ملکِ پاکستان نت انوکھے اور سنسنی خیز واقعات کی سر
زمین بنتا جا رہا ہے۔کہیں بچوں پر جنسی تشدد کے ساتھ ساتھ لرزہ خیز سلوک
کیا جا رہا ہے اور کہیں نوجوانوں کو جعلی پولیس مقابلوں کی بھینٹ چڑھایا جا
رہا ہے۔ کہیں سیاست دان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے ٹورنامنٹ کھیلنے میں
روزو شب مصروف ہیں اور کہیں اداروں کے درمیان سرد جنگ لگی ہوئی ہے۔ پاکستان
کی اب تک کی ٹریجڈی کو اگر مختصر ترین الفاظ میں بیان کیا جائے تو اسے
اداروں کی سرد جنگ ہی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو جنتا نقصان اداروں کی ایک
دوسرے پر برتری کی جنگ اور جانبدارانہ رویوں نے پہنچایا ہے اتنا نقصان کسی
کرپشن اور نا اہلی نے نہیں پہنچایا۔
پاکستان کے عوام بھی سنسنی طاری کر دینے والی خبروں کے عادی ہو گئے ہیں جس
دن خبروں کے بلٹن ہلاکتوں کی خبروں سے خالی ہوں ، خبروں کا کوئی لطف محسوس
نہیں کیا جاتا۔ ابھی کل ہی زلزلے کی خبر نے خبر افزا چینلوں کی اہمیت میں
اضافہ کیا اور آج کی خبروں میں کچھ عدالتی فیصلوں نے خبروں کے رخِ انور پر
غازہ لگانے کا ٖکام کیا۔ اور پھر آج کی صدماتی خبر آئی کہ سندھ کی حکومت کے
ایک وزیر میر ہزار خاں بجارانی اور ان کی اہلیہ کی لاشیں بند کمرے سے
دستیاب ہوئی ہیں۔ اور حکومتِ سندھ نے تین روزہ سوگ کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
اس خبر کے آتے ہی ذہنوں کے سمندر میں زینب قتل کیس، انتظار قتل کیس، محسود
قتل کیس، راؤ انوار کی روپوشی وغیرہ کے حالیہ واقعات کے بعد اور ان کے ساتھ
ایک اور سنسنی خیز واقعہ کا اضافہ ہو گیا ہے۔
اس طرح کی خبروں سے اگر کبھی حالات توڑا سا سکون پائیں تو لائن آف کنٹرول
پر گولہ باری سے ایک بار پھر حالات میں سنسنی کا عنصر تقویت پکڑ لیتا ہے۔
میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ کی ہلاکت بھی ملک کے باقی معموں سے
کم نہیں ہے۔ اس کی اصلی صورت چاہے کچھ بھی ہو لیکن ایک باحیثیت وزیر اور اس
کی اہلیہ کا ایسی صورت میں قتل جب ان پر کوئی بیرونی پریشانی اور نفسیاتی
پریشر بھی کسی قسم کا نہ ہو ایک اچنبھہ چیز ہے۔ چاہے انہوں نے خود کشی کی
ہے، چاہے انہیں قتل کیا گیا ہے۔ کچھ بھی ہو، لیکن اس ہلاکت سے ایک شدید
نفسیاتی طوفان نے جنم لیا ہے۔ اگر انہوں نے خود کشی کی ہے تو اس کے محرکات
کیا ہو سکتے ہیں یا واقعی کیا تھے یا اگر انہیں قتل کیا گیا ہے تو اس سے
سماجی امن کے پاس اپنے دفاع میں کہنے یا کرنے کو کچھ بھی نہیں رہ جاتا۔
پہلی صورت کہ اگر انہوں نے خود کشی کی ہے تو یہ بات بھی اخلاقی، سماجی،
ذہنی اور مذہبی حلقوں کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ اگر ایک معاشرے میں
ایک وزیر اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن نہیں ہے تو ایک عام شخص کیسے ہو سکتا
ہے۔ ایک وزیر یقینی طور پر تعلیم یافتہ بھی ہوتا ہے۔ اب ایک تعلیم یافتہ ،
خوش حال شخص اپنی زندگی سے مطمئن نہیں تو اس سوسائٹی کی بنیاد میں کیا رہ
جاتا ہے۔ ہماری سوسائٹی بڑی حد تک مذہبی سوسائٹی ہے اور مذاہب اور مسالک اس
قسم کی حرکت کی ممانعت واضح الفاظ میں کرتے ہیں۔ اور کسی طور بھی اس طرح کے
واقعات کو سپورٹ نہیں کرتے۔ ایک ان پڑھ عام شخص جس کی زندگی مسائل کی ااماج
گاہ ہو اس قسم کی حرکت کرے تو بات کی سمجھ بنتی ہے۔ لیکن ایک وزیر جس کی
اہمیت کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ صوبہ سندھ کی حکومت نے تین یوم کے سوگ کا
فوراً اعلان کر دیا ہے۔ زینت قتل کیس دنیا بھر میں سنا گیا لیکن کہیں بھی
ایک یوم کا بھی سرکاری سوگ نہیں منایا گیا ، اور بھی ہلاکتیں اور شہادتیں
ہوتی رہتی ہیں لیکن صوبائی یا قومی سوگ کا اعلان نہیں کیا جاتا ۔ لیکن ایک
صوبائی وزیر کی اپنی اہلیہ سمیت ہلاکت نے نہ صرف ایک صوبے کو بلکہ پورے ملک
کو ہلا کر رکھ دیا ہے کہ یہ کیا ہو گیا ۔
دوسری بات کہ اگر انہوں نے خود کشی نہیں کی بلکہ انہیں کسی قاتل نے قتل کیا
ہے تو یہ بات پہلی بات سے سو گنا زیادہ خطرناک اور اندوہ ناک ہے۔ اس سے تو
پورے ملک کے امن و امان کی بنیاد زلزلے کے ہلانے سے بھی کئی گنا زیادہ ہل
جاتی ہے۔ اگر ایک وزیر اپنے گھر میں محفوظ نہیں تو کیا پدی کیا پدی کا
شوربہ ایک عام آدمی کی حیثیت تو پہلے ہی کیڑے مکوڑے جیسی ہے۔اگر یہ واردات
قتل ثابت ہوتی ہے تو ملک میں اور زیادہ بد امنی پھیلنے کا اندیشہ ہو جائے
گا۔ اگر وزیر ہی محفوظ نہیں تو امیر کیا اور غریب کیا، سب ہی غیر محفوظ
ہیں۔
یہ ہلاکت لوگوں کے ذہنی سکون کے لحاظ سے بہت نقصان دہ ہے۔ اس سے ملکی شہرت
کو بھی دھچکا لگے گا کہ یہ ملک کیسا ہے جہاں ایک صوبائی وزیر اپنے کمرے میں
اپنی اہلیہ کے ساتھ مردہ حالت میں پایا جاتا ہے۔
بس اﷲ سے دعا ہے کہ ہمارا ملک اس قسم کے سنسنی خیز واقعات سے جلد آزاد ہو۔
اداروں کے درمیان سرد جنگ اپنے منطقی اور پر امن اختتام کو پہنچے۔ ملک میں
کوئی دن ایسا بھی آئے جب ٹی وی چینلوں کے ساتھ دینے کے لئے سب اچھی خبریں
ہوں اور بری خبر کوئی نہ ہو۔ خدا کرے ہمارے ملک کے سب چھوٹے بڑے ، امیر
غریب امن اور سلامتی کی زندگی سے فیض یاب ہوں اور ملک سے بد امنی اور
انتشار کے بادل چھٹ جائیں اور آنے والا ہر موسم فصلِ گل کا موسم بن جائے !
آمین !
|