اعلیٰ حضرت ڈونلڈ جے ٹرمپ کے شہرہ آفاق پہلے پالیسی
بیان سے لے کر بیوقوفی کے اعترافی ٹویٹ اور پھر ٹویٹ سے لے کر اپنے اقتدار
کا ایک سال مکمل ہو نے پر امریکی کانگرس میں سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں جو
کچھ ٹرمپ نے کہا اس میں ہمارے لئے بہت سی نشانیاں ہیں لیکن ہمیں فکر کرنے
کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ نشانیاں عقل والوں کے ہوتی ہیں۔
بات کولیشن سپورٹ فنڈ کی ہو، طالبان کے خاتمے کی یا کابل حکومت کے استحکام
کی ، امریکی تان ہمیشہ اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستان کو جو کرنا چاہئے وہ
نہیں کر رہا ۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے ڈومور سن سن کر کان پک گئے ہیں ۔فیصلہ
میں یہ نہیں کر پایا کہ امریکی ڈھیٹ ہیں یا ہم گونگے بہرے، نہ ہم ان کی بات
سنتے ہیں نہ وہ ڈو مور کہنے سے باز آتے ہیں۔ ستر برس میں ہم یہ فیصلہ نہیں
کر سکے کہ ہم نے امریکہ کے ساتھ چلنا ہے یا ہمار اراستہ الگ ہوگا۔ کبھی ہم
اونٹو ں کو شکریہ امریکہ کے ہار پہناتے ہیں تو کبھی اس کی امداد پر مونگ
پھلی کی حقارت آمیز پھبتی کستے ہیں لیکن پھر کچھ ہی عرصے میں ایک آوارہ
بندر کی طرح درخت کی شاخوں پر اچھلتے کودتے اسی مونگ پھلی کو اپنے دانتوں
سے چھیل کر مزے اڑاتے ہیں ۔ کبھی ہم سب سے پہلے پاکستان کانعرہ لگاتے ہیں
لیکن دوسری ہی سانس میں اپنے عسکری اہمیت کے ہوائی اڈے امریکیوں کے حوالے
کر دیتے ہیں ۔ امریکی نیوی سیلز ہماری سرحدوں کو پامال کریں تو فرماتے ہیں
کہ آئندہ ایسا کچھ ہوا تو پاک امریکہ تعلقات ختم ہوجائیں گے لیکن یہ سوال
ہم سے کوئی نہ پوچھے کہ دنیا کا مطلوب ترین بندہ ہماری ناک کے نیچے کر کیا
رہا تھا۔ سلالہ کی چوٹیوں پر ہمارے بیٹوں کو گولیوں سے بھونا جائے تو نیٹو
سپلائی بند تو کر دیتے ہیں لیکن پھر کہتے ہیں کہ امریکہ نے معافی مانگ لی ۔معافی
؟؟؟یہ وہی لفظ ہے جسے سن کر خوبصورت ہیلری کلنٹن نے تکبر سے بھرپور قہقہہ
لگایا تھا۔
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ جب بھی امریکہ ہمارا بازو مروڑتا ہے ہمیں اپنی
قربانیاں یاد آجاتی ہیں اور ہم اپنی خدمات گنوانے لگ جاتے ہیں۔ جیسے کوئی
بے رحم عاشق بے وفائی پر اترآئے تو محبوبہ اس کا اپنے التفات یاد کراتی ہے
لیکن چونکہ عاشق کوگلشن کا کاروبار چلانے کے لئے کچھ بہتر میسر آ چکا ہوتا
ہے اس لئے جی کا جاناٹھہر جاتا ہے ۔
ٹرمپ بھی کیا شاندار شخصیت ہے ،مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ امریکہ
کی تاریخ میں اس کا نام نمایاں ترین حروف میں لکھا جائے گا۔ہم اسے ہزار
گالیاں دیں لیکن امریکہ کے لئے وہ ایک اچھا صدر ثابت ہورہا ہے ۔ پوری د نیا
کا میڈیا ہیلری کی جیت کے تجزئے کر کر کے پھاوا ہورہا تھا لیکن ٹرمپ کی جیت
کا اعلان سن کر خود ہیلری کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں داخل
ہواہی تھا کہ اس کے مواخذے کی پیش گوئیاں شروع ہوگئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ
امریکی تاریخ میں ٹرمپ وہ پہلا صدر ہے جس نے ایک سال کے دوران سب سے زیادہ
روزگار کے مواقع پید اکئے ہیں ۔ اب اگر امریکی قوم اس قدر بے وقوف ہے کہ
اسے گھر بھیجنے کے لئے اُتاولی ہوئی پھر رہی ہے تو مجھے نہیں معلوم ۔
حقانی نیٹ ورک کے دہشتگردوں کو پناہ دینے اور پاکستان کے لئے امریکی امداد
روکنے بارے ٹرمپ کی ٹویٹ پر پاکستان میں تنقید ،تبصرے ،تجزیے اور پیش
گوئیاں سب کچھ ہو الیکن جو کام کرنے کا تھایعنی عملی اقدام وہ نہیں ہو سکا
۔ ہم امریکہ کو آج تک یہ باور نہیں کراسکے کہ حقانی نیٹ ورک سمیت افغانستان
میں جتنے بھی مجاہدین پیدا ہوئے ان کی ماں پاکستان ہی سہی لیکن باپ ان کا
امریکہ ہی ہے ۔ ملکوں کے معاملات اور بین الاقوامی تعلقات میں دوستیاں بھی
مفادات کے تابع ہوتی ہیں سو امریکہ کا جب تک مفاد رہا وہ حقانی نیٹ ورک
سمیت سارے افغان مجاہدین کو نہ صرف پیٹ بھر کر کھلاتا رہا بلکہ ان کو عسکری
لحاظ سے بھی طاقتور بناتا گیا ۔ لیکن افغانستان میں روس کی شکست کے بعد
افغانستان کے یہ مجاہدین آزادی امریکہ کے لئے تو دہشتگرد بن گئے لیکن
پاکستان کا مفاد کچھ اور تقاضا کر رہا تھا۔ ٹی وی سکرینوں پر بھاری بھر کم
میک اپ کے بل بوتے پر حسن کا شاہکار بنے اینکر ز پاکستان کو تو افغان
پالیسی پر مطعون کر تے ہیں لیکن شائد انہیں یہ نہیں معلوم کہ بھارت اور
امریکہ سمیت ہر طاقتور ملک اپنے مفادات کے حصول کے لئے نان سٹیٹ ایکٹرز کو
پالتا پوستا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ان چیزوں کو منظر عام پر نہیں آنے
دیتے اور نہ ہی اس کو اپنی پالیسی کے طور پر تسلیم کرتے ہیں (ریمنڈ ڈیوس
اورکلبھوشن یادیو اس کی واضح مثالیں ہیں)۔ یہ درست ہے کہ ان کی طاقت نے ان
کے عیب چھپا رکھے ہیں لیکن ہم بھی اتنے کمزور تو نہیں کہ ستر ہزار جانیں
قربان کرنے کے بعد بھی اس عظیم قربانی کا پھل کسی اور کو کھانے دیں ۔ لیکن
حقیقت یہ ہے کہ اتنی قربانیوں کے باوجود آج بھی ہم بدا عتمادی اور دھوکے کی
مثال کے طورپر پیش کئے جاتے ہیں ۔اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان
میں ستر فیصد رقبے پر (بی بی سی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق)طالبان کا قبضہ ہے
لیکن ہمارے سفارتی ماہر دنیا کو تو چھوڑیں امریکہ کو یہ کہنے کی جسارت نہیں
کر سکتے کہ جناب حقانی نیٹ ورک کی بات تو کرولیکن اپنی منجی تھلے وی ڈانگ
پھیرو۔پنجابی میں کہتے ہیں ڈاھڈے دا ستیں ویں سو ۔
بین الاقوامی تعلقات اور سیاسیات کا طالب علم ہونے کے ناطے سچی بات یہ ہے
کہ مجھے تو اب خوف آنے لگا ہے ۔ ٹرمپ کی موجودہ افغان پالیسی کا لب لباب یہ
ہے کہ بھارت کو افغانستان میں حکومتی استحکام کے لئے سرمایہ کاری کے مواقع
فراہم کئے جائیں تاکہ افغانستان میں اس کے مفادات پیدا ہوں جن کے تحفظ کے
لئے بھارت کی وہاں موجودگی کا جواز پید اکیا جاسکے ۔ صدر ٹرمپ اپنے انتخابی
وعدے کے برعکس افغانستان سے فوجیں نکالنے کی بجائے اپنے جرنیلوں کے مشورے
پر مزید امریکی فوجی افغانستان بھیج رہا ہے ۔ اور اس پالیسی کا سب سے
خطرناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان اگر حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھرپور کارروائی
نہیں کرتا تو پاکستان میں موجود دہشتگردوں کی پناہ گاہوں پر حملے امریکہ
خود کرے گا۔ اس آخری نقطے پر اگر کوئی IDEALISTمجھے مطعون کرنا چاہے تو شوق
سے کرے لیکن دو مئی کے ایبٹ آباد اورسلالہ چیک پوسٹ حملوں کو ضرور ذہن میں
رکھے ۔
ایک طرف امریکی حملوں کا خطرہ ہے تو دوسری طرف ہمارے سیاستدان ہیں جو ان
حالات سے بے خبردست و گریباں ہیں ۔ علامہ کنیڈوی تو واپس ملکہ عالیہ کی پر
سکون بادشاہت میں جا چکے لیکن شیخ رشید ہر روز نئی پیش گوئی فرماتے ہیں سچا
ہونااس کا لیکن ضروری نہیں ،ہاں کچھ دن تماشہ لگتا ہے ،دو چار ٹی وی شو
ہوتے ہیں اور پھر ایک نیا شگوفہ ۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ تھانہ کلچر بدل
دوں گا لیکن یہ نہیں بتاتے کہ گزشتہ دس برس میں کیوں نہیں بدلا ۔ زرداری
صاحب کی سندھ حکومت ایس پی راؤ انوار کو تلاش کرنے سے معذور ہے لیکن دعویٰ
انہوں نے بھی کیا ہے کہ لوٹی دولت واپس لاؤں گا۔ میاں نواز شریف کی طرف سے
ووٹ کی حرمت کاسوال اپنی جگہ مقدس لیکن مجھے اگر ان کے خلوص کے مستقل اور
پائیدار ہونے کا یقین ہوتا تو میں دل وجان سے’’ اک واری فیر ۔۔۔شیر‘‘کا
نعرہ لگاتا۔ رہے عمران خان تو ان کی پالیسی ’’ون لائنر ‘‘ ہے ،یعنی گلیاں
ہوجان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔ عسکری قیادت کہتی ہے کہ ہمیں سیاست سے
دلچسپی نہیں لیکن سننے والے کہتے ہیں کہ ’’خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار
ہوتا‘‘۔ باقی رہا بابا ریمتا تو وہ قسمیں کھا کھا کر قوم کو اپنی غیر
جانبداری کا یقین دلانے کی کوشش کررہا ہے لیکن تاریخی تجربہ یہ ہے کہ سچے
اورکھرے لوگ قسموں سے نہیں اپنے اعمال سے پہچانے جاتے ہیں ۔ میں تو حریان
ہوں کہ ’’کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ‘‘۔ |