اکیسویں صدی میں تنقید نگاری کی پیش رفت

(ریاستِ کرناٹک کا منظر نامہ)

ہندوستان میں تنقید نگاری کی پیش رفت کو لے کرمنعقد ہونے والاوشاکھا پٹنم کا یہ سمینار، اُردو زبان و ادب کے تئیں،اِس کے منتظمین کے اخلاص نیت اوراُردو زبان و ادب سے اِن کی بے پناہ محبت کا غماز ہے۔تنقید نگاری اور اس کی پیش رفت پر نظر رکھنے والے ماہرین نقد و انتقاد کے بیچ مجھ جیسے طالب علم کی حاضری،عجز وانکسار کے تما م تر احساسات کے باوجود ایک ایسا عمل ہے جس کے لیے مجھے بڑی ہمّت جٹانی پڑی ہے۔ظاہر ہے اُردو ادب اور اس کے فروغ کے لیے تڑپنے والوں،اس کی بقا کے لیے جد و جہد کرنے والوں بلکہ اِس کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے اپنی زندگیاں ہی نہیں بلکہ اپنی جانیں تک کھپانے والوں کے درمیان مجھ جیسے طالب علموں کا کیا کام !۔ وہ تو کہیے کہ محترم انجم صاحب (ایڈیٹر ،اصنام شکن، وشاکھا پٹنم)کی نظر عنایت ہوگئی ،اورمیں اِس جرٔتِ رندانہ کے قابل ہو سکاکہ ایسا دقیق و محنت طلب مضمون لکھنا قبول کرلوں۔ اس لیے میرا یہ کام نہیں تھا کہ نفسِ تنقید یا تنقید نگاری کے فن یا پس منظر پر تمہیدیں باندھنے لگوں یا خواہ مخواہ اپنے آپ کو اس میدان کا شہسوار جتانے کی جرٔت کرنے لگوں۔کیوں کہ تنقید نگاری، اس کے پس منظر، اس کے اغراض و مقاصد ، اس کے مطمح ہائے نظر، اس کے اہداف، اِس کی موجودہ صورت حال اور اس کی پیش رفت کے بارے میں آپ جیسے اربابِ فکر ونظر سے زیادہ کون واقف ہو سکتا ہے۔بہتریہی ہے کہ نا گفتہ بہہ حالات کے درمیان سے گزرتے ہوئے تنقید نگاری کے اس فن پر گفتگو کے فریضہ کی ادائیگی کو آپ پر چھوڑدوں اور راست اپنے موضوع پر آجاؤں، تاکہ جس قدر ممکن ہو سکے بہ اختصار اس پر اِظہارِ خیال کروں کہ ہماری ریاست (کرناٹک)میں اکیسویں صدی میں تنقید نگاری کی پیش رفت کیا ہے۔شاید یہ کام میر ے لیے بہت آسان ہو گیاہے، اس لیے کہ بظاہر اس موضوع پر کہنے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔اور یہ حقیقت آپ کے لیے باعث دلچسپی ہوگی کہ اس فراغ دلانہ اعتراف کو کرناٹک کے نوے فیصد قلمکاروں کی تائید بھی حاصل ہے۔ جب مجھے یہ عنوان موصول ہوا تو میں نے کرناٹک کے طول و ارض میں پھیلے ہوئے مختلف اصنافِ ادب سے تعلق رکھنے والے تقریباً ۱۰۰ قلمکاروں سے بات کی اور ان سے دریافت کیا کہ’’ کیا ریاستِ کرناٹک میں اکیسویں صدی کے گزشتہ پندرہ سولہ سالوں میں تنقیدنگاری کے میدان میں کسی فرد، کسی انجمنِ ادب کی جانب سے کسی قسم کی کوئی پیش رفت بھی ہوئی ہے؟‘‘، توحیرت انگیز طور پر نوے فیصد احباب نے گویا ایک آواز ہوکر نہایت ہی افسوس کے ساتھ میرے استفسار کایہی جواب عنایت کیا کہ کرناٹک میں تنقید نگاری کا دامن اکیسویں صدی میں بالکل خالی ہو کر رہ گیا ہے اور یہ کہ کہیں بھی اس میدان میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے، نہ باضابطہ طور پر کسی انجمن نے ہی کوئی پیش رفت کی ہے۔اگرچہ ان کا جواب ان کے اپنے اپنے ظرف اور قابلیت کے لیے لحاظ سے، کچھ تفصیلات کے ساتھ ضرور موصول ہوا تھا، تاہم ان کے احساسات کو یکسرمسترد کرنا میرے لیے مشکل تھا، کیوں کہ ان سب کی مشترک ہم خیالی حیران کن تھی۔ اس صورتحال سے دوچار ہونے کے بعد میرے پاس صرف دو آپشنس Optionsرہ گیے تھے۔ یا تو میں اپنے مقالے میں یہ ثابت کروں کہ کرناٹک میں فی الواقع تنقید نگاری کے کام میں پیش رفت تو دور کی بات ہے، کام کا آغاز ہی نہیں ہوا ہے، یا یہ کہ اپنی جستجو جاری رکھوں تا آں کہ مجھے تنقید کا کوئی ایسادیوانہ یا دیوانے مل جائیں کہ جن کے حوالے سے میں اپنی ریاست کی بھی عزّت بچالوں اور خود اپنی بھی۔ جستجو کا حوصلہ اس احساس سے بھی ملا کہ مروّت میں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنے کرم فرماؤں کی بات کا یقین کر لوں،جنہوں نے مجھے نفی میں جواب دیا تھا، چاہے ان کی تعداد 95فی صد ہی کیوں نہ ہو اور نتیجتاً اُن مخلص تنقید نگاران کو اپنی غفلت یا بے اعتنائی کی نذر کر دوں جو شہد کی مکھی کی طرح نہایت خاموشی کے ساتھ مصروفِ تنقیدنگاری ہیں اورخصوصاً گزشتہ پندرہ سولہ سالوں میں جن کے ذریعہ ا س میدان میں کافی کچھ پیش رفت ہوئی ہے، چاہے ان کی تعداد 5فی صد ہی کیوں نہ ہو ۔اس نوع کے اصحاب ِ نقد و نظرسے ناانصافی مجھے گوارہ نہ تھی۔نیت اچھی ہوتو جستجو رنگ لاتی ہے۔چنانچہ میں نے خلوص نیت کے ساتھ اپنی جد و جہد جاری رکھی اور نتیجتاًکچھـ’’مجاہدین ِ تنقید نگاری‘‘ ہاتھ لگے اور اتنا مواد ضرور حاصل ہوا ، جو اس مقالے میں رنگ بھر سکے۔ساتھ ہی یہیں سے میری ایمانداری کا امتحان بھی شروع ہوا کہ کیا، مقالے کے لیے دیے گیے اس قدر کم وقت میں ، ایسے ایک اہم ووقیع موضوع کا احاطہ ممکن ہو سکے گا؟اور کیافاضل تنقید نگاران کے مقام و مرتبے کے بارے میں کسی مبالغہ آرائی کے بغیرضروری حقائق اس مقالے میں پیش کرنے میں کامیاب ہو سکوں گا! اور یہ کہ ان کے کام سے انصاف بھی کر سکوں گا! جس کے وہ مستحق ہیں!بہر کیف اِس آزمائش کامقابلہ کرتے ہوئے جو بھی لکھا ہے خلوص سے لکھا ہے اور اب فیصلہ آپ قارئین کے ہاتھ میں ہے کہ کیا فی الواقع میں اس آزمائش میں کامیاب ہوسکا ہوں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ قلم و قرطاس سے وابستگی کے حوالے سے کرناٹک ایک مردم خیر سر زمین ثابت ہوئی ہے، شعراء، ادباء، مضمون و مقالہ نگاران، تاریخ دان، صحافی حضرات، کی خاصی تعداد ریاست کے طول و ارض میں پھیلی ہوئی ہے۔قلمکاری ریاست میں ایک مستقل عمل رہی ہے۔اُردو پھل پھول رہی ہے اور شعر وادب ،تحقیق و تنقیدکا سلسلہ کبھی رکا نہیں۔ تنقید نگاری کے میدان میں اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی تنقید سے دلچسپی رکھنے والے اہلِ قلم تنقید نگاری کی طرف متوجہ نظر آتے ہیں، اور وہ لوگ جو بیسویں صدی میں تنقید نگاری کے میدان میں سرگرمِ عمل رہے ہیں اُن میں سے بیشتر ایسے ہیں جنہوں نے نئی صدی میں اپنے اثرات تو باقی رکھے ہیں لیکن عملاً خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اورتخلیقی ادب کا کام معدودے چندافراد ہی کسی نہ کسی درجے میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔یعنی میری مخلصانہ جستجو کانتیجہ یہ نکلا کہ ، ہاں! فی الواقع کام ہوا ہے ، اور ہمیں ایمان داری سے تحقیق کرنی چاہیے، جو ہم نے کی اور نتیجہ آپ کی خدمت میں اس مقالے کی شکل میں حاضر ہے ۔ہم اس مقالے میں مذکورہ دو طرح کے قلمکاروں کا ذکر کرنا چاہیں گے، تاکہ جو لوگ خاموش ہیں وہ دوبارہ قلم ہاتھ میں لیں اور تنقید نگاری کی پیش رفت کا حصہ بنیں۔اور جو لکھ رہے ہیں اُن کی ہمت افزائی ہو اور وہ رکے اور تھکے بغیر وہ اپنا کام جاری رکھیں۔
اکیسویں صدی میں وہ معدودے چند اہلِ قلم جوتنقیدنگاری کے میدان میں کسی نہ کسی درجے میں اپنی خدمات جاری رکھ سکے ہیں،یا وہ نو آموز قلمکار جو اس صدی کے آغاز میں اِس میدان میں پوری قوت کے ساتھ قدم جما نے کی کوشش کررہے ہیں،اِن کے بارے میں یہ کچھ تفصیل پیش کی گئی ہے۔ ممکن ہے کئی اور بھی ہوں ، جن تک ہماری رسائی نہ ہو سکی ہو۔ رہے کرناٹک کے وہ اہلِ قلم جو اکیسویں صدی میں خاموش نظر آتے ہیں ، اگرچہ اِن کی تنقیدنگارانہ صلاحیتیں ماضی ٔ قریب میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں، ان کا اکیسویں صدی میں تنقیدی ادب تخلیق کرنے کا عمل جاری نہ رکھنا بہت تکلیف دہ امر ہے، حالانکہ ان کے اندر تنقید نگاری کی صلاحیتیں آج بھی بد رجۂ اتم موجود ہیں، جنہیں اگر یہ ایک بار بروئے کار لائیں تو پھر کسی کویہ شکایت نہیں ہوگی کہ کرناٹک میں تنقید نگاری کے میدان میں تنقید نگاری کی کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔
فرقِ مراتب کا لحاظ کیے بغیرہم درج ذیل چند نام اس مقالے کی زینت بنا نا چاہیں گے۔ مگر اِن ہی چند کوہم ضامن نہیں سمجھیں گے اس حقیقت کا کہ یہی افراد اب کرناٹک میں تنقید نگاری کی آبرو ہیں اور اِن ہی سے اُمیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں کہ وہ ایمانداری کے ساتھ تنقید نگاری کا کام جاری رکھیں گے، اپنے قلم سے وفا کریں گے۔ وقت کی تنگی کے سبب سارے ہی احباب سے رابطہ نہ ہو سکاہے اور مقالے کے طویل ہونے کا خدشہ بھی لگا رہا ، تو کئی نام جنہیں اس مقالے کی زینت بننا تھا نہ بن سکے۔ہم جن احباب کا نام تنقید نگاری کے ضمن میں لے رہے ہیں اُن کے معیارنقد و نظر کے بارے میں ممکن ہے عام قبولیت کی فضاء موجود نہ ہو، تاہم یہ بھی کچھ کم نہیں کہ یہ لوگ اس راہ پر چل پڑے ہیں اور چل پڑے ہیں تو ظاہر ہے ایک نہ ایک دن منزل ان کے قدم ضرور چومے گی اور فخر کے ساتھ ہم ان کا قلمی سرمایہ آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے:
۱)……ڈاکٹرطیب انصاری(الند شریف ، گلبرگہ؍کملا پور ضلع گلبرگہ) :
تنقید و تحقیق اور خاکہ نگاری کے میدان میں سرگرم عمل رہے۔ تنقید نگاری کا سلسلہ اکیسویں صدی میں بھی جاری رہا۔دو سال قبل موصوف کا انتقال ہوگیا تھا۔ ۔خصوصاً اُن کی تالیف ’’تبصرہ و تجزیہ‘‘جو۲۰۰۰میں شائع ہوئی ، نہ صرف اُن کے تنقیدی رجحانات کا پتہ دیتی ہے بلکہ اس کتاب کے حوالے سے ریاست کے کئی قلمکاروں کی تنقیدی و تجزیاتی کاوشوں کا علم بھی ہوتا ہے۔ ان کی یہ کتاب ہمیں بطورِ تحفہ ڈاکٹر وحید انجم صاحب کی جانب سے موصول ہوئی۔ ڈاکٹر طیب انصاری کے مقام و مرتبے کا اندازہ اُن کی تصانیف؍تالیفات کی اس فہرست سے لگایا جاسکتا ہے جس میں’’ تحریر و تنقید، ادراک معنی، میرا شہر میرے لوگ، یارانِ شہر، قطب دکن(مشترکہ)، گلبرگ سے گلمرگ تک، حیدرآباد میں اردو صحافت، سوانح حضرت علاؤالدین انصاری(مشترکہ)، نصرتی کی شاعری، خانقاہی نظام، آباد حیدرآباد رہے، قطب مشتری، نذر علاء، داستانِ ادب گلبرگہ، حضرت چراغ دہلوی، خیالات اقبال، رد و قدح، حیدرآباد میں اردو نثر کا ارتقاء، ملک سیف الدین غوری، حضرت راجو حسینی، تبصرہ و تجزیہ، قطب دکن (مشترکہ)، بطل حریت حضرت ابو ایوب انصاری، میری تحریریں‘‘شامل ہیں، جن کے اثرات اکیسویں صدی کے آغاز میں تازہ ترین نظر آتے ہیں ، اور نئی نسل کے طلبہ اِن کی چھوڑی ہوئی تنقیدی میراث سے آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔اس اعتبار سے ہم اِن کو اکیسویں صدی میں تنقید نگاری کی پیش رفت کا حصہ دار مانتے ہیں۔
۲)……ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی:
ڈاکٹر صاحب اصلاً گیا(بہار) کے متوطن ہیں لیکن طویل عرصے سے کرناٹک میں مقیم ہونے کی وجہ سے انہیں بہار سے کے مقابلے میں کرناٹک کے تنقید نگار کہنا زیادہ صحیح ہوگا، اوراسی مناسبت سے ہم انہیں اس مقالے کا حصہ بنانے کا استحقاق رکھتے ہیں۔بھٹکل ، کاروار کے بعد اب ساؤنور(کرناٹک) میں سرکاری کالج میں اُن کا تبادلہ ہو گیا ہے اور یہیں قیام پذیر ہیں۔ تنقید کے میدان میں اُن کی خدمات کا اردو دنیا کو بجا طور پر اعتراف ہے۔موصوف کی اب تک دس کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ روشن تہذیب،روشن حیات،نظریۂ ادب اور ادیب،اردو شاعری میں نعت گوئی،ادب کا اسلامی تناظر،تعبیر و تشکیل،نظریاتی ادب،شعرائے بھٹکل اور اردو نعت،خیابانِ خیال،کتابوں کے رنگ و بوان کی کتابوں کے نام ہیں۔ اِن میں سے ۵ کتابیں اکیسویں صدی میں منظر عام پر آئی ہیں۔موصوف کے اب تک 92 ادبی و تنقیدی اور تحقیقی اور تحقیقی مقالات مختلف ادبی رسائل میں ، جیسے سیارہ لاہور، نعت رنگ، کراچی، کاروانِ ادب لکھنؤ، ہماری زبان دہلی، آج کل دہلی،نئی نسلیں دہلی،پیش رفت دہلی،اردو بک ریویو،فن کار حیدرآباد اور سب رس حیدرآباد،شائع ہو چکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر اکیسویں صدی میں شائع ہوئے۔کرناٹک یونیورسٹی دھارواڑ سے آپ کی نگرانی میں لکھے گیے تین تحقیقی مقالوں پر پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہو چکی ہے۔ا ن کی تنقید نگاری کا سلسلہ جاری اور مزید کتابیں منصہ شہور پر آنے کے منتظر ہیں۔
۳)……آفاق عالم صدیقی:
جس طرح شاہ رشاد عثمانی صاحب کرناٹک کے ہو رہے ، اسی طرح آفاق عالم صدیقی بھی کرناٹک میں بس گیے ہیں۔ اُن کی تنقید نگاری کے چہار دانگ عالم چرچے ہیں۔ حافظ کرناٹکی کی سرپرستی میں چلنے والے اداروں میں ایک ڈگری کالج بھی ہے، جہاں آفاق عالم صدیقی اردو کے لکچرار ہیں۔ اُن کی معییت میں کام کرنے کا ہمیں بھی شرف حاصل ہوا ہے، جب ہم زبیدہ پری یونیورسٹی کالج کے پرنسپل ہوا کرتے تھے۔ یہ دونوں کالجس ایک ہی عمارت میں چلتے تھے۔اُن کی قلندر مزاجی سے ہم بہت متاثر تھے اور ہم یہی سوچ کر رہ جاتے تھے کہ کیا یہ سیدھا سادا سا آدمی وہی نقا د ہے جس کے سارے عالم اردو میں چرچے ہیں۔ اُن کے خیالات اور اُن کی سوچ کی گہرائی کابنفسِ نفیس مشاہدہ کرنے کا ہمیں موقع ملا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ موصوف سے ہمیں بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ بلاشبہ وہ عظیم نقاد ہیں اور عظیم انسان بھی۔ایک بار ایسا ہوا کہ کالج کے مطبخ سے متصل ایک ہال میں ہم دستر خوان پر ان کے ساتھ ہمطعامی میں مصروف تھے کہ دفعتاً موصوف نے میری جانب دو تین کاغذات بڑھا دیے ۔اُس زمانے میں ہم پرنسپل شپ کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر حافظ کرناٹکی صاحب کی کتابوں کی کمپیوٹر تزئین و ترتیب کا کام بھی انجام دیا کرتے تھے ۔ اس خیال سے کہ شاید کوئی مضمون ٹائپ کرنے کے لیے دیا گیا ہے، ہم نے اس کے مندرجات کو دیکھے بغیر اپنے پہلو میں اِن کاغذات کو رکھ لیا، اِس وعدے کے ساتھ کہ کل تک آپ تک ٹائپ شدہ مضمون پہنچ جائے گا۔انہوں نے عرض کیا، حضرت! کھول کر دیکھیے تو سہی کہ کیا لکھا ہے۔!! ہم نے بے تاپی کے ساتھ فوراً پیپرس پر نظر ڈالی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیے کہ ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی صاحب نے میری کتاب’’سکون کے لمحوں کی تازگی ‘‘ پر تبصرہ فرمایا تھا، جس کا عنوان تھا:’’حقیقی جذبات کا عکاس شاعر:عزیز بلگامی‘‘۔پھر کیا تھا، فرط مسرّت سے ہماری پلکیں بھیگ گئی تھیں کہ یہ شخص واقعی بڑا فنکار ہی نہیں بڑا انسان بھی ہے۔ کیوں کہ ہمارے عطا کردہ تحفے کا شکریہ اس طرح ادا کیا کہ ہماری عزت نفس کو بھی ٹھیس نہیں پہنچی اور بلا فرمائش ہمارا کام بھی کر دیا ۔ کیوں کہ ہمیشہ سے ہمارا یہ مزاج رہا ہے کہ ہم کسی سے یہ نہیں کہتے کہ ہماری کتاب پر مضمون لکھ دو یا تبصرہ کردو۔اس مزاج کو یہ عظیم رائٹر بھانپ گیا تھا اور وہی کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔یہ مضمون دُنیا بھر کے بیشتر رسائل و اخبارات میں چھپا،اس لیے نہیں کہ یہ عزیز بلگامی پر لکھا گیا تھا، بلکہ اس لیے کہ اسے ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی نے لکھا تھا۔بہر کیف ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد آئیے اُن کی تنقید نگاری کا تعارف کرایا جائے جو اکیسویں صدی میں انجام دے رہے ہیں۔’’حافظ کرناٹکی حیات و خدمات‘‘ اُن کی وہ کتاب ہے جو کرناٹک میں اُن کے قیام کے بعد شائع ہوئے۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے کئی کتابیں آئیں ، جن میں اُن کے طبع زاد تنقیدی مضامین شامل ہیں،جو’’مقال‘‘، ’’نمائق‘‘،’’نقش علیم‘‘ کے ناموں سے شائع ہو چکی ہیں۔ اُن کی ایک اور کتاب’’خیمۂ احباب سے آگے‘‘،اگلے ہفتے پریس سے آرہی ہے( یعنی اکتوبر ۲۰۱۶ کے دوسرے ہفتے میں)۔ اس کے علاہ حافظ کرناٹکی کی کتاب ’’صدارتی کلمات‘‘ کی ترتیب بھی آپ کے ہی ہاتھوں انجام پائی ۔ اِس کے علاوہ’’فراق جس نے اقبال کو رقیب جانا‘‘،’’غزلیہ شاعری کا بین السطوری مطالعہ‘‘، ’’میر انیس کی مرثیہ نگاری‘‘،’’نئی نسل کا تخلیقی منظر نامہ‘‘،’’اکیسویں صدی میں نثری نظم‘‘،’’ معاصر غزل ایک مطالعہ‘‘جیسے مضامین اس وقت دُنیا ئے تنقیدی ادب میں دھوم مچا رہے ہیں۔عصر حاضر کے بلند پایہ فنکاروں کی داد و تحسین انہیں حاصل ہوئی ہے۔دانشورانِ ادب کا خیال ہے کہ فراق اور اقبال کے مابین کی اس صورتحال کو، بجز آفاق عالم صدیقی کے، ابھی تک اِس انداز میں کسی نے بھی منظر عام پر نہیں لایا تھا ۔ خلیل مامون صاحب کی نگرانی میں شائع ہونے والے ضخیم ادبی رسالے ’’نیاادب‘‘ کے اگلے شمارے میں اُن کا مقالہ ’’معاصر غزل ایک مطالعہ‘‘شامل ہوگا جو دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔تنقید نگاری کو اکیسویں صدی میں بلندیوں پر لے جانے کی امیدیں اُن سے بجا طور پر باندھی جا سکتی ہیں۔
۴)……ڈاکٹر م ن سعید:
کرناٹک میں تنقید نگاری کے میدان کا ایک اور اہم نام ہے ’’م ن سعید‘‘۔ بنگلور یونیورسٹی میں صدر شعبۂ اردو رہ چکے ہیں۔افسانہ نگاری، تحقیق و تنقید، ترجمہ، تصنیف و تالیف اُن کے قلم کی جولان گاہ رہے ہیں۔اُن کی تصانیف میں ’’پھوارہ‘‘(افسانوں کا مجموعہ)،’’حیات وجہی(سوانح)،’’دارالاسرار‘‘(تصوف)،’’حضرت بندہ نواز سے منسوب دکنی رسائل‘‘ اور دی سورڈ آف ٹیپوسلطان کا اُردو ترجمہ کیا ہے۔ موصوف کو سروجنی نائیڈو ایوارڈ برائے ادبی خدمات سے سرفراز کیا گیا،نیز کرناٹک اردو اکادمی کی جانب سے ایک میمنٹو بحیثیت نمائندہ افسانہ نگار پیش کیاگیا۔کرناٹک اردو اکادمی کا اوارڈ برائے تعلیمی خدمات (۲۰۰۴ء)بھی آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اکیسویں صدی میں اُن سے فیض حاصل کرنے طلباء آج تنقید نگاری کے میدان میں سرگرمِ عمل ہیں تو اس کا کریڈیٹ ڈاکٹر صاحب کو بھی جانا چاہیے۔راقم الحروف کو بھی یہ شرف حاصل رہا ہے کہ اُن کی ہی رہنمائی میں’’عطا ء الرحمٰن عطا ہبلوی : فن اور شخصیت پر ایم فل کی ڈگری حاصل کرنے کا موقع ملا۔
۵)……ڈاکٹرداود محسن(داونگیرہ):
محترم داؤد محسن کا نام تنقید نگاری کے میدان میں بڑی اہمیت کے ساتھ لیا جارہا ہے۔ نئی صدی میں اُبھرنے والے تنقید نگاروں میں یہ ایک معتبر اور قابلِ ذکر نام ہے۔ترقی پسند ادب، جدیدیت، مابعد جدیدیت پر بغیر لاگ و لپیٹ کے لکھتے رہے ہیں۔ دورِ جدید کے بڑے ناموں کا ان پر کوئی رعب طاری نظر نہیں آتا۔ اُ ن کے تمام تر ادب و احترام کے ساتھ اپنی بات بے باکی سے کہتے ہیں۔اِن کے تنقیدی اقتباسات پڑھنے کا ہمیں اتفاق ہوا ہے۔اگر قلم کی رفتار یوں ہی جاری رہی تو وہ کرناٹک سے تنقید نگاری کا ایک بڑا نام ثابت ہوں گے۔چونکہ اُن کے تنقیدی خیالات سے تعرض میرے موضوع سے باہر کی چیز ہے، اِس لیے اُن ہی باتوں کا تذکرہ پیش نظر ہے جو میرے عنوان کے ذیل میں آتا ہے۔ کرناٹک میں تنقیدنگاری کی پیش رفت میں یہ ایک اہم نام ہے، جسے فخر و انبساط کے ساتھ پیش کر رہاہوں۔ اِن کے تنقیدی مقالات اب کتابی شکل میں منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ دو کتابیں ’’نقد اور نظریات‘‘، ’’نقد و بصیرت‘‘ منظر عام پر آچکی ہیں۔’’نقد و تحقیق‘‘ پریس میں ہے اور بہت جلد تنقید نگاری کے متوالوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک بننے جارہی ہے۔آئیدہ سال مارچ میں ایک اور کتاب ’’نقد و مقال‘‘ منظر عام پر آئے گی اور یوں محسوس ہوتا ہے، اب یہ سلسلہ تھمتا نظر نہیں آتا۔اور مزید کتابیں اُن کی شائع ہو ں گی، انشاء اﷲ، ہماری نیک تمنائیں موصوف کے ساتھ ہیں۔
۶)……ڈاکٹر غضنفر اِقبال:
مقالے کے لیے ہم نے ڈاکٹر غضنفر اِقبال صاحب سے رابطہ کیا، فون پر تفصیلی بات ہوئی ۔اُن سے رابطے کا مقصد بتایا تو بہت خوش ہوئے اور اپنی اولین فرصت میں وہ ساری تفصیلات عنایت فرمائیں جو مجھے اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی نہیں مل سکی تھیں۔اُن کا ذکر مجھے بطور خاص کرنا تھا۔ معلومات کی عدم دستیابی کی بنا پر اُن کے تذکرے کو چھوڑ دینا یاتذکرے کی محض رسم نبھانا مجھے گوارا نہیں تھا۔ اِس لیے کہ وہ چند نوجوان جو فی زمانہ تنقید نگاری کی لاج رکھے ہوئے ہیں، اُن میں ڈاکٹر غضنفر اِقبال صاحب کا نام سرِ فہرست ہے۔وہ مجھے اس لیے بھی عزیز ہیں کہ وہ میرے محترم دوست پروفیسر حمید سہروردی کے فرزند ہیں، جنہوں نے اردو ادب کے لیے اپنی زندگی ہی وقف نہیں فرمائی بلکہ اپنی پارہ صفت اولاد کو بھی اردو زبان و ادب کے لیے وقف کر دیا،حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر غضنفر اِقبال حقیقی ’’ وارثِ میراث پدر‘‘کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔بقول جناب یٰسین احمد (حیدرآباد)’’غضنفراِقبال گلبرگہ ایک باشعور، تعلیم یافتہ نوجوان ہیں، فعال اور متحرک ہیں، انہوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز گھر سے کیا ہے، جو ایک خوش آئند بات ہے اور فطرت کا عین تقاضہ بھی۔ غضنفر اقبال کی اقبال مندی ہے کہ اُن کو زرخیر زمین ملی ہے‘‘۔جہاں تک اُن کی قلمی سرگرمیوں کی بات ہے تو زیادہ تر تنقید نگاری ہی اُن کے پیش نظر رہی ہے۔جیسا کہ اُن کی فہرستِ کتب سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے:۱)اُردو افسانہ 1980کے بعد 2006، ۲)اُردو بک ریویو کے اداریے اور تجزیے2006، ۳)حمید سہر وردی کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ2997،۴)صفر بارِ دوش2010،۵)معنی ٔ مضموں2010،۶)ان کہی باتیں2011،۷)عصمتِ جاوید(مونوگراف) 2016(قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان، نئی دہلی)،۸)خاک کے پردے سے2007(جناب صادق کرمانی کی شراکت سے)،۹)گلوبل انفارمیشن1999(ڈاکٹر آصف اقبال اور ڈاکٹر زبیر حسینی کے اشتراک سے)۔اُن کی علمی، صحافتی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں اُ ن کی وہ کتابیں ہیں جو اردو زبان و ادب کے لیے اُن کے کمٹمنٹ کی غماز ہیں۔وہ مدیر ، گل و برگ، گلبرگ،مدیر جامِ جمشید رائے چور،جوائنٹ ایڈیٹر بیڑ اذان، بیڑ،فیچر ایڈیٹر روزنامہ سالار دکن ، گلبرگہ،اسوسی ایٹیڈ ایڈیٹر ، عالمی شمع ، گلبرگہ،سب ایڈیٹر تعمیر نو بنگلور،رکن مشاورتی کمیٹی، ماہ نامہ تریاق، ممبئی،رکن مشاورتی کمیٹی چراغِ نور، یادگیر،رکن مشاورتی کمیٹی الانصار، حیدرآباد،مدیر ادبی صفحہ ادب رنگ روزنامہ دورِ حاضر، گلبرگہ،مدیر اعزازی عالم گیر ادب، اورانگ آباد،ہندوستان کی مختلف جامعات میں نصاب کی تدوین جیسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔اُن کی ان ہی خدمات کے اعتراف میں کم عمری میں ہی اُنہیں اعزازات سے نوازا گیا:مرکزی ساہتیہ اکادمی یووا پرسکار 2012(برائے کتاب معنی ٔ مضموں)،اُتر پردیش اُردو اکادمی لکھنؤ2008(انعام برائے کتاب ’’اُردو افسانہ 1980ء کے بعد‘‘)،بہار اردو اکادمی، پٹنہ2009(انعام برائے کتاب’اردو افسانہ 1980ء کے بعد‘)،گلبرگہ یونیورسٹی پرسار رنگا ایوارڈ 2011 (انعام برائے کتاب’’ان کہی باتیں‘‘)،مہاراشٹرا اسٹیٹ اردو اکادمی ، ممبئی1999(انعام برائے امتیازی نشانات ’’بی اے‘‘ (اردو)۔ایک صفحہ ڈاکٹر غضنفر اقبال کے نام، روز نامہ کے بی این ٹائمز صفحہ ادب نما، گلبرگہ،خصوصی صفحہ روزنامہ سیاست، بنگلور کے ذریعہ اُن کی قدر شناسی بھی ہوئی ، جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔
۷)……انور مینائی(مرحوم):
اکیسویں صدی میں آپ کی ایک کتاب ’’خرد تدریس‘‘(۲۰۰۳ء) شائع ہوئی۔رانچی یونیورسٹی جھارکھنڈ(جو کبھی بہار کا حصہ ہوا کرتا تھا) سے پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ بعنوان’’ظہیر غازی پوری کی شاعری کا تنقیدی جائزہ ‘‘لکھا۔غالباً ۲۰۰۵ء کی بات ہے، روزنامہ سالاربنگلور کے ادبی ایڈیشن میں محترم صلاح الدین پرویزؔ کی ایک آزاد نظم شائع ہوئی تھی، جسے محترم انورمینائی (مرحوم) نے جوشِ عقیدت میں موجودہ Millenium(ہزارے)کی شاہکار آزاد نظم قرار دیا تھا تو ریاست کے ادبی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی تھی اور ان کی اس مبالغہ آرائی کو لے کر کافی لے دی ہوئی تھی۔ اِس پر اربابِ نقد و نظر نے مراسلات کے ذریعہ اپنے ردِّ عمل کا مختلف انداز میں اِظہار فرمایا تھا۔اِن پر راقم الحروف نے بھی ان کے اس نقطۂ نظر پرکڑی تنقید کی تھی۔ یہ مضمون(بعنوان صلاح الدین پرویز ؔکی نظم اور انور مینائی(مرحوم) کا جوشِ خراج) اِتفاق سے آج ہمیں اپنے ایک فائل فولڈر میں ملا ہے ، جسے ہم اپنے ادب نواز دوستوں کی دِلچسپی کے لیے پیش کر رہے ہیں، تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اکیسویں صدی میں تنقید نگاری کے ایسے سلسلے چلتے رہے ہیں۔دِلچسپ بات یہ ہے کہ راقم الحروف کے اِس تبصرے کی اِشاعت کے بعدپھر یہ سلسلہ زیادہ طول نہ پکڑ سکاتھا۔ملاحظہ ہویہ تبصرہ:
’’خدا کا شکر کہ محفل میں ذکرِ دار چھڑا……ہمیں تو آنے لگی تھیں جماہیاں لوگو
چلئے اچھا ہوا کہ جناب صلاح الدین پرویز کی نظم کو لے کر کچھ کام کی باتیں تو ہو نے لگیں۔ ورنہ’ سالار ‘کے مدیر، ادبی ایڈیشن ایسے موضوعات پر گفتگو کے فقدان پر بڑے مضطرب رہا کرتے تھے۔ممکن ہے سالار کے ادبی صفحات پراب کچھ گرمی نظر آنے لگے۔جناب انور مینائی کے تبصرے اور جناب ضیاء میر کی معروضات کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ ریاستِ کرناٹک میں ادبی موضوعات و نظریات کے سلسلے میں نقطہ ہائے نظر موجود ہیں اور ان کی بنا پر ادبی دنیا کی نظریاتی تقسیم ناگزیر ہے۔روایت،ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے بارے میں ہماری ریاست کے مفکرین و دانشور اپنے اپنے حلقوں میں، اپنے اپنے نقطۂ نظر کے ہمنوا ضرورہوں گے، لیکن ان کی جانب سے خاموشی کا کیامطلب لیا جائے۔ ٹھیک ہے موصوف نے انگریزی کے بھاری بھرکم الفاظ کے استعمال سے ایک رعب اپنے مضمون میں پیدا کرنے کی کوشش فرمائی ہے اور اس مضمون کو پڑھنے کے بعد مدیرِ ادبی ایڈیشن نے بھی موصوف کو وسیع مطالعہ کی سند بجا طور پر عطا کر دی ہے، لیکن جو قلمکارحقیقتاً ان ادبی نظریات کے آغاز، ارتقاء اور ان کے عناصرِ ترکیبی کا مطالعہ رکھتے ہیں ان کو تو کم از کم اس پر اظہارِ خیال میں پس و پیش نہیں کرنا چاہئے۔ بعض احباب نے تماش بیں کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ بعض نے اظہارِ خیال میںEmotionsکا سہارا لیا ہے۔بعض بالکل خاموش ہو گئے ہیں۔میسور سے محترم گوہر تریکیروی کا مراسلہ بھی نظر سے گذرا۔ میں ان کا بہت احترام کرتا ہوں اور وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن محترم نے جناب ضیا ء میر کے دامن میں اپنی ہمدردیوں کا وزن ڈالتے ہوئے، اپنے مراسلے میں جھنجلاہٹ کااظہار تو کر دیا، لیکن دلائل وبراہین سے اپنے دامن کو بچانا ہی مناسب سمجھا۔حالانکہ ان موضوعات پر ان کا مطالعہ وسیع ہے اور وہ مذکورہ نظم یا کسی اور نظم کے’’ ابہام‘‘ کی قلعی کھول سکتے ہیں۔ اس سے انکار نہیں ہونا چاہئے کہ جناب انور مینائی کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ ان کے ذہن میں اس نظم کے بارے میں کچھ محرک نہ ہو تو کوئی مضمون رقم نہیں ہو گا۔کسی کی تحریر کو یک جنبشِ قلم رد کئے جانے کے بجائے ضروری ہے کہ اس کا مطالعہ ہونا چاہئے اور کج فہمیوں کا(اگر فی الواقع ہوں) ادراک کیا جانا چاہئے،ان پر گرفت اور جذبات کو بیچ میں لائے بغیر متانت و سنجیدگی سے اظہار خیا ل ہونا چاہئے۔اب جناب انور مینائی صاحب کی خدمت میں درجِ ذیل باتیں ادباً عرض ہیں :
پہلی بات یہ کہ جناب صلاح الدین پرویز کی نظم کو اس ہزارے(Millenium) کی بہترین آزاد نظموں میں شامل فرما کر انہوں نے واقعی مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔وہ چاہتے تو’’ اس صدی کے پہلے دہے کی بہترین آزاد نظم ‘‘ کہہ سکتے تھے جس سے نفسِ تحسین آفرینی پر حرف نہ آتا۔دوسری بات یہ کہ ایک مبہم نظم پر اظہارِ خیال کو سلیس اور سادہ رکھنے کے بجائے اظہارِ خیال کو بھی ابہام کی نذر کیا اور جناب ضیاء میر جیسی قدآورادبی شخصیت بھی پریشان ہو اٹھی ۔اس کی ایک مثال مضمون کی دوسری قسط سے پیش کرتا ہوں:جناب انور مینائی نے ایک روایتی شاعرصفی لکھنوی،ایک ترقی پسند شاعر(نام نہیں دیا گیا ہے) اور ایک جدید شاعر مصورؔ سیزواری کے کل تین شعر، اس امر کے لئے بطورِ استدلال پیش کئے ہیں کہ بقول ان کے’’جدید وسائل عامہ اطلاعاتی تکنالوجی، انٹرنیٹ تکنالوجی ، خلائی تکنالوجی، Plasticityصارفیت بلکہ ہر قسم کے الیکٹرانی میڈیا نے معاشرے کے اقدار و طرز زندگی میں انقلابی تغیر پیدا کر دیا ہے ۔ نتیجتاً جدید فنکار نے ، اچھوتے انداز فکر و اظہار کو اپنا شعار بنا لیا ہے اور اپنی فکر و نظر کو نئے ابعاد عطا کرنے پر مجبور ہے ‘‘۔ آگے رقم طراز ہیں:’’جدید اردو شاعری کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وہ روایتی خیالات کو بہ طرز نو پیش کرتی ہے۔‘‘اب تین شعر پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ دعویٰ اور استدلال میں کوئی ربط نہیں او ر نتیجتاًیہ سوالات ، جواب کے لئے ترستے رہ گئے ہیں:
۱)’’ جدید وسائل عامہ‘‘ نے ’’اقدار و طرزِ زندگی‘‘ میں حقیقتاً وہ کیا ’’انقلابی تغیر‘‘ پیدا کر دیا ہے جس کا حوالہ دیا گیا ہے؟
۲)مذکورہ تین شعروں میں صفیؔ لکھنوی کا روایتی شعرکیوں اچھوتا ہونے سے رہ گیا؟ اور مصور ؔسیزواری کا جدید شعر کس بنا پر اچھوتا قرار پایا؟
۳) وہ ’’نئے ابعاد‘‘ کیا ہیں جو مصورؔ کے ہاں پائے جاتے ہیں اور جس سے صفی ؔکا دامن خالی رہ گیا؟
۴)وہ ’’طرز نو‘‘ کیا ہے جو مصور میں ہے اور صفی میں نہیں ؟
۵)’’کفن میں ہونا‘‘،’’کفن اوڑھنا‘‘، اور’’ کفن کے چیتھڑے سینا‘‘ میں جدید ٹکنا لوجی کی وجہ سے وہ کیا بنیادی فرق پیدا ہوگیا کہ ایک فکر و نظر کو نئے ابعاد عطا ہوئے، اندازِ فکر واظہاراچھوتا ہوگیااور طرزِ نو کا حامل ہوگیا۔ ’’اچھوتے پن،طرزِ نو‘‘ کی شہادت شعر کے داخل سے پیش کی گئی ہوتی تو ہمیں مضمون کے ابہام کی شکایت نہیں رہتی۔اب اندازہ کیا جائے کہ ایک ابہام سے پُر نظم کے محاسن گنانے کے لئے استعمال کیا جانے والا ابہام سے پُر تبصرہ محترم انور مینائی صاحب کے کس کام آئے گا، خصوصاً ایسے وقت میں جب کہ وہ اپنے تبصرے کے ذریعہ جناب صلاح الدین پرویزکی نظم کو اس ہزارے کی بلندیوں سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ابہام پسندی کا یہ صرف نمونہ ہے ورنہ پورے مضمون کے بین السطور سے سوالات Pop Upکی طرح ابھر تے ہیں جیسے انور مینائی کو ڈھونڈ رہے ہوں۔ تیسری بات یہ کہ جناب انور مینائی اپنے تبحّرِ ادبی کی نمائش میں اس قدر محو ہیں کہ اس کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مثلاً دیکھئے : بات چلی ہے پرویز کی نظم اور جناب ضیاء میر صاحب کے استفسارات کی اور جب بنگلور کے شہر گلستاں ہونے کا ذکر آیا تو فوراً اس ترکیب میں انہیں ’ حشو‘ نظر آیا اور انہوں نے ریمارک کرنا ضروری سمجھا جو بجائے خود غلط نہیں لیکن یہ نفسِ مضمون سے متعلق نہیں۔ چوتھی بات یہ کہ کسی تخلیق پر اظہارِ خیال یا تبصرے میں تخلیق کار کے خیال کی ترجمانی سے زیادہ خودتبصرہ نگار اپنےPreconcievedخیالات کی ترجمانی کا طریقۂ کار کیوں اختیار کرتا ہے کہ خودتخلیق کار حیران رہ جائے کہ وہ باتیں جو خود اس کے حاشۂ خیال میں نہیں تھیں وہ تبصرہ نگار کے ذہن میں کیسے آئیں۔؟یہ مجبوری صرف انورمینائی کی نہیں۔ ہر مبصر کا دامن اس کراہت سے آلودہ رہتا ہے۔پانچویں،آخری اور اہم بات یہ کہ کسی زبان کے ادب کی اصطلاحات، اس کے نظریات و افکار، اسلوب و استدلال کا Import اُردو ادب میں کرتے وقت اس حقیقت کا لحاظ ضروری ہے کہ جس قوم کی زبان سے یہ چیزیں آتی ہیں اس نے دنیا میں کیسی تہذیب پیدا کی ہے؟ اس کا نظریۂ کائنات کیا ہے؟ اس کا نظریۂ انسان کیا ہے؟اس کا نظریۂ زندگی کیا ہے؟اور بالآخر اس نے عالمِ انسانی کو کیا دیا۔ آج کا وہ اقدار و طریقۂ زندگی کیا ہے جو فنکار کے اندازِ فکر و اظہار کو متاثر کرتا ہے؟۔ اس پہلو سے فن پاروں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کسی نظم کے بہترین نظم ہونے کا مطلب کیا ہے؟ پرویز کی نظم کہاں ٹہرتی ہے اور انور مینائی کہاں کھڑے نظر آتے ہیں اور ضیا میر کے استفسارات کیا مقام پاتے ہیں۔‘‘(عزیز بلگامی)(2005)۔اِس طرح کی بحثیں جب ہوتیں تو انور مینائی صاحب نے اپنی تنقیدی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کسی بخیلی کا مظاہرہ کبھی نہیں کیا نہ کسی سے انہیں شکایت ہوئی۔اﷲ غریق ِ رحمت کرے۔مرحوم انور مینائی ریاست کے ایک اہم نقاد تھے اور اکیسویں صدی میں اُن کی رحلت نے تنقید نگار ی کے میدان میں ایک خلا پیدا کر دیا تھا ۔
۸)……ڈاکٹرحلیمہ فردوس:
محترمہ حلیمہ فردوس ہماری ریاست کی مایۂ ناز طنز و مزاح نگارہ ہیں۔ تنقیدکے میدان میں بھی موصوفہ نے بڑے کار آمد شہ پارے دنیائے ادب کو پیش کر چکی ہیں۔اُن کے تنقیدی مضامین کی ایک کتاب ’’ارج‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے۔کتاب میں شامل اِن عنوانات کوملاحظہ فرمائیں اور کتاب اور صاحبہ ٔ کتاب کی صلاحیتوں اور ان کی نظر کااندازہ کریں کہ کس جانفشانی کے ساتھ موصوفہ نے اپنے قلم کی جولانیوں کا مظاہرہ کیا ہے:’’پروفیسرعلیم اﷲ حالی‘‘،’’نسائی غزل میں تصور محبوب‘‘،’’نسائی مکتوبات کا گراں قدر سرمایہ‘‘،’’اردو کی نئی بستیوں کا نسائی افسانوی ادب‘‘،’’ نسائی شاعری اور صنفی مساوات‘‘،’’تحریک آزادی کی گم نام شعری نسائی آوازیں‘‘،’’گھر آنگن کی رباعیوں کی محرک……صفیہ اختر‘‘،’’آزادی کے بعد ظریفانہ شاعری کا اسلوب‘‘،’’اردو افسانے کے اہم نشان……1985تا حال‘‘،’’سوغات کے اداریے‘‘،’’اردو غزل کے مقطعے‘‘،’’ہندی فلموں کو اردو کی دین‘‘،’’مزاح نگاروں کا محبوب کردار‘‘،’’ علامہ اقبال…… شاعرِ شعلہ نوا‘‘،’’مولانا ابوالکلام آزاد کا ادبی سرمایہ‘‘،’’خلیل الرحمٰن اعظمی کی شاعری……زندگی کا پُر سوز نغمہ‘‘،’’عہد ٹیپو سلطان میں دکنی شعرو ادب کا فروغ‘‘،’’جنوبی ہند کی نمائندگی ناول نگار خواتین‘‘،’’شاذتمکنت کے کلام کی خوابناک فضا‘‘،’’آخری ساعت سے پہلے‘‘…… ایک تاثر‘‘،’’دکھن کے کھن کا ایک انمول ہیرا…… سلیمان خطیب‘‘،’’وہاب عندلیب …… ایک شریف النفس خاکہ نگار‘‘،’’شبِ رنگِ نمو کا شاعر…… خالد سعید‘‘،’’ اختراع…… قافیوں کا کو ہِ گراں‘‘،’’اصغر ویلوری کا شعری سفر‘‘۔ہم نے موصوفہ سے گفتگو سے پہلے اُن کے شوہر نامدار برادرم ملنسار اطہرصاحب سے بات کی جو خود بھی ایک اہل ِ قلم ہیں اور حال ہی میں آل انڈیا ریڈیو کے ایک کلیدی عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں ، تو اُنہوں نے کافی ساری معلومات حلیمہ صاحبہ کے بارے میں فراہم کیں، جس کے لیے میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں۔ اس کے بعد مجھے حلیمہ صاحبہ سے براہِ راست گفتگو کا موقع ملا۔جس میں اُن کا انکسار عیاں تھا۔ صلے و ستائش سے بے نیاز ی صاف جھلک رہی تھی۔اُن کے بارے میں مشاہیر قلم کاروں کی آراء دیکھنے کے بعدہم پر اِس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ جب ایک مخلص قلمکارادب کو اپنے عطیہContributionکی ٹھان لیتا ہے تووہ لامحالہ اپنے عصر کی نظر میں آجاتا ہے ، چاہے وہ لاکھ اپنا دامن بچانے کوشش کرے ، ستائش کا اُس کا اپنا حصہ اُسے مل کر رہتا ہے۔ اُمید کہ وہ بے نیازی کی اپنی پسندیدہ ڈگر پر اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے اکیسویں صدی کے دامن کو اپنے تنقیدی کار ہائے نمایاں سے اُسی طرح پُرکرتی رہیں گی ، جس طرح ماضی میں وہ کرتی رہی ہیں اور جس کے ہم سب گواہ بن کر کھڑے ہیں۔
۹)……خلیل مامون:
کرناٹک میں اردو ادب کا ایک معتبر نام ہیں خلیل مامون صاحب۔کرناٹک اردو اکادمی کے چیرمین رہ چکے ہیں۔ نظم و نثر پر مضبوط گرفت حاصل ہے۔ ڈرامہ نگاری میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔اُن کی کتاب’’ لسان فلسفہ کے آئینے میں‘‘(نثر) اُن کے تنقیدی شعور کا پتہ دیتی ہے۔آل انڈیا ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے آغاز کے بعد پولس سروس جائن کی اور انسپکٹر جنرل کے عہدے تک پہنچے ۔ سرکاری ملازمت سے سبکدوشی کے بعدکچھ ہی ماہ میں کرناٹک اردو اکادمی کی کمان سنبھالی۔شیرزادے ریخےScherzade Rikhyeکی نعتیہ منظومات کا ترجمہ کیا اوریہ کتاب ’’اُنیس للٰہی نظمیں‘‘کے نام سے شائع ہوئی۔’’ کنڑا ادب ‘‘ان کی ایک اور کتاب ہے جس میں کنڑی نظموں اور افسانوں کا ترجمہ پیش کیاگیا ہے۔’’نشاط غم‘‘ اُن کی غزلوں کا مجموعہ ۔تاثرات:2006 ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔محود ایاز سے گفتگو: 2010 بھی ان کے تنقیدی شعور اور تنقید نگاری میں اُن کی دلچسپی کی غمازی کرتی ہے۔ دیگر کتوب میں جسم و جاں سے دور (منظومات):2009، بن باس کا جھوٹ (منظومات):2010،سرسوتی کے کنارے:2014،سانسوں کے پار:2016 شامل ہیں۔راز امتیاز کی شاعری:لہو کے پھوک(بعد از مرگ شائع ہوئی):2006،کشمیری صوفی شاعری:2006بھی ان ہی تالیف ہے۔ اُن کے مجموعۂ کلام’’آفاق کی طرف‘‘، نیز اردو شعر و ادب کے لیے اُن کی خدمات پر انہیں2011میں ساہتیہ اکادمی اوارڈ سے نوازا گیا۔وہ پہلے شاعر تھے جنہیں 2004میں کرناٹک راجیہ استو ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔اکیسویں صدی میں بھی وہ ’’نیا ادب‘‘(رسالہ) کی تجدید نو میں مصروف ہیں اور اِسی حوالے سے تنقید وتحقیق کے میدان میں بیش بہا خدمات انجام دے رہے ہیں۔
۱۰)……محمد اقبال :
سابق اسسٹنٹ مدیر سالاررہے ہیں، کچھ وقفے کے لیے انہوں نے مدیر کے فرائض بھی انجام دیے۔بعد میں انہوں نے ادبی ایڈیشن کی ادارت فرمائی اور خوب جم کر فرمائی۔مستقل طور پر تنقید کے موضوع پر کوئی مضمون بظاہر نہیں لکھا اور دیگر موضوعات پر بھی مستقل قسم کے مضامین نہیں ہیں، لیکن دوست و احباب کے اصرارپر شاعری، افسانہ نگاری، ڈرامہ و ناول نویسی اور رسالوں کے خاص نمبروں پر قلم ضرور اُٹھایا ہے ۔موصوف کا قلم خوب چلتا ہے۔نو آموز قلمکاروں کے ساتھ ساتھ سینئر اہلِ قلم کو لکھنے پر اُکسانے کے علاوہ خود بھی نوجوان قلمکاروں اور خصوصاً خواتین قلم کاروں کی ہمت افزائی کے لیے اپنے قلم کو بڑی فراخ دِلی سے استعمال کرتے رہے ہیں۔’’ڈاکٹر فاطمہ زہرہ فن اور فنکار‘‘، ’’فرزانہ فرح ، طنز و مزاح کا طرز نو‘‘،’’صبیحہ زبیر کی صباحت و ملاحت آمیز تحریریں‘‘،’’ مہرباں کیسے کیسے (فوزیہ چودھری)کا ایک تنقیدی مطالعہ‘‘،’’درد کی دہلیز، اور فریدہ رحمت اﷲ‘‘ جیسے عنوانات پر لکھا اور اِن کو مزید لکھنے پرآمادہ کیا۔یہاں تک کہ ایک ہندی قلمکار شاہدہ شاہین کو اردو مضامین تحریر کرنے پر محترم محمد اقبال صاحب نے آمادہ کیا اور ان کے تالیفِ قلب کے لیے ’’شاہدہ شاہین، ایک پھول دو رنگ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون بھی سپردِ قلم فرمایا۔ خواتین مضمون نگاران کے ساتھ ساتھ مرد قلمکاروں کے تخلیقی کاموں کا جائزہ لیا۔’’اردو صحافت میں نئی نسل کی شمولیت کا مسئلہ‘‘،’’صرف نو فہم ہی کر سکتے ہیں انکار ادیب‘‘شاہ ابوالحسن ادیب،’’محبتوں اور ہجرتوں کا شاعرگلشن خطائی‘‘،’’اردو شاعری میں جانور، دلچسپ زاویہ ‘‘،’’عالمگیر ادب کا حمید سہر وردی نمبر‘‘،’’ڈاکٹر مظفر الدین فاروقی کا ڈرامہ:بلیک ہول‘‘،’’وہاب عندلیب تارِ نظر پر ایک نظر‘‘،جیسے عناوین پر مضامین سپردِ قلم کیے۔ بلا مبالغہ اب تک موصوف کے چالیس سے زائد مضامین آچکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔یہ ذکریہاں دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ، یہ محمد اقبال صاحب ہی تھے ، جنہوں نے راقم الحروف کویم فل کرنے پر آمادہ کیا اور ’’عطاء الرحمٰن عطا ہبلوی: فن اور شخصیت ‘‘ پر مقالہ لکھنے میں قدم قدم پر ہمارا ساتھ دیا۔ یہ مقالہ کتابی شکل میں بعنوان’’ زنجیرِ دست و پا‘‘ 2003ء میں منظر عام پر آچکا ہے۔
۱۱)……ڈاکٹر وحید انجم:
گلبرگہ سے تعلق رکھتے ہیں۔زرخیز تخلیقی ذہن کے مالک ہیں۔ جو بھی لکھتے ہیں ، خوب لکھتے ہیں۔خاکہ نگار، افسانہ نگار، شاعر، تبصرہ نگار رہے ہیں۔ فلمی دنیا سے بھی وابستگی رہی۔اُن کے خاکے پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ تنقید نگاری کی طرف متوجہ ہو ں تو اِس میدان میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں۔ درس و تدریس کا اچھا خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔ اپنے طلباء کو انہوں نے تنقید پڑھائی ہے۔ اُن کی ہمہ گیر خدمات کا احاطہ کرنے کے لیے طلباء نے اُن کے فن اور شخصیت پر یم فل بھی کیا ہے۔انہوں نے ایک ضخیم کتاب بعنوان ’’آفاق‘‘ مرتب کی ہے ، جس میں گلبرگہ کے تخلیق کار وں ہی کا احاطہ کیا گیا ہے، اور اِس میں کرناٹک میں اکیسویں صدی میں تنقید نگاری کی پیش رفت کی ایک ہلکی سی تصویر اُبھرتی ہے۔ یہ کتاب وحید انجم کے تنقیدی شعور کی غماز ہے۔
۱۲)……سلمان عبد اﷲ ریاض:
سلمان عبد اﷲ ریاض ریاست کے ایک اُبھرتے ہوئے نوجوان قلمکار ہیں۔ مسلسل لکھ رہے ہیں۔ ادبی شخصیات پر مضامین کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جسے بہت پسند کیا جارہا ہے۔اُن کی نوک قلم سے آج کل بہت خوبصورت مضامین نکل رہے ہیں اور اخبارات کی زینت بن رہے ہیں۔’’ارمغان حافظ‘‘کے عنوان سے اُن کی ایک مستقل کتاب بھی منظر عام پر آچکی ہے ۔اِس میں انہوں نے سابق چیرمین ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کے فن اور شخصیت کا جائزہ لیا ہے۔گزشتہ چند سالوں کے دوران اُن کے کئی مضامین ملک گیر سطح پر اخبارات میں شائع ہوئے۔ یہ سب ادبی مضامین ہیں، جن کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ہاں تنقیدی نگاری کے نہایت روشن امکانات پائے جاتے ہیں۔اِن مضامین سے چند کا ذکر ہم یہاں کر رہے ہیں:’’اُردو ادب کا ایک روشن ستارہ:خلیل مامون‘‘،’’اردو کا پریمی:راج پریمی‘‘،’’وجہ کل: ایک منظوم شاہکار‘‘،’’سراغ زندگی:زندگی کا اعمال نامہ(سید احمد ایثارکی کتاب پر مضمون)‘‘،’’واہ اور آہ!تہنیتوں اور تعزیتوں کا خوبصورت مجموعہ‘‘،’’اُردو غزل کا ایک معتبر نام: عزیز بلگامی‘‘، ’’لطافت و ظرافت کا شاعر: محمد ہارون سیٹھ سلیم‘‘،’’منیر احمد جامی کی تخلیقی جامعیت‘‘،’’نعت گوئی اور اِس کے آداب‘‘، ’’صحرائے عرب میں اردو کی قندیل روشن کرنے والی شاعرہ و ادیبہ سمیرہ عزیز‘‘: ۔عنقریب تنقیدی مضامین کی اُن کی ایک کتاب بھی منظر عام پر آرہی ہے بعنوان’’کرناٹک کا شعری ادب‘‘۔ اُمید ہے کہ تنقید نگاری کو لے کر سلمان جیسے نوجوان قلمکار اکیسویں صدی میں اُردو تنقید نگاری کی شان بڑھانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
۱۳)……گوہر تریکیروی:
محترم گوہر تریکیروی صاحب ہماری ریاست کے ان شاعروں میں سر فہرست قرار دیے جا سکتے ہیں جو شاعری کی تخلیق کے ساتھ ساتھ مضمون نگاری پربھی بھر پور توجہ دی ہے۔ مختلف شعراء و فنکاران پر مضامین میں اُن کے تنقیدی شعور کی رَو صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔مضامین کی فہرست طویل ہے، اتنی طویل کہ دو کتابیں تو ضرور شائع کی جا سکتی ہیں۔ لیکن صحت کی اُن کی موجودہ کیفیت شاید انہیں اِس کام سے محروم رکھے(خدا نہ کرے)۔تاہم اُن کے وہ شاگردان ، جو بڑی تعداد میں ہیں، یہ کام انجام دیتے ہیں تو تنقید نگاری کی ایک بڑی خدمت متصور ہو گی۔بشر بیجاپوری ،عبد الخالق فدا،ظہیر عرفان صاحب چکمنگلوری، اکمل آلدوری ، عابد حسین عابد چکمنگلوری کی کتوب میں جو تقریظات موصوف نے تحریر فرمائے ہیں، ان میں اُن کے تنقیدی اشارے اس بات کے غماز ہیں کہ موصوف تنقیدپر مستقل نہ لکھنے کے باوجود وہ سارے اوصاف رکھتے ہیں جو ایک تنقید نگار میں ہونے چاہئیں۔ راحیل صاحب کی کتاب ’’جرسِ احساس‘‘ پر بھی انہوں نے ایک مبسوط مضمون تحریر فرمایا ۔یہ سارے کام اکیسویں صدی کے ہیں، اگرچہ کہ وہ ایک زمانے سے لکھتے رہے ہیں اور مذکورہ بالا تفصیل ایکسویں صدی میں اُ ن ہی کاموں کی توسیع کہی جاسکتی ہے۔
۱۴)……ڈاکٹرمہ جبیں غزال:
میسور کی خاتون قلم کارہ مہ جبیں نجم ہماری ریاست کی ایک سینئر اسکالر،شاعرہ، ناول نگار، نقادہیں۔نجم تخلص فرماتی ہیں اور غزال کو بطور عرفیت استعمال کرتی ہیں۔کرناٹک کے استاد شاعر یعنی اپنے ممیرے نانا حضرت ضمیر عاقل شاہی سے شرفِ تلمذ حاصل رہا اور عالمی سطح پر اردو ادب کی سفیرہیں ،جنہیں مصر قاہرہ،چین، ترکی، تاشقند، سمر قند، بخارا، ازبکستان، ہانگ کانگ، جزیرۂ مالدیپ، متحدہ عرب امارات جیسے مقامات کے سفر کا موقع ملا۔ اب اس فہرست میں جلد ہی پاکستان اور جرمنی شامل ہونے والے ہیں اور یہ سب اسفار اردو ادب اور تنقید کے حوالے سے ہوئے ۔شہد کی مکھی کی طرح وہ ہر لمحہ اردو کی کسی نہ کسی خدمت کے لیے اپنے آپ کو لگائے رکھتی ہیں۔اِس اجمال کی تفصیل پیش ہے۔ایم اے میں گولڈ میڈلسٹ رہی ہیں۔اس وقت یواراجا کالج (جامعہ میسور) ایوننگ کالج مصروف کارر ہیں۔ مہاراجہ کالج( جامعہ میسور) میں صدر شعبۂ اردو رہنے کے بعد یواراجا کالج میں اڈمنسٹر یٹیوآفیسر رہیں اور آج کل یونیورسٹی کالج آف فائن آرٹس (جامعہ میسور کی فنون لطیفہ والی کالج) میں پرنسپال کے عہدے پر فائز ہیں۔ حکومت اتر پردیش کی نیشنل اوارڈ یافتہ ہیں۔’’ریاستی اوارڈ’’ بابائے اردو مولوی عبد الحق اوارڈ‘‘،کوٹلیہ ودیا لیہ ، میسور کااچیومنٹ اوارڈ بھی اپنے نام کر لیا ہے۔ایک طویل مقالہ لکھا بہ عنوان :’’ کرشن چندر کے ناولوں میں نسائی کردار‘‘جو بعد میں 2011 ء میں شائع ہوا۔اُن کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کی فہرست حسبِ ذیل ہے:’’اردو نثر کا آغاز و ارتقاء‘‘(کرناٹک اسٹیٹ اوپن یونیورسٹی کے لیے)،’’باغ و بہار کا تنقیدی مطالعہ‘‘،’’سیر پہلے درویش کی، پر تنقیدی نظر‘‘،’’اردوزبان کی تعلیم ، چند مسائل اور ان کے حل(سوونیر، جنوبی ہند اردوکانفرنس ، چنئی،۲۰۰۳،’’آشکار(شعری مجموعہ) اور رفیق عارف‘‘۲۰۰۶، میسور،’’عالمی شعور کا مصنف: آفتاب صمدانی‘‘، میثاق(افسانوی مجموعہ پر مضمون)۲۰۰۷، گلبرگہ،’’ڈاکٹر خان کی سلطنتِ خدا داد‘‘، تاریخ میسور، سلطنتِ خدا داد، بنگلور ۲۰۱۰، بنگلور،’’کچھ کر کے چلو یا ں کہ بہت یا د رہو‘‘ مرد حرّیت سلطان ٹیپو، ۲۰۱۲ بنگلور،نیے ادبی مسائل و امکانات اور پروفیسر کرامت علی کرامت‘‘، کرامت علی کرامت ایک مطالعہ ،اڈیسہ، ۲۰۱۲،’’افسانہ’اکویریم‘ کا تنقیدی تجزیہ‘‘ اردو کی خواتین فکشن نگار، مرکزی ساہتیہ اکادمی دہلی، ۲۰۱۴ء،ان مضامین کے علاوہ ’’ اُن کا تحقیقی و تنقیدی مقالہ’’کرشن چندر کی ناول نگاری اور نسائی کردار، فخر الدین علی احمدمیموریل کمیٹی ، لکھنو ٔلکھنؤ سے منتخب ہو کر دہلی سے بہت سلیقہ سے شائع ہوئی اور اتر پردیش اردو اکادمی ، حکومت یوپی سے انعام کے لیے منتخب ہوئی( ۲۰۰۸)۔اس کے اب تک دو ایڈیشن شائع ہوئے۔دیگر تالیفات میں ’’آؤ گائیں خوشی منائیں‘‘(بچوں کے گیت)کرناٹک اردو اکادمی ِ حکومتِ کرناٹک، بنگلور سے شائع ہو کر، ریاست کے نرسری اسکولوں میں مفت تقسیم ہوئی۔’’اردو زبان کا جادو‘‘(حصہ اول و دوم)(طلباء و طالبات کے لیے لسانی کھیل) بھی شائع ہوئے۔سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجس میسور کے اشتراک سے قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان، نئی دہلی نے ان دونوں کتابوں کے اب تک تین ایڈیشن شائع کیے گیے اور اردو ڈپلوما کورس کے لیے بھی ان کا مطالعہ کی سفارش کی ہے۔ایک اور تصنیف’’پیاس‘‘Thirstشائع ہوئی جو مختصر افسانو ں پر مشتمل ہے۔ کرناٹک اردو اکادمی حکومت کرناٹک کے تعاون سے شائع ہونے والی اس کتاب کا اجراء علی گڑھ میں منعقدہ’’ ڈاکٹررشیدجہاں پر بین الاقوامی سیمینار‘‘ میں پروفیسر قمر رئیس کے ہاتھوں عمل میں آیا ہے۔اکیسویں صدی کے ابتدائی پانچ سالوں میں ہندوستان میں شائع شدہ خواتین افسانہ نگاروں کے پچیس مجموعوں میں سے منتخب آٹھ میں موصوفہ کا مجموعہ بھی شامل ہے اور علی گڑھ کے علاوہ امریکہ وغیرہ اور دیگر بیرونی ممالک کے مضامین میں بھی اس ذکر کیا گیا ہے۔بہر کیف اِن کی بیش بہا خدمات کی فہرست طویل ہے اور مقالے کی تنگ دامانی ان کے تذکرے کی راہ میں حائل ہے۔اُمید ہے کہ اکیسویں صدی میں وہ اپنی تنقید نگاری جاری رکھیں گی۔
۱۵)……ڈاکٹرجلیل تنویر:
گلبرگہ کے رہنے والے ہیں۔ ریاست کرناٹک کے معروف افسانہ نگار اور شاعر ہیں۔نقد و تبصرہ بھی مشغلہ رہا ہے۔اردو کے چاہنے والوں کی نظر میں اُن کی تحریریں بڑی اہمیت کی حامل قرار دی جاتی ہیں۔ادبی و ثقافتی مجالس کے انعقاد کے حوالے سے وہ شہر گلبرگہ کی معروف ادبی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ادب کے لیے اُن کا خلوص، اُن کی محنت اور اردو ادب کے لیے اُن کی لگن و محبت نے انہیں دو بار کرناٹک اردو اکادمی کے باوقار اوارڈس کا مستحق بنایا۔گلبرگہ کے متعدد ادبی و ثقافتی اداروں کے رکن رکین رہے ہیں، اور دیگر کئی ادبی انجمنوں سے اُن کی وابستگی ہے۔۱۹۸۵ میں انہیں دکن اوارڈ سے نوازا گیا۔ ۱۹۹۶ میں کرناٹک اردو اکادمی نے انہیں بہترین افسانہ نگار کے انعام سے نوازا۔بمقام میسور۲۰۰۶ میں کرناٹک اردو اکادمی نے انہیں ممتاز اُردو قلمکار کا اوارڈ تفویض کیا۔اُن کے افسانوں کے مجموعے ’’حصار‘‘ کو ۱۹۸۳ میں کرناٹک اردو اکادمی بنگلور نے انعام سے نوازا۔۱۹۹۵ میں موصوف نے ڈاکٹر طیب انصاری کی سوانح حیات بھی لکھی۔ اُن کا مجموعہ کلام ’’محور ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔جہاں تک تنقید نگاری کا سوال ہے تو انہوں نے۲۰۰۴ میں اپنے تنقیدی مضامین کا مجموعہ’’فکرو نظر‘‘ شائع کیا۔یعنی اکیسویں صدی میں موصوف سے مزید تنقید نگاری کی توقع کی جا سکتی ہے۔
۱۶)……حامد اکمل:
حامد اکمل صاحب گلبرگہ کے متوطن ہیں۔ایک فعال نقاد، ادیب و شاعر ہیں۔گلبرگہ کی ادبی و علمی فضائیں اِن پر بہت مہربان رہیں، جو اِن کی خداداد صلاحیتوں میں مزید نکھار کا باعث بنیں۔اِن کے مضامین اور دیگر قلمی کاوشوں کی فہرست طویل ہے۔اختصارکے ساتھ جو کچھ میسر آیا ہے حاضرِ خدمت ہے۔ قدیم شعراء میں درج ذیل تٖفصیلی مضامین لکھے۔جن میں مخدوم علی ثاقب سہر وردی مرحوم، جناب طاہری مرحوم، حضرت سرور مرزائی مرحوم، حضرت صابر شاہ آبادی،ڈاکٹر راہی قریشی مرحوم،ڈاکٹر صغریٰ عالم مرحومہ، سلیمان خطیب مرحوم،حضرت نیاز گلبرگوی(مقیم امریکہ)،عبد الرحیم فضل گلبرگوی مرحوم کراچی شامل ہیں۔موصوف نے تنقیدی مضامین لکھے اور خاکے بھی ۔ایک ادیب، نقاد و خاکہ نگار کی حیثیت سے ڈاکٹر وہاب عندلیب، مجتبیٰ حسین پر مضامیں تحریر فرمائے۔ خالد سعید پر خاکہ لکھا۔ سید مجیب الرحمٰن مرحوم ، جناب محمد عبد العظیم پر مضامین لکھے۔’’کرناٹک کے جدید نظم گو شعراء‘‘ کے زیر عنوان ، محمود ایاز ، حمید الماس، جبار جمیل، تنہا تما پوری، ساجد حمید ، لطیف اور خالد سعید کی نظم نگاری کا جائزہ لیا۔کئی سمینار میں شرکت کی اور مقالے پڑھے۔ جن میں فراق گورکھپوری کی شاعری۔ اقبال کی شاعرانہ عظمت،سردار جعفری کی نثری خدمات (سیمنا ر MANU)، شامل ہیں۔قدیر زماں کی افسانہ نگاری، کوثر پروین کے افسانے، زبیر رضوی کی ادبی خدمات(سیمینار GUC)
جیسے عناوین پر مضامین رقم کیے۔اردو افسانہ منٹو سے دور جدید تک (سیمینار انجمن ترقیٔ اردو)،فوزیہ چودھری ، شعلہ مستعجل(تعزیتی جلسہ انجمن ترقی اردو)،اردو صحافت :(سیمینار گلبرگہ یونیورسٹی)،اردو صحافت کے مسائل (سمینار اردو اکیڈیمی بمقام میسور)،اردو صحافت مسائل اور امکانات؍خطبۂ صدارت، آمبور سمینار اردو صحافت کے دو سو سال)،اردو صحافت اور عصری و سائل اور چیلجنس (اردو اکیڈیمی سیمینار بلگام)،اردو غزل آغاز و ارتقاء۔ توسیعی لیکچر، گلبرگہ وی جی ویمنس کالج اردوصحافت اور کالم نگاری (اردو اکیڈیمی سمینار بمقام گلبرگہ)جیسے عنوانات کا گویا حق ادا کر دیا۔قومی یک جہتی کے فروغ میں صحافت کا حصہ ، پرانے شہر نیے لوگ اورحضرت خواجہ بندہ نواز ؒ کی فارسی شاعری پر ریڈیو ٹاک دیا۔پریم چند کے افسانوں کے ڈراما ٹائز کرتے ہوئے فیچر پیش کیے،جن میں مختلف افسانوں اور ناولوں کے کرداروں کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ اندرا گاندھی کے قتل پر تعزیتی فیچرلکھا۔ مسعود تما پوری کے افسانے،سراج وجیہہ کے افسانے،مظہر محی الدین کی شاعری،خمار قریشی کی شاعری،اقبال فرازؔ (ہبلی) کی شاعری،ملا عبدالغنی کے افسانے(تقریر بمقام ہبلی)پر تاثراتی مضامین تحریر فرمائے۔اِن کی یہ کارکردگیاں 2016تک کی ہیں۔مطلب یہ کہ اِن کا کام اکیسویں صدی میں جاری ہے۔
۱۷)……محمد حسین فطرت بھٹکلی:
موصوف کرناٹک کے ایک باکمال شاعر ایک بے مثال ادیب ہیں۔کرناٹک کے مردم خیز شہر بھٹکل کے علمی ماحول کے پروردہ ہیں۔ موصوف نہ صرف شاعری کے استاد ہیں بلکہ اُن کی نثر اُن کے گہرے مطالعے کی عکاس نظر آتی ہے۔جنوبی ہندوستان میں رہنے کے باوصف اُردوئے معلی کے مراکزکا لب و لہجہ اُن کا خاصہ رہا ہے۔اُنہوں نے جو مضامین اپنے شاگردوں کی کتوب کے لیے تقریظ یا پیش لفظ کی شکل میں لکھے ہیں، وہ اکیسویں صدی میں پہنچ کر شعری تنقید کا سرمایہ بن سکتی ہیں، اگر انہیں کتابی شکل میں یکجا کیا جائے تویہ کتاب نسلاًدر نسلٍ جویانِ ادب کو فیض یاب کر سکتی ہے۔میرے ساتھ تقریباً تیس سال قبل اُن کی مراسلت رہی تھی۔ یہ محض مراسلت نہ تھی بلکہ ان کے ذریعے میرے چودہ طبق روشن ہو جایا کرتے تھے۔نقل مکانی کے سبب اُن کے مراسلے محفوظ نہ رہ سکتے۔ مجھے یاد ہے شعر و سخن کے بہت ہی اہم پہلوؤں پر موصوف ناقدانہ گفتگو فرمایا کرتے تھے۔کاش کہ وہ شاعری کے ساتھ ساتھ تنقید نگاری کی جانب اتنی ہی توجہ کرتے ، جتنی وہ شاعری کی طرف متوجہ رہے ہیں، توشاید ایک اچھا ذخیرہ اردو والوں کو تنقید نگاری کے ضمن میں میسر آجاتا۔ابھی حال میں ای ٹی وی پر اُن کی زندگی پر ایک مختصر سی ویڈیو رپورٹ بھی دیکھنے کو ملی جس پر اُن کی شاعری کے محاسن کے تذکرے پر اکتفا ء کیا گیا تھا، ورنہ اگر اُن کی شخصیت اور ان کے کام پر تحقیق کی جائے توشعر و سخن کے ساتھ ساتھ تنقیدنگاری کے ضمن میں اُن کی خدمات کا اچھا خاصل مواد میسر آسکتا ہے اور ایک ڈاکومنٹری بنائی جا سکتی ہے۔
۱۸)……الف احمد برقؔ:
ایک بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باکمال خاکہ نگار بھی ہیں۔ادب پر تنقیدی نظر ڈالنے کے انہیں بارہا مواقع میسر آئے ہیں،جیسا کہ یحیٰ نسیم،فریدہ رحمت اﷲ، امیر احمد امیر وغیرہ پر لکھے ہوئے اُن کے تنقیدی مضامین سے اندازہ ہوتا ہے، لیکن افسانہ نویسی ، خاکہ نگاری، طنز و مزح اور شعرو سخن کی طرف اُن کے فطری میلان نے انہیں سنجیدگی کے ساتھ تنقید نگاری کی طرف راغب ہونے کا موقع نہیں دیا۔ اُن کے خاکوں میں اُن کے اسلوب اور ان کی قوتِ مشاہدہ کے حوالے سے احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ برق صاحب توجہ کریں تو تنقید نگاری میں بھی کمال دکھا سکتے ہیں۔کیوں کہ اُن کے تنقیدی مضامین پر کافی گہری نظر رہی ہے اور وہ تنقیدی مضامین لکھنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں ۔توقع کی جانی چاہیے کہ تنقید نگاری کے میدان میں موصوف بیسویں صدی میں نہ سہی، اکیسویں صدی میں تنقید کی دُنیا میں ضرور نظر آئیں گے۔ ان کے خاکوں کا مجموعہ منظر عام پر آچکا ہے ، جن کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اگر وہ اس جانب توجہ دیں تو ایک اچھے ناقد بن سکتے ہیں۔ بزمِ عروج ادب بنگلور کے زیر اہتمام ہونے والی ادبی تنقیدی نشستوں کے نظم و انصرام میں ان کا بڑا حصہ رہا ہے جو سست رفتاری کے باوجود اکیسویں صدی میں بھی جاری ہے۔
۱۹)……رحمٰن مصور:
سالار سے وابستہ ہیں، تنقیدی رجحان رکھتے ہیں،مختلف ادبی شخصیات پر وقتاً فوقتاً مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔موصوف اگر کوشش کریں تو ان کے قلم سے پروقار تنقیدی تحریریں عالمِ وجود میں آسکتی ہیں۔ ’’خود نویس سوانح حیات اور یادوں کی مہک‘‘(2014)، ’’شاعری کی خوبصورت صنف سانیٹ‘‘(2016)ء’’فیض احمد کے بارے میں دو مضامین‘‘،مرزا غالب کے بارے میں ایک‘‘سکندر علی وجد‘‘شمس مینائی‘‘نعت گوئی اور غیر مسلم شعراء‘‘اردو صحافت اورغیر مسلم صحافی‘‘ پر ایک مضمون شائع ہو چکے ہیں۔مضمون نگاری کا سلسلہ جاری ہے۔
۲۰)……راہی فدائی:
راہی فدائی ہماری ریاست کی ایک اہم ادبی و دینی شخصیت ہیں۔زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔نقد و نظر کی خداداد صلاحیت کے حامل ہیں۔ وقتاً فوقتاً تنقیدی مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔اب تک اُن کے دوتنقیدی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں:تحقیقی مضاماین,مدرکات: 2013, اور مصدقات2015۔
۲۱)……ڈاکٹر فرزانہ فرح:
یہ نام اب بڑی تیز رفتاری سے ریاست کے افقِ تنقید نگاری پر اُبھر رہا ہے۔بھٹکل کے ادبی و دینی گھرانے سے تعلق کا ان کے قلم کو خوب فیض پہنچا ہے۔اخبارات میں اُن کے مضامین اہتمام کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔ 2010کے بعد اِن کو ریاست میں بڑی توجہ سے پڑھا جانے لگا ہے۔ بھٹکل کی مقامی کالج میں اردو کی ایچ او ڈی ہیں ۔ اردو شاعری سے بھی شغف ہے۔ مشاعروں میں اِن کے کلام کو ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں مدعو کی جاتی رہی ہیں۔اُن سے رابطہ ہوا اور اُنہوں نے وعدہ بھی کیا کہ وہ اپنے بارے میں خصوصی طور پرتنقیدنگاری کے حوالے سے مواد مہیا فرمائیں گی لیکن یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا اس لیے اس مختصر سی معلومات پر اکتفا کر رہا ہوں۔انشاء اﷲ آئندہ کبھی موقع ملا تو ان پر تفصیلی معلومات فراہم کی جائیں گی
۲۲)……رحیم بیدری:
رحیم بیدری کا ذکر اس مقالے میں ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ بہت اہتمام سے اپنے تنقید نگاری کے کام میں مصروف ہیں۔ ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ان کی تحریریں اس حقیقت کی غماز ہیں۔ لاکھ کوشش کے باوجود موصوف سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ ایک دو پروگراموں میں ان سے سرسری ملاقات ہو ئی ہے، لیکن ان کی تحریروں سے فیض یابی کا موقع بار بار ملتا رہتا ہے۔تنقید میں خود اعتمادی کا یہ عالم ہے کہ شمس الرحمٰن فاروقی جیسے تنقید کے اکابرین تک اُن کی لب کشائی کی زد میں آنے لگے ہیں۔اور یہ اعتماد انہیں ایک نئی اڑان کے لیے تیار کر رہا ہے۔
۲۳)……یس ایم عقیل:
یس ایم عقیل سے ہمارے تیس سالہ پرانے تعلقات رہے ہیں۔ وہ میرے ہمعصر شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ میرے اچھے دوست بھی رہے ہیں۔ دوردرشن پرہم نے ان کی ایک انٹرویو لی تھی جس کے contentکو ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ادب اور زبان پر، تحقیق اور تنقید پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ریاست و ملک کی ادبی صورتحال سے خوب واقف ہیں۔ مشاعروں کے اسٹیج پر ان سے مسلسل ملاقاتیں ہوتی رہیں ہیں۔بہت دنوں بعد ان سے رابطہ ہوا تو وہ اکیلے نہ مل سکے بلکہ جب بھی ربط ہوا وہ اپنی مصروفیات کے ہجوم میں گھرے نظر آئے۔
۲۴)……م پ راہی(مسرت پاشا راہی):
ریاست کے ایک اور ہونہار قلم کارہیں ۔تنقید کا بھرپور شعور رکھتے ہیں۔ ان کے مراسلے اخبار ات کی زینت بنتے رہے ہیں جن میں تنقیدی شعور کی روصاف نظر آتی ہے۔انور مینائی کے ضمن میں جو اِشو ہم نے چھیڑا ہے، اس میں بھی موصوف نے اُس زمانے میں بھر پور حصہ لیا تھا اور اسی وقت ہمیں احساس ہو گیا تھا کہ یہ قلم کے دھنی ہیں اور نقد و نظر کا اچھا سلیقہ رکھتے ہیں۔ لیکن ایسے نوجوا ن قلم کاروں کا المیہ یہ ہے کہ یہ خود اپنی خدا داد صلاحیتیوں سے با خبرنہیں رہتے اور باخبر رہنے والوں کی گزارشات پر کان بھی نہیں دھرتے۔ ہم نے ان سے رابطہ کیا تویہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ وہ اپنے کام کو جاری نہیں رکھ پائے ہیں۔ لیکن ہمیں امید ہے کہ دیر سویروہ اس جانب توجہ عنایت فرمائیں گے اور اپنے حصہ کا تنقیدی ادب کرناٹک کی تنقید نگاری کی دنیا کو پیش کرنے کی اپنی ذمہ داری ادا کر یں گے۔
۲۵)……لئیق صلاح:
محترمہ لئیق صلاح صاحبہ ہماری ریاست کی ایک اور مایہ ناز مضمون نگار، مزاح نگار و نقاد ہیں۔ کرناٹک اردو اکادمی کی صدارت بھی فرما چکی ہیں۔یم فل، پی ایچ ڈی کی ہے۔ گلبرگہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ مضمون نگاری، مزاح نگاری کی طرف جھکاؤ زیادہ ہے۔اُن کا مقالہ’’سید شمس الدین فیض: حیات اور ادبی کارنامے‘‘(تحقیق) اُن کے تنقیدی شعور کا آئینہ دار ہے۔اُن کی کتب میں’’ سنی سنائی‘‘(طنز و مزاح)، ’’عہد ارسطو جاہ‘‘(تحقیقی، علمی و ادبی)،عکس در عکس(تحقیقی و تنقیدی مضامین)،’’نقدو جستجو‘‘(تحقیقی و تنقیدی مضامین) شامل ہیں۔ افسوس کے اُن سے ربط پیدا نہ ہو سکا۔جو بھی تفصیلات سے دوسروں سے ملی اُنہیں کو یہاں درج کیاجارہا ہے۔
۲۶)……وہاب عندلیب:
وہاب عندلیب کی باغ و بہار شخصیت سے ملاقات کا ہمیں بھی موقع ملا ہے ، جب وہ کرناٹک اردو اکادمی کی چیرمین شپ کے عہدے پر(۲۰۰۱ سے ۲۰۰۴تک) فائز تھے۔ ہماری کتاب’’سکون کے لمحوں کی تازگی‘‘ کی اشاعت کے لیے مالی امداد اُن ہی کی صدارت کے دور میں حاصل ہوئی تھی۔اُن سے فون پر ایک عرصے کے بعد رابطہ ہوا تودو طرفہ خوشی دیدنی تھی۔اُنہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ضروری معلومات فراہم فرمائیں گے اور دوسرے دن ہی اپنا وعدہ وفا فرمایا۔ اسی معلومات پر مبنی یہ چند سطور نذرِ مقالہ ہیں۔اُن کی کتوب میں’’ریاض صدیقی ، شخصیت اور فن‘‘1978(2003میں سیکنڈ ایڈیشن,(’’تحقیق و تجزیہ:۱۵ مضامین‘‘1999میں شائع ہوئیں۔ ان کے علاوہ ’’یار رفتگان:سلیمان خطیب،شخص ، شاعر و نثر نگار‘‘2013،’’تارِ نظر مضامین تبصرے اور پیش نامے‘‘2014میں شائع ہوئیں۔خاکہ نگاری میں بھی کافی سرگرم رہے۔’’قامت وقیمت‘‘ 2004خاکوں پر مشتمل ہے۔ ’’گفتار و کردار‘‘ 2010 بھی خاکوں پر مشتمل ہے۔’’رہنمائے تدریس برائے نرسری اردو مدارس ‘‘نامی ایک کتاب بھی آپ نے مرتب فرمائی ہے۔’’ افکار و نظریات‘‘:اس میں اِسلامی مقالات شامل ہیں۔ایک منظوم کتاب’’ نذر ٹیپو سلطان‘‘ بہ اشتراک غفار شکیل مرتب فرمائی ہے۔
۲۷)……اکرم نقاش(گلبرگہ):
گلبرگہ ادبی و علمی فضاؤں کے پروردہ اکرم نقاش(اکرم جانی)ایم اے گولڈ میڈلسٹ رہے ہیں، شاعری کی ابتدا1983 کی۔اُن کی تصانیف میں ’’شعر‘‘ (غزلوں کا مجموعہ)شامل ہے، اس کے علاوہ ان کا انتخاب ’’افلاک‘‘ بہ اشتراک انیس صدیقی منظر عام پر آیا۔’’حشر سی یہ برسات‘‘ اُن کی رباعیوں کا مجموعہ ہے۔ بہ اشتراک سہیل اختر ایک اور انتخاب انہیں نے’’غزل کے رنگ‘‘ کے زیر عنوان شائع کیا۔حال ہی میں اُن کی ایک کتاب ’’خانہ تکلم ‘‘ شائع ہوئی ، جس میں انٹرویوز شامل ہیں۔اُن کی زیر اشاعت کتوب میں ’’محمود ایاز کی تحریریں‘‘ اور ’’ بے سحر رات(غزلیں) شامل ہیں۔اِس قدر زرخیز قلم سے ہمیں آپ کی ذات سے مزید قلمکاریوں کی بجا طور پر اُمید ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ ریاست کے محکمۂ آب پاشی میں اسسٹنٹ انجینئر جیسے ذمہ دارانہ عہدے پر فائز ہو نے کے ساتھ اردو ادب میں اتنا سب کیسے کر لیا۔
۲۸)……سید جلال محمودی:
کرناٹک کے شہر بھدراوتی سے موصوف کا تعلق ہے۔شاعری کے ساتھ ساتھ تنقید نگاری میں بھی کمال درجے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اردو غزل پر کیالی فورنیہ میں مقیم تھامس گرے اور ستیہ پال آنند کے اِس اعتراض پر کہ اردو غزل ہو کہ افسانہ عالمی سطح پر قابلِ قبول نہیں ہیں، پر جو بحث چھڑی تھی، اس میں سید جلال محمودی نے نہ صرف حصہ لیا تھا بلکہ اپنے جوابی دلائل و براہین سے ان معترضین کو لاجواب کر دیا تھا۔ گو کہ اس میں افتخار امام صدیقی نے بھی حصہ لیا تھا، لیکن سید جلال محمودی صاحب کے دلائل گرے اور ستیہ پال آنند پر بھاری پڑ گیے تھے۔سید صاحب نے دو ٹوک انداز میں ان حضرات سے دریافت کیا تھا کہ کسی زبان کی کسی صنف سخن کے عالمی ہونے نہ ہونے کو ناپنے کا آخر پیمانہ کیا ہے اور اگر ہے تو اسے کس نے بنایا اور کس استحقاق تحت بنایا اور یہ کہ اردو کے اسلاف غالب کی غزل اور منشی پریم چند کے افسانوں کے بارے میں اس حوالے سے کیا رائے قائم کی جانی چاہیے تو ، ان ناقدین غزل کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔اِسی طرح ملکی سطح پربھی ظہیر غازی پوری کی ایک آزاد غزل اور اس کے غیر مساوی مصرعوں کو لے کر ایک بحث چھڑگئی تھی۔ اس وقیع بحث کے وقار ودبدبے کااندازہ اس میں شامل ہونے والے شرکاکے اسمائے گرامی سے لگایا جا سکتا ہے۔ یعنی اس بحث میں شامل ہونے والوں میں سید جلال محمودی کے علاوہ آل احمد سرور،شمس الرحمٰن فاروقی،عنوان چشتی،کمال احمد صدیقی،عروج زیدی،مظہر امام،یوسف جمال،ناوک حمزہ پوری،راز امتیاز،فضا کوثری،انور مینائی،جیسے نام تھے۔دس گیارہ مہینے تک چلنے والی اس بحث کا ایک خوشگوار اختتام یہ ہوا تھا کہ ناوک حمزہ پوری نے سیدجلال محمودی کے ایک جملے کو قول فیصل قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ:’’بقول سید جلال محمودی ،غزل کی روایتی ساخت ہی غزل کی لاثانی مقبولیت کی ضامن ہے۔‘‘اِس کا تذکرہ اور اِس سے متعلق اور بھی اُمور دو ہفتے قبل کے روز نامہ سالار میں شائع ہونے والے مضمون’’اچھا لکھنے والا وہ ہے جو جانتا ہے اسے کہاں جا کر تھم جانا چاہیے‘‘ میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔اس طرح سید جلال محمودی تنقید نگاری کے اُفق پر چمکنے والا ایک روشن ستارہ کہے جا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے ’’مظہر، ذہن اور فن ‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ سپردِ قلم فرمایا ہے۔ دیگر مضامین میں’’تخلیق ِ فن اور تنقیدی شعور‘‘، سیماب کے ایک شعر پر تنقیدی نظر‘‘،’’مہ جبین نجم کا افسانہ ’’واپسی‘‘ کا تخلیقی و تنقیدی جائزہ‘‘(محمد اقبال کی ادارت میں شائع ہونے والے ۲۰۱۴ء کے ادبی ایڈیشن میں شائع شدہ)،شامل ہیں۔ ایک بار سیماب کے شعر……ــ’’سیماب کون ہے ترے احساس میں شریک……کس کی نظر وہا ں ہے جہاں دیکھتا ہوں میں‘‘……پر ایک لمبی بحث چھڑ گئی تھی ، جس کے اصحابِ آراء میں شمش الرحمٰن فاروقی، کمال احمد صدیقی، عنوان چشتی جیسے ادب کے چغادری شامل رہے تھے۔اِس شعر میں شتر گربا کے عیب کی گفتگو بھی تھی اور شعر کے صاف نہ ہونے کااعتراض بھی۔ اِس بحث کے دوران سید جلال محمودی نے اُن کے دوسرے مصرعے پر جو صلاح دی وہ شرکائے بحث کو بہت متاثر کر گئی تھی۔ یہاں تک کہ راز امتیاز صاحب نے بھی سید صاحب کی پیٹھ تھپکی تھی۔اُن کے مصرعے پر سید صاحب کی صلاح یہ تھی:’’پہنچی نظر ہے کس کی جہاں دیکھتا ہوں میں‘‘ اور یہ اصلاح بقول سید صاحب لازمی تھی۔اِسی طرح مہ جبین نجم کے افسانے پر سید صاحب کے جائزے کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ موصوفہ نے اپنی اگلی کتاب میں اس کو من و عن شائع کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔چونکہ یہ ایک علامتی افسانہ تھا اور اس لیے اس کی عام فہمی کو لے کر نجم صاحبہ کو جو اندیشے لاحق تھے، وہ اسی تجزیے سے دور ہوگئے تھے اور انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ سید صاحب نے تجزیے کا حق ادا کر دیا ہے۔تنقید کی اس نوعیت کی خدمات میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ۔ سالار کے ’’نظر نظر کے چراغ‘‘ کالم میں وہ مسلسل چھپتے رہے ہیں اور اپنا فریضہ اکیسویں صدی میں ادا کرتے رہے ہیں۔
۲۹)……ٖڈاکٹراقبال النساء:
موصوفہ کا تعلق بنگلورسے ہے۔ دکنیات، اقبالیات سے شغف رکھتی ہیں۔ اِن کی تصانیف میں ’’قطب مشتری، تحسین و تخمینـ‘‘ ، ’’سرور حیات‘‘(عصری چکمنگلوری کا مرتبہ کلام)شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بنگلور یونیورسٹی اور مدراس یونیورسٹی کے اُردو فاصلاتی تعلیمی کورس کے لیے مواد بھی ترتیب دیا ہے۔ڈاکٹر م ن سعید کی زوجہ ہیں۔اُن سے تنقیدی مضامین کے عنوانات حاصل نہ ہو سکے۔لیکن امید ہے کہ وہ اکیسویں صدی میں اپنی تنقیدی صلاحیتوں کو ضرور بروئے کار لائیں گی۔
۳۰)……عزیز بلگامی:
جب ریاست کے معتبر قلمکاروں سے رابطے کا سلسلہ شروع ہوا تو،تنقید نگاری کی ریاست میں پیش رفت کے میرے استفسار پردو اصحاب ایسے تھے جن کے منہ سے میرے بارے میں بھی کلماتِ خیر ادا ہوئے اور بلا تکلف انہوں نے عرض کیا کہ عزیز صاحب ! ریاست میں جو بھی قلمی کام ہو رہا ہے اور خصوصاً تنقید نگاری کی جو بھی ہلچل دیکھی جارہی ہے اُن میں آپ کا(عزیز بلگامی کا) نام بھی شامل ہوناچاہیے۔یہ احساسات محترم آفاق عالم صدیقی صاحب اور سالار کے سابق مدیر ادبی ایڈیشن محمد اقبال صاحب کے تھے۔میں نے ہنس کر ٹالنے کی کوشش بھی کی، کیوں کہ اپنے منہ میاں مٹھو بننا مجھے گوارہ نہیں تھا ، طبعیت میں جھجک پائی جارہی تھی۔ لیکن انہوں نے بہ اصرار اورنہایت سنجیدگی کے ساتھ کہا کہ اپنا تذکرہ فرما دیں۔ چنانچہ کچھ باتیں میری قلمکاری کے بارے میں عرض کرتا ہیں:1972سے یعنی کالج کے زمانے سے ہی میرے مضامین اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔لیکن شاعری کی طرف طبعیت کا میلان اور مشاعروں میں پے در پے شرکت نے ضرورت کے تحت کچھ دوستوں کی کتابوں پر خال خال تبصروں کو چھوڑ کر مستقل نثر نگاری کی طرف توجہ دینے کا موقع فراہم نہیں کیا۔میرے استادِ محترم حضرت عطاء الرحمٰن عطا ہبلوی کی اچانک گمشدگی(1986)کے بعد رہ رہ کر خیال آنے لگا کہ اُ ن کے کلام کو منظر عام پر لایا جانا چاہئیے ۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جس وقت وہ گم ہوئے ، اُن کی شاعری کی بیاض بھی اُن کے ساتھ تھی ، چنانچہ اُن کا کلام بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ بالآخر اُن کے چچا سے ہم رجوع ہوئے تو عطا کے چچا زاد بھائی فیض احمد قریشی سے ہماری ملاقات ہوئی اوراُن کے ذریعہ کچھ کلام ہمارے ہاتھ لگا۔ہم ڈاکٹر م ن سعید صاحب سے ملاقات کی اور اُن سے گزارش کی کہ مجھے’’ عطا کے کلام اوران کی شخصیت ‘‘پریم فل کی اجازت مرحمت فرمائیں۔
موصوف کی کرم فرمائی ہو ئی اور عطا کا حق ادا کرنے میں ہم کامیاب ہوگئے۔ ان پر لکھا ہوا مقالہ 2003میں ’’زنجیرِ دست و پا‘‘ کے نام سے منظرعام پر آیا۔یہ میری نثر نگاری کی پہلی کوشش تھی جسے دوستوں نے بہت پسند کیا۔اس کے بعد شاعری کے ساتھ نثر نگاری کا سلسلہ شروع ہوا۔جو ہنوز جاری ہے۔شاعری کے تین مجموعے ’’حرف و صوت‘‘(1992) ، ’’سکون کے لمحوں کی تازگی‘‘(2003)، ’’دِل کے دامن پر‘‘(2015)منظر عام پر آئے۔350صفحات پر مشتمل مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب کی سوانح حیات لکھنے کا پروجیکٹ ہم نے مکمل کرلیا(2014)جو کتابی شکل میں پاریکھ فیملی نے شائع کیا ہے اور اس کے جملہ حقوق اسی فیملی کے نام ہیں۔ریاست میں سب سے کسی شاعر کاپہلا ویب سائٹ اپنے نام سے شروع کرنے کا شرف حاصل ہوا۔اور متوازی طور پر نثری کام جاری رہا۔’’عالمی انوارِ تخلیق ‘‘ رانچی جھارکھنڈکے ادراتی بورڈ کے ۶؍ ارکارن( سلام بن رزاق، مشرف عالم ذوقی، ڈاکٹر بلند اقبال،سرور غزالی، رؤف خیر) کے ساتھ احقر کا نام بھی شامل ہے‘‘۔رانچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کے ہاتھوں ہمیں "Man of Literature 2015"کے ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ،جس کی گونج پریس اور سوشل میڈیا میں آپ نے بھی ضرور سنی ہوگی۔۔مضامین کی نوعیت کچھ بھی ہو، اگر تنقید کی ترازو پرانہیں تولا جائے تو ان میں سے کئی مضامین ، چاہے وہ خالص ادبی نہ ہو کر ، دیگر اصنافِ ادب جیسے، نفسیات، دینیات سے بھی متعلق ہوں تو ان میں تنقیدی شعور کی لہریں تلاش کی جاسکتی ہیں اور آپ حضرات کی تصدیق و توسیق حاصل ہوجائے توہماری کاوشوں کو بھی اِکیسویں صدی میں تنقید نگاری کی پیش رفت کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ تنقیدی مضامین کے چند عنوانات پیش کر رہا ہوں:ـ’’قلب ِ منور کا طلبگار:’’ صاحب حدیث ِ عنبر‘‘(فضیل احمد عنبرؔ ناصری)،’’پروین کمار اشک، عالمی ادبی تناظر میں‘‘،’’اُن کے جانے کا منظر تماشہ نہیں‘‘،سلطنتِ بہمنی کی شعری روایات کا پاسدار شاعر:ڈاکٹر وحید انجم‘‘،ڈاکٹر ایم اے حق: ایک باکمال معاصر افسانچہ نگار‘‘،’’پاکستانی شاعرہ ’’محبت آنکھ رکھتی ہے‘‘ کے مجموعۂ کلا م تبصرہ، بعنوان ’’ ثمینہ گل کا چمنستان سخن‘‘،سراج شولا پوری کی تصنیف’’تیر نیم کش‘‘: طنز و مزاح کے جلو مین تنقیدی شعور کی سوغات‘‘،ڈینمارک کے شاعر ترغیب بلند کی کتاب’’سرمایۂ شعراء‘‘پر تبصرہ:بزرگان ِ ادب کیلئے عظیم خراج‘‘،صغیر اشرف وارثی’’حرف سخن کے آئینے میں‘‘،’’عالمی انوار تخلیق‘‘علمی و ادبی تجلیات کا بیش بہا مخزن‘‘،’’سلیم احمد زخمی بالودوی مرحوم:چھتیس گڑھ کا ایک باکمال اُستاد شاعر‘‘،فن رباعی کی روایت کا ایک مخلص مشعل بردار: ڈاکٹر حافظ کرناٹکی‘‘،ظہیر الدین ظہیر رانی بنوری: ایک دلنواز شخصیت ایک باوقار فنکار‘‘،عالمگیر ادب (پروفیسر حمید سہر وردی: شخصیت اور ادبی جہات‘‘ پر تبصرہ‘‘،’’سفر نامہ انڈمان‘‘،احمد علی برقی اعظمی: ایک ہمہ جہت شخص ، ایک بے مثال فن کار‘‘،اردو شاعری کو عادل رشید کا تحفۂ بیش بہا: محاورہ غزل‘‘،’’الف احمد برق:برق گرتی ہے تو بے چارے قلمکاروں پر‘‘،’’فیاض شکیب:خدا کی مہربانی ہوگئی کیا‘‘وغیرہ۔ اِن میں سے ہر مضمون صاحبِ کتاب کی فرمائش پرہی سپرد قلم کیا گیا۔ اس میں وہ مضامین شامل نہیں جو ملت کی زبوں حالی کو سامنے رکھتے ہوئے لکھے گیے جو تقریباً 100کی تعداد میں ہیں اور جنہیں دنیا کے بڑے اردو اخبارات نے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا۔ البتہ وہ چند عنوانات ضرور شامل کروں گا، جو احقر کی قدر افزائی کے لیے لکھے گیے ہیں:’’حقیقی جذبات کا سچاعکاس: عزیز بلگامی(آفاق عالم صدیقی، شکاری پور)،’’عزیز الدین عزیز بلگامی(ایک خوش گلو شاعر اور صاحبِ طرز ادیب)(پروفیسرنذیر احمد لوہانی، بھٹکل)،’’عزیز بلگامی : میری نظر میں(محمد اعظم شاہدبنگلور)،’’کسر نفسی کا پیکر: عزیز بلگامی(عبد الغفور پاریکھ ناگپور)،’’عزیز بلگامی کی ’’نعتیہ شاعری‘‘ کا جائزہ(ڈاکٹر وکیل احمد رضوی، صدر شعبہ اردو رام گڑھ، جھارکھنڈ)،’’عزیز بلگامی: ایک صاحب ِ علم شاعر(گوہر تریکیروی، میسور)،’’انٹر نیٹ کا آدمی(وحید انجم گلبرگہ)،’’بھارت کے معروف شاعر و ادیب : عزیز بلگامی سے ایک مکالمہ(’’روز نامہ خبریں‘‘ کے لیے منا ن قدیر منان، لندن سے انٹرویو لی، جو روز نامہ ’’ خبریں‘‘ پاکستان سے وابستہ ہیں)،’’نغمون کی تازگی(نقشبند قمر نقوی بخاری، اوکلا ہوما ، امریکہ)،’’اسلام پسند شاعر :عزیز بلگامی(نیاز احمد شریف مرحوم، بنگلور)،’’عزیز بلگامی: ایک تعارف(سید نورالدین قادری مرحوم)۔ اکیسویں صدی میں ہم نے اپنا کام جاری رکھا ہے۔
یہ ہیں وہ تیس قلمکار ، جن کے حوالے سے میں نے کرناٹک میں اکیسویں صدی کی تنقید نگاری کی پیش رفت کا جائزہ لیا ہے۔ممکن ہے میں اپنے موضوع سے کہیں کہیں بھٹک بھی گیا ہوں۔لیکن میں نے پوری کوشش کی ہے کہ جو لوگ فی الواقع تنقید نگاری کے میدان میں سرگرم ہیں یا جن کے سلسلے میں امکانات ہیں، اُن کا نام بہر صورت لیا جائے ، قطع نظر اس سے کہ ان کا قلم وقفے وقفے سے گردشِ زمانہ کی ستم ظریفیوں کا شکارہوکر خاموش ہی کیوں نہ رہ گیا ہو۔
وہ قلمکار جن سے رابطہ نہ ہوسکا اور جو ایسے تھے کہ جن کے نام اُن کی خدمات کے ساتھ اس مقالے میں موجود ہونے چاہئیں،اُن کی فہرست یہاں دے رہا ہوں، تاکہ اُن کے بارے میں اس مقالے میں کسی تفصیل کی عدم موجودگی کی ذمہ داری مجھ پر نہ آئے۔ ان میں سے کچھ وہ بھی ہیں جن سے رابطہ تو ہو ا ، لیکن اُن کا تعاون نہ مل سکا۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے مستحقِ تذکرہ ہو سکتے ہیں۔فہرست یہ ہے:
اکرام باگ……(بسو کلیان، ضلع بیدر،گلبرگہ یونیورسٹی سے پی ایچ دی کی اور عطا کلیانوی کی حیات و ادبی خدمات پر مقالہ تحریر فرمایا۔لیکن اکیسویں صدی میں خاموش نظر آتے ہیں، تصوف و حکمت کی طرف طبیعت راغب رہی)……انیس صدیقی……(گلبرگہ:دو کتابیں:’’کرناٹک میں اردو صحافت‘‘۲۰۰۳ میں منظر عام پرآئی۔نیز بہ اشتراک اکرم نقاش ’’افلاک‘‘ نامی رسالہ مرتب کیا جس میں گلبرگہ کے قلمکاروں کا انتخاب پیش کیا گیا)……رزاق فاروقی……( گلبرگہ،پی ایچ ڈی مقالہ ’’اودھ پنچ کی ادبی خدمات‘‘ تروپتی یس یو یونیورسٹی سے ،تالیفات:اردو طریقہ تدریس، اردو کے اساتذہ ۔ ماحول اور مسائل،ابوالکلام آزاد کے تعلیمی تصورات،اودھ پنچ کی ادبی خدمات،ڈاکٹر رادھا کرشنن کا ادبی فلسفہ،چکبست، حیات اور ادبی خدمات،مشورے۔ مکاتیب کا مجموعہ، الفلاح۔ مختصر اصلاحی مضامین کا مجموعہ،مضامین فکر نو……سید قدرت اﷲ باقوی……(ادایا گری، میسور، پی ایچ ڈی (عربی)،سوانح نگاری، تنقید نگاری، فن بلاغت سے دلچسپی،تصانیف و تالیفات:’’علامہ عبد الحی احقر ؔ۔حیات اور کارنامے‘‘(اردو)، عبد الحی الحسنی ندوی‘‘(عربی)،مقالہ:’’عبدالقادر صوفی اور ان کی خدمات بنگلور میں‘‘……محمد صبغۃ اﷲ……(مضمون نگار، مترجم،پی ایچ ڈی،مقالہ:’’غواصی کی مثنویوں کا تنقیدی مطالعہ ‘‘بنگلور یونیورسٹی سے،تصانیف: سرا تاریخ کے آئینے میں، فتح نامہ ٹیپو سلطان؍اضراب سلطانی، ’’تصوف اور صوفیائے کرام(مشترکہ تالیف)‘‘،ڈرامے کا فن اور انار کلی،تذکرہ محققین کرناٹک،’غواصی کی مثنویوں کا تنقیدی مطالعہ، کنڑا اور اردو کے گیان پیٹھ انعام یافتگان کا تعارف)……محمد تفصل حسین اسلمؔ……(اچھے مراسلہ نگار، تنقید نگار،ہیں۔اخبارات میں مختلف ادب کے مختلف موضوعات پر لکھتے ۔ ان کی تحریریں اس حقیقت کی غماز تھیں کہ وہ نقد و نظر کی صلاحیت کے حامل ہیں۔ مگر پھر کہنا پڑے گا موصوف نے بھی کوئی باضابطہ کام تنقید نگاری کانہیں فرمایا)……حنیف سیف ہاشمیـ……(شیموگہ:تحقیق ، تنقید، خاکہ نگاری، لسانیات اور دکنی ادب،’’نقطۂ نظر‘‘تنقیدی و تحقیقی مضامین(۱۹۸۸ء)، قرآن کے منظوم اردو تراجم‘‘ تحقیقی و تنقیدی مقالہ(۱۹۹۹ء)……آغا مرزا سروشؔ ……(میسور شاعری مضمون نگاری، اقبالیات، درس اقبال ہر تیسری اتوار کو، علامہ اقبال کی نظموں کی تشریح اور سامعین سے تبادلہ خیال، مترجم بھی ہیں……محمد اقبال احمد شہباز……(بنگلور،پی ایچ ڈی،مقالہ:’’ اردو میں تاریخی ناول نگاری‘‘تنقید نگاری،افسانہ نگاری، مضمون نگاری۔’’قندیل ادب ‘‘ تنقیدی مضامین کا مجموعہ‘‘)……اطہر معز گلبرگہ……(تبصرہ نگاری کی حد تک،مضامین، تبصرے اور کلام شائع ہوتے رہتے ہیں، ماہنامہ شگوفہ حیدرآباد،سالنامہ الانصار حیدرآباد اور ماہنامہ اردو بک ریویو نئی دہلی کے علاوہ جنوب کے موقر رسائل۔ ذہن جدید سے وابستگی……ابو تراب خطائی ضامن……( بنگلور،زعفران زار،دکنی لغات،ضرب الامثال اور ان کا پس منظر،فن شاعری،تصوف اور صوفیائے کرام،کرناٹک اردو اکادمی سے ۲۰۰۲ میں انعام سے نواز ا گیا۔علم عروض پر مضامین لکھے ہیں، جو ماہنامہ انشاء، کولکتہ، ہفتہ وار گونج،نظام آباد اور سالار بنگلور میں شائع ہورہے ہیں……اقبال سلیم……(طنزیہ و مزاحیہ نثری تخلیقات ماہنامہ قرطاس ناگپور،خاتون مشرق دہلی،ماہنامہ انشاء کلکتہ، سہ ماہی رابطہ ممبئی، ماہنامہ روشنی(یوکلا ہاما(امریکہ) اور مقامی اخبارات میں اشاعت…… اسد اعجاز……(معروف شاعر اور تنقید نگار رہے ہیں اور اخبارات میں کالم نویسی فرماتے رہے ہیں ، جن میں تنقید ی شعور کی رو صاف جھلکتی ہے، علم عروض پر مہارت حاصل ہے اور اپنے شاگردوں کی اصلاح بھی کرتے رہے ہیں……امجد علی فیض……(گلبرگہ، طنز و مزاح نگار)……امجد جاوید……( گلبرگہ:افسانہ نویس)……انل ٹھکر……(ہبلی ڈرامہ نگار، ناول نگار، افسانہ نگار)……خالد عرفان……(مرحوم)، بنگلورتنقید، تراجم، سائنسی ادب، افسانہ نگاری، بچوں کا ادب،’’جذب و احتساب‘‘(مضامین کا مجموعہ)۲۰۰۴……راہی قریشی……(اورنگ آباد(: پی ایچ ڈی،کرناٹک یونیورسٹی) دھارواڑ ،شاعری، مقالہ: کالی داس گپتا رضا، حیات اور کارنامے)کرناٹک یونیورسٹی ، حید ر کرمڈی……رفعت النساء بنگم……(میسور:تنقیدمضامین کے مجموعوں میں ’’تنقیدیں تحریریں‘‘، ’’طرز نگارش‘‘،’’انداز نظر‘‘ شامل ہیں۔۲۰۰۴……سی وائی یس خان……( ڈاکٹری، تعلیمی میدان میں سرگرم، طبی موضوعات پر مضمون نگاری،تالیف: ’’ایڈز۔ ایک مکمل جائزہ‘‘۲۰۰۳ء……امجد حسین حافظ کرناٹکی……(شاعرِ اطفال، درمیان میں کچھ مضامین کا سلسلہ بھی شروع کیا، نیم ادبی، نیم سیاسی مضامین، شکاری پور ، ضلع شیموگہ……ظفرالاسلام……(بنگلور):مضمون نگاری، اقبالیات سے شغف، افسانہ نگاری،یم فل،مقالہ ’’علامہ اقبال کا دورۂ جنوبی ہند‘‘……سید اشرف حسین……( پی ایچ ڈی، گلبرگہ،مقالہ’’خواجہ حسن نظامی۔ حیات اور ادبی خدمات‘‘کرناٹک یونیورسٹی دھارواڑ……سید خلیل احمد……(شیموگہ،پی ایچ ڈی، بنگلور یونیورسٹی ’’اردو کے فروغ میں خطہ ملناڈ کی خدمت‘‘، تبصرہ نگار)……عبد الواجد خاں فتح……(نثر و نظم نگار،تاریخ نویس،تصانیف: ’’داستانِ چتلدرگ‘‘،’’اسرار قلعہ سری رنگ پٹن‘‘۲۰۰۲ء،……سید فضل الرحمٰن شعلہ……(مضمون نگار، شاعری،تصنیف:’’نقش ہائے رنگ رنگ‘‘علمی ، ادبی، سوانحی مضامین۱۹۸۸ء)……راہی قریشی…… مقالہ، کرناٹک یونیورسٹی،کالی داس گپتارضافن اور شخصیت، غالب پر اتھارٹی،حیدر کرمڈی صاحب کی نگرانی میں……اکبر حسینی……( گلبرگہ سے تعلق رکھتے ہیں۔تحقیق و تنقیدی مضامین سے دلچسپی رہی لیکن اکیسویں صدی میں یہ خاموش نظر آتے ہیں……شمیم ثریا……(پی ایچ ڈی، ’’سلیمان خطیب ، شخصیت اور فن‘‘، مشغلہ تنقیدی مضامین لکھنا،(بنت سلیمان خطیب)……سید اشرف حسین……( پی ایچ ڈی، گلبرگہ،مقالہ’’خواجہ حسن نظامی۔ حیات اور ادبی خدمات‘‘کرناٹک یونیورسٹی دھارواڑ……سید خلیل احمد……(شیموگہ،پی ایچ ڈی، بنگلور یونیورسٹی ’’اردو کے فروغ میں خطہ ملناڈ کی خدمت‘‘، تبصرہ نگار)……بشر بیجاپوری……(شخصیات پر مضامین لکھے،شاعری اور ڈرامہ نگاری بھی فرمائی)……سید احمد راحل……( میسور: شاعر،نثر نگاری بھی کرتے ہیں، اقبالیات پر خصوصی توجہ……راشد فریدی……(میسور:ڈرامہ نویسی، جاسوسی ادب، ابن صفی کا مطالعہ، طنز و مزاح نگاری……بیگانہ دھرم کوٹوی مرحوم……(فکریات غالب ۲۰۰۳ء، علم عروض پر بھی گہری نظر رکھتے تھے)……احمد اشفاق ……(چن پٹن:افسانہ نگاری کے ساتھ تحقیق و تنقید ، خصوصاً علم عروض سے دلچسپی……تاج النساء تاج……(شاعرہ، ناول نگار، نثر نگار، ایک نثری کتاب ’’بولتی ویرانیاں‘‘ شائع ہوئی)……مرحومہ صغریٰ عالم……(گلبرگہ شاعرہ، تبصرہ نگار، تنقید نگاری، تالیف: ۲۰۰۴ء ’’کفِ میزان‘‘)……عبد الغنی عمارت والے……( بیجاپور، تاریخ نویسی،’’صوبۂ بیجاپور کی تاریخ‘‘۱۶۸۶ء سے ۱۸۸۵تک‘‘ …… ارشد رشادی……(موصوف تنقیدی مضامین لکھتے رہے ہیں، اردو عربی فارسی سے واقفیت رکھتے ہیں……امتیاز خاتون بخاری……’’اردو کے فروغ میں کرناٹک کی خواتین کا حصہ‘‘،حیدر کرمڈی کی نگرانی میں)……ڈاکٹر محمد یوسف نائک واڈی……(اردو غزل کے احیا مین حسرت موہانی اور ان کے رفقاء کا حصہ )……اختر علوی……(شاعر کے علاوہ مضامین بھی تحریر فرماتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے…… شہاب الدین روشن……(شیموگہ، مترجم کنڑ زبان سے اردو کے مترجم ……ضیاء کرناٹکی……(شاعرافسا نہ نگار، مضمون نگار، بنگلورقانونی مضامین،……پروفیسربی شیخ علی……(مسلسل مضمون نگار ی میں مصروف رہے ہیں)……محمد سمیع اﷲ خان بازؔ……(ادبی ، اصلاحی، تنقیدی، معاشرتی و علمی تخلیقات)……عبد المناف……(پی ایچ ڈی،مقالہ’’اضراب سلطانی کا ادبی تاریخی مطالعہ‘‘…… امیر احمد ٹی ایم……(بنگلور، مضمون نگارسائینس اور ماحولیات پر مضامین لکھنا،……آصف شریف……(رام نگرم):،’’شہرِ ریشم رام نگرم‘‘ ۲۰۰۳……جاوید رفاعی……(مرحوم)(بلگام،پی ایچ ڈی،مضمون نگار)……رزاق اثر شاہ آبادی……( شاعر، شاہ آباد، ضلع گلبرگہ……محب کوثر……(گلبرگہ ادبی؍تنقید ی مضامین لکھنا)……ماہر اسلم……( بیجاپور:خاکہ نگار، مضمون نویس)……حسنیٰ سرور……(شاعرہ، فکشن نگار، مضمون نگار)……سید قمر الدین قمر……( شاعر و نثر نگار،ہری ہر)…… اعظم شاہد……(بنگلور:تبصرہ نگاری اور خاکے)……محمد علی منشی……(تاریخ چکمنگلور ۲۰۱۵ء)…… عبد السلام……( بنگلور، عروض دان ہیں)……مائل ٹمکوری ٹمکور……(تنقید،مضمون نگاری)……تنہا تما پوری……(شاعر، مضمون نگار)……شیدا رومانی……(بلہاری شاعر)……صابر فخرالدین……( یادگیرشاعر)……اقبال آصف……(تنقیدی مضامین)……قْاضی شکیل……خالد سعید……وحید واجد……ضیاء جعفر……سراج زیبائی……ساجد حمید……شمیم ثریابنت سلیمان خطیب……انور داغ……منظور احمد……سردار اسلم گلبرگہ……مزمل پاشاہ……شائستہ یوسف……قدیر ناظم…………مشتاق علی گوہر:……راز امتیاز:……جاوید رفاعی مرحوم:……شفیق عابدی:……(یہ فہرست ناتمام ہے)٭

Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83395 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.