زندگی میں کامیابی کا حصول کس شخص کی خواہش نہیں ہوتی ۔
ہر فرد اپنی زندگی اپنے خوابوں کے مطابق گزارنا چاہتا ہے اور ہر طرح کے عیش
و آرام سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہر کوئی کامیاب
نہیں ہوتا ۔ کوئی فتح کا جشن مناتا ہے تو کوئی شکست کی ذلت سے دوچار ہوتا
ہے۔ کسی کے حص میں کامیابی کی خوشیاں آتی ہیں تو کوئی ناکامی کے غم سے
دوچار ہوتا ہے۔ ہمیں زندگی کی اس دوڑ میں جہاں کامیاب و کامران افراد خوش و
خرم زندگی گزارتے نظر آتے ہیں وہیں اپنے مقدر پر روتے ناکام و نامراد افراد
بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے۔ دراصل کامیاب
افراد کی زندگی بہت منظم ہوتی ہے اور وہ بہترین منصوبہ بندی کے سبب راہ میں
آنے والے مسائل اور رکاوٹوں کو عبور کر کے اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہو
جاتے ہیں جبکہ ناکام افراد اپنی عدم منصوبہ بندی اور وقت کے ضیاع کے باعث
ناکام ٹھہرتے ہیں۔ ذیل میں ہم ان ناکامی کے عوامل اور ان کے حل کا جائزہ
لیتے ہیں۔
جوش و جذبہ ضروری ہے
…… بیشتر نوجوان جب اپنے مقاصد کا تعین کرتے ہیں تو وہ عموماً اپنے اس مقصد
کو پانے کے لیے اس لگن اور جوش و جذبے کا مظاہرہ نہیں کرتے جس کی ضرورت
ہوتی ہے۔ عموماً خواہشات ا س قسم کی ہوتی ہیں کہ بہتپیسہ کمانا ہے، نیا گھر
بنانا ہے، فلاں عہدے یا مرتبے تک پہنچنا ہے،کاروبار اتنا پھیلانا ہے، نئی
گاڑی لینی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن عزم و ہمت کی کمزوری کے باعث چھوٹی چھوٹی
رکاوٹیں بھی بہت بڑی معلوم ہونے لگتی ہیں۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ چشم
تصور سے خود کو اس منزل کا حامل دیکھیے اور کامیابی کے ذائقے کو محسوس
کیجیے۔ یہی وہ لمحہ ہے جو آپ کے اندر پھر سے آگے بڑھنے کی لگن پیدا کرتا ہے۔
پھر آپ محنت، جوش و جذبے اور لگن سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے
ہیں اور بالآخر اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ عزم مصمم سے نوجوان ہر منزل کو
پالیتے ہیں، ستاروں پر بھی کمند ڈال لیتے ہیں جبکہ حوصلے کی کمی کی گئی
محنت کو بھی ضائع کر دیتی ہے۔
ناکامی کا خوف
…… جوافراد ناکام ہونے سے خوفزدہ رہتے ہیں وہ ضرور ناکام ہوتے ہیں کیونکہ
وہ اپنے مقاصد کے حصول میں آنے والی رکاوٹوں اور خطرات سے نبردآزما ہونے کا
ہنر نہیں جانتے۔ اور ناکامی کا خوف سر پر سوار کر لیتے ہیں۔ مثلاًبعض اوقات
ہم اچھی پیش کش ملنے کے باوجود کسی نئی جگہ ملازمت کرنے اور پرانی ملازمت
چھوڑنے سے گریز کرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی جمی جمائی نوکری چھوڑ
کر جاؤں اور وہاں بھی مطمئن نہ رہوں، پتہ نہیں میں وہاں اپنی ذمہ داریاں
بہتر طریقے سے انجام دے پاؤں گا یا نہیں ۔ اس طرح ہی کوئی نیا کاروبار شروع
کرتے ہوئے ، تعلیمی میدان میں مضامین کا انتخاب یا پیشہ ورانہ زندگی کے
آغاز میں بہت سے نوجوان غیر ضروری اندیشوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ خوف ایک
عارضی سوچ ہے ۔ آگے بڑھنے کے لیے اس کے چنگل سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں کو
تسلیم کرنا ہو گا۔ دنیا میں تمام معاملات ہمار ی مرضی کے مطابق نہیں ہوتے۔
اسی طرح کامیابی کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی ناکامی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے
۔ لیکن شکست کو فتح میں تبدیل کر دینا ہی اصل معرکہ ہے اور یہی کامیابی کا
راز ہے۔
کامیابی کا خوف
…… کامیابی حاصل کرنے کے بعد اکثر لوگ ڈرنے لگتے ہیں اور کسی پر اعتبار
کرنے سے کتراتے ہیں۔ بسا اوقات انہیں لگتا ہے کہ لوگ انہیں دھوکہ دے سکتے
ہیں۔ اپنے ڈر کے باعث وہ اپنے کاروبار پر بھی بہتر طور پر توجہ نہیں دے
پاتے اور خود غرضی اور خود فریبی کے حصار میں پڑ کر ناکامی کا شکار ہونے
لگتے ہیں۔ کامیابی کا خوف ناکامی کے خوف سے زیادہ برے اثرات مرتب کرتا ہے
کیونکہ یہ آپ کے جذبوں، عزائم اور لگن کو کمزور کر دیتا ہے۔ مثلاً آپ نے بے
تحاشا دولت حاصل کی ۔ اب اگر منفی سوچیں آپ کو اس حصار میں مقید کر لیں
جیسے، اگر یہ دولت مجھے خوشی نہ دے سکی، کسی حادثے یا پریشانی سے واسطہ نہ
پڑ جائے، مجھے نظر لگ گئی تو، خاندان والے مجھ سے جلنے لگیں گے پھر کیا ہو
گا۔۔۔۔۔ غرض اس قسم کی منفی سوچیں ایک پر عزم نوجوان کے ارادوں کو بھی
کمزور کر دیتی ہیں۔ لہٰذا آپ منفی سوچوں کو مثبت سوچوں سے تبدیل کر دیں۔
مثلاً فیصلہ کر لیں کہ میں خوش ہوں اور میں خوش رہوں گا ۔ چاہے جو بھی
مسائل ہوں ان کو حل کروں گا اور اپنی اس کامیابی سے اپنے حلقہ احباب اور
خاندان کی بھی مدد کروں گا۔
غیر حقیقی ٹائم ٹیبل
……بیشتر نوجوان اپنے مقصد کے حصول کے لیے غیر حقیقی انداز میں وقت کا تعین
کر لیتے ہیں۔ مثلاً ایک ہفتے میں میں یہ کام کر لوں گا اور ایک سال میں اس
مقام تک پہنچ جاؤں گا۔ لیکن جب ہفتے کا ہدف پورا نہیں ہوتا تو ناکام اور
مایوس ہو کر ہمت ہار دیتے ہیں۔ جب کہ چھوٹی ناکامی ہی بڑی کامیابی کا زینہ
ہوتی ہے۔ حقیقت پسندانہ انداز میں وقت کی صحیح تقسیم کر کے مقاصد کوحاصل
کیا جائے تو کبھی ناکامی نہیں ہوتی اور منصوبہ بندی کرتے وقت ہمیشہ اس میں
لچک رکھیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کی مقرر کردہ مدت میں ہی وہ مقصد حاصل ہو جائے۔
بے شمار عوامل ہوتے ہیں مثلاً ناسازی طبع ، حالات کی خرابی، بجلی کی بندش
وغیرہ۔ اس کے علاوہ اگر ہمارا کام کچھ دیگر افراد سے جڑا ہے تو اس کو مدنظر
رکھتے ہوئے نظام الاوقات بنائیں۔ پرسکون رہیں اور خلوص، لگن اور محنت کے
ساتھ اپنے مقصد کو حاصل کریں۔ کبھی ایک ناکامی سے مایوس ہو کر نہ بیٹھ رہیے
بلکہ کوشش جاری رکھیے اور ناکامی کے تجربات کو مثبت لیتے ہوئے ان سے سبق
سیکھنے کی کوشش کیجیے۔ جہد مسلسل کے ساتھ از سر نو آغاز کیجیے ۔ بار بار
اپنے کام کا جائزہ لیجیے۔ غلطیاں مت دہرائیے لیکن ان کو یاد رکھیے۔
ہمت نہ ہاریں
……بعض اوقات ایک عارضی ناکامی سے دلبرداشتہ ہو کر ہم ہمت ہار دیتے ہیں اور
یوں اپنے مقصد میں کامیابی کے حصول کو ہم خود نا ممکن تسلیم کر لیتے ہیں۔
مثلاً کسی شعبہ میں ہم اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لیتے ہیں ۔ ابتدائی ایک دو
سمسٹرز میں کامیابی کے بعد جب اگلے سمسٹر کے نتیجے میں اگر معیار میں کمی
واقع ہونے لگے تو عموماً نوجوان دلبرداشتہ ہونے لگتے ہیں یا ہمت ہار دیتے
ہیں۔ تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں یا شعبہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ یوں وہ نوجوان
جو اپنی دلچسپی اور اپنی منزل کے حصول کے لیے اس شعبے میں تعلیم حاصل کر
رہا تھا اس کا وہ خواب ادھورا رہ جاتا ہے۔ لیکن اس کی نسبت جو نوجوان ثابت
قدم رہتے ہیں اور اپنے ارادوں کو متزلزل نہیں ہونے دیتے اور منزل کے حصول
میں آنے والی رکاوٹوں کا جم کر مقابلہ کرتے ہیں اور ان عارضی ناکامیوں سے
گھبرا کر اپنے خوابوں کو ادھورا نہیں رہنے دیتے وہی کامیابی حاصل کر پاتے
ہیں۔
اگر ہم کامیاب افراد کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان
افراد میں کوئی امتیازی خصوصیت یا ما فوق الفطرت ذہانت نہیں تھی بلکہ صرف
ان کی ثابت قدمی اور دل جمعی جس کی بدولت انہوں نے ہر رکاوٹ کو عبور کیا۔
چھوٹے موٹے مسائل کوانہوں نے بلند پرواز کے لیے نشان منزل سمجھا اور یوں
منزل کی طرف بڑھتے چلے گئے۔اﷲ پربھروسہ کر کے جب ایک شخص میدان میں کود پڑے
تو منزل اس کی جستجو میں چلی آتی ہے تبھی تو کسی شاعر نے کہا ہے کہ
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
حوصلے بلند ہوں، منصوبہ بندی بہتر ہو، ارادے پختہ ہوں، نگاہ بلند ہو اور
طبیعت میں جانبازی اور جاں سوزی ہو تو منزل کے حصول کے لیے رخت سفر ثابت
ہوتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی رکاوٹیں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں اور بلند
حوصلگی اور ثابت قدمی منزل سے قریب تر کر دیتی ہے۔ |