان نمازوں کو رکوع، سجود اور
کامل خشوع سے ادا کیا تو ایسے شخص سے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کی مغفرت
فرما دے اور جس نے ایسا نہیں کیا (یعنی نماز ہی نہ پڑھی یا نماز کو اچھی
طرح نہ پڑھا) تو ایسے شخص کے لئے اﷲ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں ہے اگر چاہے
تو اس کی مغفرت فرما دے اور چاہے تو اس کو عذاب دے۔
:: أبوداودشریف،کتاب الصلاة، 1 / 115، الرقم : 425،
’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفّان سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے یقین کر لیا کہ نماز حق
ہے اور (ہم پر) فرض ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔
:: مستدرک، 1 / 144، الرقم : 243،
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : (شبِ معراج) اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں
فرض کیں تو میں ان (نمازوں) کے ساتھ واپس آیا یہاں تک کہ میں حضرت موسیٰ
علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر آپ کی
امت کے لئے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا : اﷲ تعالیٰ نے پچاس نمازیں فرض کی
ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنے رب کی طرف واپس جائیے کیونکہ آپ کی امت اس کی
طاقت نہیں رکھتی پس انہوں نے مجھے واپس لوٹا دیا (میری درخواست پر) اﷲ
تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا۔ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف
واپس گیا اور کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک حصہ کم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا :
اپنے رب کی طرف پھر جائیے کیونکہ آپ کی امت میں ان کی طاقت نہیں ہے پس میں
واپس گیا تو اﷲ تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا۔ میں ان کی طرف آیا تو
انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کی طرف جائیے کیونکہ آپ کی امت میں ان کی طاقت
بھی نہیں ہے میں واپس لوٹا تو (اﷲ تعالیٰ نے) فرمایا : یہ ظاہراً پانچ (نمازیں)
ہیں اور (ثواب کے اعتبار سے) پچاس (کے برابر) ہیں میرے نزدیک بات تبدیل
نہیں ہوا کرتی۔ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے کہا
اپنے رب کی طرف جائیے (اور مزید کمی کے لئے درخواست کریں) میں نے کہا :
مجھے اب اپنے رب سے حیا آتی ہے۔ پھر (جبرائیل علیہ السلام) مجھے لے کر چلے
یہاں تک کہ سدرۃ المنتہی پر پہنچے جسے مختلف رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا، نہیں
معلوم کہ وہ کیا ہیں؟ پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا جس میں موتیوں کے ہار
ہیں اور اس کی مٹی مشک ہے۔
:: بخاری شریف ،کتاب الصلاة، 1 / 136، الرقم : 342،
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : پانچ نمازیں ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض قرار دیا
ہے جس نے ان نمازوں کو بہترین وضو کے ساتھ ان کے مقررہ اوقات پر ادا کیا
اور ان نمازوں کو رکوع، سجود اور کامل خشوع سے ادا کیا تو ایسے شخص سے اﷲ
تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کی مغفرت فرما دے اور جس نے ایسا نہیں کیا (یعنی
نماز ہی نہ پڑھی یا نماز کو اچھی طرح نہ پڑھا) تو ایسے شخص کے لئے اﷲ
تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں ہے اگر چاہے تو اس کی مغفرت فرما دے اور چاہے تو
اس کو عذاب دے۔
:: أبوداود شریف، کتاب الصلاة، 1 / 115، الرقم : 425،
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سرما کے موسم میں جب پتے (درختوں سے) گر رہے تھے باہر نکلے، آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک درخت کی دو شاخوں کو پکڑ لیا، ابوذر رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں شاخ سے پتے گرنے لگے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے پکارا : اے ابوذر! میں نے عرض کیا : لبیک یا رسول اﷲ! حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمان بندہ جب نماز اس مقصد سے پڑھتا
ہے کہ اسے اﷲ تعالیٰ کی رضامندی حاصل ہو جائے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑ
جاتے ہیں جس طرح یہ پتے درخت سے جھڑتے جا رہے ہیں۔
:: ترغيب والترهيب، 1 / 151، الرقم : 560،
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : نمازی کے لئے تین خصلتیں ہیں : (ایک) یہ کہ اس کے دونوں
قدموں سے لے کر سر تک رحمتِ الٰہی نازل ہوتی رہتی ہے اور دوسرا یہ کہ
ملائکہ اسے اس کے دونوں قدموں سے لے کر آسمان تک گھیرے ہوئے رہتے ہیں اور
(تیسرا) یہ کہ ندا کرنے والا ندا کرتا رہتا ہے کہ اگر مناجات کرنے والا
(یعنی نماز پڑھنے والا) یہ جان لیتا کہ وہ کس سے راز و نیاز کی باتیں کر
رہا ہے تو وہ نماز سے کبھی واپس نہ پلٹتا۔
:: مروزی تعظيم قدر الصلاة، 1 / 199، الرقم : 160،
حضرت حمران بن اَبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عثمان بن عفان
رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے پانی طلب کیا اور
پھر وضو کیا جب آپ وضو سے فارغ ہوئے تو آپ مسکرائے اور پوچھا کہ کیا تم
جانتے ہو کہ میں کس وجہ سے مسکرایا ہوں؟ تو پھر آپ نے خود ہی فرمایا : ایک
مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا جس طرح میں نے
و ضو کیا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور پوچھا : کیا
تم جانتے ہو کہ میں کس وجہ سے مسکرایا ہوں؟ تو ہم نے جواب دیا : اللہ
تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ تو آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب بندہ بڑے اہتمام کے ساتھ وضو مکمل
کرتا ہے اور پھر نماز پڑھتا ہے اور نماز کو بھی بڑے اہتمام کے ساتھ مکمل
کرتا ہے تو جب وہ نماز سے فارغ ہوتا ہے تو وہ اس طرح گناہوں سے پاک ہوتا ہے
گویا کہ وہ اپنی ماں کے بطن سے ابھی پیدا ہوا ہے۔
:: بزار في المسند، 2 / 83، الرقم : 435،
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً پہلی چیز جس
کا حساب بندہ سے لیا جائے گا وہ نماز ہے پس اگر نماز درست ہو گی تو بندہ کے
جملہ اعمال درست ہوں گے اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو دوسرے تمام اعمال بھی
درست نہیں ہوں
:: طبراني في المعجم الأوسط، 2 / 240، الرقم : 1859،
’’حضرت ابو عثمان نہدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول
اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مسلمان نماز پڑھتا ہے اور اس
کے گناہ اس کے سر پر دھرے رہتے ہیں پس جس وقت وہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے
گناہ جھڑتے چلے جاتے ہیں اور جب وہ نماز سے فارغ ہوتا ہے تو اس کی حالت
ایسی ہو جاتی ہے کہ اس کے تمام گناہ اس سے جھڑ چکے ہوتے ہیں۔
:: طبراني في المعجم الصغير، 2 / 272، الرقم : 1153، |