ارے بھائی للن مودی جی کو ووٹ دینے کے بعد تم نے کہا
تھا’’اونچے لوگ اونچی پسند ‘‘ اور تمہارے پردھان سیوک کو ملک کی آبادی تک
نہیں معلوم!
اوہو کلن تم بھی کانگریسیوں کے چکر میں پڑ گئے مہا گیانی مودی جی کوئی غلطی
کیسے کر سکتے ہیں؟
تو کیا ۶۰۰ کروڈ والی بات درست ہے؟
ارے بھائی پردھان سیوک کی اونچی بات تک نہ تمہارا عام لیڈر کیجریوال رسائی
پاسکتا ہے اور نہ تم جیسا عام آدمی اس کو سمجھ سکتا ہے ۔
ہاں بھئی مان گئے اب تمہیں بتادو کہ اس اونچے دعویٰ کا مطلب کیا ہے؟
وہ تو بہت آسان ہے ۔ کیا تم نے ان کے من کی بات نہیں سنی؟
من کی بات؟ بھئی میں اور مجھ جیسے عام لوگ تو ان کی ہر بات سننا چھوڑ چکے
ہیں اس لیے تم ہی بتا دو کہ اپنے من کی بات میں انہوں نے کہا ؟
یہی کہ ملک کی ہر بیٹی دس بیٹوں کے برابر ہے۔ اب اگر کل آبادی ۱۳۰ کروڈ ہے
تو اس میں سے ۶۵ کروڈ خواتین ہیں جو ۶۵۰ کروڈ مردوں کے برابر ہوگئیں اس میں
۶۵ کروڈمرد ملاو تو ۷۱۵ کروڈہوگئے ۔ ۷۱۵ کروڈ میں سے ۶۰۰ کروڈ نے اگر مودی
جی کو ووٹ دے دیا حیرت کی کون سی بات ہے؟
الیکشن کمیشن کے مطابق تو این ڈی اے کو صرف ۳۱ فیصد ووٹ ملے اور تمہارے
حساب سےمودی جی کو۸۵ فیصد ووٹ حاصل ہوے۔ اب بولو؟
ارے کلن تم بہت بھولے ہو۔ اس وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی اورالیکشن
کمشنر ان کا آدمی تھا۔ ای وی ایم مشینیں بھی کانگریس کے تسلط میں تھیں اس
لیے ۸۵ فیصدکو گھٹا کر ۳۱ کردیا گیا ۔اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
کیا یہ ممکن ہے للن بھیا ؟
کیوں نہیں ممکن ۔ جب ہم لوگ یہ کرسکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں کرسکتے؟ کانگریس
کو بدمعاشی کا تجربہ ہم سے کہیں زیادہ ہے۔
لیکن للن بھائی تمہارے پردھان سیوک کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ امیزون نامی
کمپنی ۱۹۹۴ میں قائم ہوگئی اس لیے وہ کہہ گئے کہ ۱۹۹۷ میں گوگل پر امیزون
ڈھونڈنے والوں کو ندیوں اور گھنے جنگلوں کی معلومات ملتی تھی ۔ اس سے تو
یار ساری دنیا میں بھارت کی بدنامی ہوگئی ۔
ارے میاں کلن تم نہیں سمجھو گے! مودی جی نے کب کہا کہ وہ ۱۹۹۷سن عیسوی کی
بات کررہے ہیں؟ وہ پکے ہندتووادی ہیں اور ہندو پنچانگ کے لحاظ سے ابھی ۲۰۷۴
چل رہا ہے یعنی ۵۶ سال کا فرق ہے۔ اب تم ہی بتاو ۱۹۹۷ سے ۵۶ سال قبل یعنی
۱۹۴۱ میں امیزون نامی کمپنی کا وجود تھا کہ نہیں تھا؟
مودی جی کے لہجے میں ڈانٹ سن کر کلن چکرا گیا مگر پھر اپنے آپ کو سنبھال
کر بولا لیکن اس وقت تو کمپیوٹر بھی نہیں تھا اور نہ مودی جی موجود تھے؟
جی ہاں یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ چونکہ مودی جی موجود ہی نہیں تھے اس لیے
کمپیوٹر کے نہیں ہونے کے لیے انہیں کیسے قصوروارٹھہرا سکتے ہیں؟
اچھا چلو مان گئے بھائی لیکن مودی جی نے جو دراروں اور دنیا کو مٹانے کا
عزم دوہرا دیا اس کا کیا؟
دیکھو جی کلن ہمارے پردھان سیوک کانگریسیوں کی طرح پاکھنڈی نہیں ہیں کہ
اندر کچھ اور باہر کچھ ۔ انہوں نے ساری دنیا کے سامنے بلاخوف و خطر اپنے من
کی بات بیان کردی اور تم تو جانتے ہی ہو وہ کسی سے نہیں ڈرتے۔اپنے آپ سے
بھی نہیں ۔اس لیے دنیا کو مٹانے کی بات کہہ دی تو کون سی بڑی بات ہے؟ جارج
ڈبلیو بش نے بھی تو کہا تھا کہ ہم پاکستان کو کھنڈر بنادیں گے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن آج کل وہ احمق کہاں رہ رہا ہے؟
ہوگا کسی گھنڈر میں ہمیں اس سے کیا؟ اچھا وہ جو مودی جی نے آزادی کے سترہ
سال کہہ دیا اس کا کیا؟ بچہ بچہ جانتا ہے کہ انگریزوں کو ہندوستان چھوڑے ۷۰
سال ہوچکے ہیں ۔ یار ہندوستان کے اندر پھینکنا ٹھیک ہے لیکن دنیا بھرکے
سامنے جاکر یہ پھیکم پھاک اچھی بات نہیں۔
ارے بھائی کلن مودی جی ایک گجراتی ہندو ہیں اسی لیے وہ ہر عالمی رہنما کو
احمدآباد ضرور لے کر جاتے ہیں اور تمہیں شاید نہیں معلوم کہ گجراتی میں ۱۷
کو ۷۰ کہتے ہیں اور ۷۰ کو سترہ کہا جاتا ہے۔ اب بیچ میں انسان ایک آدھ لفظ
اپنی مادری زبان میں کہہ دے تو اس میں کون سی بڑی بات ہے؟
میں نے سنا ہے مودی جی نے سپنے کو اپنےکہہ دیا ۔ اگر بڑھاپے میں زبان اس
قدرپھسلتی ہے تو ۵۲ منٹ تقریر کرنے کی کیا ضرورت ؟
کلن لگتا ہے تم کمپیوٹر کا کی بورڈ یعنی تختۂ حرف استعمال نہیں کرتے ۔ اس
میں ’الف‘ اور ’س‘ اغل بغل ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کاتب کی غلطی رہی
ہوگی۔ اس کی انگلی پھسلی اور سپنے کے بجائے اپنے ٹائپ ہوگیا۔ اب نظم و ضبط
کے پابند پردھان سیوک بھلااس سے سرِ مو انحراف کیسے کرسکتے تھے؟
لیکن یار للن ان کو سنگھ پریوار کی شاکھا میں گرو دیو بولنا تک نہیں سکھایا
گیا جو رابندرناتھ ٹیگور کو گروریوکہہ گئے۔
وہ تو قصداً کہا ہوگا ۔
یار یہ تو چوری اور سینہ زوری والی بات ہوگئی۔
جی نہیں سنگھ کی شاکھا میں یہی سکھایا جاتا ہے کہ اصلی گرودیو تو بس
گولوالکر جی ہیں ان کے علاوہ سب پاکھنڈی ہیں ۔
کلن کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ للن کو کیسے گھیرے اس لیے کہ وہ ہر بات
گرو جی کی طر ح گول کردیتا تھا خیر اس کو گولوالکر کا مطلب سمجھ میں آگیا
۔ اس نے آخری تیر چھوڑ ا۔یہ بتاو پردھان جی میک ان انڈیا اور اسٹارٹ اپ
انڈیا جیسے بلند بانگ نعروں سے اتر کر چائے، پکوڑے اور رکشا پر کیسے آگئے؟
یہ سب ایک ہی بات ہے اس میں کون سا تضاد ہے؟وہ روزگار کے مواقع بتا رہے
تھے۔
تو کیا میک ان انڈیا سے مراد پکوڑے بنانا اورچائے پلانا ہے؟
کیوں نہیں مودی جی چائے پلاتے پلاتے وزیراعظم بن گئے اور امیت شاہ پکوڑے
بیچتے پارٹی کا صدر بن گیا ۔ ان پیشوں کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔
اور وہ رکشا کا کیا ہے؟
ابھی ابھی تو تم نے اسٹارٹ اپ انڈیا کا ذکر کیا تھا ۔ پکوڑے کھاو، چائے پیو
اور رکشااسٹارٹ کرکے نو دو گیارہ ہوجاو۔
لیکن اس کے لیے پڑھنے لکھنے کی کیا ضرورت ؟
جی ہاں تمہاری یہ بات درست ہے اسی لیے ہماری سرکار نے تعلیم کا بجٹ کم کر
دیا ہے تاکہ لوگ جے این یو جیسی یونیورسٹیوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کے
بجائے چائے پکوڑے کی دوکان کھولیں یا رکشا چلائیں۔ دیش کو آگے بڑھائیں۔
لیکن ملک کے پڑھے لکھے بیروزگاروں نے تو ان نعروں کا کچھ اور ہی مطلب سمجھا
تھا۔
بھائی اگر تم میری بات کا غلط سمجھو تو یہ تمہاری غلطی ہے۰۰۰۰۰۰۰۰۰ میری
نہیں!
ٹھیک ہے اب تو سارا ہندوستان تمہارے پردھان جی کا مطلب سمجھ چکاہے اور
انتخاب کا منتظرہے۔
للن بولا میں نہیں سمجھا ۔
کلن نے جواب دیا انتخاب کے نتائج تمہیں سب سمجھا دیں گے ۔ ’اب کی بار، نو
دو گیارہ سرکار‘ ہوگی کیا سمجھے؟
اچھا دھمکی دے رہے ہو۔ یہ نہ بھولو ہمارے ساتھ ۶۵۰ کروڈ خواتین ہیں۔ اسی
لیے ہم نے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کا اہم ترین عہدہ خواتین کو دے رکھا ہے
۔ ان میں سے ایک ہمارا دفاع کرے گی اور دوسری ہمارے مخالفین کو پاکستان
روانہ کردے گی۔
لیکن اگر جسودھا بین میدان میں کود پڑیں تو کیا ہوگا؟
جسودھا بین کے لیے ہمارے پاس صدا بہار بہوسمرتی ایرانی ہے۔ کوئی ساس اس پر
قابو نہیں پاسکی ۔
لیکن میں نے سنا ہے کہ الیکشن کے بعد ساس بھی کبھی بہو تھی میں ساس کا
کردار ادا کرنے والی ہے۔
ٹھیک ہے ساس بہو نہ چلی تب بھی ہمارے پاس ای وی ایم مشین تو ہے ۔ اس لیے
چنتا کی کوئی بات نہیں۔
للن کی بات سن کر کلن سوچ میں پڑگیا ۔ اس نے کہا یار للن کانگریس کے رہنما
کے رہنما منی شنکر ایر سے غلطی ہوگئی جو کہہ دیا کہ ایک چائے والا وزیراعظم
نہیں بن سکتا ۔ وہ بھول گئے تھے جمہوریت کی دیوی اندھی ہوتی ہے۔ انہیں کہنا
چاہیے تھا اگرچائے والا وزیراعظم بن جائے تو ملک کے تعلیم یافتہ نوجوان
پکوڑے بیچنے میں بھی عار مھسوس نہیں کرتے۔
للن بولابھائی سچ بتاوں تمہارا منی شنکر ایر بہت اچھا آدمی ہے۔ اس نے مودی
جی کو نیچ کہہ کر کمل کو اونچا کردیا اور ہمیں گجرات میں ۹۹ نشستیں مل گئیں
ورنہ تو ہماری باری ۶۶ پر سمٹ سکتی تھی۔
کلن نے کہا یار میں تو سوچتا ہوں کہ ایر اور مودی جیسے لوگوں پر جون ایلیا
کا یہ شعر صادق آتاہے کہ ؎
رحم کھاکر لیڈروں کو اپنے حالِ زار پر
کم سے کم سو سال تک آرام کرنا چاہیے
|