پاکستان کی تاریخ میں ایک عصرہ کے بعد مین سٹریم پر تیسری
بڑی قوت کے روپ میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنا مقام بنایا جو بلاشبہ
عمران خان کی مسلسل محنت، جدوجہد اور اَنتھک کوشش کا مرہونِ منت ہے، مسلم
لیگ ن اور پیپلز پارٹی جیسی دو بڑی پارٹیوں کے ہوتے ہوئے اپنے آپ کو منوانا
ایک دیوانے کا خواب لگ رہا تھا مگر عمران خان کی سیاست میں مستقل مزاجی اور
تبدیلی کے نعرے نے نوجوان نسل کو عمران خان کا دیوانہ بنادیا اور ملک کی
دونوں بڑی پارٹیوں کو سر جوڑنے پر مجبور کردیا۔ آج پاکستانی سیاست میں
عمران خان ایک بڑے لیڈر کے طور پر مانے جاتے ہیں، یہ دور تحریک ِاستقلال پر
بھی آیا تھا، اُس دور میں ریٹائرڈ ائیر مارشل اصغر خان مرحوم کا بھی طوطی
بولتا تھا، دور دور تک اُن کا کوئی مد ِمقابل نظر نہیں آتا تھا، لوگ دوسری
پارٹیوں کو چھوڑ کر تحریک ِاستقلال میں شامل ہو رہے تھے، اصغر خان کے
استقبال کیلئے میلوں لمبے جلوس، جلسوں میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر،
تحریک ِاستقلال کے اقتدار میں آنے کی نوید سنا رہا تھا، ہر طرف تحریک ِاستقلال
اور اصغر خان ہی نظر آرہے تھے، اقتدار کے ایوانوں کیلئے تحریک استقلال واحد
پارٹی تھی جو سیاستدانوں کی محبوبہ بنی ہوئی تھی مگر اپنے غلط فیصلوں اور
غلط حکمت ِعملی کے باعث اقتدار کی دیواروں کو چھونے سے پہلے ہی سیاسی
پنچھیوں کاخوابوں خیالوں کا محل زمین بوس ہوگیا، اصغر خان بھی گوشۂ تنہائی
میں چلے گئے اور پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ہی میدانِ عمل میں رہ گئیں۔
ایک بڑے عرصہ کے بعد پاکستان کو عمران خان کی قیادت میں تحریک ِانصاف جیسی
پارٹی مل گئی جس کے نعروں نے آج نئی نسل کو گرویدہ بنا لیا ہے، کرپشن کے
خلاف جدوجہد رنگ لے آئی اور میاں نوازشریف جیسے مضبوط ترین وزیراعظم کو
قانون کی عدالت میں لا کر نااہل کروا دیا۔ آج تحریک ِانصاف کا جادو سر چڑھ
کر بول رہا ہے، مسلم لیگ ن کے دورِ اقتدار میں ہی اُن کے لوگ تحریک ِانصاف
میں شامل ہو رہے ہیں، پیپلزپارٹی کو خیر باد کہہ کر آئندہ الیکشن میں جیت
کی امید لیے سیاست کے میدان کے کھلاڑی بھاگم بھاگ تحریک ِانصاف میں شمولیت
کرکے اپنے بہتر مستقبل کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ آج پیپلزپارٹی کو حلقوں میں
کھڑا کرنے کیلئے امیدوار ملنا مشکل نظر آرہے ہیں، خصوصاً پنجاب میں تو
پیپلزپارٹی کو سخت دشواری کا سامناہے، بڑے بڑے نام چھوڑ چکے ہیں اور کچھ
چھوڑنے کی تیاریوں میں ہیں، مسلم لیگ ن کا بھی یہ عالم ہے کہ اُن کے ایم
این اے، ایم پی اے ٹکٹوں کی یقین دہانی کیلئے تحریک ِ انصاف سے مسلسل رابطے
میں ہیں۔ پاکستان میں اسلام آباد پر حکمرانی کیلئے تخت ِلاہور پر براجمان
ہونا ضروری ہے،پارٹی کی مرکز میں حکومت ہو اور پنجاب میں نہ ہو، ماضی میں
تجربہ ان کے سامنے ہے۔ مگر تحریک ِانصاف پنجاب کے کارکن اپنی لیڈرشپ سے
نالاں اور مایوس نظر آرہے ہیں، عرصہ دو سال سے عبدالعلیم خان سینٹرل پنجاب
کے صدر ہیں، پنجاب کے دس بڑے اضلاع اُن کے انڈرہیں جن میں لاہور، قصور،
شیخوپورہ، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ننکانہ صاحب، گجرات، منڈی بہاؤالدین ،
نارووال، اور حافظ آباد شامل ہیں، اِن اضلاع میں 45 کے قریب قومی اور 90 کے
قریب صوبائی اسمبلی کی سیٹیں ہیں اور اِس وقت پنجاب مسلم لیگ ن کا گڑھ
سمجھا جاتا ہے، مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے سینٹرل کو فتح کرنا
بہت ضروری ہے مگر اس وقت تحریک ِانصاف میں عجیب صورتِ حال چل رہی ہے جس کا
برملا اظہار پچھلے 15 سالوں سے تحریک ِانصاف کیلئے دن رات اپنا وقت دینے
والے سوشل میڈیا پر اور اپنی محافل میں کررہے ہیں، جو تحریک ِ انصاف کی
قیادت کیلئے الارمنگ ہے، کارکنوں میں مایوسی اور نظراندازی کا عنصر بری طرح
سرایت کررہا ہے، اِس وقت تحریک ِانصاف سیاسی میدان میں فیورٹ جارہی ہے، ہر
حلقے میں امیدواروں کی لائن لگی ہوئی ہے مگر پارٹی کو تحریک ِاستقلال بننے
سے بچانے کیلئے قیادت کو پرانے ورکروں، مخلص ساتھیوں کی طرف توجہ دینا ہوگی،
جن کا گلہ ہے کہ سینٹر ل پنجاب کے صدر عبدالعلیم خان نے کسی ایک ضلع کا
پچھلے دو سال سے ایک دورہ بھی نہیں کیا، لاہور میں رہ کر ورکروں کوملنا
اپنی توہین سمجھتے ہیں، سینٹرل پنجاب کے کسی ضلع میں تنظیم نام کی کوئی چیز
نہیں، تنظیم کے بغیر صرف پنجاب کے چند عہدوں پر چلنے والی یہ واحد سیاسی
پارٹی ہے، لاہورکے سٹی صدر کیلئے ولید اقبال کا واحد نوٹیفیکیشن بھی عمران
خان نے ہی کیا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے جلسے پے در پے
ناکام ہو رہے ہیں، لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کو بھی خوشامدیوں کے ٹولے نے گھیر
رکھا ہے۔ راقم نے گوجرانوالہ کے سابق ضلعی صدر چوہدری انصر نت اور سابق
ضلعی جنر سیکریٹری سیّد حسن جعفری اور اس قسم کے سینکڑوں ورکروں کی اضطرابی
کیفیت دیکھی ہے جنھیں ایسے محسوس ہورہا ہے کہ پچھلے دس سالوں سے ان کی دن
رات کی محنت رائیگاں جارہی ہے اور روایتی قبضہ گروپ آہستہ آہستہ تحریک ِانصاف
پر بھی قابض ہورہاہے، کارکن ایک چیز شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ صوبائی صدر
پنجاب میں کارکنوں کو وقت دینے کی بجائے اپنی ساری توانائیاں بنی گالہ میں
صرف کررہے ہیں، ہفتہ میں پانچ دن بنی گالہ رہنے کی وجہ سے پنجاب کا اہم
سیاسی مورچہ خالی چھوڑا جارہا ہے۔ پنجاب کو عبدالعلیم خان اپنے ایک
سیکریٹری شعیب صدیقی جو رکن پنجاب اسمبلی بھی ہیں کے حوالے کر رکھا ہے، اُن
کی اپنی پسند اور نا پسند ہے، پنجاب کے لوگوں کو اپنے لیڈر عمران خان سے
ملنے کیلئے عبدالعلیم خان کے راستے جانا پڑتا ہے کیونکہ بنی گالہ میں بھی
کنٹرول عبدالعلیم خان کا ہی ہے۔ پنجاب میں یوتھ ونگ کی باڈی بھی خوشامدی
ٹولہ اور سفارشی کلچر کا منہ بولتا ثبوت ہے جو تحریک ِانصاف کے ماٹو کی نفی
کرتا ہے۔ تحریک ِانصاف کے منشور اور بائی لاز کے مطابق یوتھ ونگ کے ممبر کی
عمر زیادہ سے زیادہ 33سال مقرر ہے مگر یوتھ ونگ کے صوبائی صدر علی امتیاز
وڑائچ 45 سال سے بھی اوپر کے ہیں، ایسے تو یوتھ ونگ کو ذاتی پسند اور
ناپسند کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ نئی نسل کی امیدوں کی کرن تحریک ِانصاف
سے مایوسی اور حسرت و یاس میں ڈوبی اِس قوم نے بہت سی امیدیں لگا رکھی ہیں،
اِس میں پڑھالکھا نوجوان اپنا مستقبل دیکھ رہا ہے، اِسے عام ورکرز اور مخلص
ووٹر کی مایوسی سے بچانے کیلئے اعلیٰ قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
عبدالعلیم خان جیسے لوگ بھی پارٹی کا اثاثہ ہوتے ہیں مگر اب ڈرائننگ روم کی
سیاست کا دور ختم ہوچکا ہے، لوگ اپنے لیڈروں کو اپنے درمیان دیکھنا چاہتے
ہیں، عمران خان کو چاہئے کہ دور اندیشی کا مظاہرہ کریں تحریک ِانصاف کو
تحریک ِاستقلال بننے سے بچانے کیلئے کردار ادا کریں، عبدالعلیم خان کو مرکز
میں اہم ذ مہ داری سونپ کر کسی چوہدری محمد سرور قسم کی غیر متنازعہ اور
عوامی شخصیت کو سینٹرل پنجاب کی ذمہ داری سونپ دیں، پنجاب میں جو جوش و
ولولہ اور بیداری پچھلے 2سال میں نہیں ہوسکی وہ 2 ماہ میں نظر آئے گی۔
الیکشن کی آمد آمد ہے، وقت کم اور مقابلہ انتہائی سخت ہے، ان حالات میں
کٹھن اور کڑوے فیصلے ہی پارٹیوں کی تقدیر بدلت ہیں، حالات اور وقت کا تقاضا
ہے کہ اب زمینی حقائس کے مطابق فیصلے کیے جائیں ورنہ خوشامدیوں کے ٹولے
اپنے ساتھ مخلص ساتھیں کو بھی خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے۔ |