اہل بیت کی محبت خدا اور
رسول کی محبت ہے اور انکا بغض خدا اور رسول کا بغض ہے(حاکم ) ٭ آپ صلی اللہ
علیہ و سلم نے فرمایا :میرے اہل بیت زمین والوں کے لئے امان ہیں(دیلمی ) ٭
جس نماز میں اہل بیت پر درود نہ پڑھا جائے وہ نماز غیر مقبول ہے(دار قطنی،
بیھقی ) ٭ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :اے اللہ تو ان سے راضی ہوجا
جس طرح میں ان سے راضی ہوں (طبرانی ) حب اہل بیت کی ترغیب اور اسکے ثمرات و
برکات : ٭ اہل بیت کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے اور اس
محبت پر جسکی موت واقع ہو وہ جنت میں داخل ہوگا اور اسے شفاعت نصیب
ہوگی(دیلمی، متقی ھندی) ٭ اہل بیت سے محبت رکھنے والے سے خدا اور اسکا رسول
محبت رکھتے ہیں(ترمذی، ابن حبان) ٭ اہل بیت سے محبت رکھنے والا روز قیامت
اہل بیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں ہوگا اور میدان حشر ہی
میں انکی معیت میں اللہ کے رزق سے کھائیگا اور پئے گا (طبرانی، ترمذی، احمد)
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ رب العزت کی قسم کسی شخص کے دل
میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوگاجب تک ان سے (اہل بیت سے) اللہ کیلئے
اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے (ابن ماجہ، حاکم ) اہل بیت کی ابدی و
سرمدی حقانیت : ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اس لطیف خبیر رب
نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں چیزیں (قرآن اور اہل بیت) کبھی بھی جدا نہیں
ہونگی یہاں تک کہ میرے پاس حوض (کوثر) پر حاضر ہونگی(طبرانی) ٭ آپ صلی اللہ
علیہ و سلم نے فرمایا : اگر تم انکی اتباع کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں
ہوگے(حاکم ) فضائل سیدنا علی علیہ السلام : ٭ سیدنا علی اللہ اور اسکے رسول
کے محبوب ہیں (بخاری، مسلم، ترمذی) ٭ آپ نے فرمایا : اللہ علی پر رحم
فرمائے۔ اے اللہ یہ جہاں کہیں بھی ہو حق ان کے ساتھ رہے(ترمذی، حاکم،
طبرانی) ٭ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس کا میں مولا ہوں اسکا علی
مولا ہے(ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، طبرانی، مستدرک، احمد، ابن ابی شیبہ) ٭
علی کے چہرے کا دیکھنا بھی عبادت ہے(ابن عساکر، طبرانی، حاکم ) ٭ آپ نے
فرمایا : اے علی تو دنیا و آخرت میں سردار ہے تیرا محبوب میرا محبوب ہے اور
میرا محبوب اللہ کا محبوب ہے اور تیرا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن
اللہ کا دشمن ہے اور اسکے لئے بربادی ہے جو میرے بعد تمہارے ساتھ بغض
رکھے(حاکم ) سیدہ فاطمہ :٭ سیدہ فاطمہ دنیا وآخرت میں عورتوں میں افضل اور
انکی سردار ہیں (بخاری، مسلم، ترمذی،نسائی، احمد، حاکم، طبرانی) ٭ روزقیامت
اہل محشر کو ندا دیجائیگی: اے محشر والو اپنے سروں کو جھکالو اور اپنی
نگاہیں نیچے کرلو تاکہ فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پل صراط سے گذر
جائیں۔ پس آپ گزر جائینگی اور آپکے ساتھ حورعین میں سے چمکتی بجلیوں کی طرح
ستر ہزار خادمائیں ہونگی (حاکم، خطیب، محب طبری) آپ نے فرمایا : حسن اور
حسین تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔ اہتمام شہادت معرکۂ کربلا اور واقعۂ
شہادت تاریخ کا ایسا دل سوز و جاں گداز باب ہے جسکے بیان سے دل پگھل جائیں
چنانچہ آج بھی جبکہ اس واقعہ کو تقریبا چودہ صدیاں گزرگئی ہیں ،اھل بیت
اطہار کے مصائب وآلام اور باطل پرستوں کی جانب سے ان پر ڈھائے گئے ظلم و
ستم کا ذکر ہوتا ہے تو روح کانپ اٹھتی ہے اور دلوں میں رنج و غم اور کرب
والم کی جو کیفیت پائی جاتی ہے زبان و قلم اس کیفیت کو کما حقہ دائرہ بیان
میں ظاہر کرنے سے عاجز و قاصر ہیں۔ خدا جانے کیا کیا اسرار ورموز شہادت
امام حسین رضی اللہ عنہ میں پوشیدہ تھے اور کیا کیا حکمتیں اور مصلحتیں اس
شہادت سے وابستہ تھیں۔ بہر حال حق تعالیٰ کو اسکا اہتمام منظور تھا اسی لئے
اسکے وقوع سے صدیوں پہلے اسکے چرچے ہوگئے۔ چنانچہ بدایہ ونھایہ میں ہے کہ
لوگوں کا ایک لشکر جنگ کے سلسلہ میں روم کی طرف گیا اور وہاں انہوں نے ایک
کنیسا (گرجاگھر) میں یہ شعر لکھا ہوا پایا: أترجوامۃ قتلت حسینا : شفاعۃ
جدہ یوم الحساب یعنی کیا وہ قوم جس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا
ہے یہ امیدرکھتی ہے کہ قیامت کے دن انکے جد امجد اسکی شفاعت بھی کرینگے تو
لوگوں نے سوال کیا کہ یہ کس کا لکھا ہوا ہے تو کنیسا والوں نے بتایا کہ یہ
شعر تمہارے نبی کی بعثت سے تین سو سال پہلے سے لکھا ہوا ہے۔ ذکر شہادت پر
آنسو بہانا: دین اسلام میں کسی بھی مصیبت یا صدمے کے وقت گریبان چاک کرنے،
یا منھ پر طمانچہ مارنے، سینہ زنی کرنے، اور نوحہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں
، یہ سب غیر اسلامی طریقے ہیں۔ بلکہ اس طرح کے اعمال پر شدید وعیدیں وارد
ہیں۔ البتہ غم کی کیفیت کا طاری ہوجانا فطری امر ہے جس پر آنسو بہانا جائز
ہے اور سنت سے ثابت ہے آحادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ ذکر شہادت امام عالی
مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے ۔غنیۃ الطالبین
میں ہیکہ روز شہادت سے ستر ہزار فرشتے امام حسین رضی اللہ عنہ کی قبر پر
اترے ہیں جو ان پر قیامت تک روتے رہینگے۔ آسمان و زمین کا خون رونا :بیھقی،تاریخ
الخلفاء، ابو نعیم، تھذیب التھذیب اور صواعق محرقہ وغیرہ میں ہیکہ روز
شہادت بیت المقدس میں جو پتھر اٹھایا جاتا تھا اسکے نیچے سے تازہ خون پایا
جاتا تھا۔واقعۂ شہادت کے بعد تین دن تک تاریکی چھائی رہی سورج کو گہن ہوگیا
حتی کہ دن میں تارے نظر آنے لگے اور لوگوں نے گمان کرلیا کہ قیامت قائم
ہوگئی ہے چھ ماہ تک آسمان کے کنارے سرخ رہے ۔ واضح ہو کہ دین اسلام میں
برائی کو روکنے کے تین درجے ہیں ،پہلا درجہ ہاتھ سے روکنا اور یہ اعلیٰ
درجہ ہے، اگر اس پر قدرت نہ ہو تو پھر زبان سے روکنا چاہئے جو درمیانی درجہ
ہے ،اور اس پر بھی قدرت نہ ہو تو کم سے کم دل میں اسکو برا جاننا چاہئے اور
یہ ایمان کا سب سے ادنی درجہ ہے ،اور امام عالی مقام سید الشہداء سیدنا
امام حسین رضی اللہ عنہ کے ایمان کے اکمل و افضل اور اعلی ہونے میں کیا
تامل ہوسکتا ہے، چنانچہ آپ نے معرکۂ کربلا میں صدائے حق بلند کی اور باطل
کی ہر طرح سے مخالفت کی حتی کہ اپنی عظیم شہادت کے ذریعہ امت مسلمہ کو یہ
پیام دیا کہ کامیابی اقتدار حاصل کرنے کو نہیں کہتے، بلکہ اعلیٰ مقصد کا
حصول کامیابی اور کامرانی کہلاتا ہے ،اسی لئے یزید تخت نشین ہوکر بھی
نامراد ہی رہا اور امام عالی مقام شہید ہوکر بھی کامیاب اور بامراد رہے ،اس
لئے کہ آپ کو مقصود حاصل ہوا ،اور آپ کی حقانیت آفتاب سے زیادہ روشن اور
واضح ہے مسلمان تو مسلمان دربار یزید میں اغیار تک نے بھی حقانیت حسینی کی
برملا گواہی دی۔ چنانچہ ’’صواعق محرقہ ‘‘اور’’ سعادت کونین ‘‘میں ہے کہ جب
یزید نے امام عالی مقام کے سر اقدس کے ساتھ بے ادبی کی تو اس وقت یزید کے
پاس قیصر روم کا سفیر بھی موجود تھا اس نے یزیدیوں کے اعمال و حرکات دیکھ
کر کہا :ہمارے پاس ایک جزیرہ کے گرجا میں حضرت عیسی علیہ السلام کے گدھے کے
کھر کا نشان اب تک محفوظ ہے سو ہم ہر سال ہدیے اور نذرانے اور تحفے لیکر
اسکی زیارت کو جاتے ہیں اور اسکی اسی طرح تعظیم کرتے ہیں جس طرح تم لوگ
اپنے کعبہ کی کرتے ہو، پس میں گواہی دیتا ہوں کہ تم لوگ جھوٹے اور باطل
پرست ہو، اسی طرح اس وقت وہاں ایک یہودی بھی تھا اس نے کہا میں سترویں(۷۰)
پشت میں داود علیہ السلام کی اولاد سے ہوں لیکن اب تک یہودی میری تعظیم و
احترام کرتے ہیں اور تم نے اپنے نبی کے فرزند کو بے دریغ قتل کردیا۔ |