انسان علم کتابوں سے حاصل کرتا ہے یا تجربات سے ، لیکن
ہر کام کا تجربہ کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ، ہمیں زندگی میں کسی نہ کسی
کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم اس رہنمائی کے لیے کسی ایسے شخض سے رابطہ
کرتے ہیں جو ہم سے زیادہ علم یا تجربہ رکھتا ہو ، اور وہی اپنے تجربات اور
علم کی روشنی سے ہماری بہتر رہنمائی کر سکتا ہے ۔ تجربہ اور علم رکھنے والا
ہر شخص ہمارا جاننے والا بھی نہیں ہو سکتا ، یا دوسری صورت میں وہ ہماری
پہنچ سے دور ہوتا ہے ۔کسی بھی بڑ ی اور اعلی علمی شخضیت سے ملنا بہت مشکل
ہوتا ہے ، تجربات اور علم رکھنے والے لوگ ہم سب کی رہنمائی کے لکھنے جیسا
عظیم کام سرانجام دیتے ہیں ، اور ان کے عظیم کارناموں ،تجربات اور علمی
کھوج ہم سب تک ان کی تحریروں اور کتابوں کی شکل میں پہنچتی ہے۔ جس سے ہم
فائدہ حاصل کرتے ہیں ‘بلکہ ہمارے بعد آنے والی نسلیں اور ان کے بعد آنے
والی نسلیں استفادہ حاصل کرتی رہتی ہیں ، اور یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے۔
کتابیں جہاں ہمارے علم میں آضافہ کرتی ہیں وہیں ہمارے اندر بہت ساری
تبدیلیاں لاتی ہیں ہمیں باشعور بناتے ہوئے ترقی کی راہ پر بھی لے جاتی ہیں
، آپ کو وقت گزارنے کے لیے دوسری چیزوں کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے تو ساتھ
ان کا نقصان بھی، لیکن کتاب کبھی بھی آپ کے لیے نقصان دہ نہیں ہوسکتی ،
کتاب ایک بہترین دوست اور ساتھی کی ماند ہے۔ جس میں صرف اچھائی کا پہلو اور
مثبت سرگرمی ہی سمجھی جاتی ہے۔ جب آپ کسی سے بولیں کہ فلاں شخص میرا دوست
ہے تو لوگ کچھ دیر کے لیے سوچیں گے کہ وہ اچھا ہوگا یا برا، لیکن اگر آپ
بولیں میری دوستی کتاب سے ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا ۔میں زیادہ
تر علمی مواد اور کتابیں پڑتا رہتا ہوں ، میرے خیال میں ہمیں پڑھنے کے ساتھ
لکھنا بھی چاہیے اور کچھ نہیں تو روز ڈائری لکھنے کی ہی عادت ڈالی جائے ،
میں لکھنے والوں کا بہت قدردان ہوں۔ خاص کر ادب اور شاعری کے حوالے سے
لکھنے والے میری نظر میں بہت عظیم لوگ ہیں جو معاشرے کی اصلاح کا کام بہت
ہی خوبصورت انداز میں سرانجام دے رہے ہیں یا دے چکے ہیں ، یہ لوگ بہت حساس
اور معاشرے کا درد رکھنے والے ہوتے ہیں ، جو بات ہم کہتے کہتے اسے طویل کر
جاتے ہیں یہ انہیں چند اشعار میں خوبصورت انداز میں بیان کر جاتے ہیں
آج میرے سامنے نوجوان شاعر ڈاکٹر سید مشرف حسین بخاری کا شاعری مجموعہ "گمنام
صدائیں " رکھا ہے سید مشرف حسین بخاری پیشے کے اعتبار سے ہومیوپیتھک ڈاکٹر
ہیں۔ ان کا تعلق تو راجن پور سے ہے اور آج کل اسلام آباد میں پریکٹس کر رہے
ہیں، ادب کے حوالے سے میں ان بارے میں کہوں گا انہیں وراثت میں ملا ہے، ان
کے نانا محترم سید فیاض حسین بخاری (مرحوم) ایک ناموار شاعر تھے مشرف بخاری
بھی ان نقش قدم پر چلتے ہوئے کامیابی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ گمنام صدائیں
ان کا پہلی کتاب ہے گمنام صدائیں کتاب مختلف حصوں پر مشتمل ہے ، پہلے حصے
میں حمد باری تعالی اور نعت رسول مقبول ہے دوسرے حصے میں غزلیں ، اسی طرح
نظمیں ، منقبت /نوحے ، سرائیکی کے اشعار شامل ہیں جیسے میں نے پہلے عرض کیا
کہ شاعر بہت حساس ہوتے ہیں اور یہ معاشرے کے ہر پہلو کا بغور جائزہ لیتے
ہیں مشرف بخاری ان ہی میں سے ایک ہیں کتاب میں انہوں نے پاک فوج سے محبت کے
اظہار میں نظم تحریر کی ہے،اس کے علاوہ غربت ،امن ، مزدور کا بچہ ،ضرب عضب
وغیرہ سب کو اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے گمنام صدائیں ایک بہت خوبصورت کتاب
ہے اعلی پرنٹنگ اور خوبصورت ٹائٹل نے کتاب کو اور خوبصورت و دل کشش بنا دیا
ہے۔ مشرف بخاری کے علاوہ ہمارے علاقے سے اور نوجوان شعرا کرام بھی بہت
خوبصورت لکھ رہے ہیں جن کو میں اکثر میں پڑھتا رہتا ہوں جن میں ندیم راجا،
جام عارف حسین عارف ، اسلم ساغر ، شامل ہیں ساتھ ہی ادب کے حوالے راجن پور
میں قائم آواز دوست فورم اور اس بانی سید مشتاق احمد رضوی، کنور کمال اختر
، سید ارشد گیلانی ، باقر حسین خان جسکانی پروفیسر عبدالجبار اور تحصیل
جامپور داجل سے افضل شاہین و دیگر احباب کی ادب میں بہت ساری خدمات شامل
ہیں اور ان سارے چرغوں کو روشن کرنے والے میرے استاد محترم ڈاکٹر شکیل
پتافی صاحب ہیں۔ جن کی علمی و ادابی خدمات صدیوں تک یاد رکھی جائیں گی۔
ہمیں کتاب سے دوستی ضرور رکھنی چاییے اور ان لکھنے والوں کے تجربات سے کچھ
سیکھنا چاہیے، ہمیں باقاعدہ مطالعہ کی عادت اپنانی چاہیے۔ آخر میں تحریر کا
اختتام ڈاکٹرسید مشرف حسین بخاری کے ان اشعار پر
آہستہ آہستہ اپنی یادوں سے اس نے مٹایا مجھے
ہر اک بز م میں اس نے خو د سے دور بٹھایا مجھے
رُسواکر دیا یوں زمانے بھر کی نظر وں میں
کبھی فرہاد‘کبھی مجنوں ‘کبھی مرزا بنایا مجھے |