6جنوری کو قصور کی معصوم بچی زینب اغوا ہوئی اور 9جنوری
کو کو ڑے کے ڈھیر پر اس کی لاش ملے،قصور میں کسی بھی بچی کے ساتھ ہونے والا
یہ گھناؤنا عمل پہلا نہ تھا اس سے قبل آٹھ بچیاں اس شہر میں بھیڑیوں کا
شکار ہوچکی تھیں۔ زینب ان کا نواں شکار تھی۔ سوشل میڈیا نے واویلا مچایا تو
ٹی وی چینلز بھی میدان میں آگئے اور ہر جانب معصوم زینب کے ساتھ ہونے والی
زیادتی کا شور تھا۔ ہر لکھاری اپنے دکھی جذبات تحریر میں بیان کررہا تھا،
اینکرز اپنے روایتی انداز سے اس لرزاہ خیز واراد پر نوحہ کنا اور ایک دوسرے
سے سبقت لے جانے کی روش پر رواں تھے۔ اسی دوران میڈیا میں ایک طوفان اس وقت
برپا ہوا جب معروف اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے قصور کی معصوم بچی زینب کے
قاتل ، جسے گرفتار کر لیا گیا تھا کے خلاف دھواں دار طریقے سے انکشاف کرتے
ہوئے اس قاتل کا تعلق کسی بین الا اقوامی سائیبر کرائم اور پورینوگرافی
گروہ سے بتایا اورساتھ ہی اس قاتل کے متعدد بنک اکاؤنٹس کا بھی انکشاف کیا
اور خود ہی سپریم کورٹ ، چیف آف آرمی اسٹاف ، وزیرا عظم پاکستان خاقان
عباسی سے اس کی تحقیقات کے لیے کہا۔ جیسا کہ میڈیا میں رپورٹ ہوا ، چیف
جسٹس آ ف پاکستان نے ڈاکٹر شاہد مسعود کا پروگرام رات بارہ بجے دیکھا،
انہوں نے اینکر کی باتوں کی سنگینی کا احساس کر تے ہوئے اسی وقت نوٹس جاری
کردیا اور ڈاکٹر شاہد مسعود کو عدالت طلب کر لیا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کی
عدالت میں طلبی کے ساتھ ساتھ مختلف صحافیوں اور معروف اینکرز کو بھی بلایا
گیا ، جیسا کہ طلبی والے دن دیکھا گیا۔پاکستان میں عدالتی تاریخ کا یہ پہلا
واقعہ تھا جس میں ٹی وی اینکر کے ساتھ دیگر صحافیوں اور اینکرز کو بھی
عدالت پہنچنے کی ہدایت کی۔ ملزم کے خلاف ڈاکٹر شاہد مسعودکے الزامات ایسے
نہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ دنیا میں ایسا نہیں ہورہا۔ بچوں کے
حوالے سے جو باتیں بھی کی جارہی ہیں ، اس موضوع پر بے شمار تحریریں اور اب
فلمیں یو ٹیوب پر بھی دستاب ہیں۔ دنیا میں ایسے کاموں کی حوصلہ افزائی کرنے
والے نفسیاتی مریض بڑی تعداد میں موجود ہیں جو بھاری رقم اپنی اس حوص پر
لگاتے ہیں۔ انٹر نیٹ کے حوالے سے بہت سے کام ایسے ہیں جن کے ذریعہ بھاری
رقم کمائی جارہی ہے۔ ان میں سے اب ایک یہ پورینوگرافی بھی ہے۔
حکومت پنجاب نے بھی سرگرمی دکھائی، خاص طور پر پنجاب کے وزیر قانون نے
ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ ٹی وی ٹاک میں سخت گفتگو کی، ان کا خیال تھا کہ
ڈاکٹر شاہد سستی شہرت کی خاطر ایسا کر رہے ہیں۔ ان کی اسٹوری میں جان نہیں۔
پنجاب حکومت نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے ان الزامات کے لیے اسٹیٹ بنک کے گورنر
کو رپورٹ دینے کے لیے کہا اور ایک جے آئی ٹی بھی تشکیل دی۔گورنر صاحب نے
بھی مستعدی دکھائی اور ایک ہی دن میں اپنی رپورٹ حکومت کو تو پیش کی ساتھ
ہی پریس کانفرنس کر کے میڈیا کو بھی آگاہ کیا کہ اس قاتل کا کوئی بنک
اکاؤنٹ نہیں۔ اور یہ کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات درست نہیں۔اس بات کی
تحقیق اسٹیٹ بنک ہی بہتر کرسکتا تھا ، وہ تو درست تھا لیکن گورنر صاحب کو
پریس کانفرنس میں اپنی رپورٹ کی تائید حاصل کرنا کہاں تک جائز ہے کچھ کہا
نہیں جاسکتا ، کوئی بھی سرکاری ملازم ایسا کرسکتا ہے یا نہیں؟ ڈاکٹر شاہد
مسعود نے پنجاب حکومت کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا
اور صاف الفاظ میں اس کے سامنے حاضر ہونے سے انکار کردیا۔ابھی عدالت میں
پیشی بھی نہیں ہوئی تھی کہ ٹی وی چینلز واضح طور پر دو حصوں میں منقسم
دکھائی دیے ا ایک ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف اور دوسرا گروہ ان کے حق میں
دلائل دیتا نظر آیا۔ زیادہ فضاء ان کے خلاف ہی دکھائی دے رہی تھی۔ صحافی
برادری خصوصاً ٹی وی چینلز پر ایک زبردست طوفان برپا تھا ،ڈاکٹر شاہد مسعود
کی خبر یا معلومات کو ہی غلط نہیں کہا گیا بلکہ ڈاکٹر شاہد مسعود پر پابندی
لگادینے، سزا دینے کی باتیں ہونے لگیں ۔ ایک سیاست داں خاتون نے تو ڈاکٹر
شاہد کو بھانسی تک دینے کی سفارش کر دی۔ بعض سینئر اینکرز بھی ڈاکٹر شاہد
مسعود کے دعوے کو غلط اور بے بنیاد کہتے دکھائی دیے۔ کچھ اور ہوا یا نہیں،
ڈاکٹر شاہد مسعود صحیح ہے یا غلط اس کا فیصلہ تو عدالت ، اپنی قائم کردہ جے
آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر کرے گی لیکن اس پورے کھیل میں یہ چیز واضح
ہوگئی کہ صحافی خاص طور پر ٹی وی چینلز اور ان میں خدمت انجام دینے والے
اینکرز و تجزیہ نگار ایک دوسرے کے لیے کس قسم کے خیالات رکھتے ہیں۔ اللہ
معاف کرے صورت حال کچھ ایسی دکھائی دے رہی تھی کہ جیسے جنگل میں کوئی شکار
اپنے گروہ سے الگ ہوجائے اور آس پاس کے سب ہی چھوٹے بڑے شیر حتیٰ کہ گیدڑ
بھی اس پر ایسے حملہ آور ہوجائیں کہ کوئی اِدھر سے کوئی اُدھر سے اُسے
کھاجانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی سعی میں ہوں۔ اپنی ہی برادری کے
فرد پر اس طرح حملہ آور ہونا ، اس کی اسٹوری درست ہے یا غلط ،یہ تو بات کی
بات تھی، عدالت نے فیصلہ کرنا ہے، عدالت اس کا نوٹس لے چکی تھی ، پھر اس
قسم کی صورت حال کا پیش آنا افسوس ناک اور قابل مزمت ہے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے جو اسٹوری بیان کی اس میں تمام تر الزامات قاتل
پرلگائے اور کہا کہ ان کی تحقیق ہونی چاہیے،بظاہر یہ بات مناسب تھی، ایسا
ہی ہوتا ہے، ہر تجزیہ نگار اپنی رائے کسی بھی مسئلے پر دیتا ہے، اگر کوئی
بات تحقیق طلب ہوتی ہے تو اس کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ اس کی تحقیق
متعلقہ ادارے کریں۔ڈاکٹر شاہد مسعود غلط بھی ہوسکتے ہیں اور درست بھی۔ یہی
طریقہ کار ہے صحافت میں کہ صحافی اپنے اخبار کے ذریعہ اور ٹی وی چینل کے
توسط سے کوئی بھی خبر بریک کرتا ہے، ماضی میں بے شمار خبریں غلط ثابت ہوتی
رہی ہیں، حتیٰ کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی بعض خبریں غلط ثابت ہوئیں، میڈیا میں
چھوٹی سے چھوٹی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ایک معمول کی بات ہے، اسی قسم
کی اسٹوریز پر بڑے بڑے لوگوں پر عتاب بھی آیا، ڈان لیکس ہو ، یا پاناما
لیکس اس قسم کی خبریں صحافی ہی نکال کر لاتے ہیں پھر ان کی صداقت کو حکومت
یا عدالت میں دیکھا جاتا ہے ، اس پر مقدمات بھی چلتے ہیں، وزیروں کو فارغ
میں کردیا جاتا ہے اور سزائیں بھی ہوجاتی ہیں حتیٰ کہ ملک کے سربراہ صحافی
کی خبر پر اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کی اس اسٹوری
میں کون سی ایسی انہونی چیز ہے، سائبر کرائم ، پورینو گرافی اور بنک
اکاؤنٹس کوئی انوکھی بات تھی، حال ہی میں چینی باشندے اے ٹی ایم سے لوگوں
کی رقم نکلوانے کے الزام میں گرفتار نہیں ہوئے اس پر انہیں سزا بھی ہوچکی،
اب یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ ان چینی باشندوں کا تعلق اس قسم کی وارداد
کرنے والے کسی عالمی گروہ سے ہو اور ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ مقامی
سطح پر وارداد کرنے والوں کا تعلق کسی عالمی تنظیم یا دشمن ملک کی کسی
تنظیم سے نکل جانا تو ہوتا رہا ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کی اسٹوری کو ان کے
اپنے پیشے کے لوگوں نے جس انداز سے لیا وہ حیران کن اور نیا سا تھا۔ ایسا
لگا کہ جیسے کچھ لوگ تاک میں تھے کہ ادھر ڈاکٹر شاہد مسعود کوئی غلطی کرے
اور وہ اس پر چڑھائی کردیں۔ مجھے ڈاکٹر شاہد مسعود سے کوئی ہمدردی نہیں ،
نہ ہی میرا کوئی تعلق اس اینکر سے ہے۔ یہ طریقہ کار جو سامنے آیا وہ بہر
کیف سوالات اٹھاتا ہے۔
ڈاکٹر شاہد مسعود نے بھی اجلت کا ثبوت دیا، اگر اس قسم کی کوئی چیز ان کے
ہاتھ آگئی تھی تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ اس پر اور تحقیق کرتے، ثبوت حاصل
کرتے ،پھر اسے سامنے لاتے، اب جب عدالت نے ان سے کہا کہ لائیے ثبوت تو وہ
آئی بائیں شائیں کرتے نظر آئے۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ جوں ہی عدالت نے ان
سے ثبوت کا کہا وہ ثبوت عدالت کو فوری دیدیتے۔ اب جب انہوں نے ایسا نہیں
کیا تو ان کے بارے میں کیا سوچا جاسکتا ہے، یہی کہ ان کے پاس ثبوت سر دست
نہیں، اس کا فائدہ ان کے ساتھی اینکرز نے بھی اٹھایا اور ان کے خلاف خوب
پرپیگنڈہ کیا۔ عدالت نے انہیں ایک آپشن دیا کہ اگر ایسا ہے تو وہ لمحہ
موجود میں اپنی اسٹوری واپس لے لیں یعنی عدالت سے معافی طلب کرلیں ، بات
یہی ختم ہوجائے گی۔ کچھ اینکر پرسنز بھی اس عمل کے حق میں تھے ، یا بقول
ڈاکٹر شاہد بعض صحافی چاہتے تھے کہ وہ مجھ سے معافی منگوا کر، بعد میں میرے
خلاف خوب پرپیگنڈہ کرتے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے معافی کو اپنی توہین اور چیف
جسٹس کی اس سہولت کے سامنے سرنگو کرنا مناسب نہ جانا ۔ اس پر بھی چیف جسٹس
صاحب نے ان پر ہلکا ہاتھ رکھا اور ایک جے آئی ٹی تشکیل دے دی جو ان کے
الزامات کی تحقیقات کرے گی۔ چیف جسٹس صاحب نے ڈاکٹر شاہد مسعود پر واضح کر
دیا کہ اگر آپ ثبوت نہ دے سکے تو اس کی سزا کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ڈاکٹر شاہد
نے اس جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون کرنے کا کہا ہے اب معاملہ جے آئی ٹی کے پاس
ہے ڈاکٹر شاہد مسعود اس کمیٹی کو ثبوت پیش کریں گے اور پھر عدالت فیصلہ کرے
گی۔ یہ وقت بتائے گا کہ کیا سچ ہے اور کیا جوٹ ؟ ڈاکٹر شاہد مسعود سر دست
تو مشکل میں دکھائی دیتے ہیں مستقبل قریب میں وہ بھنور میں پھنس جائیں گے
یا سرخرو ہوں گے۔ |