قانون ایک ایسا ضابطہء حیات اور دستور العمل ہے جو قوموں
کو نہ صرف رہنے کا سلیقہ سکھاتا ہے بلکہ انہیں جلاء بخشتا ہے اور معاشرے
میں رہنے والوں کو ایک ضابطے کا پابند بناتا ہے جو یکساں طور پر بلا تفریق
رنگ و نسل اور معاشرتی حیثیت کے ہر کسی پر یکساں لاگو ہوتا ہے تاکہ معاشرتی
برائیوں پر قابو پاتے ہوئے ان برائیوں کو روکا جا سکے اور معاشرے میں امن و
امان قائم رہے اور انصاف فراہم ہو سکے۔ جن معاشروں میں قانون کی بالا دستی
نہ ہو وہ معاشرے تباہ و برباد ہوجاتے ہیں اور وہ جنگل کی حیثیت اختیار کر
لیتے ہیں۔ایسے معاشروں میں انسانوں اور درندوں کا فرق ختم ہو جاتا ہے ہر
طرف افراتفری کا راج ہوتا ہے نا انصافی ، ظلم و بربریت اور جرائم اپنے عروج
پر ہوتے ہیں اور جس کی لاٹھی اسکی بھینس کے مصداق قانون صرف اور صرف جابر،
طاقتور اور نام نہاد اشرافیہ کی میراث بن کر رہ جاتا ہے اور یہی وہ لوگ
ہوتے ہیں جو انصاف کی دھجیاں اڑا کر محنت کشوں اور غریبوں کے حق پر ڈاکہ
ڈالتے ہیں۔ قوموں کی ترقی کا راز انکی ذہنی اپج میں پنہاں ہوتا ہے جو قومیں
اور انکے حکمران قانون کی عملداری اور انصاف کی فراہمی میں امتیازی حیثیت
کو مد نظر رکھتی ہیں وہ قومیں ذہنی طور پر انتہائی پستی کا شکار ہوتی ہیں۔
اگر ہم ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں اپنی آزادی کے ستر
سالوں میں شرمندگی کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتامگر اسکے باوجود ہم ایک
آزاد قوم ہیں اور اپنے ہی ملک اور قوم کے لٹیروں کے آہنی شکنجوں میں جکڑے
ہوئے ہیں اور غلامی کی زندگی بسر کرنے پرمجبور ہیں۔ جو قومیں اپنے اسلاف کے
افعال اور کردار سے روگردانی شروع کردیں وہ قومیں برباد ہو جایا کرتی ہیں ۔
قوموں کے کردار اور افعال انکی ذہنیت کی پستی اور بلندی کی غمازی کرتے ہیں
۔جس قوم میں شرافت کا معیار دولت ہو اور قانون کو غریبوں اور محنت کشوں پر
اپنی بالا دستی قائم رکھنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہو بھلا اس قوم کا معیار
کیا ہوگا؟ وقتی فائدے کیلئے جابر اور غاصب ہمیشہ محنت کشوں اور غریبوں کے
حقوق کو پائمال کرنے میں کچھ دریغ نہیں کرتے مگر حق اور سچ کی آواز کو
ہمیشہ کیلئے نہیں دبایا جا سکتااسلئے قانون کی حکمرانی اور انصاف کی تقسیم
کو ہر ایک کیلئے بلا امتیاز فراہم کرنا حکومت وقت کی نہ صرف ذمے داری ہونی
چاہئے جسے پورا کرنا اسکا آئینی فریضہ ہے بلکہ اسے معاشرے میں ایسا کردار
ادا کر کے اس بات کو ثابت کرنا ہے کہ انصاف کے ادارے سب کیلئے یکساں ہیں جو
آج تک نہ ہو سکا ہے اور اسکے لئے صاحب شرف لوگوں کو جو اپنے آپکو اس قوم کا
طرۂ امتیاز سمجھتے ہیں انکا اپنے وطن اور قوم سے ایماندار ہونا اور مخلص
ہونابہت ضروری ہے اور انہیں چاہئے کہ تعلیم کا وہ زیور جس سے وہ آراستہ ہیں
اسے وہ قوم کی خدمت کیلئے صرف کریں ورنہ حضرت علیؑ کا وہ فرمان کہ ــ ’’ـ
علم کمینوں کے ہاتھ میں آجائے تو شر پیدا کرتا اور اگر شرفاء کے ہاتھوں میں
آجائے تو وہ اسے خیر کیلئے استعمال کرتے ہیں ‘‘ آج کے اس دور کیلئے صادق
آتا ہے۔ وقتی فائدے کیلئے مختلف طریقوں سے اس ملک کی دولت کی بندر بانٹ
کرکے ہوس زر کیلئے اپنی دولت کو دگنا کرنا آزاد اور انصاف پسند قوموں کا
شیوہ نہیں ہوا کرتا ۔ ہمارے ملک کو جہاں بیرونی ، سیہونی اور طاغوتی طاقتوں
سے خطرہ لاحق ہے وہاں اپنی دھرتی ہی کی گود میں پلنے والے ان سانپوں کے
پھنوں کو بھی کچلنا ہو گا جو انصاف کی گدی پر بیٹھ کر جنس کی مانند اسکی
سودے بازی کرتے ہیں اور اسکی بولی لگا کر اپنے بے ضمیر ہونیکا ثبوت فراہم
کر رہے ہیں۔ ہمارے وہ ادارے جو قانون کے نفاز کیلئے معرض وجود میں لائے گئے
ہیں ہر آنے والی نئی حکومت انہیں اپنی مرضی سے اپنے مخالفین کیلئے استعمال
کرتی ہے اور جہاں چاہے اور جس طرح چاہے انہیں استعمال کرکے ملک میں انصاف
اور قانون کا جنازہ نکالا جا رہا ہے ۔ ملک کو ذلت کی دلدل میں دھکیل کر
اپنے ذاتی مفادات کیلئے قانون اور انصاف کو اپنے ہاتھ میں لیکر اس سے
کھلواڑ کرنے کی اجازت دینا با ضمیر اور با کردار قوموں کا وطیرہ نہیں ہوا
کرتا۔آزاد قومیں ہمیشہ اپنی آزادی کی خاطر انصاف کی فراہمی اور قانون کی
بالا دستی کیلئے بڑے بڑے مگر مچھوں کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ان
غاصبوں اور ضمیر فروشوں سے اپنے حقوق چھینتی رہی ہیں اور تاریخ اس چیز کی
گواہ ہے کہ آزاد معاشرے میں ایسے استحصال کرنے والے اپنی موت آپ مر گئے اور
انکا نام لینے والا آج اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے
کہ ہماری عدلیہ، سیاستدان اور بیوروکریٹس اپنے کردار سے اپنے وطن سے محبت
کا ثبوت دیتے ہوئے غریبوں اور محنت کشوں کا استحصال کرنا بند کریں قانون
اور انصاف کی بالا دستی کیلئے ہر ممکن کوشش کرکے اسے یکساں بے سہارا اور
طاقتور کیلئے برابری کی بنیاد پر فراہم کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ۔ دن
رات پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے انصاف اور قانون کی بالا دستی
کا ڈھنڈوراپیٹ کر عوام کو بے و قوف بنا کر اپنی دوغلی پالیسی پر عمل پیرا
ہونا نہ صرف اسلام کے اصولوں سے انحراف ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ہمارے
سیاستدان اور بیوروکریٹس کے کردار اور بیانات کے تضاد کیوجہ سے وہ نہ صرف
لوگوں کو دھوکہ دینے کا موجب بن رہے ہیں بلکہ وہ انسانی اور اسلامی تشخص کو
مسخ کر کے پوری دنیا میں اسے بدنام کرنے کا باعث بھی بن رہے ہیں تو یہ کہنا
بے جا نہ ہوگا۔کیونکہ ہمارے سیاستدانوں اور ملک اور قوم کی باگ ڈور
سنبھالنے والوں کے قول اور فعل کے تضاد سے ہمارے معاشرے میں جو خرابیاں
پیدا ہو رہی ہیں وہ ہمارے معاشرے کو تباہی کی دلدل میں دھکیل رہی ہیں ۔ہمیں
اپنے ذاتی مفادات نہیں بلکہ اپنے وطن عزیز اور انسانیت کی ناموس کیلئے ہر
غریب اور امیر کو یکساں انصاف فراہم کرناہے جو نہ صرف ہماری غیرت ملی کا
تقاضا ہے بلکہ ہمیں انسانیت بھی ہمیں یہی سکھاتی ہے۔ور نہ خدا نخواستہ ’’
مٹ جائیگی جب قوم تو انصاف کروگے ‘‘ ؟؟ |