میں نثار ہو گیا تم پر دل و جاں سے نثار

میں شہر سے باہر تھا کہ اچانک خبر ملی کہ تحریک پاکستان کے مجاہد اور چلتی پھرتی تاریخ نثار احمد نثار اﷲ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ تمام تر کوشش کے باوجود میں نماز جنازہ میں نہ پہنچ سکا جس کا مجھے زندگی بھر افسوس رہے گا۔ نثار احمد نثار کے ساتھ میرا ذاتی تعلق بہت گہرا تھا۔ آئی ٹین ون میں میرے والد صاحب کی برسی پر وہ تشریف لائے تو وہاں لوگوں نے میرے والد محترم راجہ چنن دین قمر کی بطور استاد اور بطور سماجی رہنماء خدمات کا جی بھر کے تذکرہ کیا۔ نثار احمد نثار میری والد صاحب سے محبت اور خدمت کے حوالے سے مجھ سے بہت خوش تھے۔ اُن سے میرے تعلقات کا اتنا گہرا رشتہ تھا کہ میں نے اپنے دوسرے بیٹے کا نام بھی زین العابدین انہی کے کہنے پر رکھا۔ میری کتاب ’’جس دیس میں گنگا بہتی ہے‘‘ پر بھی انہوں نے دل کھول کر اظہار خیال کیا۔ میں جب کبھی اداس ہوتا تو کمیٹی چوک میں پہلے اُن کی جیولری کی شاپ جو بعد میں کتب خانہ میں تبدیل ہو گئی تھی پر حاضر ہو جاتا پھر دیر تک باتیں ہوتیں لیکن یہ باتیں ملکی، قومی اور بین الاقوامی معاملات سے متعلق ہوتیں۔ نثار احمد نثار کے خلوص اور جذبہ انسانیت کا صلہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کو یہ دیا ان کے تینوں بیٹے ڈاکٹر جمال ناصر، ڈاکٹر زبیر، سہیل ناصر اپنے کردار اور کارکردگی سے ملک قوم اور انسانیت کی فلاح و بہبود میں مسلسل لگے ہوئے ہیں۔ یوں اُن کی اولاد ان کے لئے صدقہ جاریہ بن گئی ہے۔ یہی کسی شخص کی سب سے بڑی خوش بختی ہوتی ہے کہ اولاد نیک، صالح اور فرمانبردار ہو۔ نثار احمد نثار کی یادداشت کمال کی تھی۔ تحریک پاکستان کے اس ننھے مجاہد کی زبانی بہت ساری داستانیں مجھے سننے کو ملیں۔ وہ بغیر کسی وقفے کے کہانی کی شکل میں آزادی کی یادداشتیں مجھے سناتے تو میں بڑے ذوق و شوق سے وہ مناظر دل و دماغ میں محفوظ کرتا۔
 
نثاراحمد نثار کو بابائے قوم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں سیاسی تحریک کا اہم حصہ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔مسلم لیگ کے پرچم تلے انہوں نے ملک میں جمہوریت کے فروغ و تحفظ کے لئے اپنی زندگی وقف کئے رکھی۔ معاشرتی اور سیاسی مسائل پرکالم نگاری میں بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا یا اور صحافت کے محاذ پر آخری دم تک سرگرم عمل رہے۔ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشیں اور بھارت کا اصل روپ بے نقاب کرنے میں انہوں نے کبھی نہ تو کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیا نہ کوئی کسر چھوڑی۔ بقول نثار احمد نثار کے بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پیارومحبت امن وسکون اور بغیر جنگ تنازعات کو طے کرنے کی پاکستانی قیادت کی کوششیں ہمیشہ جاری رہی ہیں، پاکستان نے بھارت کو جنگ نہ کرنے کے معاہدے کی پیش کش بھی کی، مگر بھارت کی طرف سے آج تک کوئی معقول جواب نہیں ملا جبکہ اس کی سیاسی سرگرم جماعتیں ہمیشہ خوف زدہ ہو کر بھارتی عوام میں جنگجویانہ جذبات پیداکرتی رہی ہیں اور خاص طور پر ہندوستان کی مسلم اقلیت ان کا نشانہ رہی ہے۔ آزادی کے بعد اس کے نصاب میں مسلم اور پاکستان دشمنی کے الفاظ واضح طور پر پڑھے جاسکتے ہیں، جبکہ پاکستان نے ہمیشہ اچھے ہمسائے کی طرح پر امن رہنے کی کوشش کی، ان دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں ۔ مگربھارت میں اب جو سیاسی جماعت برسراقتدار آئی ہے، اسکے منشور میں موجود ہیکہ وہ ہر قیمت پر ہندوستانی تقسیم کو ختم کرنا چاہتی ہے اور مسلمان اقلیت کے خلاف فضا کو ہروقت زہر آلود رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کا اظہار میڈیا کے ذریعے پوری دنیا اور عوامی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے جبکہ ہمارا رویہ پر امن پالیسی پر مبنی رہا ہے۔ ہماری حکومت نے جنگ نہ کرنے کی پیش کشیں کیں جسے کبھی بھی نہ قبول کیا گیا، جبکہ پاکستانی حکومت نے چین اور بھارت جنگ کے درمیان حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی، حقائق ، حقائق ہی ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا بہت سے مسائل دونوں ملکوں کے درمیان نصف صدی سے موجود ہیں۔ہندوستان نے ڈاکٹر گراہم کو ہندوستان کا ویزہ دینے سے بھی انکار کر دیا جسے اقوام متحدہ نے اپنا نمائندہ برائے کشمیر مقرر کیا تھا۔ اس مسئلیپر ہندوستان کی موجودہ حکومت کا سیاسی ونگ ہر قیمت پر بھارت میں مسلم اقلیت کے خلاف فضا کو گرم رکھنا چاہتا ہے۔ پھر یہ ماحول بابری مسجد سے لے کر بھارت کے فلمی مرکز تک قائم رکھا جارہا ہے ہندوستان کے میدانوں میں اور سڑکوں پر آر، ایس، ایس کے رضا کار پریڈ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،جنہیں ہندومسلم فسادات کے دوران استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ پاکستان میں اس قسم کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا ہے، اب تقسیم کے بعد جغرافیہ تبدیل کرنا بھارتی حکومت کی پالیسیوں کا مظہر ہے۔ ہمارے سیاسی رہنماوں کو شاید اس کا ادراک نہیں کہ بھارت کیاچاہتا ہے دو کروڑ آر ایس ایس کے مسلح رضا کار بھارت کے شہروں میں نظر آتے ہیں۔ یہ موجودہ حکومت کی عسکری تنظیم ہے جسے پاکستان کی سرحدوں کے خلاف بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے سیاست دان ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے میں مصروف ہیں انہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ تاریخ کا پہیہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرنیوالا ہے، ہندوستانی سیاستدانوں کے دماغ میں ایک بات بسی ہوئی ہیجو کسی طرح بھی پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش میں بنگلہ دیشی رہنماوں کو پھانسی دینے کا عمل جاری ہے۔ بنگلہ دیش بننے کے کچھ عرصہ بعد وہاں کے طالبعلم رہنماؤں کا ایک وفد ہمارے یہاں آیا جو مجھ سے بھی ملا ۔ لیکن اس وفد کو ہمارے سیاستدانوں نے کوئی اہمیت نہیں دی اور اسے پذیرائی نہ ملی۔ مگر ہندوستان حکومت ان کی حرکات پر نگاہ رکھے ہوئے تھی اس لئے ان رہنماؤں کو پھانسی چڑھا دیا گیا جس پر سیاسی طور پر کوئی احتجاج بھی نہیں کیا گیا۔ ہندوستان کی پالیسی یہ ہے کہ ہر اس شخص کو سین سے ہٹا دیا جائے جو پاکستان کی بات کرتا ہو، حالانکہ ہمیں سرکاری طور پر ان رہنماؤں کی پھانسیوں کے خلاف شدید احتجاج کرنا چاہئے ہمیں بھارتی حکومت کے عزائم روکنا ہیں۔ ہمیں اپنے بنگلہ دیشی بھائیوں کی سپورٹ بین الاقوامی سطح پر بھی کرنی چاہئے تھی مگر ہم خاموش رہے۔

Raja Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 94708 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.