فیض احمد فیضؔ سے کون واقف نہیں،ادب کی دنیا کا ایک عظیم
نام۔ معروف شاعر تابشؔ دہلوی نے بہت سچ کہا کہ ’ عظیم شخصیتوں کو دیکھ لینا
بھی عظمت ہے‘۔ الحمد اﷲ مجھے یہ عظمت حاصل ہے کہ میں نے اردو ادب کی اس
عظیم شخصیت کو نہ صرف دیکھا بلکہ بہت قریب سے دیکھا۔ فیض ؔ صاحب بلاشبہ
پاکستان کے اُن چند گنے چنے شاعروں اور ادیبوں میں سے ہیں جنہوں نے دنیائے
ادب میں پاکستان کو بلند مقام دیا۔فیض احمد فیضؔ 13فروری1911کو سیالکوٹ میں
پیدا ہوئے ۔ آج ان کا 107یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے۔ یہ مضمون میں نے
2011ء میں اپنے سعودی عرب میں قیام کے دوران تحریر کیا تھا۔ فیض ؔ کی شاعری
پر تو بہت لکھا گیا ، لکھا جارہا ہے، میرا تعلق فیض ؔ سے ایک شاگرد اور فیض
بطور کالج کے پرنسپل کے رہا۔ یہی تعلق میری اس تحریر کی بنیاد ہے۔ فیض سے
محبت و عقیدت اس لیے بھی ہے کہ میں نے فیض ؔ کو بہت قریب سے دیکھا، شعر بھی
سنے ، تقریریں بھی سنی۔ کچھ صورت فیض کے ساتھ ایسی ہے
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں.........جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے
دار چلے
فیض جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی جدید ادبی تحریک ، ترقی پسند ادبی تحریک کے
بانی ارکان میں سے تھے۔فیضؔ پاکستان کا بہت بڑا شاعر اور ہر دل عزیز شاعر
بھی ہے، فیضؔ کی شاعر ی کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جارہا ہے اور
آئندہ بھی لکھا جائے گا مگر میَں شاعری سے قطع نظر فیضؔ کے بحیثیت کالج کے
پرنسپل کے تذکرہ کر وں گا ، عام طور پر لوگ فیضؔ کو ایک بڑا شاعر ہی سمجھتے
ہیں اور وہ ہے بھی لیکن بہت کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہوگی کہ فیض ایک
ماہر تعلیم ، پروفیسر، منتظم اور کالج پرنسپل بھی رہے اور اس حیثیت سے
انہوں نے آٹھ سال (1964-1972) خدمات انجام دیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ
فیض صاحب جب حاجی عبد اﷲ ہارون کالج کراچی کے پرنسپل تھے تو میں اس کالج کا
طالب علم تھا،دو سال(1968-1970) میں اس کالج کا طالب علم رہا اور گریجویشن
اسی کالج سے کیا۔ ایم اے کرنے کے بعد ۱۹۷۴ء میں میرا تبادلہ اسی کالج میں
ہوگیا ،اس کالج میں میری خدمات 27 سالوں(1974-1997) پر محیط ہیں۔1972ء میں
حکومت نے تمام تعلیمی اداروں کوقومی تحویل میں لے لیا تو فیضؔ صاحب نے
سرکاری ملازمت اختیار کرنا مناسب نہ سمجھا لیکن وہ جب بھی کراچی میں ہوتے
کالج ضرور آیا کرتے، اس طرح مجھے فیضؔ صاحب کو ہر دو حیثیتوں سے دیکھنے اور
سننے کا موقع ملا۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں تھا کہ فیض صاحب نے ملازمت
اختیارکی تھی ،آپ نے اپنے کیرئیر کا آغاز ہی استاد کی حیثیت سے ایم اے او
کالج امرتسر سے1935ء میں کیا تھا،آپ برطانوی ہند میں فوج میں اعلیٰ عہد ہ
پر بھی رہ چکے تھے، اس وقت جب آپ نے محسوس کیا کہ انگریز اندرونِ خانہ
پاکستان کے قیام کی مخالفت کررہا ہے تو آپ نے فوج کی ملازمت کو خیر باد کیا
اور روزنامہ ’پاکستان ٹائمز‘ کی ادارت سنبھال لی۔گویا فیض صاحب شاعر و ادیب
ہی نہیں بلکہ فوجی بھی تھے، صحافی بھی، استاد بھی تھے ، اعلیٰ منتظم اور ما
ہر تعلیم بھی اور سب سے بڑھ کر ایک اچھے انسان تھے۔
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی..... جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار
آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم.................جیسے بیمار کو بے
وجہ قرار آجائے
فیض احمد فیضؔ آٹھ برس(1964-1972)کراچی کے ایک ڈگری کالج ’’حاجی عبداﷲ
ہارون کالج‘‘ کے پرنسپل رہے، آپ اس کالج کے بانی پرنسپل تھے۔ کالج کی تفصیل
کچھ اس طرح ہے کہ سر حاجی عبد اﷲ ہارون بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی
جناح کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، قائد اعظم کو آپ پر مکمل اعتماد تھا یہی
وجہ ہے کہ عبد اﷲ ہارون ہر مر حلے پر قائد اعظم کے ہمراہ دکھا ئی دیتے ہیں
جس کا ثبوت پیر علی محمدراشدی کے اس بیان سے ملتا ہے کہ’’ قائد اعظم محمد
علی جناح 1938ء میں اوراس کے بعد عبد اﷲ ہارون مرحوم کے انتقال تک جب بھی
کراچی تشریف لاتے ان کا قیام ہمیشہ ’’سیفیلڈ‘‘ یعنی سر حاجی عبد اﷲ ہارون
کی رہائش واقع کلفٹن میں ہوتا۔ بر صغیر کے معروف تاجر اور سب سے بڑھ کر
انسان دوست۔ آپ کی سیاسی، سماجی ، طبی ، تعلیمی اور قیام پاکستان کی جدوجہد
میں بے لوث خدمات سے کسی کو انکار نہیں۔ حاجی عبد اﷲ ہارون سندھ کے ان
مسلمان سیاست دانوں اور تاجروں میں سے تھے جن کے دل میں مسلمانوں کے لیے
ہمدردی، اخوت اور ایثار کا جذبہ کو ٹ کوٹ کر بھرا تھا۔آپ نے مسلمانوں کی
سیاسی اور اقتصادی بہتری اور فلاح کے لیے اپنی زندگی وقف کردی،آپ نے
مسلمانوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنے اور انہیں متحد کرنے میں بے پناہ محنت
کی،آپ نے خواتین کی تعلیم اور ان کے حقوق کے لیے بھی جدوجہد کی، آپ نے
مسلمانوں کی آواز کو دنیا میں پہنچانے اور عام کرنے کے لیے 1920ء میں ایک
اخبار ’’الوحید‘‘ جاری کیا جس نے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی ،
انگریز اور ہندو بوکھلا اٹھے ، آخر کار مقصد میں کامیابی ہو ئی لیکن افسوس
کہ قیام پاکستان تک عبد اﷲ ہارون کی عمر نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ ان کا گھر
’سیفیلڈ‘ ہندوستان کے مسلمانوں کی سیا ست کا مرکز تھا، اس گھر میں بر صغیر
کا شا ید ہی کوئی مسلمان رہ نما ایساہو جس کا گزر نہ ہو ا ہوجن میں قائد
اعظم محمد علی جناح ، سر آغا خان،مو نا محمدو علی جوہر،مو لانا شو کت علی
جو ہر، مولانا حسرت موہانی ، آزاد سبحانی، فضل حسین،فضل الحق،سر سکندر
حیات،مسعود اﷲ، اکرام خان، سلطان احمد، صاحبزادہ عبد القیوم، ڈاکٹر انصاری،
عبد الرحمٰن صدیقی، بہادر یار جنگ و غیرہ شامل مل ہیں۔ مجھے بھی اس گھر میں
جانے کا اتفاق ہواکیونکہ یہ گھر عبد اﷲ ہارون کے بعد ان کے بیٹوں یوسف
ہارون، محمود ہارون، سعید ہارون اور پوتے حسین ہارون کے سیاسی و سماجی
سرگرمیوں کامرکز بھی رہا، زمانہ طالب علمی اور ابتدائی دنوں میں میَں لیاری
میں رہائش پذیر تھا اور ایک سماجی تنظیم’ تاج ویلفیرسینٹر‘ کا سرگرم کارکن
بھی تھا، محمود ہارون اس ادارے کے سر پرستِ اعلیٰ ہوا کرتے تھے، اسی حوالے
سے مجھے سیفیلڈ جانے اور اس گھر کو دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا۔
کراچی کی قدیم بستی’’مچھروں کی بستی‘‘ ہے جو ’کھڈا مارکیٹ‘ کہلاتی ہے،اب
اسے ’نواآباد اور میمن سوسائیٹی ‘ کہا جاتا ہے،یہی مچھیروں کی بستی کراچی
کا نقطہ آغاز تھا۔ حاجی عبد اﷲ ہارون نے اسی بستی میں1923ء میں غریب لوگوں
کے لیے ایک یتیم خانہ قائم کیا تھا، جو آج بھی قائم ہے، خود حاجی عبد اﷲ
ہارون اسی یتیم خانے کے احاطہ میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ حاجی عبد اﷲ ہارون
کالج اور دیگر تعلیمی ادارے اسی احاطے میں قائم ہیں۔ حاجی عبد اﷲ ہارون کے
انتقال کے بعد ان کے مشن کو جاری و سا ری رکھنے کے لیے’’ حاجی عبد اﷲ ہارون
ایسو سی ایشن ‘‘ کا قیام عمل میں آیا، جس کی پر ستی حاجی عبد اﷲ ہارون کے
بیٹوں نے کی، حاجی عبد اﷲ ہارون مسلم لیگی تھے، ان کے تینوں بیٹے تادمِ مرگ
مسلم لیگی رہے۔اس ایسو سی ایشن نے حاجی عبد اﷲ ہارون کے قائم کردہ یتیم
خانے کو فعال بنا یا، اسکول، کالج، ٹیکنیکل کالج، اسپتال اسی احاطے میں
قائم کیے۔ غریب بستی میں قائم یہ تمام ادارے آج بھی قائم ہیں اور خدمات
فراہم کر رہے ہیں۔فیض احمد فیضؔ کا ایک خو بصو رت شعر
پھر نظر میں پُھول مہکے ، دل میں پھِر شمعیں جلیں
پھِر تصّور نے لِیا اُس بزم میں جانے کا نام
فیض صاحب نے جب اس کالج کی پرنسپل شپ اختیار کی وہ اس وقت بھی ایک بڑے اور
معروف شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، ان کا بڑا نام تھا، کراچی کی غریب
بستی میں نئے کالج کا سربراہ بننا، کیا مصلحت تھی، کیا راز تھا، اس بات کا
جواب فیض صاحب کی اپنی زبان سے سنیے، فیضؔ صاحب نے ڈاکٹر غلام حسین اظہر کو
ایک انٹر ویو میں دیا، یہ انٹر ویو ڈاکٹر طاہر تونسوی کی مرتب کردہ کتاب
’’فیض کی تخلیقی شخصیت: تنقیدی مطالعہ‘‘میں شامل ہے۔سوال کیا گیا کہ ’آپ نے
اس ادارے کی سربراہی کیوں قبول کی تھی‘؟فیض صاحب کا کہنا تھا’’جس علاقے میں
حاجی عبد اﷲ ہارون کالج قائم کیا تھا اس میں ہائی سکول کے علاوہ تعلیم کی
اور سہولتیں نہ تھیں، اس علاقہ میں اکثریت غریب عوام کی ہے، ماہی گیر،گاڑی
چلانے والے اور مزدور پیشہ لوگ جو بچوں کوکا لج نہیں بھجوا سکتے تھے، یہ
علاقہ بُرے لوگوں کا مرکز تھا یہاں ہر قسم کا غیر مستحسن کاروبار کیا جاتا
تھا، اکثر غلط راہ پر بچپن ہی سے پڑ جاتے تھے، یہاں عبد اﷲ ہارون نے یتیم
خانہ بنوایا تھا جو ہائی اسکول کے درجے تک پہنچ گیا تھا،باقی کچھ نہیں
تھا،ان کے (حاجی عبد اﷲ ہارون )جانشینوں کی مصروفیات کچھ اور تھیں، صرف
لیڈی نصرت ہارون کو اس ادارے سے دلچسپی تھی۔لندن سے واپسی پر انھوں نے ہم
سے فرمائش کی کہ ہم یہ کام سنبھال لیں۔ ہم نے جاکر علاقہ دیکھا، بہت ہی
پسماندہ علاقہ تھا، یہاں انٹر میڈیٹ کالج بنایا، پھر ڈگری کالج پھر ٹیکنکل
اسکول اور پھر آڈیٹوریم ، کچھ رقم ہارون انڈسٹری سے خرچ کی گئی، کچھ ہم نے
فراہم کی،ماہی گیروں کی سب سے بڑی کوآپریٹو سوسائیٹی بنی، انہوں نے ہمیں
ڈائیریکٹر بنا لیا، ہم نے طے کیا کہ سوسائیٹی کے اخراجات سے بچوں کو مفت
تعلیم دی جائے اور بچوں کے سب اخراجات یہی ادارہ برداشت کرے، اس کالج میں
طلبہ کی اکثریت کو مفت تعلیم دی جاتی تھی‘‘۔
فیض ؔ تکمیل آرزُو معلوم !........ہوسکے تو یونہی بسر کردے
فیض حاحب کی ان باتوں کا میں بھی چشم دید گواہ ہوں، جیسا میں نے پہلے بھی
کہاکہ1972ء کے بعد فیض صاحب جب کبھی کراچی میں ہوتے وہ بغیر بتائے کالج
آجایا کرتے، ایک مرتبہ جب کہ ہمارے کالج کے پرنسپل پروفیسر سید احمد حسین
زیدی مرحو م تھے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ فیض صاحب کرا چی آئے ہوئے ہیں، ہم
چند ساتھیوں نے جن میں شبنم صدیقی ، اقبال احمد مرحوم ، عبد الرشید راجہ
اور میَں پیش پیش تھے، فیض صاحب کو کالج آنے کی دعوت دی جسے آپ نے فوراً
قبول کر لیا،یہ کوئی بڑی تقریب نہیں تھی، طے پایا تھا کہ ہم اساتذہ فیض
صاحب سے خوب خوب باتیں کریں گے اور ان کی باتیں سنیں گے۔یہ تقریب کالج کی
لائبریری میں منعقد ہوئی۔پروفیسر بشارت کریم کیفی مرحوم جن کا سلیکشن فیض
صا حب نے ہی کیا تھا، استقبالیہ کمیٹی کے چیر مین تھے، اساتذہ اور طلبہ نے
فیض صاحب کا استقبال کیا، پہلے تو فیض صاحب نے پورے کالج کا ایک چکر لگا
یا، ان میں آفس، لیباریٹریز، اسکول، یتیم خانہ، اسپتال وغیرہ، بعد میں آپ
لائبریری تشریف لائے، لائبریری دیکھ کر آپ نے خوشی کا اظہار کیا، یہ
لائبریری فیض صاحب کے زیر نگرانی ہی پروان چڑھی تھی۔پرنسپل صاحب نے
استقالیہ کلمات کہے، اساتذہ کی جانب سے شبنم صدیقی صاحب جو اردو کے پروفیسر
اور ادیب و شاعرہیں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔فیض صاحب خوش پوش انسان
تھے، زیادہ تر سوٹ پہنا کرتے، سگریٹ پینا ان کا محبوب مشغلہ تھا، آپ نے
اپنے منفرد انداز میں اساتذہ اور طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کالج سے اپنی
وابستگی پر روشنی ڈالی، آپ نے کہا’ ’اس کالج سے میرا جو تعلق رہا ہے اس وجہ
سے میں اپنے آپ کو یہاں اجنبی یا مہمان تصور نہیں کرتا، آپ نے اس کالج سے
اپنی وابستگی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ’’لیڈی نصرت ہارون مرحوم نے
ہم سے کہا کہ لیاری میں جو کالج قائم ہوا ہے اس کی سرپرستی آپ حاصل کرلیں
چناں چہ ہم لیاری میں آئے اور اس کالج کے علاوہ یہاں کے مکینوں کا جائزہ
لیا مجھے یہاں عجیب سی مخلوق نظر آئی ہم نے فوراً حامی بھر لی، اس طرح
ہمارا اس ادارے سے تعلق قائم ہوگیا۔پھر اساتذہ اور ساتھیوں کی ایک اچھی
جماعت مل گئی اس طرح یہ کالج بہت جلدڈگری کالج بن گیا۔اس کی عمارت تعمیر
کرنے کی کوشش کی اس میں بھی کامیابی ہوئی۔ آپ نے کہا کہ ’’لیاری جیسی بستی
میں علم کو عام کرنے کی سخت ضرورت تھی۔اس کے لیے ہم نے کوشش کی اور کسی حد
تک اس میں کامیاب ہوئے‘‘۔اس سوال کے جواب میں کہ ’’فیض صاحب آپ عبد اﷲ
ہاران کالج سے الگ کیوں ہوئے‘‘؟ آپ کا جو اب تھا کہ یہ ادارہ قومی تحویل
میں لیا جا نے والا تھا اور مجھے گھر بھی واپس آنا تھا، کراچی میں کالج بن
گیا، اسپتال بن گیا، اتنا کچھ بن گیا اب آگے دوسرے لوگ چلائیں‘‘۔آپ سے یہ
سوال بھی کیا گیا کہ فیض حاحب کہ ’’ ان امور کے علاوہ اس ادارے کو ایک
مثالی ادارہ بنانے کے لیے آپ نے کن امور پر توجہ دی‘‘؟ فیض صاحب کا جواب
تھا ’’کراچی میں خاص طور پر بدامنی ، بے چینی، ہڑتالوں وغیرہ کے قصے ہوتے
رہتے تھے، طلباء اور اساتذہ میں بھی رابطہ نہیں تھا، ہم نے کوشش کی کہ اس
امر کی اصلاح کی جائے، طلباء اور اساتذہ مل کر کام کریں چناں چہ ہمارے کالج
میں ایک مرتبہ بھی ہڑتال نہیں ہوئی، گورنمنٹ ادارے بند ہوجاتے تھے مگر
ہمارا کالج کھلارہتا تھا اور طالب علم پڑھائی کے لیے آتے تھے۔ اس کالج
کانقشہ دوسرے کالجوں سے بالکل مختلف تھا، درسی کتابیں پڑھانے کے علاوہ
اساتذہ اور طلباء کی بصیرت میں اضافہ کے لیے لائبریری کو بہتر بنانے کی طرف
خصو صی توجہ دی گئی،اہل ثروت سے مدد لی گئی، اساتذہ سے اپنے اپنے موضوعات
پر تحقیقی مقالے لکھوائے گئے، میرے خیال میں محدود ذرائع کے باوجود یہ
تجربہ خاصا کامیاب رہا‘‘۔
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے .......جو دل پہ گزری ہے، رقم کرتے رہیں
گے
فیض صاحب کالج کی نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں بھر پور دلچسپی لیا کرتے
تھے، اس زمانے میں طلبہ یونین باقاعدگی سے تشکیل پاتی تھیں، ان کے انتخابات
ایک عام سے بات بھی، اس زمانے میں بھی انتخابات ہوئے ہم نے بھر پورحصہ لیا،
اسلامی جمیعت طلبہ ، نیشنل اسٹو ڈنٹ فیڈریش NSF، بلوچ اسٹو ڈنٹ آرگنائیزیشن
BSOاس دور کی خاص طلبہ تنظیمیں تھیں، فیض صاحب تمام تنظیموں سے تعلق رکھنے
والے کالج کے طلبہ کو یکساں اہمیت دیا کرتے تھے۔تقریری مقابلے، بیت بازی کے
مقابلے، حمد و نعت ، مضمون نویسی اورطلبہ کے ساتھ پکنک منانا ،مجھے یاد ہے
کہ تعلیمی سال کے اختتام پر کالج کی طرف سے ٹھٹھہ میں کلری جھیل پر پکنک کا
پراگرام تشکیل دیا گیا، تمام طلبہ دو بسوں میں تھے، فیض صاحب اپنی فوکس
ویگن میں بعض اساتذہ کے ساتھ ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، وہ کچھ دیر ہمارے
ساتھ رہے ، فیض صاحب کے پاس اس وقت فوکس ویگن تھی، ان کا ڈرائیور ایک دبلا
پتلا نوجوان تھا، اُسے ہم نے ہمیشہ صاف ستھر ا، خوش پوش دیکھا، اس مانے میں
تنگ پتلون ، نوک دار جوتوں کا رواج تھا جسے عرف عام میں’ ٹیڈی فیشن‘ کہا
جاتا تھا، یہ ڈرائیور ٹیڈی لباس اور جوتوں میں ہوا کرتا تھا، زلفیں بڑی
بڑی، سامنے سے وحید مرادبنارہتا تھا۔ ا س کی خوش پوشی اور اسمارٹ رہنا اس
بات کی غمازی کرتا تھا کہ فیضؔ صاحب کو اپنے ڈرائیور کا یہ انداز دلبر انہ
بھی پسند تھا، وہ خوش پوش تھے اور خوش پوشی کو پسند کیا کرتے تھے ۔
تم آئے ہو ‘ نہ شبِ انتظار گزری ہے .......تلاش میں ہے سحر‘ بار بار گزری
ہے
کالج میں اساتذہ کا انتخاب فیض صاحب نے از خود کیا تھا، کچھ اساتذہ اسکول
سے لے لیے گئے تھے، فیض صاحب ترقی پسند مصنفین کی تحریک اور مارکسی فلسفہ
حیات کے علم بردار تھے لیکن اساتذہ کے انتخاب میں آپ نے غیر جانبد اری اور
میرٹ کو بنیاد بنا یاتھا، اسا تذہ کا انتخاب ان کی تعلیمی قابلیت و اہلیت
کو بنیاد بنا کر کیا گیا تھا، تمام اساتذہ اپنے اپنے مضمون میں یکتا تھے،
پروفیسر ڈاکٹر م۔ ر۔ حسان واضح طور پر مارکسی فلسفہ کے پیروکار نطر آتے تھے
تو دوسری جانب پروفیسر شفیق الرحمان صاحب پکے جماعت ا سلامی کے حامی تھے،
دیگر اساتذہ میں ڈاکٹر فہیم الدین ، پروفیسر جمیل واسطی سید، معروف شاعر
دلاور فگار،سندھی کے ادیب رشید احمد لاشاری، پروفیسر یونس صدیقی، پروفیسر
انیس الرحمٰن قریشی، بشارت کریم، عبد الرحیم میمن، پروفیسر ریاض الحسن
قدوائی، پروفیسر عبد الرشید راجہ،پروفیسر اقبال احمد ،پروفیسر اطہر صدیقی،
نجم الدین انصاری، اطہر آفریدی، پروفیسر شمشاد احمد خان، راشد حء، غلام
اصغر، نظام سحرائی، عزیزانصاری اور ذکی حسن شامل تھے۔ ان اساتذہ میں متعدد
ڈایریکٹرکالجز، چیئمین تعلیمی بورڈ اور پرنسپل بھی ہوئے۔ اساتذہ کے ساتھ
فیض صاحب کا رویہ ہمدردانہ ا،اور شفقت آمیز ہوا کرتا تھا۔ پروفیسر عبد
الرشید راجہ جو اسلامیات کے استاد تھے میرے بڑے مہربان، محبت کرنے والے ،
انہوں نے فیض صاحب کا اساتذہ سے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے بتایاتھا کہ’ایک سال
کالج کا نتیجہ صرف دس فیصد رہا، ہم سب کو اس پر بہت تشویش تھی، ڈر و خوف
بھی تھا، کیونکہ یہ ایک پرائیویٹ کالج تھا، تمام اختیارات پرنسپل اور وائس
پرنسپل کے پاس ہوا کرتے تھے، فیض صاحب پرنسپل اور پروفیسر ڈاکٹر م۔ ر۔ حسان
وائس پرنسپل تھے، فیض صاحب نے اسٹاف کی ایک میٹنگ طلب کی ، تمام ساتھی بے
انتہا پریشان اور تشویش میں مبتلا تھے، نہیں معلوم کیا ہونا ہے، بعض
ساتھیوں کا خیال تھا کہ ہم فیض صاحب سے کہیں گے کہ وہ ہماری تنخواہ سے
انکریمنٹ واپس لے لیں، فیض صاحب اپنے مخصو ص انداز سے تشریف لائے اور میٹنگ
شروع کی،آپ نے میٹنگ میں کسی کو بات کرنے کا موقع نہیں دیا، از خود ان
وجوہات پر روشنی ڈالی جن کے باعث نتیجہ بہت خراب آیا، ساتھ ہی اساتذہ کو
مخاطب کر کے یہ بھی کہا کہ اب تمام ساتھی محنت سے پڑھا ئیں اور طلبہ پر خصو
صی توجہ دیں، جس ٹیچر کا نتیجہ آئند ہ اچھا ہوگا اسے اضافی انکریمنٹ دیئے
جائیں گے، بعد میں فیض صاحب نے اپنی اس تجویز پر عمل بھی کیا، ریاضی کے
پرفیسر جو بعد میں کالج کے پرنسپل بھی ہوئے ان کا نتیجہ اچھا آیاجس کے
نتیجے میں انہیں اضافی انکریمنٹ بھی دئے گئے۔۱۹۷۴ء میں میَں جب اس کالج میں
ٹرانسفر ہوکر آیا تو یہ کالج سرکاری تحویل میں آچکا تھا اور یہ حاجی عبداﷲ
ہارون گورنمنٹ کالج بن چکا تھا، اس کالج میں سائنس ، آرٹس اور کامرس
فیکلٹیز تھیں، پروفیسر جمیل واسطی سید اس کالج کے پرنسپل تھے۔ بعض اساتذہ
جو اسی کالج میں میرے استاد رہے تھے اب میرے ساتھی تھے ان میں پروفیسر شفیق
رحمانی، ریاض الحسن قدوائی، محمد یونس صدیقی، عبد الرشید راجہ، بشارت کریم
شامل تھے۔
فیض صاحب کو 1963ء میں لینن انعام سے نوازا گیا، یہ عالمی ایوارڈ وصو ل
کرنے کی تقریب میں فیض نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا’’ امن کی
جدوجہد اور آزادی کی جدوجہد کی سرحدیں آپس میں مِل جاتی ہیں‘ اس لیے امن کے
دوست اور دشمن اور آزادی کے دوست اور دشمن ایک ہی قبیلے کے لوگ‘ ایک ہی نوع
کی قوتیں ہیں‘‘۔
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے .........کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں
انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے.............ہر ایک حلقۂ زنجیر میں
زباں میں نے
فیض صاحب ترقی پسند بھی تھے، مارکسی فلسفہ حیات کے علم بردار بھی تھے
۔دانشوروں کا دائیں اور بائیں سے تعلق عام سی بات تھی۔فیض صاحب نے اپنے
خیالات زبردستی کسی پر تھوپنے کی کبھی کوشش نہیں کی، ایک زمانے میں آپ نے
جلا وطنی کی زندگی بھی گزاری،ایک دور ایسا بھی تھاکہ لوگ فیضؔ کے اشعار بر
ملا بڑھتے ہوئے ڈرا کرتے تھے اور پھر یہ دور بھی آیا کہ مشاعروں، ریڈیواور
ٹیلی ویژن پر فیض ہی فیض ہوا کرتے تھے، متعدد گلوکاروں کو فیض کا کلا م
گانے سے ہی شہرت ملی۔
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم .........ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
فیض ایک سیدھے سادھے مسلمان تھے، افتخار عارف نے ایک انٹر ویو میں فیض صاحب
سے پوچھا آپ جب پیچھے مڑکر اپنی زندگی کی طرف دیکھتے ہیں تو کوئی پچھتاوا
تو نہیں ہوتا؟’’ فیض صاحب نے بغیر کسی تامل کے یہ بات کہی کہ زندگی میں دو
پچھتاوے ہیں۔ ایک تو یہ کہ میں قرآن حفظ کرنا چاہتا تھا مگر چار پانچ پاروں
کے حفظ کے بعد میں نے یہ سلسلہ منقطع کردیا۔ مجھے ساری عمر اس کا ملال
رہا۔دوسرا یہ کہ میں کرکٹر بننا چاہتا تھا اور نہیں بن سکا‘‘۔یہ بات تو
اکثر لوگ جانتے ہیں کہ فیض صاحب عربی جانتے تھے اور انہوں نے عربی میں بھی
ایم اے کیا ہوا تھا لیکن یہ بات کہ وہ قرآن مجید حفظ کرنا چاہتے تھے اور یہ
کہ چند پارے حفظ بھی کر چکے تھے بہت کم لوگ اس سے آگاہ ہوں گے۔آپ کی اس بات
سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اندر کا فیض کیسا تھا۔ یہ بات آغاناصر نے
اپنے مضمون ’فیض کی چند باتیں‘ جو اخبار اردو کی جلد 28 شمارہ2، 2001ء کی
اشاعت میں نقل کی ہے۔ عبداﷲ ہارون کالج کے ایک استاد پروفیسرعبد الرشید
راجہ جو ۳۰ سال اس کالج سے منسلک رہے ،اسلامیات کے پروفیسر تھے، آپ نے بتا
یا کہ جب تک فیض صاحب کالج کے پرنسپل رہے ہم نے فیض صاحب کو رمضان میں
سگریٹ پیتے نہیں دیکھا، جب کے ڈاکٹر م ۔ ر۔ حسان کا معاملہ اس سے بالکل
مختلف ہوا
کرتا تھا ۔فیضؔ
تم سے گویا ہوں دمِ دید جو میری پلکیں ..............تم جو چاہو تو سُنو،
اور جو نہ چاہو نہ سنو
اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں ......... تم جو چاہو تو کہو، اور جو
نہ چاہو نہ کہو
جیسا کہ میں نے ابتدا میں کہا تھا کہ میں فیض کے بحیثیت شاعر بات نہیں کروں
گا، اپنی بات کو صرف فیض کے بحیثیت کالج کے پرنسپل کے محدود رکھوں گا۔
کیونکہ میَں نے فیض کو بحیثیت پرنسپل کے دیکھا۔ میرا ایک مضمون2002ء میں
عبداﷲ ہارون گو رنمنٹ کالج کے میگزین ’’نوید سحر ‘‘ میں بعنوان ’’فیض احمد
فیض سے پروفیسر فضل الہٰی تک ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ جس میں میَں نے فیض صاحب
سے 2002ء تک اس کالج کے جو پرنسپل ہوئے ان کی شخصیت کا اختصار سے احاطہ کیا
ہے۔ اس مضمون کے بعدہی میں نے ارادہ کیا تھا کہ فیض صاحب پر کچھ لکھوں گا،
میرے اس ارادے کو اس وقت زیادہ تقویت ملی جب میں 2009ء میں جامعہ سرگودھا
کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس سے منسلک ہوا اور ہاسٹل لائف شروع ہوئی
، میری خوش نصیبی کے میرے ہاسٹل میں میرے برابر والے کمرہ میں پروفیسر
ڈاکٹر طاہر تونسوی تھے، ہم ایک دوسرے کے دوست بن گئے، اپنے اپنے شعبوں سے
واپس آکر ہما را وقت ایک ساتھ گزرتا، شعر و شاعری اور ادبی موضوعات پر
گفتگو ہوا کرتی۔ تونسوی صاحب فیض کے چاہنے والے ہیں ،اردو کے طلبہ کو فیض
پڑھا یا بھی کرتے تھے، فیض پر تحقیق بھی کرا چکے تھے۔ فیض صدی کے حوالے سے
فیض پر ایک کتاب بھی مرتب کررہے تھے، ہم اکثر فیض کی غزلیں لیب ٹاپ پر سنا
کرتے ، اقبال بانو کی آواز میں فیض کی غزل ’ہم بھی دیکھیں گے ، لازم ہے کہ
ہم بھی دیکھیں گے‘ ہم دونوں بڑے شوق سے سنا کرتے ۔ ایک دن تونسوی صاحب نے
فیض پر اپنی مرتب کردہ کتاب فیض کی تخلیقی شخصیت : تنقید ی مطالعہ کا ایک
نسخہ دیا، یہ کتاب پڑھ کر فیضؔ پر لکھنے کا ارادہ اور بھی پختہ ہوگیا جس کی
تکمیل اب رمضان کے مہینے میں اور سعودی عرب کی سر زمین پر ہوئی۔
ہم ایک عُمر سے واقف ہیں، اب نہ سمجھاؤ .........کہ لُطف کیا ہے مرے مہر
باں ستم کیا ہے
فیض صاحب نے شہر کراچی میں رہتے ہوئے کئی ادبی، ثقافتی ، تعلیمی اور سماجی
تنظیموں کی سرپرستی بھی کی ۔ کراچی میں ادارہ یاد گار غالب فیض احمد فیضؔ
نے مرزا ظفر الحسن سے قائم کروا یا تھا۔ فیض صاحب تو اس ادارے کی سرپرستی
کیا کرتے تھے، مرزا ظفر الحسن کی زندگی کا مقصدِ حیات یہ ادارہ تھا۔ ادارہ
یاد گار غالب کے قیام کی روداد مرزا ظفر الحسن نے اپنے ایک مضمون ’’فیضؔ
ایلس اور میں‘‘ میں اس طرح بیان کی کہ ’’جنوری 1968ء کے پہلے ہفتے میں سبط
حسن نے ٹیلی فون پر کہا فیضؔ نے تمہیں بلا یا ہے۔ میں نے سبب پوچھا توکہا
میرا اندازہ ہے کہ تم نے غالب کے پرزے اڑانے کی جو کوشش کی تھی اس کی کوئی
سزا دینا چاہتے ہیں۔اس جملے کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسرے دن سبط
کے گھر پہنچا جو سڑک پار فیضؔ کے پڑوس میں رہتے تھے۔ ہم دونوں فیضؔ کے گھر
گئے جہاں انہوں نے کہا فروری 1968ء میں پاکستان ، ہندوستان اور دوسرے ملکوں
میں غالبؔ کی صد سالہ برسی منائی جانے والی ہے۔ ہمارا بھی ارادہ ہے کہ
کراچی میں کچھ کام کریں۔ آپ ایک انجمن بنائیں اور شروع کردیں’’اس کے بعد
کہا‘‘ البتہ ایک بات یاد رکھیے ویسے تو ہم آپ کے ساتھ ہوں گے مگر از خود
کوئی کام نہیں کریں گے۔ آپ جو کام ہمارے سپرد کریں، کریں گے‘‘۔اس کے بعد
اضافہ کیا ’’دوسروں کے متعلق سمجھ لیجیے کہ وعدے سب کریں گے پورا کوئی نہیں
کرے گا‘‘۔ اس پر سبط حسن نے کہا ’’ہم تو وعدہ بھی نہیں کرتے۔ سارا کام تم
ہی کو کرنا ہوگا‘‘۔ فیضؔ نے آخری جملہ کہا’’با لکل تنہا‘‘۔یہ میرے لیے کوئی
چیلنج نہیں اعزاز تھا۔ کیوں کہ فیضؔ جیسی شخصیت کو مجھ پر اعتماد کہ میں
انجمن بنا سکتا ہوں، صد سالہ برسی کا انتظام کرسکتا ہوں اور سب کچھ اکیلے۔
اس وقت نام طے کیا ’’بزم غالب‘‘اور پانچ سات منٹ ٹھہر کر آگیا۔ مجھے نہیں
معلوم کہ اس ملاقات سے پہلے یا اس کے بعد سبط اورفیضؔ میں میری بابت کیا
گفتگوہوئی۔ نہ میں نے پوچھا نہ کسی نے بتایا۔بزم غالب کے قیام اور نام کا
اعلان اخباروں میں چھپوادیا دو چار دن بعد بزم کے پیڈ بنوانے انجمن پریش
گیا تو وہاں معلوم ہوا کہ اس نام کی ایک انجمن دس پندرہ برس سے قائم ہے۔ اس
خیال سے کہ نام پر کیوں کسی سے جھگڑا مول لیں اور وہ بھی ابتدائی دنوں میں
اپنے طور پر طے کیا کہ بزم غالبؔ کی بجائے ’’ادارۂ یاد گارِ غالبؔ ‘‘نام
رکھوں۔ فیضؔ سے پوچھا تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ اب نام کی تبدیلی کا اعلان
اخباروں میں شائع کردیا ۔جیب میں دھیلہ نہ دمڑی ادارۂ یاد گارِ غالبؔ قائم
ہوگیا۔ ایک ہفتے بعد فیض ؔ کے بتائے ہوئے چند لوگوں کو ٹیلی فون کیا کہ
فلاں اتوار کو صبح فیضؔ کے گھر جمع ہوں ادارے کی بابت کچھ گفتگو ہوگی۔ وہ
سب آئے۔ میں نے تجویز پیش کی کہ فیضؔ ادارے کے صدر ہوں۔ سبط نے یا شاید
فیضؔ نے میرانام لے کر کہا یہ اس کے معتمد ہ عمومی ہوں۔ اس کے بعد مجلس
عاملہ تشکیل دی گئی جتنے مدعوئین اتنے ہی عہدے دار اور اراکین بلکہ بعض جو
نہیں آئے تھے انھیں بھی رکن عاملہ بنا لیا گیا ۔کوئی خالی ہاتھ نہ لوٹا۔
جاتے وقت سبط حسن نے پھر کہا تم نے ہمیں رکن تو بنا یا ہے کام ہم دمڑی کا
نہیں کریں گے۔ سید اپنے قول کاسچا نکلا‘‘۔مرزا ظفر الحسن نے ادارے کی
لائبریری کی عمارت کی تعمیر کے حوالے سے لکھا کہ ’’عمارت کس طرح بنی، کس
طرح ہاتھ سے نکل گئی ایک طویل کہا نی ہے۔ یہاں اتنا اشارہ کردوں کہ عمارت
کو منہدم ہونے سے فیضؔ نے بچایا۔ اگر ان کانام اور شخصیت درمیان میں نہ
ہوتی تو آج غالب لائبریری کی جگہ اس عمارت کا ملبہ ہوتا‘‘۔سالگرہ کے عنوان
سے فیضؔ کا قطعہ
شاعر کا جشنِ سالگرہ ہے، شراب لا ........منصب، خطاب، رتبہ انہیں کیا نہیں
ملا
بس نقص ہے تو اتنا کہ ممدوح نے کوئی....... مصرع کسی کتاب کے شیان نہیں
لکھا
غالب لائبریری اپنی مثا ل آپ ہے۔ کراچی کے علاقے ناظم آباد میں گورنمنٹ
کالج برائے طلباء کے احاطے میں اس ادارے کی عمارت ہے۔1997ء میں میرا تبادلہ
حاجی عبداﷲ ہارون گورنمنٹ کالج سے گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد میں
ہوگیا اور پھر میَں اپنے ریٹائرمنٹ 2009ء تک اسی کالج میں خدمات انجام دیتا
رہا۔ یہاں مجھے فیض صاحب کے قائم کردہ ادارے ادارہ یا دگار غالب اور غالب
لائبریری کی قربت بھی میسر رہی کیونکہ یہ ادارہ میرے کالج کے احاطے میں ہی
تھا۔آخر میں فیضؔ صا حب کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں
تمہاری یاد کے جب زخم بھر نے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کر نے لگتے ہیں |