لمبے بالوں والی کٹھ پُتلی

کہانی ایک لمبے بالوں والی کٹھ پُتلی کی ہے جو اپنے مالک کے گھر میں ہمیشہ نظرانداز رہتی ہے اور کم کھانا پاتی ہے۔ احساسِ محرومی میں وہ گھر چھوڑ کر جنگل کی طرف نکل جاتی ہے، جہاں ایک جادوئی مارخور اسے ایک کٹھ پتلیوں کے گاؤں پہنچا دیتا ہے۔ وہاں وہ مختلف ہنر سیکھنے کی کوشش کرتی ہے مگر ناکام رہتی ہے، آخرکار اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کا اصل ہنر نظم لکھنا ہے۔ بعد میں وہ اپنے مالک اور پرانے دوستوں کو یاد کر کے واپس جانے کا فیصلہ کرتی ہے، مگر راستے میں جادوگر سے سامنا ہوتا ہے جو کٹھ پتلیوں کا دشمن نکلتا ہے۔ مارخور اور گاؤں والے اسے بچا لیتے ہیں۔ آخر میں وہ وعدہ کرتی ہے کہ سب کو بتائے گی کہ کٹھ پتلیوں کا اصل دشمن کون ہے اور دوست کون۔
لمبے بالوں والی کٹھ پُتلی
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بوڑھا آدمی رہتا تھا ۔ اس کے پاس کچھ کٹھ پتلیاں تھیں ، جن سے وہ بچوں کو کہانیاں سناتا اور تھوڑے بہت پیسے کماتا۔
آج دوپہر بھی گاؤں کے چوک میں کٹھ تیلیوں کا تماشا لگا ہوا تھا. بچے خوشی سے شور مچا رہے تھے اور اپنے پسندیدہ کرداروں کے نام لے کر نعرے لگا رہے تھے-
بوڑھے آدمی کے پاس تین کٹھ پتلیاں تھیں ۔ ایک لمبے بالوں والی کٹھ پُتلی،ایک چھوٹے بالوں والا کٹھ پُتلی اور بوڑھا کٹھ پتلی ۔ آج بھی ہمیشہ کی طرح چھوٹے بالوں والا کٹھ پتلی بادشاہ بنا، بوڑھا کچھ پتلی وزیر اور لمبے والوں والی کٹھ پتلی کو کسی جرم کی سزا دی جا رہی تھی۔ یہ تماشہ شام تک چلا۔
تماشے کے بعد گھر آکر بوڑھا آدمی کٹھ پتلیوں کو کھانا دیتا۔ ہمیشہ لمبے بالوں والی کٹھ پتلی کو کم کھانا ملتا ، اسے محسوس ہونے لگا کہ ہنر نہ ہونے کی وجہ سے کوئی اس سے پیار نہیں کرتا ، اس کو بہت غصہ آیا اس کے ذہن میں آیا کہ وہ گھر کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلی جائے،وہ غصے سے ادھر اُدھر کی چیزوں کو ٹانگیں مارنے لگی اور اچانک ایک صندوق کھل گیا کٹھ پُتلی اس کو دیکھ کر ڈر گئی، اس صندوق کے اندر کٹھ پتلیوں کے کٹے ہوئے سر، پاؤں، ہاتھ، ناک وغیرہ تھے۔ صندوق کے کھلنے کی آواز سن کر بوڑھا کٹھ پتلی بھی وہاں آگیا، گھبرائی ہوئی کٹھ پُتلی کو دیکھ کر اس نے تیزی سے صندوق بند کر دیا۔ لبے والوں والی کٹھ پتلی کے پوچھنے سے پہلے ہی اس نے بتایا کہ جن کٹھ پتلیوں نے باہر جنگل جانے کی کوشش کی وہ مارخور کا شکار بن گئیں، اسی لیے ہمارے مالک ہمیں بچا کر گھر میں رکھتے ہیں۔
پریشانی سے اس کو رات بھر نیند نہ آئی اور وہ ارد گرد ٹہلنے لگی اسے نیچے سے کسی کے بولنے کی آواز آئی جیسے بوڑھا ملک کِسی انسان سے بات کر رہا ہو، وہ چھپ کر سننے لگی۔ بوڑھا آدمی جادوگر جیسے شخص سے بات کر رہا تھا کہ وہ لمبے بالوں والی کٹھ پتلی کو بیچ دے گا۔ یہ سن کر وہ اور زیادہ خوفزدہ ہو گئی اس نے سوچا بیچے جانے سے اچھا ہے کوئی مارخور ہی اس کو کھا لے، اس نے پوٹلی میں سامان باندھا اور جنگل کی طرف نکل گئی۔ چلتے چلتے صبح ہو چکی تھی اور وہ بہت تھک بھی چکی تھی اس نے دور سے بکری کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھا اور قدرت کا تحفہ سمجھ کر اس پر بیٹھ گئی۔ کُچھ ہی فاصلہ طے کرنے پر بکری کے قدم بھاری ہونے لگے سینگ لمبے ہو گئے اور لمحے بھر میں وہ مارخور بن چکا تھا ۔مارخور نے جب اس سے بات کرنے کے لیے سر گھمایا تو کٹھ پُتلی اس کی سانس گلے میں اٹک گئی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا آگیا اور وہ بےہوش ہو گئی۔
اس کو ہوش آیا تو اسے لگا وہ خواب دیکھ رہی ہے۔ وادیوں سے گھرا ہوا یہ چھوٹا سا گاؤں خوشحالی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ یہ گاؤں صرف کٹھ پتلیوں کا تھا ۔ چھوٹی کٹھ پتلیاں بستہ اٹھائے گھر آرہی تھیں،یہ دوپہر کا وقت تھا جب بچے اسکول سے گھر آتے ہیں۔چھوٹے بالوں والے کٹھ پتلی دکانوں کے باہر بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور گھروں سے کھانوں کی طرح طرح کی خوشبو آ رہی تھیں۔ یہ دیکھ کر وہ بہت حیران ہوئی اس نے کٹھ پتلیوں کی ایسی جگہ پہلے کبھی نہ دیکھی تھی اس کے گاؤں داخل ہونے کے بعد ہی مارخور غائب ہو چکا تھا ۔ گاؤں کی ایک بوڑھی کٹھ پُتلی نے اس کو گاؤں آنے پر خوش آمدید کہا اور گاوں دیکھانے لگی ۔ لمبے بالوں والی کٹھ پتلی نے اسے بتایا کہ وہ اپنے ہنر کو تلاش کرنا چاہتی ہے تو بوڑھی کٹھ پُتلی نے بتایا کہ اس گاؤں میں سب ہنر مند ہیں تم کِسی کی بھی مدد لے سکتی ہو۔وہ اسے مٹی کے برتن بنانے والی دکان میں لے گئی، اس نے گھنٹوں کوشش کی مگر اس سے ایک مٹکا بھی نہ بنا اس لئی۔اس کے بعد وہ قالین کی دکان پر گئی وہاں بھی اسے کُچھ سمجھ نہ آیا۔اگلے دن بھی وہ لگاتار مختلف مکانوں جاتی رہی مگر اس سے کچھ نہ سیکھا گیا۔ آخر میں صرف ایک دکان رہتی تھی اس نے سوچا کہ وہ اب بہت زیادہ محنت کرے گی، اور اپنا ہنر ڈھونڈ کر ہی رہے گی۔ وہ ہر روز خطاطی کی مشق کرنے دکانوں اور اسکولوں کے باہر لگی تختوں کو لکھتی رہتی اتنے دن محنت اور کوشش کرنے کے بعد وہ تھک گئی وہ اپنے قلم سے مختلف جذبات اور خیالات لکھنے لگی جو اس نے اس گاؤں میں آنے کے بعد محسوس کیے تھے، وہ لکھتی کہ کیسے کٹھ پتلیاں خاندان کی صورت میں رہتیں اور بازار کی چہل پہل کو بھی نظمیہ انداز میں لکھتی۔ آج اس کا اس دکان پر بھی آخری دِن تھا اس دِن جب دکان کے مالک کے پاس گئی تو اس نے بتایا کہ اس ہنر نظم لکھنا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئی،اسے اپنے ارد گرد پھول کھیلتے محسوس ہوئے، اس کے قدم خود بخود رقص کرنے لگے۔ اس نے جا کر پورے گاؤں میں بتایا، اب وہ ہر روز گاؤں میں جگہ جگہ گھومتی اور نظمیں لکھتی۔
اسے ایک دن اپنا بوڑھا مالک اور پرانے کٹھ پتلی بہت یاد آئے، اس نے سوچا مجھے میرا ہنر مل گیا ہے، مجھے اب واپس چلے جانا چاہیے وہ گاؤں کے سرپنج کے پاس گئی اور گزارش کی کہ اس کو مار خور سے ملوایا جائے وہ اسے مارخور کی غار میں لے گيا۔ اس نے مار خور کا شکریہ ادا کیا اور گاؤں سے جانے کی اجازت مانگی، مارخور نے اسے خوشی خوشی اجازت دے دی۔
آخری دن آیا، مارخور اور گاؤں کے سب لوگ اسے الوداع کہنے آئے تھے باری باری سب اس سے ملے اور تحفے دیے،اس نے بھی سب کا شکریہ ادا کيا اور سفر پر روانہ ہوئی۔ اب وہ چلتے چلتے جنگل کے درمیاں آپہنچی تھی اسے بہت تھکان بھی محسوس ہو رہی تھی تھوڑی دیر کے لیے وہ درخت کے نیچے بیٹھ گئی اور سو گئی ، اسے اچانک ایک آواز آئی اس کی آواز سے آنکھ کھل گئی اس نے دیکھا سامنے ایک خوفناک انسان کھڑا ہے جو اس نے پہلے بھی دیکھا تھا وہ جادو گر تھا اس نے اسے تب دیکھا تھا جب وہ چھپ کر اپنے بیچے جانے کی باتیں سن بھی رہی تھی اس کے پاس ایک قینچی تھی اس نے قینچی کو جب ہوا میں گھمایا تو اس میں سے چمکتی ہوئی روشنی نکلی اور ٹوٹی ہوئی خوفناک کٹھ پتلیاں سامنے آ کھڑی ہوئیں وہ کٹھ پتلیاں تیزی سے لمبے والوں والی کٹھ پتلی کی طرف بڑھیں اور لمبے بالوں والی کٹھ پُتلی کو منہ سے دبوچ لیا، اس کو آنکھوں میں حیرت تھی، اس کو لگا آج اس کا آخری دِن ہے اور وہ مرجائے گی۔ لیکن مار خور اور گاؤں والے وہاں وہاں پہنچ جاتے ہیں اور جادو گر پر حملہ کر دیتے ہیں،اس طرح وہ بچنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اس وقت اسے سمجھ میں آتا ہے کہ جادوگر ہی کٹھ پتلیوں کو مارتا تھا۔
وہ پھر سے مارخور اور گاؤں والوں کا شکریہ ادا کرتی ہے۔ اس بار مار خور اور گاؤں والے اسے گھر تک چھوڑنے اس کے ساتھ جاتے ہیں۔ لمبے بالوں والی کٹھ پتلی کہتی ہے کہ وہ سب کو جاکر بتائے گی کہ کٹھ پتلیوں کا دشمن کون ہے اور دوست کون ہے۔

 

Ayesha Yaqoob
About the Author: Ayesha Yaqoob Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.