قومی اخبارات کے کالم نگاروں اورمختلف ٹی وی چینلز کے اینکرپرسنز پر مشتمل
پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے خصوصی وفد نے زیادتی کے بعد قتل کی گئی معصوم
بچی زینب کے والدین سے ان کے گھر قصور میں تعزیت کی۔ زینب کے گھر پہنچے تو
وہاں یوں لگ رہا تھا کہ شہر کا شہر اس معصوم بچی کی تعزیت کے لیے آیا ہوا
ہے۔قصور پولیس نے اتنے بڑے سانحہ سے کچھ سبق نہیں سیکھا ،ٍڈی پی او زاہد
مروت کا رویہ انتہائی سرد مہری اور اکڑکا شکار ہے ۔مقتول زینب کے گھر تعزیت
کیلئے آنے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی لیکن پولیس کی طرف سے
سکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔شہباز روڈ کے ایک طرف زینب کا گھر ہے تو
دوسری طرف محمد علی کا گھر ہے جو زینب کے قتل پر احتجاج کرتے ہوئے پولیس کی
گولی کا نشانہ بن گیا تھا۔ننھی زینب کے باریش باپ سے تعزیت کیلئے گلے ملے
تو ان کے آنکھوں سے ابھی تک بیٹی کی جدائی کے آنسو ٹپک رہے تھے۔زینب کے
انکل سے بات ہوئی تو اس نے پوری کہانی سنائی کہ کس طرح چند قدم کے فاصلے پر
وہ قرآن پڑھنے کے لیے اپنی ایک عزیزہ کے پاس گئی اور پھر اس کی لاش ہی ملی۔
قصور کے سابقہ ڈی پی او کے رویے کے بارے میں بتایا کہ ’’جب بچی کی گمشدگی
کو بیس گھنٹے گزر گئے تو ہم ڈی پی او کے پاس گئے مگر اس کے دربار میں حاضری
بھی نہ مل سکی۔ واپس آکر محلے والوں کو اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے
میں بتایا تو پھر سب لوگ اکٹھے ہو کر اس کے پاس گئے۔ اس نے بات تو سن لی
مگر پولیس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘‘اگر ذوالفقار نامی یہ ڈی پی
او پہلے دن ہی انسانیت کا ثبوت دیتا اور زینب کی گمشدگی کو ایک باپ کی نظر
سے دیکھتا تو شاید صورتحال ایسی نہ ہوتی۔بد قسمتی سے نیا ڈی پی او زاہد
مروت بھی اچھی شہرت کا حامل نہیں ہے۔اور ستم ظریفی کی حد یہ کہ آر پی او
شیخوپورہ رینج ذولفقار حمید نے اپنے سرکاری دفتر کو سائلین کیلئے نوگوایریا
بنا رکھا ہے ۔موصوف نہ تو کسی سے ملنا پسند کرتا ہے اور نہ ہی کسی کی فون
کال پر کان دھرتا ہے۔پاکستان بھر میں قتل اور زیادتی کے سب سے زیادہ کیسز
قصور اور شیخوپورہ میں رپورٹ ہوئے ہیں۔شیخوپورہ پویس رینج کے اضلاع
قصور،ننکانہ اورشیخوپورہ ایسے اضلاع کے طور پر سامنے آئے جہاں بچوں کے تحفظ
کے حوالے سے صورتحال تشویشناک ہے۔کھیتوں، نالوں اور کچرے کی ڈھیڑ سے ملنے
والی بچوں کی لاشیں،یہ سب پولیس کی بے حسی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ جس حیوانیت
کا شکارزینب بنی ، اس ظلم کا شکار ہونے والی پہلی بچی نہیں ۔ اس سے پہلے
بھی بہت سی زینب ایسے ہی اغواء ہوئیں، ایسے ہی زیادتی کی گئی ، گلہ گھونٹ
کر بالکل اسی طرح کچرے کے ڈھیر پر پھینکا گیا۔ پولیس کا بے حس رویہ انتہائی
شرمناک اور قابل مزمت ہے۔ پولیس ایسے واقعات میں پہلے معاملے کو بچی کے گم
ہو جانے کے طور پر اتنا سنجیدہ نہیں لیتی۔ والدین سے کہا جاتا ہے کہ اپنے
طور پر ڈھونڈیں۔پولیس نے ابھی تک ایک بھی اصل مجرم پکڑنے کی بجائے ہر واقع
کے بعد سینکڑوں بے گناہ افراد کی پکڑدھکڑ کرکے معصوم شہریوں سے لاکھوں روپے
بٹورنے کا دھندہ شروع کررکھا ہے۔
ایک طرف وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور آئی جی پنجاب کیپٹن عارف نوازنے
پولیس کا امیج بہتر بنانے اور عوام کو فوری انصاف کی فراہمی کیلئے پی آئی
ٹی بی کی مدد سے آن لائن ایف آئی آر سمیت انقلابی اصلاحات متعارف کروائی
ہیں ،ڈی پی او وہاڑی عمر سعید ملک نے جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلع میں مثالی
کارگردی سے ماڈل ضلع بنا دیا،اسی طرح ڈی پی او سیالکوٹ اسد سرفراز،ڈی پی او
جھنگ لیاقت ملک اور ڈی پی او ناروال عمران کشور اپنے اضلاع میں کرائم ریٹ
کو صفر پر لے آئے جبکہ دیگر اضلاع میں بھی پنجاب پولیس کی کارگردی قابل
تعریف حد تک بہتر ہوئی ہے۔وہیں کچھ سر پھرے اور نک چڑھے افسران اپنی غفلت و
لاپرواہی سے پولیس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔
زینب کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد اس شک میں کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ یہ
سب انڈر ورلڈ پورن گرافی کے لئے کیا جا رہا ہے۔ پورن انڈسٹری کی کئی اقسام
ہیں جن میں سب سے گھناؤنی صنعت ’’چائلڈ پیڈوفیلیا پورن ‘‘کی ہے۔ پیڈوفیلیک
پورن میں بالغ مردوں اور بوڑھے کو دو سے چودہ سالہ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد
کرتے دکھایا جاتا ہے۔ یورپین ممالک کے افراد اپنی جنسی تسکین کیلیے ایسی
ویڈیوز ہزاروں ڈالرز میں خریدتے ہیں۔ڈارک ویب کو ٹریس کرنا بے شک مشکل ہے
لیکن قصور جیسے علاقے میں انٹرنیٹ صارفین کا پتا لگانا کوئی ایسا مشکل کام
نہیں، سی سی ٹی وی فوٹیج کے گردو نواح میں جتنے صارفین ہیں ، ان کی اغوا کے
دن سے لاش ملنے تک اگر صرف اپ لوڈ کیا گیا ڈیٹا ریکارڈ ہی نکلوالیا جائے کہ
کون سے صارف نے انٹرنیٹ کا ایسا بے تحاشا استعمال کیا تو کیس کو حل کرنے
میں اہم پیش رفت مل سکتی ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے جنسی شیطانوں اور نفسیاتی
مریضوں کے لئے ڈارک ویب پر باقاعدہ اس طرح کا تشدد اور جنسی فعل کی لائیو
اسٹریمنگ کی جاتی ہے۔یہ لاکھوں ڈالر کا بزنس ہے ۔میں سخت حیران ہوں سخت
پریشان اور شرمندہ ہوں کہ اس ملک میں ایسے شیطان بھی وجود ہیں جو پیسے کے
لئے ایسا گھناؤنا اور غلیظ ترین شرمناک کام انجام دیتے ہیں کہ شیطان بھی
شرما جائے۔ اپنی ہی معصوم کمسن بچیوں کو اس طرح وحشت و بربریت کا نشانہ بنا
کر لائیو دکھاتے ہیں۔ حکومت کو ہر حال میں ان افراد کو کیفر کردار تک
پہنچانا ہوگا۔
معروف ٹی وی اینکر اعجاز مہاری،نجی ٹی وی کے سی او ڈاکٹر عبدﷲ تبسم ،اینکر
پرسن وقاص عزیز،رخشان میر،عدنان عالم،کامران نسیم بٹالوی،مسعود چوہدری ،رانا
امیر،رانا سہیل،محسن عقیل ،حاجی طارق محمود ،ملک عاصم،چوہدری تنویر
سرور،نوید ملک،کامران خوشی،ڈاکٹر احسن رشید،ریڈیو براڈ کاسٹر طفیل شریف ،خاتون
اینکر پرسن عروسہ خان،ثروت روبینہ،مصباح چوہدری ،نبیلہ طارق ایڈدوکیٹ نے
سنئیر کالم نگار و صدر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ ملک سلمان کے ہمراہ وفد
کی صورت میں شرکت کی۔شرکاء وفد کا کہنا تھا کہ ملکی املاک کو نقصان پہنچانے
والے شرپسند ہیں۔ ا س سانحہ کی آڑ میں لاشوں کی سیاست کرنے والے سیاسی
فنکاروں کو شرم آنی چاہئے۔ سانحہ قصور بربریت اور سفاکیت کی انتہا ہے،اس
شرمناک سانحہ سے ہر آنکھ اشکبار ہے اور دل رورہا ہے۔مظلوم بیٹی کو انصاف
دلانے اور قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کیلئے قلمی جدوجہد جاری رکھیں
گے۔ترجمان پنجاب گورنمنٹ ملک احمد خان نے کہا کہ کالم نویسوں کا مثبت کردار
لائق تحسین ہے ،حکومت پنجاب کالم نگاروں کی بین الاقوامی سطح کی سب سے بڑی
اور منظم تنظیم پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے وفد کی شکرگزار ہے کہ آپ
حقائق جاننے کیلئے قصور تشریف لائے۔انہوں نے میڈیا ٹیم کو یقین دلایا کہ
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس المناک سانحہ کو ذاتی دلچسی لیکر خود
نگرانی کر رہے ہیں۔قصور پریس کلب کے صدرحاجی مہر شریف نے پی ایف سی کے وفد
کو سانحہ قصور کے حوالے سے تفصیلاً اگاہ کیا اور ان کے اعزاز میں ظہرانہ
دیا۔ضلعی چئیرمین رانا سکندرحیات اور ڈسٹرکٹ وائس چئیرمین نے ڈسٹرکٹ کونسل
ہال قصور میں صحافیوں کو اب تک پیش رفت پر تفصیلی بریفنگ دی ،ملک اعجاز
احمد خان ڈسٹرکٹ وائس چئیرمین قصور نے صحافیوں کو قصور آمد اور زینب کی
آواز بننے پر شکریہ ادا کیا اور ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ |