تعلیم کا مقصد صرف نوکری کیوں؟

حدیث نبوی ﷺ کی رو سے تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دین میں تعلیم حاصل کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ چونکہ قرآن مجید کی روسے عالم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہو سکتے اور عالم کا ساری رات سونا بھی جاہل کی رات بھر کی عبادت پر بھاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم انسان کو انسان بناتی ہے اور تعلیم سے ہی انسان اپنی پیدائش کا مقصد جان سکتا ہے۔ اور بقول شاعر’’ بے علم نتواں خدارا شناخت‘‘ کہ ان پڑھ تو خدا کو بھی نہیں پہچان سکتا۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے تعلیم حاصل کرنے کا مقصد تعلیم برائے تعلیم نہیں بلکہ تعلیم برائے ملازمت سمجھ لیا ہے۔ پڑھ لکھ کر نوجوان جب مطلوبہ ملازمت حاصل نہیں کر پاتے تو ناامیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب جاتے ہیں ۔ یہی تعلیم ہمارے نوجوانوں میں جہاں احساس برتری کا احساس اجاگر کرتی ہے کہ وہ مطلوبہ ملازمت نہ ملنے پر کسی کام یا معمولی ملازمت کواپنی توہین سمجھتے ہیں وہیں نوجوانوں میں احساس بے مروتی بھی پیدا کرتی ہے۔

جب کسی معاشرے میں مایوسی اور ناامیدی کا کلچر مستقل جگہ بنا لے، تو ایسے زوال آمادہ ماحول میں بہتری اور اصلاح احوال کی گنجائش کم ہی رہ جاتی ہے۔ نوجوان کسی بھی قوم کا مستقبل اور اس کی امید ہوتے ہیں ۔ ہمارے ملک کے کروڑوں نوجوان بھی ملک کے روشن مستقبل کی نوید بن کر اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ آج کل نوجوانوں کی اکثریت خود اپنے مستقبل کے بارے میں مایوس نظر آتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر نوجوان ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے خود ہمت ہار کر بیٹھ جائیں گے تو حالات صحیح رخ پر کیسے گامزن ہوں گے۔ پہلے تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ تعلیم کی اپنی اہمیت ہے اور روزگار کی اپنی۔ اچھی اور معیاری تعلیم سے روزگار کے حصول میں مدد ضرور ملتی ہے لیکن یہ تعلیم حاصل کرنے کا واحد مقصد نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہیے۔

1948میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم ؒ نے فرمایا تھا:
ـ’’جب ایک اوسط سطح کا آدمی بی اے یا ایم اے کر کے سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اپنی دانست میں یہ سمجھنے لگتاہے کہ وہ اپنے کیریئر کی معراج کو پہنچ گیا ہے۔میں اور آپ سب اس سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کی نسبت ایک ایم اے پاس آدمی تھوڑا کماتا ہے۔ بہت سے نام نہاد سرکاری ملازم ، معمولی کام کرنے والے آدمیوں کی نسبت زیادہ تکلیف حالات میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اب میں آپ سے چاہتا ہوں کہ اس پامال راستے اور سوچ سے اپنی جان چھڑائیں ، خاص طور پر کہ جب ہم ایک آزاد پاکستان میں ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ حکومت ہزاروں لوگوں کو نوکریاں دے سکے۔ حکومت صرف ایک مخصوص تعداد میں ملازم بھرتی کر سکتی ہے۔ جبکہ باقی کسی اور کام کے لیے تیار نہیں ہوتے اور غیر مطمئن شخص کی حیثیت سے دوسرے لوگوں کے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعما ل ہوجاتے ہیں‘‘۔

افسوس کی بات ہے کہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجودہماری سوچ میں تبدیلی نہیں آئی۔ نوجوان کسی پر انحصار کرنے کی بجائے معمولی سرمائے سے اپنے کاروبار کا آغاز کر سکتے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں کئی ایسے کامیاب لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے بہت چھوٹے درجے سے کام شروع کیا ، ایمانداری اور محنت کا دامن نہیں چھوڑا اور پھر وہ ترقی کی منازل طے کرتے گئے۔ چھوٹے پیمانے پر کاروبار میں کسی دوکان یا ریڑھی سے آغاز کیا جا سکتا ہے ، جس پر بعد ازاں محنت کر کے اسے کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں ایک بڑی تعداد ان پڑھ لوگوں کی ہے ۔ کاروبار نہ ہونا یا پھر ملازمت نہ ملنا ، ان لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ تو پھر بھی جاب کر کے یا کوئی چھوٹا بڑا کاروبار کر کے زندگی سہل بنا سکتا ہے۔ مگر ایک ایسا انسان جوکہ ان پڑھ ہے اور اس کے پاس وسائل کی بھی کمی ہے ،وہ کیا کرے۔چھوٹے پیمانے پر کاروبار کا آغاز کر کے ایسے لوگوں کی خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے انہیں با عزت روزگار مہیا کیا جا سکتا ہے۔ جب آپ ایک کاروبار شروع کرتے ہیں اور وہ آپ کی محنت کی وجہ سے پروان چڑھتا ہے تو اس وقت آپ کو پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ ساتھ لیبر کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اس طرح آپ ان لوگوں کے لیے وسیلہ روزگار بھی بن سکتے ہیں۔ اپنے کاروبار میں آپ آزادی سے کام کر کے اپنی صلاحیتوں کا بہتر اظہار کر سکتے ہیں اور اچھے نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ نے معمولی ملازمت پرقناعت کر لی تو جولوگ آپ کی مدد کے منتظر ہیں وہ بے روزگار ہو جائیں گے اور آپ بھی ملکی ترقی میں کوئی قابل ذکر کردار نہیں ادا کر پائیں گے۔

جب ملک میں چھوٹے چھوٹے بزنس شروع ہوں گے تو روز گار کے بے شمار مواقع میسر آئیں گے۔ ہمارے ملک میں کئی ایسے بزنس مین موجود ہیں جو کہ اس طرح ہی آگے آئے ۔ انہوں نے چھوٹے پیمانے پر کام شروع کیا اور یوں پھر وہ محنت کرتے گئے اور وہ آج کامیاب لوگوں میں اپنا نام لکھوا چکے ہیں ۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ایسے تمام نوجوان جو صرف پرائیویٹ یا سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں ۔ اگر وہ اپنے چھوٹے یا بڑے کاروبار کی طرف توجہ دیں تو نہ صرف خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں بلکہ کئی دیگر افراد کے لیے بھی وسیلہرروزگار بن سکتے ہیں اور یوں کاروبار کی بدالت وہ ملکی ترقی میں اپنا خاطر خواہ کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔

Malik Khan Sial
About the Author: Malik Khan Sial Read More Articles by Malik Khan Sial: 12 Articles with 13833 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.