“ ارے والی بیٹا آپ کب آئے “ ندا کی ماما نے والی کو
دیکھا تو پوچھنے لگی۔
“ جی آنٹی میں ابھی آیا ہی ہوں ندا یونیورسٹی نہیں آ رہی تھی تو سوچا خیریت
معلوم کر لوں ۔ بائی دا وے کیسی ہیں آپ ؟ والی نے روانی سے کہا۔
“ اللہ کا کرم ہے بیٹا ہاں یہ بیمار تھی اس لئے نہیں آ رہی تھی۔ ارے بیٹا
تم آ ہی گئے ہو تو کچھ سمجھاؤں اس کو ، میں جانتی ہوں یہ تمہاری بہت مانتی
ہے۔ “
“کس بارے میں آنٹی ؟ “ والی نے حیرانی سے پوچھا
“ تمہیں نہیں پتا ؟ “ والی نے نفی میں سر ہلایا
“ ندا کا پرپوزل آیا ہے۔ لڑکا دبئی میں سرجن ہے انکو ندا بہت پسند آئی ہے
مگر یہ مان ہی نہیں رہی، اب تم ہی سمجھاؤ اسکو میری تو سنتی نہیں۔ تم دونوں
بچپن کے دوست ہو جو بات یہ مجھے نہیں بتا رہی شاید تمہیں بتا دے۔“
“ اماں بس کریں میری طرف سے ہاں ہی سمجھیں آپ “ ندا نے دبے دبے غصے سے کہا۔
“ ارے واہ مان گئی میں ابھی ان کو فون کر کے آتی ہوں ۔“ وہ اسکی ہاں سن کر
اتنا خوش ہوئی کہ جھٹ سے فون کرنے چلی گئیں۔ والی حیرانی سے ساری کاروائی
دیکھ رہا تھا اور سن سمجھ بھی رہا تھا۔
“ تو اسی لئے اس دن وہ مجھ سے محبت کا اظہار کر رہی تھی، اور ،،، والی نے
دل میں سوچا
“ کہاں کھو گئے ؟ “ اسے گم سم دیکھ کر ندا نے پوچھا
“ نہیں کہیں نہیں ،،، بس چلتا ہوں اب میں، بیسٹ آف لک فار یور نیو لائف “
والی نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہاں جہاں نمی کی کرنیں جگمگا رہی تھی
اس نے اب وہاں کھڑا رہنا مناسب نہیں سمجھا تو لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے
چلا گیا۔
بہت سارے دن یونہی گزر گئے میری اور اسکی دوستی گہری ہوتی گئی۔ میں دن رات
بس اسکا ہی سوچتا رہتا، میرے دوست گلہ کر کر کے مجھ سے دور ہوتے گئے، مجھے
اسکے سوا کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ مجھے بس خیال تھا تو اسکا ہی وہ میری روح
میں بستی جا رہی تھی اسکی پاک دامنی نے مجھے اسکا دیوانہ بنا دیا تھا۔ ایک
دن اسکو نہ دیکھتا تو پاگل ہو جاتا تھا۔ ندا کی منگنی ہو چکی تھی اور وہ
کافی خوش تھی یا خوش ہونے کی ایکٹنگ کرتی تھی، میں نے جاننے کی کبھی کوشش
نہیں کی ، میں سب سے دور ہو کر اسکے قریب ہوتا جا رہا تھا۔ ایسے ہی دن گزر
رہے تھے کہ اس نے اچانک یونیورسٹی آنا چھوڑ دیا۔
وہ سانس لینے کے لئے رکا، پھر وہ آہستہ آہستہ چلتا کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا
ہوگیا۔ حسنہ کو لگا جیسے اسکی آنکھوں میں آنسو ہوں شاید وہ انہیں چھپانے کے
لئے وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا ہو۔ اس نے سوچا، کچھ لمحے خاموشی سے گزر گئے والی
کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا کچھ لمحوں بعد اسنے بولنا شروع کیا۔
“ نہ وہ یونی آ رہی تھی ، نہ میری کال اٹینڈ کر رہی تھی تب میں نے اسکے گھر
جانے کا فیصلہ کیا۔ اگلی صبح میں سیدھا اسکے گھر گیا۔ “ والی نے لمبا سانس
لیا حسنہ کو لگ رہا تھا جیسے وہ بہت مشکل سے سب بیان کر رہا ہو۔
وہ بھی دھیرے دھیرے چلتی اسکے پاس جا کر کھڑی ہوگئی۔
“پھر “ اسنے والی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ اسنے حسنہ کی طرف دیکھا
تو اسکے لب مسکرا رہے تھے پر موم بتی کی روشنی میں اسکی آنکھوں میں نمی چمک
رہی تھی۔
“ پھر،،،، جب میں نے ،،، جب میں اسکے دروازے پر دستک دی تو ایک ادھیڑ عمر
کے آدمی نے دروازہ کھولا، دروازہ کھولتے ہی اسنے پہلے جو منہ میں پان تھا
اسکو تھوکا۔ میں جلدی سے پیچھے ہٹا، مجھے بہت غصہ آیا اگر ایک بھی چھینٹا
مجھ پہ پر جاتا تو اسکی خیر نہیں تھی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا“
“ارے بابو معاف کرنا میں نے دیکھا نہیں میں سمجھا گلی کا کوئی لونڈا ہوگا۔
یہاں سوٹ بوٹ والا کوئی آتا تو نہیں آپ کہیں غلطی سے تو نہیں آگئے۔“ اتنا
کہہ کر وہ اپنے گندے دانت جن پر پیلگ جمی ہوئی تھی جیسے صدیوں سے صاف نہ
کئے ہو نکال کر ہنسنے لگ گیا
“کس سے ملنا بابو ؟ “ اسنے پوچھا
“کس سے ملنا ہے ؟ “ اسنے پوچھا
“ مم مریم سے “
“ اوووو ،،، مریم سے ؟ “ اسنے معنی خیزی سے منہ ٹیڑھا کر کے اندر کچن میں
کام کرتی مریم کو دیکھتے ہوئے اونچی آواز میں کہا ، وہ بھی اپنا نام پکارے
جانے پر اشتیاق سے دیکھنے لگی۔
“ اچھا تو تم بھی اسکے عاشق ہو ،،، کیوں بابو ؟ “ اسنے آنکھ مارتے ہوئے
اوچھے انداز سے کہا۔
“ کیا بکواس کر رہے ہو ، اور تم ہو کون ؟ مجھے مریم سے ملنا ہے بلاؤ اسے “
والی نے دبے دبے غصے سے کہا۔ مریم بھی اپنا کام چھوڑ کر وہاں آگئی پر وہ
دیکھ نہیں پا رہی تھی کہ دروازے پر کون ہے اسنے آدھا دروازہ بند کیا ہوا
تھا۔
“ نہیں بلاتا اسے کیا کرو گے ؟ “ اسنے عجیب ڈھیٹ پن سے کہا
“ کون ہے “ اتنے میں مریم پورا دروازہ کھول کر آگے آئی والی کو دیکھ کر
اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔
“ آآ آپ “ اسنے حیرانی سے کہا۔ (جاری ہے ) |