باباجی بھی چلے گئے

 برسوں بیشتر مقامی جاگیردارانہ رویوں ‘ ڈیرے داری کی سیاست کی رد میں کالم لکھا‘ الفاظ کے تیر ونشتر کانشانہ مقامی سیاسی رہنما‘ سیاسی طرز عمل ‘ڈیرہ شاہی بنے تھے‘ چونکہ انسان کو انسان کے تسلط میں رکھنے کی خواہش کی رد اورمذمت ہماری فطرت میں رہی ہے اس لئے اس کالم کے لفظوں میں ہماری فطرت نے کچھ اضافی رنگ ہی بھردیاتھا۔خیر کالم چھپا تو صبح ہمارے موبائل کی گھنٹی بجی اور نہایت ہی رعب دار مگر شفیق آواز کے مالک انسان نے بہت ہی پیارے انداز میں کہا ’’ثقلین پتر ! اج تاں وڈیراں دی خوب چیرپھاڑ کیتی ہووی‘‘(ثقلین بیٹا‘ آج تو خوب وڈیروں کی چیرپھار کی ہے) اگلی بات نہایت ہی پرشکوہ انداز میں سرائیکی لہجے میں یوں کہی ’’میڈا بچڑا ‘گھبرانویں نئیں‘ حاجی ستار تیڈے نال ھ ‘میڈیاں دعاواں تیڈے نال ہن‘‘(بیٹاگھبرانا نہیں‘ حاجی ستار تمہارے ساتھ ہے اورمیری دعائیں بھی تمہارے لئے ہیں)یہ پہلا براہ راست رابطہ تھا ’’باباجی سے‘‘ انہوں نے پانچ منٹ بات کی مگراس دوران انکے منہ سے صرف دعائیں ہی دعائیں نکلتی رہیں‘

گو کہ اس پہلے براہ راست تعارف سے قبل بھی وہ ہم سے اورہم ان سے خوب واقف تھے‘ بلکہ وہ ہمیں دادا جی ‘اباء کے حوالے سے خوب جانتے تھے‘ دوسرا تعارف صحافتی حوالے سے تھا‘ خاص طورپر ہماری نظریاتی بغاوت کی بدولت انہوں نے ہمیشہ ہی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھا۔ ہمیں یاد ہے کہ جب ان کے ڈیرے پر پہلی دفعہ جانے کااتفاق ہوا ‘تو عجیب سی کیفیت تھی کہ شاید ’’بابا جی‘‘جس انداز میں ٹیلیفون پر بات کررہے تھے ملاقات پروہ لہجہ ‘وہ انداز گفتگو نہ ہو‘ یا شاید ہم انہیں مایوس کردیں کیونکہ ان کی نظروں میں ہمارا جو خاکہ ہوگا ہم اسے یکسر مختلف نکل آئے تو ؟ یہ ساری باتیں ذہن میں گڈمڈ سی تھیں‘ اسی دوران انکے ڈیرے کے ڈرائنگ روم میں جابیٹھے ‘ بابا جی کے بڑے صاحبزادے الحاج امیر اقبال کہاوڑ نے ہمارے مربی محمدحفیظ اﷲ شاہ سے گلے ملنے کے بعد ہمیں گویا بانہوں میں لے لیا اورفرمانے لگے ’’ ثقلین رضا‘ آپ کو بابا جی بہت یاد کرتے رہتے ہیں‘‘ پھراسی حصار کے دوران فرمانے لگے ’’ مگر ان کے لبوں سے دعائیں بھی بہت نکلتی ہیں آپ کیلئے‘‘ کچھ ہی دیر گپ شپ کے دوران الحاج عبدالستار کہاوڑ تشریف لائے‘ احتراماً ہم سب کھڑے ہوگئے اب احتمال تھا کہ شاید انہیں اپنا تعارف کراناپڑے مگر انہوں نے ہمیں دیکھتے ہی بانہوں میں لے لیا اورفرمانے لگے ’’ثقلین ! ایڈا سخت ہتھ نہ رکھا کر‘ سچ لکھنڑا چاہیدا ئے مگر اپنڑی فکر بھی لازمی ہے‘‘(ثقلین اتنا سخت ہاتھ نہ رکھا کرو‘ سچ لکھنا چاہیئے مگر اپنی فکر بھی کرنی چاہئے) ہم ان کی چارپائی کی پائینتی پر بیٹھ گئے وہ بہت ہی مشفقانہ انداز میں گفتگو کرتے رہے ۔یہ ملاقات آدھ گھنٹے پر مشتمل تھی مگر آج سالوں بعد بھی ہمارے ذہن پر نقش ہے‘ اس کے بعد بھی برسوں آمدورفت لگی رہی ان کارویہ ویسا ہی رہا ۔ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوا کہ یہ ڈیرے دار انسان ہیں‘ گو کہ وہ ضلعی سیاست میں ’’بادشاہ گر‘‘ کاکردار اداکرتے رہے لیکن مجال ہے کہ کبھی انہوں نے ہم سے سیاسی امور پربات کی ہو ‘ بلکہ جب کبھی بھی ملاقات ہوئی لوگوں کے سماجی مسائل‘ مشکلات کاذکر زیادہ کرتے ‘ بدلتے رویوں کی بات کرتے لیکن کبھی بھی سیاست کوموضوع نہ بنایا ‘ یہ شاید اس لئے تھا کہ ان کے ملنے والوں میں ہرسیاسی نظریہ کے لوگ شامل تھے انہیں خدشہ رہتاتھا مباداً کہیں کسی کی دل آزاری نہ ہوجائے۔

صاحبو! الحاج عبدالستار کہاوڑ ایک ڈیرے دار انسان تو تھے ہی لیکن ان کی گفتگوان کے چال ڈھال سے کبھی رعونت محسوس نہیں ہو ئی وہ انسان اورانسانیت سے پیارکرنے والے شخص تھے‘ انہو ں نے سیاسی تعلقا ت سے زیادہ ہمیشہ ذاتی رشتوں کو اہمیت دی‘ کوئی ان کابیٹا تھا تو کوئی انکابھائی ‘کسی کیلئے وہ داد ا جی تھے تو کسی کیلئے وہ بھی بھائیوں جیسے‘ ہرعمر کے افراد ان کی محفل میں نظرآتے مگر ان کارویہ ‘اخلاص یکساں رہا‘ ہمیں نہیں یاد کہ کبھی انہوں نے پہلی دفعہ ملنے والے سے روایتی انداز میں تعارف پوچھاہو‘ بات سلام دعا‘ طبیعت صحت سے شروع ہوتی تو پھر جب وہ بندہ محفل سے اٹھتاتو باباجی اس کے شجرہ نسب سے خوب واقف ہوچکے ہوتے ۔ بہت سے انجان چہرے ان سے ملاقات کے بعد ‘’’اپنے ‘‘ بن گئے انہوں نے اپنی شخصیت کے طلسم اور انداز گفتگو بہت سے دل فتح کئے ان کی شخصیت کا جادو گویا ہرجگہ اثرپذیرہوتاتھا۔

کچھ عرصہ قبل ایک غلط فہمی کی بنیاد پر چھپنے والی خبر کے ضمن میں ہمیں وضاحت کیلئے جاناپڑاتو فرمانے لگے’’ میں نے جب سنا کہ یہ غلطی میرے بیٹے ثقلین رضا سے ہوئی ہے تو میں خاموش ہوگیا ‘مجھے پتہ ہے کہ اس نے یہ جان بوجھ کر غلطی نہیں کی ‘‘جب ہم نے معذرت کی تو فرمانے لگے ’’تمہارا میرا رشتہ معافی تلافی والا نہیں ہے‘‘ بعد میں حاجی امیر اقبال کہاوڑ نے بتایا کہ باباجی اس خبر کی وجہ سے بہت ہی پریشان تھے مگر آپ کانام آیاتو ان کی پریشانی کم ہوئی مگرہمیں زندگی بھر قلق رہا کہ وہ خبرہماری نظروں سے گزرکر ہی اخبارکاحصہ بنی تھی۔

اسے ہم اپنی کوتاہی تصورکرتے ہیں کہ ہم اپنے بہت سے پیاروں کی طرح باباجی کے نماز جنازہ میں شامل نہ ہوسکے‘ مگران کے جنازے میں اتنے لوگ شامل تھے کہ بس نظردائیں بائیں ہی گھومتی رہ گئی‘ اب لگتا ہے کہ باباجی ناراض ہونگے کہ ’’ثقلین! بیوفائی کرگئے ناں‘‘
 

Saqlain Raza
About the Author: Saqlain Raza Read More Articles by Saqlain Raza: 23 Articles with 19712 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.