فِکر و نظر کا فریب اور من کی دُنیا

فکرو خیال کا فریب کہیں کانہیں چھوڑتا۔ جسے خلوص سے نوازنا ہوتا ہے اُس کے متعلق بدگمانی دل میں پیدا کیے برسوں گزار دیتے ہیں۔ جو تھوڑی سے توجہ سے سُدھر سکتا ہوتا ہے اُسے زمانے کے حوادث کے حوالے کرکے مزید بگاڑ دیتے ہیں۔ عشق بھی عجیب کیفیت کا نام ہے جو نچھاور کرنے کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے تو پھر تن من سب کچھ ہار کر بھی اپنی جیت لگتی ہے۔جو پاس ہوتا ہے اُس کی قدر نہیں جو نہیں ہے اُس کے ناں ہونے کو سوہانِ روح بنا ئے رکھتے ہیں۔شے کی بجائے جب انسان مقدم ہونا شروع ہو جتا ہے تب حقیقی خوشی کی لہر یں پیدا ہوتی ہیں۔ خواہشیں اگر بے لگام ہوجائیں تو یہ سانپوں کا روپ دھار لیتی ہیں جو کسی کا نمک حلال نہیں ہوتا ہاں اپنے مالک کا بھی۔ جو مالک کی وفاداری کو بھی پیشِ نظر نہیں رکھتا اُسے پھر مالک بھی اپنی نظروں سے گِرا دیتا ہے اور جس کا کوئی مالک نہ رہے وہ بوپھر بے لگام مُنہ زور گھوڑے کی طرح خود ہی زخمی کر لیتا ہے۔ اِس لیے جو پاس ہے اُس کا شکر ادا کرنے کی عادت اور جو نہیں ہے اُس کے لیے رب کی رضا پہ خوش ہونا ہی من کی راحت کا سبب ہے۔ درخت جب بہت زیادہ پھلدار ہوجاتا ہے تو تب وہ جھک جاتا ہے۔عجز وانکساری کا اظہار کرتا ہے۔چھاؤں دیتا ہے۔ آندھی طوفان کے تھپیڑوں سے بچاتا ہے۔اور اپنے وجود کے حصے پھل کو کھانے کے لیے دے دیتا ہے۔ اِتنی عظمتیں ورفعتیں اِس کے حصے میں آتی ہیں کہ ایسادرخت قابل رشک بن جاتا ہے۔ کسی درخت کی زندگی جتنی بھی دہائیوں پر مشتمل ہوتی ہے اُتنی گزارنے کے بعد وہ اپنا وجود کھو دیتا ہے۔ لیکن جن جن انسانوں اور حیوانوں نے اُس درخت سے کچھ استفادہ کیا ہوتا ہے وہ وہ انسان اور حیوان اُس درخت کے مشکور رہتے ہیں۔انسان بھی اگر اپنی ذات کو دوسروں کے لیے نافع بنائے رکھے اور اپنے جیسے انسانوں اور چرند پرند جو اِس جہاں میں پائے جاتے ہیں اُن کے ساتھ حسن سلوک کرئے۔کسی بھی انسان کے لیے اِس سے بڑھ کر طمانیت کا احساس اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے خالق کی رضا کی خاطر اپنے خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر انتہائی محدود وقت کے لیے ملنے والی زندگی کی سانسوں کو اپنے مالک و خالق کی رضا کے تابع کر دیتا ہے۔اگر تو انسان وفاداری کا پیکر ہے تو اُس کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ وفا کرئے۔ اور اِس مقصد کے لیے خدائے بزرگ و برتر کے ازلی دشمن شیطان کی جانب سے ڈالے جانے والے وسوسوں کو یکسر ٹھکرا دئے اور اپنے مالک و برتر کی واحدانیت کی سربلندی کے لیے اطاعت کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھے اور شیطان کے ہر وار کا مقابلہ اپنے رب کی عطا کردہ مشیت سے کرئے۔ اور وقتی طور پر نفسانی خواہشات کے حصول کے لیے اپنے رب کی ابدی رحمت سے محروم نہ ہو۔ یقینی طور ایک انسان کے لیے ایسی راہ پہ چلنا بہت مشکل ہے۔ لیکن ایمان کی مضبوطی سے خالق کی ا طاعت کے وسیلے سے خود کو روحانی سکون کا پیکر بناسکتا ہے اور اپنی چند روزہ زندگی کو بھی اور اپنی ابدی زندگی کو بھی روحانی سکون کو گہوارا بنا سکتا ہے۔

فقر بندئے کو اپنے خالق کے اتنا قریب کر دیتا ہے کہ بندئے کی خواہشاتِ نفسانی کا وجود ہی مٹ جاتا ہے۔ رب کے نیک بندے ہمیشہ دنیاوی جاہ حشمت سے دور رہتے ہیں۔ دنیا اور آخرت دونوں کے لیے کمائی کرنا ناممکن ہے کیونکہ آخرت میں رب پاک کی رضا کا حصول اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ رب پاک سے اور رب کی مخلوق سے تعلق اِس طرح کا استوار رکھا گیا ہو۔ جیسے رب کی رضا ہے۔ فقیر کا من اور تن ایک جیسا ہو جاتا ہے۔ظاہری اور پوشیدہ معاملات ایک دوسرئے کے ساتھ جُڑ جاتے ہیں۔جب خواہشات رب کی رضا پہ قربان ہو جاتی ہیں تو پھر بندئے کی رضا ہی رب کی رضا ٹھرتی ہے۔انسان پر رب بوجھ اُتنا ہی ڈالتا ہے جتنا اُس کے اندر اُٹھانے کی سکت ہو۔ خالق تو بندئے سے محبت کرتا ہے وہ تکلیف کیسے اپنے بندئے کو دئے سکتا ہے۔انسانی احتیاجات کا تعلق اُس کی جبلت کے ساتھ ہے بندئے کی یہ جبلت ہے کہ وہ ایک غرض پوری ہوتی ہے تو پھر کوئی اور غرض نمودار ہوجاتی ہے۔ اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے۔ تاوقتیکہ موت کی وادی اپنی آغوش میں بندے کو نہ لے لے۔ خالق کی رحمتیں نوازشیں تو شمار نہیں کی جاسکتیں اور خالق انسان کو عطا کر نے کے لیے ہر وقت تیار ہے وہ تو خود کہتا ہے کہ میں اِس انتظار میں رہتا ہوں کہ کب بندہ مجھے مانگے اور میں اُس عطا کروں۔جس بندے کی خواہشات کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے تو اُن کی نفسیانی خواہشات کو لگام صرف موت ہی دیتی ہے۔ لیکن جو بندہ اپنے رب کی عطا پر صابر و شاکر ہوجاتا ہے اور اپنے لیے اُتنا ہی طلب کرتا ہے جتنے سے اُس کی ضرورت پوری ہوجائے۔ایک چپاتی اور تھوڑئے سے سالن سے گزارہ اگر کیا جاسکتا ہے تو پھر تھوڑی سے زندگی کے لیے خود کو لامحدود خواہشات کی چکی میں پیستے رہنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ جو انسان مال و دولت جاہ و حشمت کے لیے خود کو ہلکان کیے رکھتا ہے اُس کے اندر لالچ کا بسیرا ہو جاتا ہے۔ لالچ ایسی شے ہے جو انسان کے اندر کینہ، جھوٹ پیدا کر دیتی ہے۔ خواہشات انسان سے روحانیت چھین لیتی ہیں۔ اور بندہ کا لالچ اُسے اندھا کر دیتا ہے حلال اور حرام کا تصور ختم ہوجاتا ہے۔ بندہ پھر خالق کے رستے پہ چلنے کی بجائے شیطان کی ہمنوائی اختیار کر لیتا ہے۔ یہ انداز فطرت کے معیار کے سخت خلاف ہیں۔ زندگی میں ساری تگ و دو تو انسان سکون کی خاطر کرتا ہے اور سکون صرف رب کی بات ماننے میں پنہاں ہے۔جب سکون حاصل کرنے کے لیے مجوزہ طریقہ ہی درست نہ ہو جب درست سمت کا تعین ہی نہ ہو پارہا ہو تو پھر پچاس ساٹھ سال کی زندگی جو کہ گزرتے خبرتک نہیں ہوتی اُس کی خاطر خود کو ہلاکت میں ڈالنا کہاں کی عقلمندی ہے۔فقر انسان کو ہر طرح کی خواہشات سے ماورا کر دیتا ہے رب کی ہر ہر عطا پہ لبیک۔ رب کی جانب سے ڈالے گئے امتحان میں شکر ادا کرنا گویا فقیر کا وطیرہ بن جاتا ہے۔انسان کی زندگی میں جتنے بھی نشیب وفراز آتے ہیں اُن سب کے محرکات میں رب کی جانب سے آزمائشیں بھی ہوتی ہیں اوربعض اوقات رب کا راستہ ترک کرنا بھی انسان کے لیے امتحان بن جاتا ہے۔سماجیات کے ماہرین کے مطابق جس سوسائٹی میں قناعت ہوتی ہے اُس سوسائٹی کے لوگوں کے سماجی، معاشی،عمرانی،روحانی، نفسیاتی معاملات بہت بہتر ہوتے ہیں۔ اِیسے معاشروں میں امن بھائی چارہ ہوتا ہے۔ جرائم کی شرح کم ہوتی ہے۔ انسان اپنی ضروریات کے حوالے سے ہوس کا شکار نہیں ہوتا بلکہ وہ خود کے سارئے معاملات اپنے رب کے سپرد کیے ہوئے ہوتا ہے وہ شیطان کی بجائے رحمان کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے ہوئے ہوتا ہے۔انسانی احتیاجات اُس کو اِس نہج تک نہیں لاتیں کہ وہ خود کو گمراہ کر لے اور سیدھا راستہ چھوڑ دے۔فقر کی دولت دنیاوی خواہشوں کو اِس طرح قناعت کے پنجرئے میں قید کر دیتی ہے کہ رب بندئے کی روح کو شاد رکھتا ہے۔ بندہ اپنے رب کی ہر نعمت پر شکرادا کرتا ہے اور اِسی طرح ہر مصیبت کا مقابلہ بھی مردانہ وار کرتا ہے۔جس طرح معاشیات کے قوانین کے مطابق جہاں طلب اور رسد کی قوتیں باہم ملتی ہیں تو اِس کی بدولت خطِ طلب خطِ رسد کو جس جگہ سے قطع کرتا ہے اُس مرکز کو توازنی مرکز کہتے ہیں۔یہ ہی وہ نقطہ ہوتا ہے جہاں کسی بھی شے کی قدر و قیمت کا تعین ہوتا ہے۔بندے کی خواہشات بھی جب اِس نہج تک کنٹرول میں آجاتی ہیں کہ رب بندئے کی التجاؤں کو رد نہیں کرتا اصل بات یہ ہی ہے کہ بندہ اپنے معاملات کو توازن میں لائے۔ ہر معاملے میں اپنے نفسانی خواہشات کو بالائے طاق رکھے۔ جن معاشروں میں ہوس کا زور، وہیں پھر جنسی حوالے سے بے راہ روی بھی عروج پر ہے۔ کائنات کی سب سے محبوب ترین ہستی نبی پاک ﷺ کا فرمانِ عالیٰ شان ہے۔کہ ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کرو۔خالق کا اپنے بندئے پر کتنا احسان ہے کہ وہ اپنے بندئے کو پیدا کرکے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیتا بلکہ خالص توحید سے آشنائی بہت بڑا احسان ہے مسلمانوں پر کہ نبی پاکﷺ کی بدولت مسلمانوں کے پاس یہ اعزاز ہے کہ کہ نبی پاکﷺ نے بندوں کو اپنے حقیقی رب سے ملادیا۔بندہ جب بھی اپنے حقیقی رب کو پکارتا ہے تو خالق اپنی مخلوق کی آواز کو سنتا بھی ہے اور اُس کی مدد بھی فرماتا ہے۔فقر اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان تارک الدنیا ہو کر جنگلوں بیابانوں میں نکل جائے بلکہ اﷲ پاک کی دنیا میں ہی رہ کر اﷲ پاک کے بندوں کے درمیان رہ کرزندگی کی ساعتوں کو اﷲ پاک کی عطا کردہ نعمتوں سے فیض یاب ہوکر گزارئے اور راہبانیت اختیار نہ کرئے راہبانیت اختیا ر کرنے کی وجہ سے تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ بندہ دنیا سے روپوش ہونا چاہتا ہے وہ اپنے رب کی راستے سے راہِ فرار چاہتا ہے۔ فقر کی دولت سکون کی دولت عطا کرتی ہے اور انسان اِسی عاجزی کی بدولت اِسی خلوص و محبت کی بدولت اپنے خالق کی رضا کا دعویدار بن کر باعمل ہو جاتا ہے۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 430445 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More