اُم امصائب: حضرت زینب بنتِ علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہا

حضرت زینب بنتِ علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سن 5 ھ میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئیں جو روئے زمین پر سب سے معزز گھرانہ تھا۔آپ کے نانا سیدالانبیاء تو نانی خاتون اول تھیں۔والد شیر خدا تو والدہ سیدۃ النساء تھیں اور آپ کے بھائی شہیدان کربلا تو چاچا شہید موتہ تھے۔یہی وجہ تھی کہ عہد طفلی سے آپ کی تعلیم و تربیت ایسے ہوئی کہ علم و عرفان میں صرف بنو ہاشم ہی نہیں بلکہ تمام قریش میں کوئی لڑکی آپ کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتی تھی۔ آپ میں جلیل القدر باپ کے علم اور دوسرے اوصاف کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے اور زہد و تقویٰ ، عقل وفراست ، عصمت اور عبادت میں اپنی دالدہ سیدۃالنساء خاتون جنت کا نمونہ تھیں۔دراز قد اور متناسب الاعضاء تھیں۔ چہرہ مبارک پراپنے نانا کا جلال اور چال ڈھال میں وقار حیدری نمایاں تھی۔

آپ ؓ اپنے فن خطابت ، راست گوئی ، سچائی اور ظالم کے سامنے بے دھڑک کلمۂ حق کے لئے بہت مشہور تھیں۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے والد حضرت علی ؓبلند پایہ خطیب تھے جو اپنے خطبات اور تقاریر میں فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کو زور بیان اور فصاحت و بلاغت اپنے عظیم باپ سے ورثہ میں ملی۔

جب 60 ھ میں حضرت امام حسینؓ نے اہل کوفہ کی دعوت پر اپنے اہل و عیال اور جانثاروں کی ایک مختصر جماعت کے ساتھ مکہ سے کوفہ کا عزم کیا تو آپ بھی اپنے بیٹوں کے ہمراہ اس قافلے میں شامل ہو گئیں۔ اور جب 10 محرم الحرم61 ھ کو کربلا کا سانحہ پیش آیا اورآپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے بچے، بھتیجے، اور جانثاران اسلام شہید ہوئے ۔ تو اس موقعہ پر آپ نے جس صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا تاریخ میں اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے۔

12 محرم الحرام 61 ھ کو آپ قافلہ حسینی کے پسماندگان کو کربلا سے کوفہ لے گئی، تو کوفہ کے مرد، عورتیں اور بچے سب گھروں سے باہر نکل آئے اور آپ لوگوں کی حالت زار دیکھ کر رونے لگے۔ اس موقع پر آپؓ نے اہل کوفہ کے سامنے ایک عبرت انگیز خطبہ دیتے ہوئے فرمایا۔

’’اے کوفہ والو! اے اپنی زبان سے پھر جانے والو ! تم نے میرے بھائی سے رشتہ بیعت جوڑا اور پھر خود ہی توڑ ڈالا۔ تمھارے دلوں میں کھوٹ اور کینہ ہے۔ تمھاری فطرت میں جھوٹ اور دغا ہے۔ تم نے سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرزند کو جو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں قتل کیا۔ خدا کا قہرتمھارا انتظار کر رہا ہے‘‘۔

اس خطبہ کو سن کر کوفہ والوں کو اس قدر ندامت اور شرمندگی ہوئی کہ ان میں سے اکثر کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ حذلم بن کثیر جو عرب کے فصیح مبلغ تھے انہوں نے جب آپ کا خطبہ سنا تو بے ساختہ کہنے لگے۔ ’’ آپ حق بات کہنے میں کسی سے نہیں ڈرتی ‘‘۔

حضرت زینب بنتِ علیؓ ایک نڈر باپ شیرِخدا کی بیٹی تھیں۔ ظالم سے ظالم حاکم کے سامنے بھی سر جھکانا اُن کی فطرت کے خلاف تھا۔ شہادتِ امام حسینؓ کے بعد جب آپ لوگوں کو قیدی بنا کر یزید کے سامنے پیش کیا گیا تو اُس موقع پر بھی آپؓ نے جرأت کا مظاہر کرتے ہوئے یزید کو اُس کے ظلم و ستم پر دو ٹوک الفاظ میں بغیر کسی ڈر و خوف کے کہا۔

’’اے یزید ! اگر تو نے اﷲ کی زمین کو اس کی وسعتوں کے باوجود ہم لوگوں پر تنگ کردیا ہے اور ہم تیرے قبضے میں آگئے ہیں، ہمیں زنجیروں میں جکڑ کر تیرے پاس لایا گیاہے، تو کیا تو نے یہ سمجھ لیاہے کہ اﷲ رب العزت نے ہمیں ذلت میں مبتلا کردیا ہے اور تجھے عزت عطا کی ہے؟ تیرے سر پر غرور اور تکبر کا نشہ سوار ہے۔

اے یزید ! یقین جان کہ میں تجھ سے سخت نفرت کرتی ہوں اور میں تجھے ذلیل سمجھتی ہوں۔ اگر تو نے یہ سمجھا ہے کہ ہم بکریوں کا ریوڑ ہیں تو عنقریب تجھ پر یہ بات روشن ہو جائے گی کہ ہم قہر و غضب کے عالم میں بپھرے ہوئے شیروں سے بھی زیادہ غضب ناک ہیں‘‘۔

آپؓ کی تمام زندگی مصائب میں گزری۔جب آپ چھ برس کی تھیں تو پہلے آپ کے نانا سیدالانبیاء اور اس کے چھ ماہ بعد والدہ ماجدہ سیدۃ النساء کا انتقال ہوا۔40 ھ میں آپ کے والد اور 50 ھ میں بڑے بھائی کو شہید کیا گیا۔سانحہ کربلا میں بھائی، بھتیجوں ، بیٹوں اور جانثاران اسلام کو اپنی آنکھوں سے جامے شہادت نوش کرتے دیکھا۔ اسی مناسبت سے آپ کی کنیت ام المصائب مشہور ہوگئی۔ آپؓ نے 62 ھ میں شام میں وفات پائی اور آپ ؓ کا مزار دمشق کے ایک قصبے میں ہے۔
 

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 301441 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.