جنرل پرویز مشرف کے راستے میں شریف خاندان باردوی سرنگیں
بچھا رہا تھا اور جنرل مشرف پر سکون انداز میں اپنے کام میں مگن تھا ۔ جنرل
مشرف نے نہ تو فوج کو بغاوت کا حکم دیا اور نہ ہی اس کی منصوبہ بندی کی۔
جنرل مشرف ہزاروں فٹ کی بلندی پر نوازشریف کے حکم پر اغوا ہو چکا تھا اور
اُسے کچھ خبر نہ تھی کہ زمین پر کیا ہو رہا ہے ۔ انہوں نے نہ بغاوت کا حکم
دیا اور نہ ہی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کا کبھی ارادہ کیا تھا وہ پی آئی
اے کے جہاز سے اُترے تو اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کے سربراہ بن گئے نواز شریف
اور اُن کے ساتھیوں نے جنرل مشرف کے راستے میں جو بارودی سرنگ رکھی تھی وہ
خود اُس سے ٹکرا گئے اور رسوائی کی دلدل میں جا پھنسے۔ تقدیرہ خان نے سادہ
الفاظ میں جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار کی کہانی بیان کی اور جنرل ایوب
خان ، یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار سے اُن کا موازنہ کیا جنرل
ایوب خان کی سوانح حیات" اے طائرِ لاہوتی "،جنرل کے ایم عارف کی تصنیف
ــ"Working with Zia"جنرل مجید ملک کی تصنیف ـ"ہم بھی وہاں موجود تھے" ،
عابدہ حسین کی "اور بجلی کٹ گئی " اور منیر احمد کی ’’ جنرل محمد یحییٰ خان
شخصیت و سیاسی کردار ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے
نہ آئین توڑا ،نہ مارشل لا ء لگایا اور نہ ہی عوام کے بنیاد ی حقوق سلب کیے
، پاکستانی عوام نے جنرل مشرف کو نجات دھندہ سمجھا اور اُن کی عزت و عظمت
کے گن گائے۔
جنرل مشرف کے مانیٹرنگ سسٹم پر لکھا ہے کہ سول بیورو کریسی کو ڈسٹرب کیے
بغیر انہیں متحرک کیا گیا اور انہیں کام کرنے اور عوام کی خدمت کرنے کا
عادی بنایا گیا۔ انتظامی مشینری کو سیاست ، غنڈہ گردی اور جاگیردارانہ
دھونس سے نجات ملی تو جو کام سالوں تک نہ ہوتے تھے وہ دنوں اور گھنٹوں میں
ہونے لگے۔ پٹواری ، کلرک ، تھانیدار اور چوکیدار سے لیکر سیکریٹری اور آئی
جی پولیس تک سب چوکنے ہو گئے فائلیں دبانے اور خفیہ خانوں میں رکھنے کا
سلسلہ بند ہوگیا۔
تقدیرہ خان نے صوبہ سرحد کا تفصیلی دورہ کیااور پانچ سو سے زیادہ متاثرین
سے مل کر اُن کی شکایات کے ازالے پر مفصل نوٹ لکھا ۔آپ نے پچاس سے زیادہ
واقعات اپنی تحریر میں قلمبند کیے کہ کس طرح مانیٹرنگ سیل تک ہر شخص کو
رسائی حاصل تھی اور درخواست ملنے کے بعد تین دن کے اندر انصاف متاثر شخص کی
دہلیز پر دستک دیتا تھا۔ تعلیم ، معیشت ، غربت کے خاتمے ، خواتین کے حقوق،
صحت اور زراعت کے شعبوں میں جتنا کام جنرل پرویز مشر ف کے دور میں ہوا اتنا
کسی جمہوری دور میں نہیں ہوا ۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کو
مسلح افواج کے تینوں شعبوں میں اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ آج خواتین
آرمی ، نیوی اور ایئر فورس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور مردوں کے شانہ
بشانہ خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
جنر ل مشرف نے بلوچستان اور آزادکشمیر پر خصوصی توجہ دی مگر بد قسمتی سے
اُن کے کام کو زرداری اور نواز شریف سے منسوب کر دیا گیا ۔گو کہ اس منصوبے
کا نام سی پیک نہ تھا مگر گوادر سے خضدار تک سٹرک پر ان ہی کے دور میں کام
شروع ہوا ور بہت سے سکیشن مکمل بھی ہو چکے تھے خضدار سے شہداد کوٹ تک نہ
صرف سروے بلکہ ارتھ ورک بھی مکمل ہو چکا تھا جس پر چینی انجینئر اور کارکن
دن رات کا م کر رہے تھے آج زرداری اور نواز شریف اپنی اپنی زبانوں میں اسکا
سہرا اپنے سر باندھد نے کا واویلا کرتے ہیں توان کے جھوٹ پر ہنسی آتی ہے۔
بلوچستان اور سرحد میں کئی چھوٹے ڈیموں کی منصوبہ بندی کی گئی مگر جمہوری
حکومتوں نے انہیں سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ جنرل مشرف کالا باغ اور بھاشا
ڈیم پر کام کرنا چاہتے تھے مگر سیاستدانوں نے اُن کی راہ میں روڑے اٹکائے
اور منفی پراپیگنڈہ شروع کردیا ۔جنرل مشرف نے زلزلہ زدگان کی بحالی کا کام
جس سرعت سے شروع کیا اُسکی مثال نہیں ملتی آزادکشمیر میں اگر کسی کا ایک
گھر متاثر ہو اتھا تو اُس نے تین یا چار گھر بنانے کا اردہ کیا تو حکومت نے
اس پر بھی اعتراض نہ کیا اور متاثرہ شخص کی جائز مدد سے انکارنہ کیا وادی
نیلم کے لوگ جنرل مشرف کو امن اور خوشحالی کا دیوتا سمجھتے ہیں یہ علاقہ
جنرل پرویز مشرف نے پاک چائینہ جوائنٹ ونچر کے حوالے کیا اور عوام کی فلاح
و بہبود میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جنرل پرویز مشرف نے بھارت سے فائیر
بندی کا معاہدہ کیا تو وادی نیلم کے لوگوں کو پندرہ سال بعد نیلم سے
مظفرآباد آنے کا محفوظ راستہ مہیا ہوا ۔ بھارتی فائیرنگ کی وجہ سے اس جنت
نظیر وادی کے عوام سخت مشکلا ت میں تھے اور تین گھنٹے کا سفر تین دن بعد
بھی ختم نہیں ہوتا تھا۔ لوگ وادی کاغان اور روالپنڈی کے راستے مظفرآباد آتے
تھے۔جنرل مشرف نے سعودی عرب سے پانچ سو ملین ڈالر کا امدادی پیکج منظور
کروایا جسکا مقصد تاؤ بٹ سے سکردو تک ٹنل تعمیر کرنا تھا تاکہ مظفرآباد کو
کاشغر سے ملانے والے قدیم راستے کو بحال کیا جائے۔
جنرل مشرف کے دور میں ہی لواری ٹنل پر کام شروع ہوا اور چترال کے عوام کا
دیرینہ خواب حقیقت بنا۔ جنرل مشرف نے جیل ریفار مز کے علاوہ پولیس ریفارمز
اور بلدیاتی نظام پر کا م کیا جسے نام نہاد جمہوری ٹھیکیداروں نے سرد خانے
میں ڈال کر کرپشن اور جبر کا نظام پھر سے بحال کر دیا ۔ جنر ل پرویز مشرف
کا دور خوشحالی ، انصاف اور امن کا دور تھا مگر کسی لکھنے والے نے اس پر
قلم چلانے کی ہمت نہ کی۔
اکبر بگٹی اور بے نظیر کے قتل پر لکھتی ہیں کہ دونوں افسوس ناک حادثے ہیں
مگر کسی نے اس پر سچائی سے تحقیق نہیں کی جنرل عبدالقیوم کی تحریروں کا
حوالہ دیتے ہوئے لکھتی ہیں کہ موصوف نون لیگ کے نشے میں سارا سچ اور خود
اپنی تحریروں کو بھول گئے۔ جنرل صاحب نے نوائے وقت کے صفحات پر بلوچستان کے
حوالے سے ایک سیریل لکھا کہ غیر ملکی خفیہ ایجنیساں کس طرح راجستھان بھارت
سے اونٹوں کے قافلوں پراسلحہ ، ایمونیشن اور تربیتی امداد بلوچستان بھجوا
رہی ہیں اور فراری کیمپوں کا قیام وجود پذیر ہو رہا ہے۔
اکبر بگٹی کے واقعے کی ابتداء سوئی آفیسر ز میس کے دو ویٹروں کی بھرتی سے
ہوئی اور پھر ڈاکٹر شازیہ سکینڈل سے ہوتی اکبر بگٹی کے واقعے تک جا پہنچی ۔اگر
گورنر بلوچستان سول بیوروکریسی اور وزارت داخلہ ہوش سے کام لیتی تو یہ سب
نہ ہوتا ۔ جہاں تک جنرل پرویز مشرف کا تعلق ہے وہ اس حادثے میں کسی بھی طرح
ملوث نہیں ہو سکتے ۔اس حادثے کی تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومت پر ہے ا س
طرح لا ل مسجد اور بے نظیر قتل کے واقعات ہیں جن کا ذمہ انتظامی مشینری پر
ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی انتظامی اصلاحات سے سول بیورو کریسی سخت نالاں تھی
اور وہ لوگ جنرل پرویز مشرف کے خلا ف سازشوں کے جال بن رہے تھے۔ ان لوگوں
کو سیاستدانوں اور ملک دشمن عناصر کی پشت پناہی حاصل تھی اور جنرل پرویز
مشرف ان ہی پر بھروسہ کیے عوام کی بہتری ، خوشحالی ، عدل ، تعلیم اور صحت
کے لیے منصوبہ بندی کر رہے تھے ۔ لکھتی ہیں کہ صد ا فسوس کہ عوام نے بھی
اپنے محسن کو یاد نہ رکھا اور سیایسی کھلاڑیوں کی شعبدہ بازیوں کا شکار ہو
گئے۔
تقدیرہ خان کا مسودہ دوسوسے زائد صفحات پر مشتمل ایک تاریخی دستاویز ہے
اسکا حصہ اول عہد قدیم سے لیکر عہد جدید کی تاریخ پر مشتمل ہے جو تاریخ اور
سیاست کے مضامین سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے مختصر اور مدلل تاریخی تحفہ
ہے۔ حصہ دوئم کا تعلق عوام الناس سے ہے چونکہ تاریخ اور سیاسیات کا تعلق
عوام سے ہے آخری حصہ جنرل پرویز مشرف کے ذاتی ، عسکری اور سیاسی زندگی کے
متعلق ہے لکھا ہے کہ ہر حکمران تاریخ کا حصہ ہے اور ہر حکمران اپنے دور
حکمرانی کے سفر پر تاریخ کے راستے پر اپنی کامیابیوں اور نا کامیوں کے
نشانات چھوڑ جاتا ہے۔
لکھتی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف واحد حکمران ہیں جنہوں نے اپنی ناکامیوں اور
کوتاہیوں کا خود اعتراف کیا ہے اگرچہ اُن کی ناکامیاں اور کوتاہیاں
نادانستہ اور ان کے ارد گرد گھومنے والوں کی نالائقوں اور سازشوں کا نتیجہ
ہیں مگر جنرل مشرف نے کبھی کسی کو مور د الزام نہیں ٹھہرایا اور نہ ہی سستی
شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے وہ اول و آخر ایک مجاہد اور وطن کے محافظ
سپاہی تھے اور سپاہی ہیں جنرل میکارتھر کی تصنیف ’’ سپاہی کبھی مرتا نہیں
‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سپاہی کبھی موت سے بھی نہیں ڈرتا اور
ہمیشہ دوسروں کے حقوق اور حفاظت کی جنگ لڑتا ہے۔ تقدیرہ خان کی تحریر قابل
تعریف اور حقیقت پر مبنی تاریخی دستاویز ہے جس کی اشاعت وقت کی اہم ضرورت
ہے ۔
اﷲ کرے زورِ قلم اور زیادہ |