بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کیاانسان نے ترقی کر لی ہے؟؟؟ ہر نومولودکے ذہن میں پیداہونے والا بنیادی
یہ بنیادی سوال ہے۔انسان اورحیوان میں بہت سے فرق ہیں،ان میں سے ایک بنیادی
فرق یہ بھی ہے کہ انسان ارتقاء پزیر ہیں جب کہ جانور صدیوں پرانی بودوباش
کے حامل ہیں اور ان میں ارتقاء ناپید ہے۔انسان کاہر گزرتاہوالمحہ گزشتہ سے
متغیرہے۔صدیوں پہلے کے انسان سے آج کے انسان کافرق توبہت بڑافرق ہے جب کہ
چنددن یا چندہفتے یاچندمہینوں پہلے کے انسان میں اور آج کے انسان میں
تغیرکو واضع طورپر محسوس کیاجاسکتاہے۔یہ تغیرہی فیصلہ کرے گاکہ انسان نے
ترقی کی ہے یاابھی بھی تنزلی اور شکست و ریخت کاشکارہے۔ماضی میں انسان
مفتوحہ علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد قتل وغارت گری،لوٹ ماراور من مرضی کے
فیصلے مسلط کرتاتھا،آج کاسیکولرازم بھی ماضی کی یادتازہ کررہاہے بلکہ
غیرمہذب دورسے سے بھی قبل کے انسان سے زیادہ ماردھارقتل وغارت گری اور
تباہی و بربادی دیکھنے کو مل رہی ہے۔فرق اتناہے کہ ماضی میں فرد
واحدیاخاندان یا کسی فوج کاکماندار اپنے حکم سے یہ فیصلے نافذکرتاتھااور اب
حکومتی ایوانوں میں انسانوں پر بم برساکرانہیں کرہ ارض سے نیست و نابود
کرنے کے فیصلے کر لیے جاتے ہیں اور اقوام متحدہ سے ان فیصلوں کی تصدیق بھی
کروالی جاتی ہے۔ماضی میں مفتوح اقوام کے افرادکو لونڈی غلام
بنالیاجاتاتھااور انسانی منڈیوں میں ان انسانوں کی خریدوفروخت کی جاتی تھی
جب کہ آج کاسکیولرازم بھی مفتوح اقوام کوبحیثیت قوم کے اپنا غلام بنالیتاہے
اور افرادکی بجائے اقوام کو غلامی کی اندھی غارمیں دھکیل
دیاجاتاہے۔سیکولرازم اپنی انسان دشمنی میں ماضی کے غیرمہذب انسان سے بھی
چندہاتھ آگے نکل چکاہے کہ عالمی مالیاتی اداروں میں قوموں اور ملکوں کی
بولیاں لگتی ہیں اور ان مفتوح ممالک کے اثاثے اونے پونے داموں خریدکر انہیں
کسی قابل استعمال شکل میں لاکر انہیں قوموں کو ’’بڑھتے چڑھتے سود‘‘کے عوض
اس طرح فروخت کردیاجاتاہے ان کاہر پیداہونے والا بچہ اپنی گردن میں سودی
غلامی،تہذیبی غلامی،تعلیمی غلامی،دفاعی غلامی ،ثقافتی غلامی اور ان سب پر
مستزاد ذہنی غلامی کے طوق اپنی گردن میں ڈالے اس دنیامیں داخل ہوتاہے۔
بھارت کاسیکولرازم تو دنیابھر کے ظلم و ستم سے بھی کہیں آگے نکل کر جنگل کی
یادتازہ کررہاہے۔جنگل میں بھی شاید کوئی قانون پیش نظررکھاجاتاہوکہ ایک ہی
نسل کے جانور کم ازکم اپنی نوع کو تودرندگی و سفاکیت سے محفوظ رکھتے
ہیں،بھارت میں تو کل ریاست کے اندر عام طورپراور کشمیرمیں خاص طورپر برہمن
راج نے کل عوام پر ظلم و جور،زورزبردستی اور ننگ انسانیت مظالم کے وہ باب
رقم کیے ہیں جنگلی درندوں کو بھی اس پر شرم آئے۔مسلمان اور دیگرمذاہب کے
پیروکار جہاں براہ راست برہمن کی چیرہ دستیوں کاشکارہیں وہاں ان کے ہم مذہب
چھوٹی ذاتوں کے ہندوبھی ان کے نسلی تعصب کابدترین شکارہیں۔کل ریاست میں
برہمن راج نے ایک اندھیرنگری مچارکھی ہے،جس نوجوان کو چاہے گھروں سے اٹھاکر
غائب کردیاجاتاہے ،انہیں سالہاسال تک عقوبت خانوں زیرحراست رکھ کر بدترین
حیوانی تشددکیاجاتاہے،ایساتشددکہ جس سے اونٹ اور ہاتھی بھی بلک اٹھیں ۔ان
نوجوانوں کے لواحقین قبرکی دہلیزتک اپنے پیاروں کاانتظارکرتے کرتے ہمیشہ کی
نیندسوجاتے ہیں لیکن ریاست کاکوئی ادارہ ان کی دادرسی کرنے کو تیارنہیں
ہوتا۔بہت خوش قسمت نوجوان ہوتے ہیں جن کے کٹے پھٹے اور ستم رسیدہ لاشے ان
کے ورثاکو مل جاتے ہیں اور انہیں یک گونہ تسکین میسرآجاتی ہے اور کم از کم
گومگوکی کیفیت سے ان کی جاں خلاصی ہو جاتی ہے۔ماضی کی دل دہلالینے والے
مظالم کی کہانیوں سے کم از کم صنف نازک تومحفوظ تھی لیکن بھارتی سیکولرازم
نے تو اہل پردہ کو بھی اپنی سنگینوں کی نوک پر لارکھاہے اور کشمیرمیں خاص
طورپرخواتین پر بھی بے پناہ تشددکرکے انہیں ہلاک کردیاجاتاہے یا
سربازارانہیں ربڑکی گومیوں کانشانہ بناکرتاحیات معذوری کی زندگی گزارنے
پرمجبورکردیاجاتاہے۔کشمیرسے تو کچھ بچی کھچی خبریں عالمی ذرائع ابلاغ تک
پہنچ ہی جاتی ہیں لیکن بھارت کے دوردرازعلاقوں میں ہونے والی ریاستی دہشت
گردی کی تو کوئی اطلاع بھی باہر نہیں نکل پاتی،تب وہاں برہمن ذہنیت نے ظلم
کے کیاکیاپہاڑ توڑے ہوں گے،سوچ کرہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اگست 1947سے تادم تحریر کشمیریوں کی تیسری نسل ہے جو برہمن کی چکی میں پستی
چلی آرہی ہے۔کشمیریوں کی تحریک آزادی کوکچلنے کے لیے طاقت
کاہراندازاپناچکے،اندھی قوت جھونکنے کے تمام تجربات ہوچکے،جھوٹ فریب اور
دغابازی کی ساری کاروائیاں بھی کھیلی جاچکیں لیکن سلام ہے ان مجاہدین آزادی
کشمیر کو جنہوں نے آزادی کی قیمت پر کسی لالچ میں نہیں آئے۔کم و بیش تمام
عالمی اداروں تک کشمیریوں کی صدائے آزادی پہنچی یاپہنچائی گئی لیکن بھارت
کے ہم مسلک عالمی ادارے بھی چونکہ سیکولرازم کے پیروکار ہیں اس لیے ان
اداروں کی قیادت اور دیگرعالمی امن کے ٹھیکیداروں کواسلامی دنیامیں فرضی
ہتھیاروں کی بنیادپر متوقع انسانی حقوق کی پامالیاں تواس قدرکھٹکتی ہیں کہ
انسانیت کادردان کی فوجوں کو عراق پرچڑھالے گیا۔لیکن کشمیرمیں انسانی خون
کی ندیاں بھارت کے خلاف ان کی زبان سے ایک بیان تک دلانے میں ناکام
رہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دنیاکی سیکولرقیادت قوم شعیب کے لوگ ہیں،جن کے اپنے
لیے پیمانے اور دوسروں کے لیے پیمانوں میں بعدالشرقین ہے۔ان کے ملکوں میں
ایک جانوربھی کہیں جان کی بازی ہارتاہوامحسوس ہوتوساری ریاستی قوت اس کو
بچانے میں مصروف عمل ہوجاتی ہے ،لیکن ان کے زیرتسلط دنیامیں کسی انسانی
بستیوں کی چینخ و پکارآسمان تک پہنچ کر عرش کے پائے توہلاسکتی ہے لیکن ان
کے کانوں تک اس کی رسائی ناممکنات عالم میں سے ہے۔یہ اندھے ،بہرے اورگونگے
لوگ ہیں،ان کی آنکھوں پر سیکولرازم نے پردے ڈال رکھے ہیں اور ان کے دلوں پر
مہرلگ چکی ہے یہ کبھی پلٹنے والے نہیں ہیں۔کشمیری اقوام اﷲتعالی کے اس حکم
کی مسلسل فرمانبرداری میں لگے ہیں کہ کفرکے ان اماموں کو قتل کردو۔
کشمیری قیادت اورکشمیری عوام نے ہر موقع پر بھارت سے برملا برات
کاظہارکیاہے۔بھارتی یوم جمہوریہ ہویا بھارتی یوم آزادی ہویاکوئی اور بھارتی
حکومت کے خاص ایام میں سے کوئی دن ہو،کشمیریوں نے وہ دن سڑکوں پر گزاراہے
اور مردوں کے شانہ بشانہ عورتوں اور بچوں نے بھی بھارتی افواج کی آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کران کامقابلہ کیاہے اور ظالم حکمران کے سامنے کلمہ آزادی
کانعرہ تکبیربلندکیاہے ۔بھارت سے کشمیریوں کی نفرت کایہ عالم ہے کہ بھارتی
آئین کے تحت ہونے والے انتخابات والے دن کشمیری آبادیوں میں ویرانیاں رپورٹ
ہوتی ہیں اوربھارتی حکومتی دسترس سے بچ کر وہاں پہنچ سکنے والا خوش قسمت
کیمرہ ان گلیوں اور سڑکوں کو دکھارہاہوتاہے کہ ایک فیصدکشمیری بھی گھروں سے
باہر نکل کر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں۔کشمیرسے
گرفتارکیے گئے نوجوانوں کو کشمیرکی بجائے دوسرے علاقوں کے قیدخانوں میں صرف
اس لیے رکھاجاتاہے ان کے رشتہ داروں کو ذہنی و جسمانی اذیت پہنچائی جاسکے
کہ انہیں مقدمات کی پیروائی اور ملاقاتوں کے لیے لمبے لمبے سفرکرنے
پڑیں۔حتی کہ آسمان نے وہ دن بھی دیکھے کہ ظالم برہمن کے انسان دشمن
سیکولرازم نے جیل میں کشمیریوں کو تختہ دارپر لٹکاکر ان کی شکل تک رشتہ
داروں کو دیکھنے نہ دی۔کشمیریوں کے اندربھارت کے خلاف نفرین کاایک آتش فشاں
ہے جو پکے چلے جارہاہے اورنوجوان نسل نے سوشل میڈیاپر سیکولرطاغوت کے خلاف
ایک بھرپورجنگ کااعلان کررکھاہے،چنانچہ حکومت جن مظالم پرپردہ ڈالنے کے لیے
عالمی خبررساں اداروں کوجہاں تک رسائی نہیں دیتی ،کشمیرکے نوجوان وہاں کی
ریاستی دہشت گردی کو چشم زدن میں پوری دنیاتک پہنچادیتے ہیں اور اب تک کئی
عالمی اداروں میں بھارتی نمائندوں کو ان اطلاعات پر صرف شرمندگی و ندامت کے
سواکچھ حاصل نہیں ہوپایا۔
’’پاکستان کامطلب کیالاالہ الااﷲ‘‘سے شروع ہونی والی تحریک پاکستان آج
’’پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الاﷲ‘‘کی گونج میں کشمیرکی وادیوں کے اندر
سرگرم ہے ۔کشمیر کی آزادی کایہ قافلہ سخت جاں منزل بہ منزل اور کہیں
آبشاروں کی شکل میں شورمچاتاہواتوکہیں گھاس کے اندر انتہائی غیرمحسوس
اندازمیں خاموشی سے چلتاہوابڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔قیام
پاکستان سے شہداحق کے جس قافلے نے رخت سفرباندھاتھاکشمیرکی وادیوں میں
تکمیل پاکستان کی منزل تک اس قافلے کی تجدید دن بدن جاری ہے اورسرخ خون سے
امت کی آبیاری مکہ و طائف سے ہوتی ہوئی،بدروحنین اور کربلاکے صدیوں بعدتک
آج بھی تائیدایزدی کے تیقن کے ساتھ حیات جاودانی کی طرف روبہ منزل
ہے۔شہدائے کشمیرآج بھی صدابلب ہیں کہ کیاپاکستان کامقصدحصول تکمیل
پزیرہوا؟؟؟کیاعلامہ اقبال کا خواب شرمندہ تعبیرہوا؟؟؟اورکیاقائداعظم ؒکے
منشاء ومرضی کے مطابق کتاب اﷲکواس خدادامملک اسلامیہ میں قانون وآئین
کادرجہ حاصل ہے؟؟؟ان سوالوں کاجواب نوشتہ دیوارہے جوچاہے پڑھ لے ۔پاکستانی
قوم آج بھی ایک اچھی،دیانتداراورجرات مند قیادت کی منتظر ہے جوکشمیرکے
الحاق پاکستان کی ضامن ہواورظلم کواپنے آہنی ایٹمی ہاتھوں سے روک دینے
کاجذبہ و جرات رکھتی ہو۔پھرصرف کشمیرہی کیا برما،شیشان اور افریقہ سمیت کل
امت مسلمہ کی نجات دہندہ ’’اسلام آباد‘‘سے ابھرنے والی قیادت ہوگی جو کل
انسانیت کو سیکولرازم کے مکروفریب سے نجات دلائے گی،انشااﷲ تعالی۔ |