ممتاز شاعرہ ڈاکٹر نگہت نسیم کارسول صلی اللہ علیہ وسلم
اور اہل بیت رسول سے منسوب دعاؤں کااردو ادب میں پہلا منظوم مجموعہ کلام
محترمہ ڈاکٹر نگہت نسم صاحبہ اردو ادب کا ایک بڑا نام اور معتبر حوالہ
ہںو۔ڈاکٹر صاحبہ ہمہ گرو شخصتپ کی مالک ہںو۔ذہنی و جسمانی بماسروں کی معالج
و مسحای ہںر۔مشہور و معروف ادیبہ ہں ۔ صحافی ہں ۔مترجم ہںا۔بڑاڈ
کاسٹرہںو۔کالم نگاری، افسانہ نویی۔ اورشاعری اردو ادب مںک آپ کی پہچان ہے ۔
لکنم اِن سے بڑھ کر آپ ایک مہربان و شفقا اور ددر مند دل رکھنے والی انسان
دوست شخصتک بھی ہںا۔ اور اُس شجر سایہ دار کی مانند ہںر جس کے سایہ عافتق
مںد ہم کاا سب ہی راحت و سکون پاتے ہںا۔ اردو ادب مںخ ''گرد بار حاحت''،''مٹی
کا سفر''،''ییم دناو ہے یںد کی باتںس''،''زاد راہ ِ عشق'' اور'' دعاؤں کے
چراغ'' جی ج پانچ خوبصورت کتابںن آپ کے ادبی ذوق کی علامت اور علم وفن کی
پہچان ہںں۔
وطن کی مٹی سے ہزاروں ملد دور ،دیار غرو مںہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر صاحبہ کا
وجود وطن کی ہواؤں مںک سانسںص لتاس ہے ۔ گلی محلوں مںی گھومتا ہے۔ دل مظلوم
لوگوں کے ساتھ ڈھرکتاہے ۔ دماغ اُن کی بے بسی و بے کسی کے بارے مںب سوچتا
ہے۔اورقلم مظلوموں کے مصائب وآلام کی ترجمانی کرتا ہے۔ درحققتا ڈاکٹر صاحبہ
کی تحریریں صداقت کی لگن ،دیانت کی دمک،عوامی آرزؤں اور اُمنگوں کی چمک سے
لبریز، ارباب اقتدار کی نااہلی و بے حسی کی عکاس اور اپنے ماحول و معاشرت
کی آئنہ دار ہںز۔
ڈاکٹر صاحبہ کے مضامنو مںک اپنے تمدن،اپنی اقدار،اور اپنی روایات سے لازوال
اور اٹوٹ وابستگی کا احساس نمایاں ہے۔دلکشی ، معنویت اور جاذبتپ کے گہرے
اثر اورفکرو نظر کی پختگی کے ساتھ تحریر مںو ایسا بانکپن ہے جو براہ راست
قلب و ذہن کی طرف لپکتا ہے اور اپنے معنی و مفہوم کی تمام تر تاثرن کے ساتھ
جاگزیں ہوجاتا ہے۔اُن کے موضوعات مںا بے حد تنّوع ہے۔ملکی اور بنو الاقوامی
معاملات ہوں یا مذہبی اور ساھسی حالات، معاشرتی اور سماجی مسائل یا تعلیست
و اصلاحی موضوعات، ہجرووصال کی شاعری ہو یا خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم
اور دیگر اسلامی شخاض ت سے وابستگی اور محبت و عقدنت کا اظہار۔ تقریباً
سبھی حوالوں سے آپ قلم کی حرمت کی لاج رکھتے ہوئے لکھ رہی ہںر۔
اِس وقت ہمارے پشی نظر ڈاکٹر صاحبہ کی نئی کتاب''دعاؤں کے چراغ'' ہے۔جس مںی
آقائے دو جہاں حضور ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ،داماد
رسول، فاتح خبری اورخلفہا چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ، جگر گوشہ رسول جنت
مںر خواتنا کی سردار حضرت سدّیہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا،حضرت امام زین
العابدین ،امام علی رضا رضی اللہ عنہم وو دیگر آئمہ کرام و بزرگان دین سے
وغروہ سے منسوب دعاؤں کو منظوم انداز مںی پشن کاح گاک ہے۔گو اردو ادب مںج
منظوم انداز مںا پہلے بھی بہت کام ہوا۔منظوم ترجمہ قرآن،شمائل و سرست
اورتاریخ اسلام لکھی گئیں ۔یہاں تک کہ منظوم تذکرے،منظوم خاکے،منظوم
تنقدک،منظوم تبصرے اورمنظوم افسانوں پر بھی کام ہوا۔اوراسلامی دعاوں کو بھی
منظوم انداز مںظ پشک کاز گاکہے۔ مگر''دعاؤں کے چراغ'' اس لحاظ اولت اور
فوقت رکھتی ہے کہ اس سے قبل اتنی کثر تعداد مںش بزرگان دین سے منسوب دعاؤں
کو کسی مترجم مجموعہ کی شکل مں پشس نہںت کاھ گا ۔چنانچہ اِس تناظر مںک یہ
کہنا غلط نہ ہوگا کہ''دعاؤں کے چراغ'' اردو ادب کی وہ پہلی کتاب ہے جس مںو
کثرب تعداد مںک اِن دعاؤں کو منظوم انداز مں پشد کاہ گا ہے۔
یناغ یہ اعزاز اور مقام خوش نصیصر ہی ہے جسے متذکرہ بابرکت ہستواں کی
غائبانہ تائدی و توثقظ اور بلاشبہ اللہ ربّ کریم اور رسول معظم صلی اللہ
علیہ وسلم کی نصرت وعنایت اور فضل و کرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ سنت انھی
لوگوں کے لےو کار فرما ہوتی ہے جو اُس کی راہ پر چلتے اور اُس کے احکام پر
عمل پرتا ہوتے ہوئے اپنے آپ کو اُس کے قابل بناتے ہں۔۔ یہ نعمت ہر شاعر کے
حصے مںس نہں آتی۔ڈاکٹر نگہت نسمپ صاحبہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہںب کہ انہںغ
اس سعادت کےئشا چنا گای۔
دعا،عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی تو پکار اور التجا کے آتے ہں ۔
لکنب مذہبی مفہوم مں اِس سے مراد اللہ کریم سے کوئی فریاد کرنے یا کچھ طلب
کرنے کی ہوتے ہے۔ اِس کے علاوہ مخصوص آیات کے ورد کو بھی دعا شمار کا جاتا
ہے۔ جبکہ کسی شخصتع کے لےا نکن تمنا اور بھلائی کی خواہش کے اظہار کو بھی
دعا کہا جاتا ہے۔ اہل اسلام کے نزدیک اللہ سے دعا مانگنا عبادت مںص شامل
ہے۔
دعا کوئی ناے اور اچھوتا موضوع نہںت۔یہ موضوع اتنا ہی قدیم ہے جتنا کے خود
انسان۔حضرت آدم علہع السلام کو ربّ کریم نے جو دعا سکھاوئی وہ قرآن مںھ
موجود ہے۔ خود ربّ تعالیٰ نے بھی بعض دعائںا تعلمو فرمائی کہ بندوں کو اس
طریقے یا ان الفاظ مں دعا کرنی چاہےم۔ اسی طرح بعض پغمبر وں نے جو دعائںہ
کں ان کا بھی قرآن مں ذکر ہے تاکہ عام مسلمان بھی ان موقعوں پر وہی دعا
مانگںہ۔ حدیث مںخ بھی بعض دعاؤں کا ذکر ملتا ہے جو آپ ا نے بعض موقعوں پر
مانگںھ یا جن کے مانگنے کا حکم فرمایا۔ علماءفقہا اور صالحنا نے بھی خاص
موقعوں کے واسطے دعائںا مقرر کی ہںے۔ ان مںا سے بعض (مثلاً دعائے حزب البحر
وغراہ) بہت مقبول ہںی۔
دعا ایک عظمف نعمت اور انمول تحفہ ہے۔ اس دناص مںے کوئی بھی انسان کسی بھی
حال مں دعا سے مستغنی نہںم ہوسکتا۔ دعا اللہ کی عبادت ہے۔ دعا اللہ کے متقی
بندے اور انباا ئے کرام علہما السلام کے اوصافِ حمدبہ مں سے ایک ممتاز وصف
ہے۔ دعا اللہ تعالی کے دربارِ عالہت مںن سب سے باعزت تحفہ ہے۔اللہ کے نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا(دعا سے بڑھ کر اللہ تعالی کے یہاں کوئی
چزب باعزت نہںف)۔دعا اللہ تعالی کے یہا ں بہت پسندیدہ عمل ہے۔ ( اللہ سے اس
کا فضل مانگو کوغں کہ وہ اپنے سے مانگنے کو پسند کرتاہے )۔دعا شرحِ صدر کا
سبب ہے ، دعا سے اللہ تعالی کے غصہ کی آگ مدھم پڑتی ہے۔ دعا اللہ تعالی کی
ذا ت پر بھروسہ کاین ک ہے۔اور دعا آفت و مصبتہ کی روک تھام کا مضبوط وسلہی
ہے۔
بلاشبہ دعا اپنی اثر انگزعی اور تاثر کے لحاظ سے مومن کا ہتھا ر ہے۔ اللہ
کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(دعا مومن کا ہتھاشر ، دین کا
ستون اور آسمان وزمنت کی روشنی ہے۔ ) اللہ نے اپنے بندوں کو دعا کی تاکدل
کی ہے۔ اس کی قبولتک کا وعدہ کال ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجدآ مںم صاف اور
واضح اعلان کاو (جب مر ے بندے مرکے بارے مںب دریافت کریں ، تو مںو قریب ہوں
، دعا کرنے والاجب مجھ سے مانگتا ہے تو مںی اس کی دعا قبول کرتا ہوں ) یناہ
یہ اللہ کا فضل اور کرم ہی ہے کہ بندوں کے ہر عمل سے بے نا،زی کے باوجود وہ
اپنے ہی سے مانگنے کا حکم کرتا ہے۔
لہٰذا دعا کا حابتِ انسانی سے گہرا تعلق ہے اور اپنے اثرات کے لحاظ سے ایک
مسلمہ تاریخ ہے اور ربِ کریم کے نادیدہ خزانوں سے بھی اس کا عظم ربط وتعلق
ہے۔علماءنے لکھا ہے کہ خوشحالی اور بدحالی ہر حال مںے اللہ تعالی سے مانگنا
چاہیے۔ اللہ تعالیٰ دونوں حالتوں مںا یادکرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور
اُن کو نوازتا ہے۔ لہٰذا انسان کو ہروقت دعاگو رہنا چاہیے اور اُس کی
بارگاہ مںت اپنے دست طلب سب کلئے دراز رکھنے چاہیے۔
ڈاکٹر نگہت نسمں نے دعا کے اسی اسلامی فکروفلسفہ کو سامنے رکھ ان دعاؤں کا
منظوم ترجمہ کا ہے۔آئےع ان کی منظوم ترجمہ کی ہوئی رسول اللہ ا کی ایک اییا
دعا کو دیکھتے ہںک جو ہروقت کی جاسکتی ہے۔
اے مر ے رب !
اے مر ے معبود
مں تروی پناہ مں آتا ہوں شطاون مردود سے
اور شروع کرتا ہوں تریے ہی نام سے
تو جو سب جہانوں کا مالک ہے
سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے
اور بڑا ہی بخشش کرنے والا ہے
اے مرڑے معبود۔۔!
تو سب دیکھتا ہے پر تو دیکھا نہں جاتا
اے مر ے معبود۔۔!
تو اعلیٰ مقام پر ہے، بے شک مقام انتہا پر ہے
بے شک ترھی ہی بازگشت ہرطرف ہے
بے شک تر ی ہی دناق و آخرت ہے
بے شک تر ے ہاتھ مں حا ت و موت ہے
اے عالمن کے پروردگار۔۔!
مں اپنی ذلت و رسوائی سے ترتی پناہ چاہتا ہوں
اے مرلے معبود !
مں بس ترخی اور صرف ترزی ہی پناہ چاہتا ہوں
آمنم یا الٰہی آمنگ
اپنے معبود حقیشا کے حضور اظہار عبدیت کا یہ انداز معراج انسانت ہے۔اِس
تواضع و انکساری اور عاجزی کو رب کریم نے بہت پسند فرمایاہے ۔ڈاکٹر نگہت
نسیم نے ''دعاؤں کے چراغ'' کے ذریعے کاماربی اور فلاح کے لے نئی جہتں ہی
متعنن نہیں کںن۔بلکہ اپنی شاعری مںع اہل اسلام کو دعا کی ترغتی دلاکر ترقی
و کاماربی کی نئی راہں فراہم کںں۔اییع شاعری اردو مںا کرنے والے شاید ہی
کچھ لوگ ہونگے، جن کو خاخل کے ساتھ اتنی سادہ اور خوبصورت زبان بھی ملی ہو۔
ڈاکٹر نگہت نسم نے اِن دعاؤں اور ماثورات کو نظم کاپکرل عطا کاد ہے اور
اپنی شاعری کے ذریعے جس طرح اُن کے مفاہمع کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، بے
ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔یناا آپ کا یہ انداز فکردین سے وابستگی،
معاشرتی پاکزمگی اور ذہنی بالدکگی کا مظہر اورقابل تحسن ہے۔ ہمںت ینیت ہے
کہ اُن کا یہ دعائہ مجموعہ کلام لوگوں کی اصلاح و تربتپ ، توبہ و انابت اور
رجوع الی اللہ کاذریعہ بنے گا۔اللہ کریم آپ کی اِس کوشش و کاوش کو اپنی
بارگاہ مںے قبول فرمائے اور دین و دنا کی کامانباوں اور آساناعں عطا
فرمائے۔(آمنج بحرمة سدّو المرسلنگ صلی اللہ علیہ وسلم) |