یکجہتی کشمیر آزادی کشمیر

طارق محمود اعوان

™یوم یکجہتی کشمیر پاکستانیوں کی کشمیر کاز سے وابستگی اور کشمیریوں سے لازوال محبت کی تجدید کا دن بن گیا ہے۔ کشمیر فورم جرمنی کے زیر اہتمام برلن میں کئی دفعہ کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کے لئے مظاہروں اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے اور آئندہ بھی اس عظیم مقصد کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جائیگی۔ کیونکہ کشمیر کی آزادی نوشتہ دیوار ہے۔ دیوار برلن گر سکتی ہے تو پھر آر پار کشمیریوں کی آزادی بھی زیادہ دور نہیں اسی لئے ہم ہمیشہ برلن میں یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ
اب ہند کی دیوار برلن کو گرایا جائیگا
ہاں بھارتی فوجوں کو وادی سے بھگایا جائیگا

مشرقی اور مغربی جرمنی مل سکتے ہیں تو کشمیر بھی پاکستان بنے گا۔پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل ہے اور کشمیر پاکستان کے بغیر ادھورا، تاریخ کا تسلسل یہی بات دہرا رہا ہے اور لوگوں کے مفاد کے نقطہ نگاہ سے بھی دیکھا جائے تو یہی بات دونوں خطوں کے عوام کے مفاد میں ہے۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق ایک غیر فطری عمل ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ اس کا ملنا ایک طبعی اور فطری امر ہے اور حقیقت پسندی کے تقاضا کے طور پر بلا خوف و خطر کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر پاکستان کا جزو لاینفک ہے۔ کشمیر کو قائد اعظم محمد علی جناح نے شہ رگ کہا تھا۔ شہ رگ کہنے میں ایک حکمت پوشیدہ تھی ایک تو کشمیر سے لاالہ الا اﷲ کا رشتہ ہے اور دوسرا رشتہ جغرافیائی اور سٹرٹیجک ہے۔ اس ریاست کی سات سو میل لمبی سرحدیں پاکستان کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس کو بیرونی دنیا سے ملانے والا واحد اور قابل بھروسہ راستہ صرف راولپنڈی روڈ ہے۔ کشمیر کے باشندوں کے پاکستان کے ساتھ دینی، مذہبی، تہذیبی، تمدنی اور معاشرتی رشتے استوار ہیں۔ کشمیر کے تمام دریاؤں کا پانی پاکستان کی طرف بہتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا کشمیر سے آتا ہے۔ آج پاکستان پانی کے بحران کا شکار ہے۔ یہ بحران پاکستان اور پاکستانیوں کو لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب دھکیل رہا ہے۔ بھارت نے پاکستان کی جانب آنے والے تین دریاؤں پر غیر قانونی طور پر ڈیم بنانا شروع کر دیئے ہیں۔ حالات اس حد تک خطرناک ہو چکے ہیں کہ تربیلا ڈیم کے بعد پاکستان کا بڑا آبی منصوبہ بھاشا ڈیم بھی خطرے سے دو چار ہے۔ کیوں؟ صرف اس لئے کہ ہماری شہ رگ دشمن کے قبضے میں ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کشمیر کی برف پوش چوٹیوں پر دشمن کی فوج کی موجودگی سے پاکستان کا دفاع بھی خطرے میں ہے۔ کشمیر میں پاکستان کا وکیل سید علی گیلانی ہے۔ سید علی گیلانی دو ٹوک انداز میں کہتے ہیں کہ ’’کشمیر کے پانیوں پر پاکستان کا حق ہے اور یہ حق کوئی نہیں چھین سکتا‘‘۔ اقوام متحدہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی متفقہ طور پر منظور کردہ قراردادوں پر عملدرآمد کرائے۔ اگر اقوام متحدہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے سے قاصر ہے تو آخر اس ادارے کا فائدہ کیا ہے؟ اگر دنیا میں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا روایتی اصول ہی کارفرما رہنا ہے تو پھر اقوام متحدہ کے ادارے کی بقاء کا کیا جواز ہے؟۔ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کا حل رائے شماری تجویز کیا تھا جس سے پاکستان اور بھارت دونوں نے اتفاق کیا تھا چنانچہ اقوام متحدہ نے 13 اگست 1948ء اور پانچ جنوری 1949ء میں متفقہ طور پر قراردادیں منظور کی تھیں کہ کشمیر میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ماحول میں استصواب رائے کرایا جائے گا کہ وہ پاکستان یا بھارت کسی ایک سے الحاق کرنے کے حق میں ووٹ دیں۔ ان قراردادوں سے پاکستان اور بھارت نے اتفاق کیا تھا لیکن بعد ازاں بھارت نے ان پر عملدرآمد نہ ہونے دیا۔ اب یہ اقوام متحدہ کا فرض ہے کہ وہ بھارت کو مجبور کرکے اپنی پاس کردہ قراردادوں پر عملدرآمد کرائے۔ مسئلہ کشمیر ایک زندہ مسئلہ ہے۔ اگر اقوام متحدہ کشمیر میں اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہتا ہے (جیسا کہ اب تک ناکام ہی رہا ہے ) تو دنیا کی کمزور اقوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ اقوام متحدہ کا ادارہ بڑی اقوام کے ہاتھوں میں ایک کھلونا اور ان کی خواہشات کا ترجمان ہے۔ اب جبکہ کشمیر میں بھارتی افواج نے قتل عام شروع کررکھا ہے اور ظلم و بربریت اور سفاکی و درندگی کے تاریخ عالم کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں تواقوام متحدہ کا فرض ہے کہ وہ اس مسئلہ کی طرف فوری توجہ دے۔

Raja Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104856 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.