چند حیرت انگیز ۔معلوماتی اور سبق آموز واقعات (دوسرا اور آخری حصہ )
(محمد یوسف میاں برکاتی, کراچی)
|
حیرت انگیز معلوماتی اور سبق آموز واقعات ( دوسرا اور آخری حصہ)
محمد یوسف میاں برکاتی
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب حیرت انگیز معلومات اور سبق آموز واقعات کے دوسرے حصے کو لے کر حاضر خدمت ہوں ہم نے گزشتہ حصے میں دو واقعات پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو جب مسلمان نہیں ہوئے تھےاور اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے لیکن اپنے اپنے حلقوں میں کافی بہادر نڈر اور اپنے ارادوں میں پکے ہوتے تھے اور جب کسی واقعہ کسی شخصیت یا کسی کی باتوں سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو ان کے اندر اللہ تعالیٰ کےاحکامات کی پیروی کرنے کی جستجو اور اللہ تعالی کے حبیب کریمﷺ سے سچی پکی محبت کے آثار عام مسلمانوں سے زیادہ نظر آتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ انہیں دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں وہ مقام عطا فرماتا ہے جس کی تمنا ہر ذی شعور اہل ایمان مسلمان کو ہوتی ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ھالی ووڈ کی تاریخ میں ایک بار ایک بہت ہی عجیب واقعہ پیش آیا جو ھمیشہ کے لیے ھالی ووڈ کا یادگار واقعہ بن گیا. وہ واقعہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ ھالی ووڈ کی بلیوارڈ سڑک کے اطراف میں واک آف فیم کے نام سے ایک تقریب ہر سال منعقد کی جاتی ھے اس تقریب میں امریکہ کا نام روشن کرنے والے ھیروز کے ناموں کو کچھ خوبصورت Stars یعنی ستارے بناکر اس کے ساتھ ان کی وجہہ شہرت لکھ کر ان Stars کو سڑک کے اطراف میں بنے راستے پر زمین پر لگائے جاتے ہیں. ھر ستارے کے ساتھ ھیرو کا نام لکھا ھوتا ھے لوگ وہاں سے گزرتے ہوئے اپنے ھیروز کے نام پڑھتے ہیں ان کی خدمات سے آگاہ ھوتے ہیں اور خوشی محسوس کرتے ہیں یہ تقریب بہت بڑے اعزاز والی ھوتی ھے۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں 45 سال پہلے کی بات ہے جب اس سال بھی واک آف فیم کے سلسلے میں امریکہ کے ھیروز کے نام کے ستارے سڑک پر لگائے جا رہے تھے.. اس موقع پر ایک ھیرو نے اپنا ستارہ زمین پر لگوانے سے انکار کر دیا. اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے نام کو زمین پر لکھا ھوا برداشت نہیں کر سکتا اگر منتظمین کو اس پر اعتراض ھے تو وہ چاہیں تو اس کا نام ھیروز کی لسٹ میں سے نکال سکتے ہیں یہ عجیب و غریب اعتراض تھا پہلے کبھی بھی ایسا نہیں ھوا تھا ھیروز اس واک آف فیم میں اپنے نام کے ستارے کو سڑک پر لگانے پر اعتراض نہیں کیا کرتے تھے بلکہ وہ تو اپنا نام اس فہرست میں شامل ھونے کو ہی اپنی سب سے بڑی خوش نصیبی سمجھتے تھے جس شخص نے اعتراض کیا تھا وہ اس زمانے میں امریکہ کا سب سے ٹاپ کلاس ھیرو تھا انتظامیہ نے اس سے پوچھا کہ اسے کیوں اعتراض ھے ھیرو نے کہا بات صرف میرے نام کی نہیں ھے دراصل جس ھستی کے نام پر میں نے اپنا نام رکھا ھے مجھے اس کے نام سے ایسا عشق ھے اور میرے دل میں اس نام کی ایسی عزت ھے کہ میں برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ یہ نام زمین پر لکھا جائے زمین پر نام لکھنے سے نام کی توہین ھوگی. میں اپنے نام اس فہرست سے ھزار بار خارج کروا سکتا ھوں لیکن اس عظیم نام کی توہین برداشت نہیں کر سکتا اگر آپ لوگوں نے مجھے اس تقریب میں شامل رکھنا ھے تو میرے نام کے ستارے کو دیوار پر بلند جگہ پر لگاؤ ھیرو کی شرط مان لی گئی اور یوں تاریخ میں پہلی اور آخری بار کسی ھیرو کے نام کا ستارہ واک آف فیم کی تقریب کے موقع پر دیوار پر کافی بلندی پر لگایا گیا تھا۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس عظیم ھیرو کا نام باکسر محمد علی تھا. اور جس نام کی توہین اس کی برداشت سے باہر تھی وہ نام اس کے آقا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا تھا نام محمد سے اس کے عشق کا یہ عالم عجیب تھا یہ اس کا قصور نہیں تھا نہ ہی یہ جذبہ اس کے اندر خودبخود پیدا ھوا تھا بلکہ یہ بہت بڑا معجزہ ھے کہ جس نے بھی مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی غلامی کا پٹا گلے میں ڈال لیا اس کے لیے یہ نام اس کی زندگی کا سب سے مقدس نام بن جاتا ھے وہ ایک اور ہی دنیا کا باسی بن جاتا ہے جہاں محبوب کے عشق میں محبوب کی شان کی خاطر جان دی بھی جا سکتی ھے اور کسی گستاخ کی جان لی بھی جا سکتی ھے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی طرح ایک واقعہ اور بھی پیش آیا جس میں اس زمانے کے ایک اور ھیوی ویٹ چیمپئن ارنی ٹیرل محمد علی کو نفرت اور چڑانے کے لیے محمد علی کی بجائے اس کے اسلام قبول کرنے سے پہلے والے نام کیشیئس کلے کے نام سے پکارا کرتا تھا. لیکن محمد علی اسے بار بار روکتا. جبکہ وہ اسلام سے تعصب کی وجہ سے جان بوجھ کر ایسا کرتا تھا اس بات پر کئی بار محمد علی نے اسے رنگ سے باھر بھی بہت زیادہ مارا تھا لیکن لوگ چھڑا دیا کرتے تھے محمد علی کو اس بات کی بہت تکلیف ھوتی تھی لیکن وہ بڑی مشکل سے برداشت کرتا رہا. وہ موقع کی تلاش میں تھا کہ اگر کبھی ارنی ٹیرل سے مقابلہ ھوا تو وہ اسے اچھی طرح سبق سکھائے گا۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اور پھر بالآخر ایک بار ایسا موقع مل ہی گیا رنگ کے اندر مقابلہ شروع ھوا محمد علی پہلی بار مقابلہ شروع ھوتے ہی مخالف پر کسی وحشی کی طرح ٹوٹ پڑا یہ اس کے مزاج کے خلاف تھا وہ مقابلے کو دلچسپ بنانے کے ھنر سے واقف تھا وہ اپنے مخالف کھلاڑی کو پہلے خوب تھکایا کرتا تھا کسی ماھر رقاص کی طرح اس کے پاؤں ناچنے کے انداز میں بجلی کی طرح حرکت کرتے تھے اور وہ ایک بھی مکہ مارے بغیر کافی دیر تک رنگ میں ادھر سے ادھر اچھلتا رھتا تھا لیکن اس مقابلے میں ایسا نہیں تھا وہ ٹیرل ارنی کو بری طرح پیٹ رہا تھا اس دوران وہ مکے برساتے ہوئے ایک ہی سوال کرتا جا رہا تھا بتاؤ میرا نام کیا ھے میرا نام کیا ھے مجھے بتاؤ میرا کیا نام ہے ساتھ ہی ساتھ وہ مکوں کی رفتار بڑھاتا چلا گیا مخالف باکسر کو پتہ چل گیا کہ آج محمد علی کے ھاتھوں زندہ بچنا ناممکن ھے وہ دیوانوں کی طرح چلا چلا کر اس سے اپنا نام پوچھ رہا تھا اور پھر ارنی ٹیرل کی برداشت جواب دے گئی تب زندگی میں پہلی بار رنگ میں بدترین پٹائی کے نتیجے میں اس کے منہ سے محمد علی محمد علی نام ادا ھونے لگا۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب لڑائی ختم ہوئی تو بعد میں لوگوں نے محمد علی سے پوچھا کہ وہ اس نام کے لیے کیوں جذباتی ھے اس نام کے معانی کیا ھیں محمد علی نے نہایت ہی میٹھے اور محبت بھرے انداز میں بتایا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے معانی ہیں وہ جس کی تعریف کی گئی ھو اور علی کے معانی بلند و بالا ھے ہر اہل ایمان مسلمان اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ جس نے عشق محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جام پی لیا پھر وہ چاھے عرب کا ھو عجم کا ھو گورا ھو کالا ھو پاکستانی ھو امریکی ھو چاھے اس کی کوئی بھی زبان ھو وہ پوری دنیا میں موجود ھر مسلمان کے ساتھ ایک تسبیح میں پرویا جاتا ھے پھر وہ مرتے دم تک اس تسبیح سے خود کو جدا نہیں کر سکتا۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں خوبصورت اور خوب سیرت انسان جناب محمد علی باکسر کے اس واقعہ سے ہمیں ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی پہچان ملتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی بھی عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے نزدیک نام " محمد" کی کتنی اہمیت ہوتی ہے کہ وہ اس نام کی ناموس کے لیئے اپنی جان بھی دے سکتا ہے اور کسی گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی جان لے بھی سکتا ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہماری اس دنیا میں بسنے والے کم و بیش ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ بڑا آدمی بنے اب عایا وہ کوئی مزدور ہو یا اسکول میں پڑھنے والا کوئی طالب علم کیونکہ بڑا بننے کے لیئے دولت مند ہونا شرط نہیں بڑا بننے کے لیئے آپ کے پاس پیسہ ہونا ضروری نہیں بس کچھ ضروری اور اہم باتوں کا خیال رکھنا اور اس پر عمل کرنا کسی بھی انسان کے لیئے بڑا آدمی بننے کے لیئے ضروری ہیں بالکل اسی طرح کہ ایک پروفیسر صاحب روزانہ آفس جاتے ہوئے ایک جوتے پالش کرنے والے بچے سے اپنا جوتا پالش کرواتے اور پھر چلے جاتے یہ ان کا روز کا معمول تھا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک اس بچے نے پروفیسر سے کہا کہ پروفیسر صاحب کیا میں بڑا آدمی بن سکتا ہوں ؟ اس کے اس سوال پر پروفیسر صاحب نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا کیوں نہیں دنیا کا ہر انسان چاہے تو بڑا آدمی بن سکتا ہے لیکن وہ کیسے ؟ اس بچے نے پوچھا پروفیسر صاحب نے اپنی جیب میں رکھا ہوا ایک چاک کا ٹکڑا نکالا اور اس بچے کے ٹھکانے کے قریب والی دیوار پر تین لکیریں کھینچ دیں پہلی لکیر پر انہوں نے " محنت محنت اور محنت" پھر انہوں نے دوسری لکیر پر لکھا " ایمانداری ایمانداری اور ایمانداری " اور پھر تیسری لکیر پر صرف " Skill یعنی ہنر " لکھا اس کے بعد وہ بچے کی طرف مڑے اور کہا کہ بڑا آدمی بننے کے لیئے تمہیں ترقی کرنا ہوگی اور ترقی کے تین زینے ہیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں انہوں نے کہا کہ پہلا زینہ محنت ہے آپ جو بھی ہیں آپ اگر محنت کرنا جانتے ہیں اور صبح ہو یا شام محنت سے نہیں گھبراتے اپنی کامیابی کے لیئے اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ ہے تو یقین جانیئے آپ کی کامیابی کے تیس فیصد حصے کو کوئی نہیں روک سکتا آپ کوئی بھی کام کریں آپ کی فیکٹری ہو دکان ہو یا کوئی چھوٹا سا کھوکھا صبح اپنے وقت ہر کھولیں اور شام اپنے وقت پر بند کریں نہ پہلے نہ بعد میں جبکہ اس کام پر اپنی ڈیوٹی بھی مکمل دلچسپی اور ذہن کو صحیح طریقے سے استعمال کرتے ہوئے دیں اور فیصلہ آپ ے رب تعالی پر چھوڑ دیں تو پھر آپ کو کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا آپ کامیاب ہو جائیں گے یعنی بڑے آدمی بن جائو گے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پروفیسر صاحب نے اس بچے کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ کامیابی کا دوسرا اور بڑا اہم زینہ ایمانداری کا ہے ایمانداری دراصل چار عادتوں کا مکمل پیکج ہے وعدے کی پابندی‘ جھوٹ سے نفرت‘ زبان پر قائم رہنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا۔ یعنی جب بھی کسی سے بھی کوئی وعدہ کرو تو اسے ہر قیمت پر پورا کرو کیونکہ کاروبار میں وعدہ خلافی کے بڑے نقصانات ہیں جبکہ وعدہ پورا کرنے اور وعدہ نبھانے والے کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کاروبار میں ہمیشہ اونچ نیچ آتی رہتی ہے لیکن چاہے کیسا بھی مرحلہ ہو کبھی بھی جھوٹ کا سہارا نہیں لینا کیونکہ جھوٹ سے تمہارا کام ہوسکتا ہے ہو جائے لیکن اس میں برکت کبھی نہیں ہوگی اور جھوٹ بولنے سے تمہارا وقار بھی خراب ہوگا لہذہ جھوٹ سے ہمیشہ پرہیز کرنا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کے بعد پروفیسر صاحب نے کہا کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیئے زبان کے صحیح استعمال کی بھی بہت ضرورت ہوتی ہے یعنی کسی کے ساتھ بھی کوئی زبان کرلی تو اس پر ہمیشہ قائم رہنا ہوگا اپنی بات سے مکرنا تمہاری کامیابی میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے لہذہ کامیابی کے لیئے زبان کرکے اس کا پاس رکھنا انتہائی ضروری ہے جبکہ اگر کبھی کوئی غلطی ہو جائے تو بجائے اس پر پردہ ڈالنے کے اس کو تسلیم کرلینا بھی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ایمانداری کا عنصر کامیابی میں پچاس فیصد مانا جاتا ہے لہذہ اگر آپ اپنے شعبے میں کامیابی حاصل کرتے ہو تو اس میں تیس فیصد حصہ آپ کی محنت ہے اور پچاس فیصد حصہ ایمانداری ہے اور اس طرح کامیابی کا اسی فیصد حصہ آپ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ باقی بیس فیصد حصہ کامیابی کے تیسرے حصے میں پوشیدہ ہے اور وہ ہے Skill یعنی ہنر ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ کامیابی کے سو فیصد حصے میں آپ کو بیس فیصد حصہ آپ کا ہنر فراہم کرتا ہے ہنر صرف کسی میں مہارت حاصل کر لینے کا نام نہیں ہے بلکہ آپ جو بھی کام کررہے ہیں اس میں ماہر ہونا بھی ایک ہنر ہے لیکن یہ باد ہمیشہ یاد رکھیئے کہ کامیابی کے تین زینوں میں ہنر کا نمبر سب سے آخری ہے اور اس کی فیصد بھی سب سے کم ہے یعنی کامیابی کی شروعات ہمیشہ محنت سے ہوتی ہے اگر آپ اپنے شعبے میں ایک ماہر ہنرمند کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن ایمانداری اور محنت کا آپ کے اندر فقدان ہے تو آپ کامیاب نہیں ہوسکتے آپ کو سب سے پہلے محنتی ہونا پڑے گا ایمانداری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا اور پھر اپنے آپ کو ہنر مند ثابت کرنا ہوگا تب جاکر آپ کامیابی کا 100 فیصد حاصل کرسکیں گے کیونکہ دنیا میں ہم نے کئی ہنرمندوں اور فنکاروں کو بھوکا مرتے دیکھا ہے کیونکہ وہ بےایمان بھی تھے اور سست بھی جبکہ کئی بغیر ہنر لوگوں کو ایمانداری اور محنت کی وجہ سے ذاتی جہاز اڑاتے دیکھا ہے آخر میں پروفیسر صاحب نے دیوار پر لکھے ہوئے تین اصولوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بچے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ تم ان تین زینوں پر چلنا شروع کردو کامیابی کے ان تین اصولوں کو اپنا لو تم سو فیصد کامیاب ہوکر بڑے آدمی بن جائو گے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس واقعہ سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے میں جو لوگ بظاہر ہمیں کامیاب نظر آتے ہیں ان میں یہ ہی دو کیٹگریز ہیں وہ لوگ جنہوں اپنی محنت اور ایمانداری کے بک بوتے پر کامیابی حاصل کی ہے وہ صرف اس عارضی دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں کامیاب انسان کے روپ میں سامنے کھڑے ہوں گے جبکہ وہ لوگ جو دنیاوی اعتبار سے ہمیں کامیاب تو نظر آتے ہیں لیکن نہ وہ ایماندار ہیں اور نہ ہی ان کے اندر محنت کرنے کی عادت بلکہ شیطان کے کہنے میں آکر بے ایمانی سے کامیابی حاصل کی ہے جن کی کامیابی صرف دنیا تک محدود ہے آخرت میں ایسے لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا لہذا حقیقی کامیابی محنت اور ایمانداری سے حاصل ہوتی ہے ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے آج کے معاشرے میں ہر شخص پریشان دکھائی دیتا ہے اور ان پریشانیوں کی بیشمار وجوہات میں سے ایک وجہ گھر میں نا چاکی یعنی نا اتفاقی ہوتی ہے ساس بہو کا معاملہ ہو یا بیوی اور شوہر کے درمیاں نا اتفاقی یہ معاملات انسان کو پریشانی میں مبتلا کرکے انہیں ڈپریشن کا شکار بنادیتے ہیں کیا ان معاملات کا کوئی حل ہے ؟ آیئے اس سلسلے میں ایک واقعہ پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جس میں ان لوگوں کے لیئے بہت بڑا سبق ہے جو گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے کافی پریشان رہتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک نوجوان جو اپنے ماں باپ کا بڑا فرمانبردار تھا اس کی شادی ہوئی اور جب وہ نکاح اور رخصتی سے فارغ ہونے کے بعد اپنے کمرے میں جانے لگا تو اس سے پہلے اپنے والد صاحب کے پاس حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ ابا جان میں آج سے اپنی نئی زندگی کی شروعات کرنے جارہا ہوں کچھ نصیحت فرمادیجئیے تو اباجان نے کہا کہ بیٹا یہ بات صبح بھی ہوسکتی تھی لیکن بیٹے نے کہا کہ نہیں مجھے ابھی نصیحت فرمائیں تو اباجان نے کہا کہ اچھا تو پھر جائو اور ایک کاغذ ، ایک پنسل اور ایک ربڑ لیکر آئو تو بیٹا ابا جان کے کہنے پر کاغذ پنسل اور ربڑ لیکر آگیا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ابا جان نے کہا کہ بیٹا اس کاغذ پر اپنی مرضی سے کچھ لکھو بیٹا بڑا حیران تھا کہ ابا جان یہ کیا کروارہے ہیں لیکن وہ مجبور تھا اس لیئے اس نے اباجان کے کہنے پر اس کاغذ پر کچھ لکھ دیا پھر اباجان نے کہا کہ اب ربڑ اٹھائو اور اس لکھے ہوئے کو مٹادو اس نے جو کچھ لکھا تھا وہ مٹا دیا اب اباجان نے کہا کہ پھر سے اس کاغذ پر کچھ لکھو تو بیٹے نے تجسس سے دوبارہ لکھا اور اس بار بھی اباجان نے کہا کہ اس کو ربڑ سے مٹا دو اسی طرح جب تیسری مرتبہ بھی اباجان نے کہا کہ کچھ لکھو تو بیٹے نے کہا کہ اباجان آخر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں مجھے کیا سمجھانا چاہتے ہیں ؟ تو اباجان نے کہا کہ بیٹا زندگی میں جب بھی تمہاری کسی سے کوئی بات ہو جائے یعنی کوئی کچھ کہدے تو اسے کاغذ پر لکھے ہوئے الفاظوں کی طرح دل سے مٹا دیا کرو جب دل ایک دوسرے کے لیئے صاف ہوگا تو زندگی بھی اچھی گزرے گی اور جب زندگی اچھی گزرے گی تو تم بھی خوش رہو گے اور تمہارا لائف پارٹنر بھی خوش رہے گا بلکہ ساتھ رہنے والا ہر فرد خوش رہے گا چھوٹی موٹی باتیں زندگی میں ہوتی رہتی ہیں لیکن انہیں بڑا ہونے سے پہلے مٹادو بس بیٹا زندگی میں کبھی ناکامی کا منہ نہیں دیکھنا پڑے گا ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مختصر واقعہ سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ گھر کا سکون صرف برداشت اور خاموش رہنے میں پوشیدہ ہے اپنی غلطی مان کر جھک جانا اور سامنے والے کی غلطی پر پردہ ڈال کر برداشت کرنے میں عافیت ہے اور اپنے رویے اور اپنے لہجے میں نرمی رکھنے کی عادت بنالیں گھر کا ماحول پُرسکون ہو جائے گا نہ کوئی پریشان رہے گا اور نہ ہی کوئی ڈپریشن کا شکار ہوگا مجھے امید ہے کہ اس خوبصورت مختصر سے واقعہ کو پڑھ کر بہت سے لوگوں کو کافی سیکھ ملی ہوگی ۔ میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارا یہ مضمون اس دوسرے حصے کے ساتھ یہاں اختتام پذیر ہوتا ہے میں کچھ معلوماتی اور کچھ زندگی سے جڑے مسائل کا حل سبق آموز واقعات کی شکل میں تحریر کے زریعے آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے جو میں ہمیشہ کرتا رہتا ہوں اور جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا تب تک یہ سلسلہ جاری رکھنے کی کوشش کرتا رہوں گا مجھے بس آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے مجھے ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیئے گا آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے یوں ہی سچ لکھنے ہم سب کو پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
|
|