اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں

پاکستان میں ہر سال کی طرح امسال بھی 5فروری کا دن کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے منایا جا رہا ہے ۔یہ دن اس تحریک کے ساتھ اپنی اخلاقی و سفارتی حمایت کے لیے منایا جاتا ہے جس میں ایک طرف جیلیں ، جبروتشدد، مقدمات ، نظربندیاں ، شہادتیں ، جنازے اور جان و مال، کاروبار کی قربانیوں کے باوجود جواں حوصلے ہیں تو دوسری طرف طاقت کے بے دریغ استعمال اور وحشت و بربریت کے مظاہروں کے باوجود خوف اور ذلت و رسوائی کی تاریخ ہے۔کشمیریوں نے اپنی آزادی کی تاریخ تو اسی دن شروع کر دی تھی جب انگریزوں نے گلاب سنگھ سے معاہدہ امرتسر کیا تھا جس میں 75لاکھ روپے کے عوض وادی کشمیر کی آزادی گروی رکھ دی گئی تاہم پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد کشمیریوں کو امید کا دیا روشن ہو گیا اور آزادی کی جدوجہد میں ایک نیا رنگ آگیا ۔ بھارت نے اس موقع پر مکاری دکھائی اور ڈوگرہ راجہ سے مل کر کشمیر پر قبضہ کر لیا ۔ بھارت نے کشمیر میں فوجیں اتار کر ایک دفعہ پھر کشمیریوں کے حق آزادی کو دبا لیا ۔ کشمیریوں نے اس زبردستی کے قبضے کو کسی صورت قبول نہیں کیا اور گزشتہ70سالوں سے بھارت کے جبرواستبداد کا سامنا کر رہے ہیں ۔بھارت نے اس عرصہ میں مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے کشمیری قوم کو غلام رکھنے کی کوشش کی ۔ کبھی معاشی پیکج پیش کیے تو کبھی نوجوانوں کواعلیٰ تعلیم اور ملازمتوں کے دروازے کھول کر انہیں خریدنے کی کوشش کی ۔ تاجروں کو ٹیکسوں میں چھوٹ کا معاملہ ہو یا انفراسٹرکچر کی تعمیر ہر کشمیری نے ان سب ہتھکنڈوں کو مسترد کر دیا ۔ سارے لالچ ناکام ہوئے تو بھارتی کی مکاری و عیاری کے سارے نقاب اتر گئے اور انتہا پسند ہندو کا اصل چہرہ بے نقاب ہونے لگا۔ بھارت نے اپنی آٹھ لاکھ فوج کے ذریعے جنت ارضی کو ایک جیل میں تبدیل کر دیا جہاں بھارتی فوجیوں کو ہر قسم کے ظلم کے لیے آزاد کر دیا گیا ۔پھر اس جنت ارضی کو ایک ٹارچر سیل بنا دیا گیا ۔کریک ڈاؤن بھارتی فوج کا بڑا ہتھیار ٹھہرے جس کے دوران وہ جس بستی پر چاہتے چڑھائی کر دیتے جس گھر کو چاہتے مسمار کر دیتے جس دوکان کو چاہتے آگ لگا دیتے جس نوجوان کو چاہتے اٹھا کر اپنے ٹارچر سیلوں میں لے جاتے اور پھر سورج کی روشنی کے لیے اس کی آنکھیں ترس جاتیں ۔جب وہ واپس گھر لوٹتا تو جسم کے اعضاء سے معذور ایک ایسا نوجوان جو تڑپ تڑپ کر اپنی باقی ماندہ زندگی گزارتا ۔ کشمیریوں کی ایک نسل نہیں بلکہ دوسری تیسری چوتھی اور اب پانچویں نسل بھی اسی طرح کے ظلم و تشدد کا شکار رہی ہے ۔

سات دہائیوں سے ظلم برداشت کرتے کشمیریوں نے آزادی کے آپشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ آج ستر سال گزر گئے اور کشمیریوں کی پانچویں نسل پوچھ رہی ہے کہ دنیا کے منصف کہاں ہیں ۔بھارت نے عالمی سطح پر اپنے اثرو رسوخ کا فائدہ اٹھایا اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے کشمیریوں کی تحریک کو دہشت گرد تحریک بنا کر پیش کیا ۔ اس کی یہ سازش نائن الیون کی گرد میں کامیاب ہو گئی اور دنیا نے کشمیر کی تحریک کو نئے انداز سے دیکھنا شروع کر دیا۔ستم یہ ہوا کہ جس دھرتی کو کشمیریوں نے اپنی دھرتی سمجھا وہاں کے رہنے والے حکمرانوں نے بھی دنیا کے تیور دیکھتے ہوئے اپنی آنکھیں پھیر لیں ۔ لیکن کشمیری جانتے تھے کہ یہ حکمران اپنے مفادات کے لیے اپنی ترجیحات تبدیل کر سکتے ہیں لیکن پاکستان کے لوگ ہر موقع پر ان کے ساتھ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان حکمرانوں کی وجہ سے کبھی کشمیری پاکستان سے ناراض نہیں ہوئے بلکہ وہ آج بھی پاکستانیوں سے ذیادہ پاکستانی ہیں ۔ ان کی یکجہتی کا عالم یہ ہے کہ ان کی گھڑیان پاکستان کے مطابق وقت بتاتی ہیں ۔ ان کے موبائل کی ٹون پاکستانی قومی ترانہ ہے ان کے گھروں پر پاکستانی پرچم لہراتے ہیں ۔ کشمیر میں عید کا موقع ہو یا کسی شہید کا جنازہ گلی گلی شہر شہر پاکستانی سبز ہلالی پرچم لہراتا ہے ۔ کشمیری پاکستانی پرچم کو جائے نماز کی طرح رکھتے ہیں ۔ان کی عیدیں پاکستان کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ ہتھیاروں سے لیس بھارتی فوجی ان پر تشدد کرتے ہیں لیکن ان کی زبان پر تیری جان میری جان پاکستان پاکستان ہوتا ہے ۔پاکستان سے محبت کو وہ اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ ان کے سکولوں میں پڑھائی کا آغاز ہو یا میدانوں میں کھیلوں کے مقابلے ان کا آغاز پاکستان کے قومی ترانے سے ہوتا ہے۔ ان کی لگن دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ کشمیری اپنے جذبے میں سچے ہیں جس کا ثبوت وہ دے رہے ہیں ۔پیلٹ گنوں سے زخمی آنکھیں ، کیمیائی ہتھیاروں سے جلے گھرو بازار ، کرفیولگی بستیاں ، ٹارچر سیلوں میں ہزاروں نوجوان، جلتی مساجد ، لٹتی خواتین ، لاکھوں شہدااور شہداء کے جنازوں میں لہراتے سبز ہلالی پرچم ان کے ایمان ، یقین اور محبت کی گواہی دے رہے ہیں ۔لیکن سوال ان کے وکیل پاکستان سے ہے ۔اگر کشمیری لاکھوں قربانیوں کے باوجود تھے نہیں تو پاکستان وکیل ہونے کی حیثیت سے کیوں خاموش ہے ؟ پاکستان کے سیاستدان کشمیر پر اپنے سیاسی بیانات سے آگے کیوں نہیں بڑھتے ؟ پھر کشمیر کے لیے پاکستان میں بلند ہونے والی مضبوط اور توانا آواز کو نظر بند کیوں کر لیا جاتا ہے ؟ کشمیری بھارتی فوج کے سامنے ان کی گولیوں سے شہید ہونے والے کی نماز جنازہ کے وقت ہزاروں کے مجمع میں نعرہ لگاتے ہیں کہ حافظ سعید کا کیا پیغام ، کشمیر بنے گا پاکستان تو پھر یہی حافظ سعید پاکستان کے حکمرانوں کے لیے کیوں قابل قبول نہیں ۔ پھر بھارت کے کے کہنے پر اس کی آواز کیوں چپ کروا دی جاتی ہے ؟ یہ سوال لمحہ فکریہ ہے ۔5 فروری پھر قریب ہے یہ دن پیغام ہے بھارت کے حکمرانوں کے لیے کہ حکمران کتنے بھی دباؤ کا شکار ہوں لیکن پاکستان کا بچہ بچہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے ۔ دنیا کتنی بھی مجبور ہو پاکستانی آزادی کی اس جدوجہد میں کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اگرکشمیر کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو جعلی مقابلوں اور بھارتی فوجیوں اور پولیس کی جانب سے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے کشمیروں کی ناقابل دید تصویریں …… لہو لہو چہرے ، زخموں سے چور نڈھال لوگ …… پھول جیسے کشمیری بچوں کے لاشے …… نہتے کشمیری …… بربریت و سفاکی کی انتہا …… کشمیر کی سرزمین پر بے رحمی سے مارے جانے والے معصوم بچوں کے لہو کی ندیاں …… اور مسلمانوں کے خون سے کھیلی جانے والی ہولی …… !!!کے مناظر کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں ظلم کی انتہا بیان کرنے کو کونسا نیا لفظ، نیا استعارہ اور تئی تشبیہ استعمال کی جائے جو سیدھا ان بے حسی میں ڈوب چکے نام نہاد عالمی منصفوں اور امن کے دعویداروں کے دل پر لگے او ر ان میں ہلچل پیدا کردے۔تا کہ سنگدلوں کے دل پھٹیں اور وہ الفاظ ان کے سینے میں گڑ جائیں ۔۔لیکن سچ یہ ہے کہ یہ عالمی ادارے اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کی دعویدار تنظیمیں ایک خاص قسم کے لوگوں کی آواز کو بلند کرتی ہیں اگر سوڈان میں عیسائی اپنا حق مانگیں تو چند سالوں میں ہی ان کی علیحدہ ریاست قائم کر دی جاتی ہے ، اگر مشرقی تیمور کے عیسائی اپنا حق آزادی مانگیں تو عالمی تنظیمیں اور قوتیں فوراً حرکت میں آتی ہیں اور ان کے لیے الگ ریاست کا قیام عمل میں آ جاتا ہے لیکن یہ کشمیری کس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں کشمیری قوم نے حصول آزادی کیلئے جو لازوال اور باکمال جدوجہد کی ہے وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے،بھارت 63سال سے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبانے کیلئے ہر طرح کے حربے استعمال کررہا ہے۔’’بھارتیوں! جموں کشمیر چھوڑو‘‘ تحریک ایک نڈر اور بے باک کشمیر قوم کی بے باپناہ قربانیوں اور باطل کے سامنے کبھی سر نہ جھکانے کی روشن مثال کا نام ہے، اگر آپ کو بھارتی مظالم کی سیاہ اور سرخ آندھی کے جھکڑے چلتے نظر آتے ہیں اور اس کے تیروتفنگ سے بہتی خون کی ندیاں نظر آتی ہیں تواس کے ساتھ ہی ساتھ کشمیری قوم کے حوصلوں سے ایک ہی ولولہ بھی اُبھرتا نظر آتا ہے ۔اتنی قربانیاں دے کر بھی کشمیری قوم نہیں جھکی تو اب ہم بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے…… اور بھارت سب کچھ جھونک کر بھی بے نیل ومرام ہے اور مقبوضہ کشمیر بالآخر آزادی کی منزل پر پہنچ کر رہے گا۔ (ان شاء اﷲ) بھارت نے اس قوم کو ہر طرح کی ترقی اور نوکریوں کا لالچ دیا اور ظلم و تشدد ، جبرو استبداد کا ہر حربہ بھی آزما کر دیکھ لیا لیکن کشمیریوں نے بھارت کو سری نگر میں ترنگا نہیں لہرانے دیااور نہ ہی ایسا وقت آئے گا کیونکہ کشمیریوں نوجوانوں کو آزادی کی منزل محض چند قدموں پر نظر آرہی ہے ان کی نسلوں نے اس کے لیے قربانیاں دی ہیں اور کشمیر کے برف پوش پہاڑوں میں بھارتی سینا آزادی کے متوالوں کے ہاتھوں عبرتناک شکست سے دوچار ہو گی ۔

Asif Khursheed Rana
About the Author: Asif Khursheed Rana Read More Articles by Asif Khursheed Rana: 97 Articles with 74418 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.