کسی ماں کی جوان بیٹی اغواء ہوجائے، برسوں لاپتہ رہے،
ایک عام انسان کی اوسط عمر سے بھی زیادہ اسے جھوٹے اور من گھڑت مقدمہ سزا
دے کر قید تنہائی میں ڈال دیا جائے، اس پر انسانیت سوز تشدد اور ساتھ جنسی
زیادتی کی خبریں موصول ہوتی رہے تو وہ ماں کیسے تڑپتی ہوگی یہ سمجھنے کیلئے
انسان کو دانشور ہونے کی ضرورت تو نہیں ہے بس عافیہ کے وجود میں اپنی بیٹی
یا بہن کا تصور کرلینا ہی کافی ہے۔
یہ تمام دکھ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی والدہ محترمہ عصمت صدیقی گذشتہ 15
سالوں سے مسلسل جھیل رہی ہے جن سے عافیہ کو 100 دن میں وطن واپس لانے کا
وعدہ مسلم لیگ ن کے سربراہ اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے2013 ء میں
برسراقتدار آنے کے بعداپنے کراچی کے پہلے دورہ کے موقع کیا تھا ۔
ٹھیک پانچ سال کے بعداعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کے ہاتھوں نااہل ہونے کے بعد
نواز شریف آئندہ انتخابات سے قبل اپنی پارٹی کو صوبہ سندھ میں منظم کرنے کی
غرض سے دو روزہ دورے پر کراچی پہنچ چکے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 2013 ء کی
انتخابی مہم میں نواز شریف نے قوم سے برسراقتدار آنے کی صورت میں گڈ گورننس،
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدرآصف علی زرداری کی غیرملکی بینکوں
میں موجود ملک کی لوٹی ہوئی تمام دولت واپس لانے ، لوڈشیڈنگ سے قوم کو نجات
دلانے اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے کے چار بڑے وعدے
کئے تھے، جن میں سے ایک بھی وعدہ انہوں نے تادم تحریر پورا نہیں کیا ہے
توپھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں ن لیگ کے رہنما کس منہ سے
عوام کے پاس ووٹ مانگنے جائیں گے؟ نواز شریف تو کرپشن کے الزام میں نااہل
ہوچکے ہیں اور ماہرین قانون اور سینئر تجزیہ نگار آئندہ الیکشن سے قبل
انہیں عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کی پیشن گوئی کررہے ہیں ایسی صورت
میں تو موصوف سیاست سے ہی باہر ہوجائیں گے۔
میاں نواز شریف نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں وعدوں اور ان کے پورا
کرنے کے عمل کا جائزہ لینے اور خود احتسابی کی بجائے یہ تصور کرلیا ہے کہ
آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت کو عوامی احتساب کا سامنا نہیں کرناپڑے
گا۔اس مرتبہ پھرعوام دونوں’’سیاستدانوں بھائیوں‘‘ کی لچھے دار تقاریر سے بے
وقوف بن جائیں گے۔ گذشتہ برس 2017 ء میں پوری قوم ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی
کیلئے میاں صاحب کی حکومت سے امریکی صدر باراک اوبامہ کے نام ایک خط لکھنے
کا مطالبہ کررہی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کا یہ سنہری موقع
ضائع کرنے کے بعد ہی نواز شریف کا سیاسی زوال شروع ہوگیا تھاجسے لوگوں نے’’
اﷲ کی پکڑ‘‘ اور میاں صاحب نے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ سے بھی تعبیرکیا۔
عافیہ کا جرم بے گناہی کی پاداش میں امریکی حراست میں 15 سال مکمل ہونا اور
امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کادن کی روشنی میں2 پاکستانی شہریوں کو قتل کرکے
اپنے وطن میں آزاد شہری کی حیثیت سے زندگی گذارناقوم کے سینے پر ایسا زخم
ہے جسے کوئی کرپٹ سیاستدان دیکھ ہی نہیں سکتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کو فرار کرانا
قومی غیرت کے منافی تھا۔ لیکن اب قوم کو اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا
چاہئے کہ عوام کے احتجاج کا نوٹس لے کر ادارے ملک کو حقیقی جمہوریت کی جانب
گامزن کرنے کا فریضہ اداکررہے ہیں۔ سپریم کورٹ عوام کے بنیادی حقوق کی
محافظ بن کر سامنے آئی ہے۔ جس کا نتیجہ قصور کی معصوم زینب کے قاتلوں کی
گرفتاری و مزید پیش رفت اور نقیب اﷲ محسود کے جعلی پولیس مقابلہ کے ذمہ
داروں کے خلاف کاروائی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ طبقہ اشرافیہ پہلی مرتبہ
قانون کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے ۔ عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کی پندرہ
سالہ جدوجہد رنگ لارہی ہے۔ ان شاء اﷲ قوم کی بیٹی عافیہ اپنے وطن واپس آئے
گی اور عوام آئندہ انتخابات میں اپنے اتحاد سے جھوٹے وعدوں کی سیاست کا
جنازہ نکال دیں گے۔
خلاف وعدہ بہت ہوئے ہو کوئی تو وعدہ وفا کرو اب
ملا کے آنکھیں دروغ کہنا کہاں تلک کچھ حیا کرواب
|