29 اپریل1931 کو جموں میں خطبہ عید کے دوران فرعون
کے ظالمانہ نظام حکومت کے ذکر پر امام محمد اسحاق کو پولیس اہلکار کھیم چند
نے خطبہ سے روک دیا جس کے خلاف مسلمانوں نے صدائے احتجاج بلند کی اور عدالت
نے کھیم چند کو قصوروار ٹھہرایا اور اسے معطل کر دیا گیا۔4 جون1931کو جموں
جیل کے ایک مسلمان پولیس اہلکار (فضل داد) اور ہندو اہلکار (لبھورام) کی
باہمی تکرار پر قران (پنج صورتہ) کی بے حرمتی کا واقعہ پیش آیا جس پر مسلم
ینگ مینز ایسوسی ایشن جموں نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے جو سرینگر تک
پھیل گئے، بالآخر عدالتی اوردونوں میر واعظ صاحبان کی تحقیقات کے بعد اس
واقعہ کو ایک حادثہ قرار دیا گیا تاہم دونوں پولیس اہلکاروں کو سزا وار
ٹھرایا گیا۔ قرانی بے حرمتی کا ایک واقع سرینگر میں بھی پیش آیا جس میں
قرانی اوراق پبلک لیٹرین سے برآمد ہوئے تھے۔ چند مہینوں میں ایسے واقعات نے
مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو شدید متاثر کیا اور احتجاجی مظاہرے
ہوئے۔21جون1931 کو خانقاہ معلیٰ سرینگر میں ایک ایسے ہی مظاہرے سے قدیرخان
پٹھان نے خطاب کے دوران مسلم اکثریتی ریاست میں ہندو حکمرانی کو شدید تنقید
کا نشانہ بناتے ہوئے بغاوت پر اکسایا۔ قدیر خان ایک انگریز فوجی افسر (میجربٹ
) کا خانساماں تھا جو ان دنوں سیروتفریح کی غرض سے سرینگر آیا ہوا تھا۔25
جون 1931و قدیر خان کو گرفتار کر لیا گیا جس سے مسلمانوں میں غم و غصے کی
لہر دوڑ گئی اور احتجاج میں شدت آ گئی۔ قدیر خان کی ابتدائی پیشیوں کے
بعد13جولائی1931کی پیشی سرینگر جیل میں ہی رکھی گئی تھی اور ہزاروں کی
تعداد میں مسلمان مظاہرین وہاں جمع ہو گئے ۔ مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کے
درمیان تصادم میں پولیس کی طرف سے گولی چلائی گئی جس میں متعدد نہتے مسلمان
مظاہرین شہید ہوگئے جس کے ردعمل میں شہر کے مختلف علاقوں میں غیرمسلم بھی
انتقام کا نشانہ بنے، یہی وجہ ہے کہ13جولائی کو آج تک ریاست جموں کشمیر کے
مختلف حصوں میں مسلم و غیرمسلم گروہوں کی طرف سے یوم شہدا اور یوم سیاہ کے
طور پر منایا جاتا ہے، جس میں دونوں گروہ ایک دوسرے کے خلاف اپنے اوپر ہوئے
ظلم و زیادتی کو یاد کرتے ہیں۔ 13 جولائی کے دن مسلمانوں کی شہادت نے پہلے
سے جاری سیاسی اضطراب اور مظاہروں نے باقاعدہ ایک مذہبی تحریک کی شکل
اختیار کر لی جس میں پنجاب کے مسلمانوں نے بھی تعاون کیا اور 25 جولائی کو
شملہ میں مرزا بشیرالدین محمود کی سربراہی میں آل انڈیاکشمیر کمیٹی کا قیام
عمل میں لایا گیا جس نے مسلمانوں کی مظلومیت کی مذہبی اورسیاسی محاذ پر
ریاست سے باہر بھی خوب تشہیر کی لیکن جلد ہی کشمیر کمیٹی کی مدمقابل مجلس
احرار نے بھی ریاست کی مذہبی سیاست میں اپنے قدم رکھ دئے اور یوں ان دو
گروہوں میں آپسی رسہ کشی کا دور شروع ہو گیا (سیاسی بیداری کی اس لہر کے
نتیجے میں بالآخر 16 اکتوبر1932میں ریاست کے مسلمانوں نے شیخ عبداﷲ اور
چوہدری غلام عباس کی قیادت میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نامی باقاعدہ
سیاسی جماعت قائم کرلی تھی) ۔ 13 جولائی اور اس سے جڑے واقعات پر مہاراجہ
ہری سنگھ نے ہائی کورٹ جج سر برجور دلال کیساتھ ایک ہندو اور ایک مسلم جج
کے علاوہ دو دو غیرسرکاری ارکان پر مشتمل انکوائری کمیشن تشکیل دیا تاہم
مسلم ارکان نے اس کمیشن سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ مسلمانوں کی عدم
شرکت اور عدم دلچسپی کے باوجود برجور دلال رپورٹ پیش ہوئی جس میں کہا گیا
کہ سول انتظامیہ ان حالات کو پیشہ ورانہ حکمت عملی اور دوراندیشی سے نمٹنے
میں ناکام رہی جس پر مہاراجہ کو کارروائی کرنی چاہئے، مسلمانوں کی طرف سے
ریاستی فوج پر ہندووں کی امداد کے الزامات درست نہیں ہیں بلکہ فرقہ ورانہ
فسادات کو روکنے کی کوشش ہے ، ریاستی حکومت پر الزام تراشی چند نااہل لوگوں
کا کام ہے جو اپنی نااہلی اور ناقص کارکردگی پر انتظامی عہدے حاصل کرنے میں
ناکام یا برطرف ہوئے، ریاست میں ہونے والے واقعات میں بیرونی اثرو رسوخ بھی
شامل لگتا ہے، ریاستی مسلمانوں کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مکمل مذہبی
آزادی حاصل ہے، اعلیٰ انتظامی عہدوں پر مسلمانوں کی تعیناتی میں ناکامی کی
وجہ حکومتی تفریق نہیں بلکہ تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی پسماندگی ہے،
محکمہ پولیس میں مکمل طور پر تبدیلیوں کے ذریعے بہتری لانے کی ضرورت ہے،
ہندو مسلم کے درمیان امن وبقائے باہمی کیلئے انکے نمائندوں پر مشتمل بورڈ
کا قیام وغیرہ۔ مسلم قیادت نے برجور دلال رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے
غیرجانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ شیخ عبداﷲ اپنی خودنوشت ٌآتش چنارٌ میں
لکھتے ہیں کہ ٌ مسلمانوں نے یہ کہہ کر اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا کہ جو شخص
حکومت کا تنخواہ دار ملازم ہو اس سے کسی قسم کی غیر جانبداری کی کیسے توقع
کی جا سکتی ہے اور انصاف کی امید کی جا سکتی ہے ۔۔۔ ہماری عرض داشت کے
نتیجے میں مہاراجہ نے 13نومبر31میں مسٹر بی جے گلینسی کی سرکردگی میں ایک
اور کمیشن مقرر کیا ٌ۔ اسی طرح چوہدری غلام عباس اپنی سوانح عمری ٌ کشمکش ٌ
میں رقمطراز ہیں کہ ٌ دلال کمیشن کی رپورٹ نے اور بھی جلتی پر تیل کا کام
کیا۔جموں اور سرینگر میں کمیشن کا جنازہ نکالا گیا اور جلسے اور جلوسوں کے
ذریعے حکومت کی سخت مذمت کی گئی۔ ۔۔ نومبر31کے آخری دنوں میں حکومت کشمیر
کو مجبوراٌ مسلمانان ریاست کی شکایات اور مطالبات کی تحقیقات کیلئے ایک
آزاد کمیشن کا اعلان کرنا پڑا ۔ یقین غالب ہے کہ اس کمیشن کے تقرر میں
حکومت ہند کا بھی زبردست دخل تھا ٌ ۔
وادی کشمیر(سرینگر، اسلام آباد، شوپیاں) میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران
ہوئے فسادات اور پولیس کی طرف سے گولی چلائے جانے اور اس دوران ہوئے جانی
نقصانات کی شکایات کے ازالے کیلئے ریاستی حکومت نے 5دسمبر1931کو مڈلٹن
کمیشن بھی تشکیل دیا تھا۔ مرزا افضل بیگ کی معاونت سے لگ بھگ384مسلمانوں نے
اپنے بیانات درج کروائے تاہم مڈلٹن کمیشن رپورٹ میں گو کہ انتظامیہ کی طرف
سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے لاپرواہی کو تسلیم کیا گیا تاہم حالات کو
قابو میں رکھنے کیلئے انکے سخت اقدامات کو بھی جائز مانا گیاالبتہ اس رپورٹ
میں مسلمانوں کی اس ہڑتال کو مکمل فرقہ ورانہ بھی قرار نہیں دیا گیا تھا۔
مسلمانوں کی طرف سے مڈلٹن رپورٹ کو بھی ریاستی حکومت ہی کے حق میں تصور کیا
گیا تھا۔
ریاست کی مسلمان آبادی کی شکایات اور ازالہ کیلئے انگریز حکومت ہند کے
پولیٹیکل ڈیپاٹمنٹ کے افسر بی جے گلینسی (BJ Glancy) کی سربراہی میں تشکیل
دئے گئے گلینسی کمیشن میں کشمیر اور جموں کے مسلمانوں کی نمائندگی خواجہ
غلام احمد عشائی اور چوہدری غلام عباس جبکہ ہندووں کی نمائندگی پریم ناتھ
بزاز اور لوک ناتھ شرما نے کی تھی (لوک ناتھ شرما جلد ہی ترکہ جائیداد
تجاویز اختلاف کرتے ہوئے کمیشن سے الگ ہو گئے تھے) ۔ تمام حالات اور
مطالبات پر غور و خوض کے بعد گلینسی کمیشن نے 22مارچ 1932 کو اپنی مفصل
سفارشات حکومت کو پیش کر دیں جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ مسلمانوں کے تمام
مذہبی مقامات و عمارات کو واگزار کیا جائے، تمام ریاستی باشندگان کو مذہبی
ٓزادی حاصل ہونی چاہئے، جن زمینوں پر مالکانہ حکومت کے پاس ہے وہ ان
کاشتکاروں کو منتقل کیا جائے جن کے زیر قبضہ ہیں،مسلمانوں میں تعلیم کا
فروغ، سکولوں میں مسلمان اساتذہ کی تعداد بڑھائی جائے اور خصوصی مسلم
انسپکٹر تعینات کیا جائے، ریاست میں آبادی کے تمام گروہوں کو سرکاری ملازمت
میں منصفانہ حصہ ملنا چاہئے(تعلیمی قابلیت میں رعائت)، زرعی اصلاحات اور
زرعی و مالیہ ٹیکسوں میں ترمیم، دیہی آبادی کیلئے ضرورت کے مطابق جنگل سے
لکڑی کے حصول میں خصوصی رعائت، بہتر انتظام کیلئے اختیارات کی ذیلی محکموں
کو منتقلی، بیروزگاری پر قابو پانے کیلئے صنعتی ترقی پر حکومتی توجہ کی
ضرورت اور کارسرکار (بیگار) کیلئے باقاعدہ قوائد کے مطابق اجرت کی ادائیگی
جیسی سفارشات شامل تھیں۔ جن نکات پر مندوبین کا مکمل طور پر اتفاق نہ ہو
سکا انہیں اضافی نوٹ کی صورت میں ان سفارشات کیساتھ شامل کیا گیا تھا جن
میں چوہدری غلام عباس اور غلام احمد عشائی کا مشترک مطالبہ کہ ہندو سے
مسلمان مذہب کی تبدیلی میں جائیداد سے محرومی کے قانون کا خاتمہ، کشمیر اور
سرحدی اضلاع میں اسلحہ لائسنس کی پابندیوں کا خاتمہ اور راجپوت ٹریننگ سکول
میں داخلے کیلئے تمام گروہوں کو اجازت ورنہ اسے بند کر دینے کا مطالبہ شامل
تھا۔ پنڈت پریم ناتھ بزاز نے مسلمانوں کے مطالبات کی حمائت کیساتھ یہ اضافہ
کیا کہ سرینگرعیدگاہ کی مسلمانوں کو حوالگی کے بعد ماضی کی طرح دیگر گروہوں
کے استعمال کیلئے بھی کھول دیا جائے۔ چوہدری غلام عباس کے اصرار پر ایک نوٹ
مسٹر گلینسی نے بھی شامل کیا تھا کہ سرکاری ملازمتوں میں آبادی کے تناسب سے
حصہ رکھا جائے جس منصوبہ پر عملدرآمد دس سال کے اندر مکمل کیا جائے، عسکری
ملازمت میں مسلمانوں کی متناسب شمولیت، ملازمتوں کیلئے پبلک سروس کمیشن کا
قیام، کاشتکاروں کیلئے مالکانہ حقوق اور ریاست میں ٹیکس کے نظام کو پنجاب
میں مروجہ نظام کیساتھ برابر کر دیا جائے۔ کشمیری پنڈتوں نے پریم ناتھ بزاز
کو مسلمانوں کے حق میں کردار ادا کرنے پر سنتن دھرم یووک سبھا کی صدارت سے
ہٹاتے ہوئے جیا لال کلم کو سربراہ چن لیا۔ ان کا موقف تھا کہ گلینسی
سفارشات پر عملدرآمد سے انکے حقوق غصب اور بیروزگاری میں اضافہ ہو جائیگا ،
اسی لئے انہوں نے حکومت کی طرف سے گلینسی کمیشن سفارشات کی منظوری کے خلاف
احتجاجاٌ ٌ روٹی تحریک ٌ کا آغاذ بھی کیاجسے ریاستی حکومت نے سختی سے کچل
دیا تھا۔ مسلمانوں کی اس تحریک کے دوران کشیدہ حالات کو قابو میں رکھنے
کیلئے ریاستی حکومت اور مسلمان قیادت کے درمیان مشروط معاہدہ کرانے میں
وزیراعظم ہری کشن کول نے اہم کردار ادا کیا تھا لیکن دوسری طرف ریاست کے
نازک حالات میں برطانوی حکومت ہند گلگت کے معاملے میں مہاراجہ پر دباو بڑھا
رہی تھی جبکہ مہاراجہ نے انگریز انچارج محکمہ پولیس و سیاسی امور مسٹر
ویکفیڈ کو بھی تحریک میں پس پردہ کردار پر توبرطرف کیا لیکن دوسری طرف
مارچ1932 میں کرنل کولون(EJD Colvin) کو ریاستی وزیراعظم مقرر کر دیا جنہوں
نے ریذیڈنٹ مسٹر لینگ (L.E. Lang) کیساتھ ملکر گلگت کے مخصوص علاقوں کی
1935میں ساٹھ سالہ لیز کے معاہدہ کی تکمیل تک تو بہت کام کیا مگر انکا کوئی
عمل مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا کرنے میں مددگار ثابت نہ ہو سکا۔
جنوری1936میں مسٹر کولون وزیر اعظم کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے جن کی جگہ
گوپال سوامی اینگر نے سنبھال لی۔ 1930کے عشرے کی اس تحریک کے پیچھے بیٹھ کر
انگریزوں کی گلگت معاملے پر سودہ بازی کا دکھ اور مسلمان قیادت سے شکوہ
مہاراجہ کو ہمیشہ رہا جس کا ذکر شیخ عبداﷲ اور چوہدری غلام عباس دونوں نے
اپنی کتابوں میں بھی رقم کیا ہے۔
بہرحال ریاستی حکومت نے گلینسی کمیشن کی تمام سفارشات کو منظور کیا اور
وزیراعظم کرنل کولون نے10 اپریل 1932کو ان سفارشات پر عمل درآمد کیلئے
حکمنامہ جاری کیا۔ بعدازاں سیاسی،انتظامی و حکومتی امور میں عوام کی حصہ
داری کے تعین کیلئے مسٹرگلینسی کی سربراہی میں آئینی اصلاحات کانفرنس نے
متعلقہ آئینی سفارشات کیساتھ ریاستی اسمبلی کے قیام کی تجویز بھی پیش کی۔
ان سفارشات پر عملدرآمد کیلئے مہاراجہ ہری سنگھ نے 31مئی1932کو چار رکنی
فرنچائز کمیٹی کا اعلان کیا جس کی صدارت سر برجور دلال ، نیابت ایل ڈبلیو
جارڈن (جو کہ الگ ہو گئے تو آئیو ایلیٹ نے جگہ لی) جبکہ ٹھاکر کرتار سنگھ
اور شیخ عبدالقیوم اسکے ممبران تھے۔ فرنچائز کمیٹی نے ریاست کے مختلف حصوں
کا دورہ کیا، عوام اور مقامی سیاسی و سماجی نمائندگان سے انکی رائے لی،
شہری و دیہی علاقوں اور متفرق مذہبی و سماجی گروہوں کی آبادی پر مشتمل
تحقیقی گوشوارے تیار کئے اور ہر علاقائی، سماجی اور مذہبی گروہ کی باقاعدہ
نمائندگی کیساتھ مجوزہ ریاستی اسمبلی (پرجا سبھا) کی ساخت ، انتخابات کے
طریقہ کار اور قوائد و ضوابط پر مبنی مکمل رپورٹ31 دسمبر1933 کو پیش کر دی
جسکی روشنی میں (22اپریل کو) آئینی ایکٹ1934 نافذ ہوا اور ریاست کی
75ممبران پر مشتمل پہلی اسمبلی پرجا سبھا وجود میں آئی جس میں 33منتخب
(21مسلم، 10ہندو،2 سکھ) ،30نامزد ممبران (لداخ و گلگت جیسے دوردراز
علاقوں،جاگیروں، پسماندہ سماجی گروہ اور متفرق سماجی و مذہبی طبقات سے
وابستہ) ،16 سٹیٹ کونسلر اور12محکمانہ ذمہ دار و افسران اعلیٰ یعنی
وزراشامل تھے۔ ستمبر 1934 انتخابات میں مسلمانوں کی21 نشستوں میں سے14پر
مسلم کانفرنس کو کامیابی ملی۔ تاہم آئینی طور پر طاقت و اختیار کا سرچشمہ
مہاراجہ ہی تھا جس اختیار کی نمائندہ اسمبلی کو منتقلی اور مکمل جمہوریت کے
قیام کیلئے ایک نئی سیاسی جدوجہد کا آغاز ہو ا، شیخ عبداﷲ کی طرف سے اعلان
کردہ 8مئی (1936) یوم ذمہ دار حکومت میں تمام مکتبہ فکر ومذہب کی شرکت نے
کامیاب کیا اور 1936 ہی میں منتخب نمائندے اسمبلی سے مستعفی ہو گئے تاہم
مئی 1938کے انتخابات میں مسلم کانفرنس21 میں سے19 نشستوں پر فتحیاب ہوئی۔
شیخ عبداﷲ نے نیشنل کانگرس کے سیکولر نظریات سے متاثر ہو کر ریاستی سیاست
میں ہندو مسلم مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم کیلئے جون 1939 میں مسلم کانفرنس کو
نیشنل کانفرنس میں تبدیل کر دیاتاہم مسلمانوں کے چند سرکردہ زعما اس فیصلے
سے متفق نہ تھے جنہوں نے جون 1941میں چوہدری غلام عباس کی قیادت میں دوبارہ
مسلم کانفرنس کا احیا کر لیا جس سے ایک طرف مسلمانوں کی سیاسی طاقت تو
کمزور ہوئی لیکن دوسری طرف فرقہ ورانہ بنیادوں پر ریاستی عوام کی سیاسی
تقسیم میں رکاوٹ بھی بنی۔ برصغیر کی مجموعی سیاست نے ریاستوں پر بھی اثر و
رسوخ بڑھایا تو نیشنل کانفرنس سیدھا انڈین نیشنل کانگرس جبکہ مسلم کانفرنس
نے آل انڈیا مسلم لیگ کا دامن تھام لیا اور پھرریاستی سیاست بھی ہندوستان
کی مجموعی سیاست کا حصہ بن گئی اور باہمی رسہ کشی پر مشتمل وہی مفاداتی
سیاست دراصل 1947کے تقسیم ہند کے تحت پاکستان و بھارت کے قیام کے کیساتھ ہی
ان دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کشمیر کی پیدائش اور تقسیم ریاست کی بنیاد
بن کر رہ گئی جس کے ثمرات تو آرپار چندمفادپرست سیاستدان تاحال حاصل کر رہے
ہیں لیکن مجبوری،محرومی اور محکومی دوطرفہ ریاستی عوام کے حصے میں آئی جو
آج بھی اپنے نامعلوم مستقبل کے تعین کے منتظر ہیں ۔
(حوالہ جات: شیخ عبداﷲ، چوہدری غلام عباس، یوسف صراف، پرویز دیوان، خالد
بشیر، چترالیکھا زتشی، رویندرجیت کور، جیوتی بھوشن داس گپتا،جوزف کوربل)
|