مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کا نظریۂ قومیت، الزام و حقیقت
(قاضی زین العابدین, پلندری،ضلع سدہنوتی آزاد کشمیر)
سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ
مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کا نظریۂ قومیت، الزام و حقیقت
ایک مدت گزر گئی مگر ایک جملہ جس کی نسبت حضرت سید حسین احمد مدنیؒ کی طرف کی جاتی ہے، آج بھی بڑے بڑے سیاستدانوں، فلاسفرز اور جدت پسند انقلابی ذہنیت کے حامل لوگوں کی زبانوں پر رہتا ہے۔ ’’قومیں اوطان سے بنتی ہیں، نسل یا مذہب سے نہیں بنتی.‘‘ انتہا ستم یہ ہے کہ بغیر سیاق و سباق اور متکلم کے نظریات کو جانے بغیر، من گھڑت اور غلط معنی و مفاہیم نکالنے والوں نے شاید کچھ تحقیق کی زحمت نہیں کی یا پھر جان کر علمی خیانت یا دجل و فریب سے کام لیتے ہوئے ایک بلند پایہ مذہبی و روحانی شخصیت پر بہتان لگا کر جرمِ عظیم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ بہرحال قبل اس کے کہ حقیقت اور جھوٹے پراپیگنڈا کے حوالے سے مکمل وضاحت خود سید حسین احمد مدنیؒ کی زبان و قلم سے بیان کی جائے، اس واقعہ کے تاریخی پسِ منظر سے بھی آگاہی ضروری ہے۔ یہ 8 جنوری 1938 کی بات ہے کہ دہلی کے بازار میں سید حسین احمد مدنیؒ نے ملک کی حالت، بیرونی ممالک اور غیر اقوام نیز اندرون ملک میں آزادی پر گفتگو کرتے ہوئے ایک جملہ بولا جو اُسی خاص پیرائے میں محض خبر کے طور پر تھا نہ کہ رائے اور نظریہ۔ ’’موجودہ زمانہ(دور) میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں، نسل یا مذہب سے نہیں بنتی.‘‘ اگلے روز اخبار ’’الامان‘‘ وغیرہ میں چھاپ دیا گیا کہ سید حسین احمد مدنیؒ نے کہا ’’قومیت وطن سے ہوتی ہے مذہب سے نہیں۔‘‘ نیز دیگر اخبارات ’’وحدت‘‘، ’’انقلاب‘‘، ’’احسان‘‘ اور ’’زمیندار‘‘ نے بھی کلام کی ابتداء و انتہا کو خذف کر کے تحریف کرتے ہوئے غلط انداز میں شائع کر دیا اور یہی عنوان دیا کہ حسین احمد مدنیؒ کا دعویٰ یہ ہے کہ قومیت وطن سے ہوتی ہے مذہب سے نہیں ہوتی۔ جب یہ بات اخبارات کے ذریعہ ڈاکٹر اقبال مرحوم تک پہنچی تو صرف چند اخبارات کی اطلاع پر ڈاکٹر اقبال مرحوم نے مولانا مدنیؒ کے خلاف ردِّ عمل دیتے ہوئے حافظ شیرازیؒ کی ایک غزل کی زمین میں تین اشعار کہہ ڈالے۔ عجم ہنوز نہ داند رموزِ دیں ورنہ ز دیوبند ایں چہ بوالعجبی است؟ سرود بر سرِ منبر کہ ملت از وطن است چہ بے خبر ز مقامِ محمدِ عربی است بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است یہ بات جب مختلف حلقوں میں پہنچی تو شیخ الاسلام مدنیؒ کے خلاف اقبال کے لہجے کو گستاخی اور بے ادبی شمار کیا جانے لگا۔ ایک علمی بنیاد پر پیدا ہونے والے اشکال کو شیخ الاسلام مدنیؒ کے مخالفین نے خوب اچھالا تو دوسری طرف حضرت کے دفاع میں ان کے عقیدت مندوں نے بھی خوب وکالت کی۔ علمی و ادبی کام کے اعتبار سے سید سلیمان ندویؒ کا مقالہ اخبار ’’مدینہ‘‘ بجنور میں اپریل 1938 میں چھپا۔ اقبال سہیل مرحوم نے تو ڈاکٹر اقبال مرحوم کے رد میں بیس اشعار پر مشتمل نظم کہہ ڈالی جس کا آخری شعر یوں ہے۔ بگیر راہِ حسین احمد گر خدا خواہی کہ نائب است نبی را و ہم ز آلِ نبی است حضرت مدنیؒ کے ایک عقیدت مند کا یہ شعر بھی کافی مشہور ہوا۔ خموش شاعر گستاخ! قدرِ خود شناس ز حدِ خویش گزشتن کمال بے ادبی است چونکہ اس دور میں آج کی طرح نشر واشاعت کا کام بھی اتنا تیز نہیں تھا اس وجہ سے اقبال مرحوم حقیقتِ حال سے پوری طرح واقف نہ تھے۔ مولانا عبد الرشید نسیمؒ جو طالوت قلمی نام لکھتے تھے، نے خط و کتابت کے ذریعے اقبال مرحوم کو باخبر کیا کہ یہ اخبارات کا جھوٹا اور جعلی پروپیگنڈا ہے جس کے ذریعے مولانا مدنیؒ کے بیان کو غلط رنگ میں پیش کیا گیا۔ چنانچہ 28 مارچ 1938ء کو اقبال مرحوم نے روزنامہ ’’احسان‘‘ لاہور میں اپنا رجوع اور تردیدی بیان شائع کروایا۔ یہ مضمون ’’ایک علمی بحث کا خوشگوار خاتمہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں اقبال نے واضح فرمایا ’’میں نے مسلمانوں کو وطنی قومیت قبول کرنے کا مشورہ نہیں دیا،( مولانا مدنیؒ کے) اس اعتراف کے بعد ان پر اعتراض کا کوئی حق نہیں رہتا۔‘‘ مزید کہا کہ ’’میں مولانا مدنیؒ کی دینی حمیت کے احترام میں ان کے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں‘‘۔ 8 جنوری کو حضرت مدنیؒ نے تقریر کی جبکہ 28 مارچ 1938ء کو اقبال مرحوم نے رجوع بھی کر لیا۔ ارمغانِ حجاز چونکہ اقبال کے انتقال(21 اپریل 1938) کے چھ ماہ بعد نومبر 1938ء کو شائع ہوئی تو ان اشعار کو بھی کتاب میں باقی رکھا گیا۔ اگر اقبال زندہ ہوتے تو یقیناً یہ اشعار اس مجموعہ کا حصہ نہ بنتے کیونکہ اقبال ان سے رجوع کر چکے تھے۔ خواجہ عبد الحمید ’’اقبال ریویو‘‘ 1969 ص 67 پہ لکھتے ہیں۔ ’’ارمغانِ حجاز اگر علامہ کی زندگی میں چھپتی تو یہ نظم اس میں شامل نہ ہوتی۔‘‘ ڈاکٹر عبد السلام خورشید سرگذشتِ اقبال میں لکھتے ہیں۔ ’’اگر وہ ارمغانِ حجاز کی ترتیب اپنی زندگی میں کرتے تو شاید وہ تین اشعار درج نہ کرتے جن میں مولانا حسین احمد مدنیؒ پر چوٹ کی گئی تھی۔‘‘ قارئین! اب آئیے سید حسین احمد مدنیؒ کی بذاتِ خود اپنے کلمات کی وضاحت دیکھئے۔ ’’مکتوباتِ شیخ الاسلام‘‘ جلد 3 ص نمبر 125 پر حضرت طالوتؒ کے نام مکتوب میں حضرت مدنیؒ یوں لکھتے ہیں۔ ’’کیا یہ انتہائی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ملّت اور قوم کو سر اقبال ایک قرار دے کر ملت کو وطنیت کی بنا پر نہ ہونے کی وجہ سے قومیت کو بھی اس سے مُنزّہ قرار دے رہے ہیں؟یہ بوالعجبی نہیں ہے تو کیا ہے؟ زبانِ عربی اور مقامِ محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے کون بے خبر ہے؟ میں نے اپنی تقریر میں لفظِ قومیت کا کہا تھا، ملّت کا نہیں کہا ہے، دونوں لفظوں میں زمین و آسماں کا فرق ہے، ملت کے معنی شریعت اور دین کے ہیں، جبکہ قوم کے معنی عورتوں اور مردوں کی جماعت کے ہیں۔‘‘ آگے چل کر ’’مکتوباتِ شیخ الاسلام‘‘ میں جلد 3 صفحہ 126 پر اقبال مرحوم کا یوں رد فرمایا۔ ’’اگر میری تقریر کے سیاق و سباق کو بھی خذف کردیا جائے اور عبارت میں حسبِ اعلان جریدہ ’’احسان‘‘ ’’قوم یا قومیت کی اساس وطن پر ہوتی ہے‘‘ بتائی جائے تب بھی میں نے کب کہا کہ ملت یا دین کی اساس وطن پر ہے پھر سر موصوف کی یہ نسبت’’سرود بر سرِ منبر الخ‘‘ افتراء محض نہیں ہے تو کیا ہے اور ان کا ان تینوں کو ایک قرار دینا عجیب اور زبان عربی سے نا واقفیت نہیں ہے تو کیا ہے؟‘‘ اسی ’’مکتوباتِ شیخ الاسلام‘‘ میں جلد 3 صفحہ 126 پر حضرت قوم کے حوالے سے اپنے خیالات و نظریات یوں لکھتے ہیں۔ ’’جواباً عرض ہے کہ قوم کا لفظ ایسی جماعت پر اطلاق کیا جاتا ہے جس میں کوئی وجہ جامعیت کی موجود ہو، خواہ وہ مذہبیت ہو یا وطنیت، یا نسل یا زبان یا پیشہ یا رنگت یا کوئی صنعت مادی یا مصنوعی وغیرہ وغیرہ۔‘‘ حضرت نے لفظ ’’قوم‘‘ کے اطلاق پر گفتگو میں جماعت میں وجہ جامعیت صرف ’’وطنیت‘‘ کو ہی نہیں بتایا بلکہ حرف ’’یا‘‘ کے استعمال کے ساتھ "مذہبیت‘‘، ’’نسل‘‘ اور ’’زبان‘‘ کو بیان کر کے خود وضاحت کر دی کہ ان کا نظریہ ہے کہ قوم صرف وطنیت سے ہی نہیں بنتی بلکہ مذہب اور نسل سے بھی بنتی ہیں جو کہ مذکورہ جملہ (قومیں نسل یا مذہب سے نہیں بنتی) کے متضاد نظریہ ہے۔ اس سے قبل لفظ ’’قوم‘‘ اور ’’ملت‘‘ کا فرق بیان کرتے ہوئے واضح کر چکے کہ ’’ملت‘‘ کا دار و مدار ہی مذہب اور دین پر ہوتا ہے۔ یوں اخبارات کے جھوٹ کا پردہ چاک ہو گیا۔تفصیل جاننے کے لیے ’’مکتوباتِ شیخ الاسلام‘‘ جلد 3 ص 124 حضرت طالوت کے نام مکتوب ملاحظہ ہو۔ حضرت مدنیؒ کی اس وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی چھوٹا یا بڑا دانشور یوں کہے کہ حضرت مدنیؒ کا نظریہ یہ تھا کہ قومیں نسل یا مذہب سے نہیں بنتی، یا قومیت کی اساس مذہب نہیں صرف وطن پر ہے تو سراسر جھوٹ اور بہتان عظیم لگانے کے مترادف ہے جو یقیناً کل بروزِ حشر قابلِ گرفت ہو سکتا ہے۔جملہ ایک خاص پیرائے میں محض خبر کے طور پر تھا نہ کہ رائے اورنظریہ کے طور پر، مگر قطع برید کر کے، بغیر سیاق و سباق کے جھوٹ پر مبنی بے بنیاد اور غلط پروپیگینڈا کے تحت بات کو کیا سے کیا بنا کر پیش کر دیا گیا۔ ایک من گھڑت نظریہ بنا کر پیش کر دیا جس کا حضرت مدنیؒ کے نظریات کے ساتھ دور تک واسطہ نہیں۔ مگر افسوس لا علمی اور کم تحقیقی کی بنیاد پر یا پھر ذاتی بعض وعناد کے سبب جھوٹا الزام یا بہتان لگا کر آج تک حضرت مدنیؒ کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور حضرت کے تردیدی بیان اور وضاحت پر کسی کی توجہ نہیں جاتی۔کیا کہیے دکھ کی بات یہ ہے کہ یہاں تو موقع محل کی مناسبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت مدنیؒ کے خلاف لفاظی کے شوقین حضرات نے بھی اپنی اپنی منطق جھاڑ کر مقبولیت حاصل کرنی کی کوشش کی۔دیانت کا تقاضا تھا کہ بات جس سیاق و سباق میں جتنی کہی گئی، اسی پیرائے میں مقررہ حدود و قیود میں بات کو سمجھا جاتا۔ایک متبحر عالم دین، ممتاز سیاستدان، محدثِ کبیر، فقیہ العصر، ظاہری و باطنی علوم کے امام کے خلاف مضامین لکھنے سے قبل اس کے نظریات کو تو سمجھ لیا جاتا۔ لیکن یہ دانشور تو شاید ان حروف کی ابجد سے بھی واقف نہ تھے جن علوم میں مولانا مدنیؒ کمال درجہ مہارت حاصل کر چکے تھے۔ عالم خورشید کے اسی شعر پہ اکتفا کروں گا۔ مکاروں کی اس دنیا میں کبھی کبھی عالمؔ اچھے لوگوں کو بھی بہتان اٹھانا پڑتا ہے |