شاعری کیا ہے؟شعراء، سخن ور اور ماہرین عروض کہتے ہیں
کہ مقررہ بحر کے وزن پہ لکھی ہوئی جذبات کی غمازی کرتی تحریر شعر کہلاتی ہے۔
لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ شاعری سخن وروں کی آپ بیتیاں اور ان کے قرطاس پر
رقم ہونے والے جذبات ہیں۔کیا جانے دنیا کہ کیا گزرتی ہے محبت کرنے والوں
پر،کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے ہر وہ سانس جو نکلتی ہے آہ بھر کے گویا ہر سانس
پہلی سانس کی قیمت چکا رہی ہو۔ یہاں محبت کے بارے میں، میں بتا دوں کہ
ضروری نہیں مجازی ہی ہو،یہ تو کسی بھی چیز سے ہو سکتی ہے یہ حقیقی بھی ہو
سکتی ہے اور فانی دنیا میں فناہ ہونے والی کسی چیز،پودے،جانور یا انسان سے
بھی ہو سکتی ہے،اپنے ملک سے بھی ہوتی ہے اور خود سے بھی ہو تی ہے لیکن ان
کے درجات ہوتے ہیں۔لفظ محبت کی ’’ب‘‘پر موجود شد اس کا تعین کرتی ہے کہ شدت
کہاں اور کس سے ہو گئی۔
میں سوچتا ہوں کہ عمر گزارنی پڑتی ہے سانحات کے ساتھ اور یہ کتنا روح سوز
واقع ہے کوئی نہیں جان سکتا، جون ایلیا کا شعر ہے کہ:
ان کی امید ناز کا،ہم سے یہ مان تھا
کہ آپ عمر گزار دیجئے، عمر گزار دی گئی
یہ کچھ اس طرح ہی ہے، بس عمر گزارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا،بھکر کے
چاندنی چوک پر رہنا والا ایک لڑکا ہے، جواں سال، خوبصورت نوجوان،عاصم تنہا
حالات و واقعات کے ان حادثات سے تنہا ہو گیا اور اب عاصم تنہا کے نام سے
ایک معروف شاعر ہے جس کا ابھی ایک شعری مجموعہ میری نظروں سے گزرا ہے 'پھرتنہا۔
یہ مجموعہ عاصم کی شخصیت کو ایسے ابھارتا ہے کہ جیسے کوئی تازہ کھلا پھول
کسی نے الگ شاخ سے کاٹ کر پتھروں کے بیچ پھینک دیا ہو جو چیخ تو نہیں سکتے
پر ہر گزرتے لمحے میں اس کی خوبصورتی کو اس کی تنہائی چار چاند لگا رہے
ہوں۔اتنا حساس کہ ہوا کی سرسراہٹ بھی سن لے اور پھر لفظوں کی صورت کاغذ پہ
رقم کر دے ۔اور لفظوں کی تو بات ہی الگ ہے اگر آپ اس کتاب کے کسی بھی صفحے
کو نچوڑیں تو اس طرح ٹپکنے لگے گا جیسے زخمی دل سے خون ٹپک رہا ہو۔محبت
کرنے والا جو ٹھہرا۔اور محبت بھی ہیر کی سر زمین پر بسنے والی باسی سے کر
بیٹھا۔کہاں سے اڑا اک پرندہ اور کہاں صیاد نے اسے آ دبوچا، میں بھی جھنگ کا
باسی ہوں اور وہ جھنگ کی تعریف کرتے نہیں تھکتا کہتا ہے یہاں کے لوگ بہت
محبت کرنے والے ہیں اصل میں یہ ایسا ہے کہ وہ خود بہت محبت کرنے والا ہے اس
لئے سبھی عاصم کو اپنے جیسے ہی لگتے ہیں۔مجھے تو لگتا ہے کہ یہ عاصم تو
پیدا ہی محبت کے واسطے ہوا ہے، نرا عشق، اس کا سینہ تو بحیرہ اوقیانوس سے
بھی گہرا ہے جیسے اس زمین کا باسی ہی نا ہو۔کیا خوب تخیلات ہیں اس کی شاعری
میں اور اوزان تو اس طرح نبھا جاتا ہے اہل سخن بھی حیران ہیں۔سخن وروں نے
دیکھا ہے اک پروانے کو، جو جلتا ہے تو شمعوں کی روشنی مانند پڑنے لگتی
ہے۔کیسے اسلوب کا مالک ہے، مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ تو بس کوئی پچیس کا
نوجوان ہے میں اس کے شعر پڑھ کر سوچتا تھا کہ یہ تو کوئی بزرگ شاعر ہیں اس
قدر گرفت اور یہ عمر واقعتاً خداداد بخشش ہے۔اﷲ ہے نا جس کو جتنا چاہے عطا
کر دے۔عاصم کو تنہائی کی صورت میں کتنے اچھے دوست عطا کر دئیے کہ اسے کسی
آہنگ کی ضرورت نہیں پڑتی وہ اپنے دکھ قلم اور قرطاس سے بانٹ لیتا ہے۔اس دور
میں ایسی عطائیں نصیب والوں کو ہی ملتی ہے۔اور انداز بیاں میں اس قدر
خاکساری ہے کہ شکایت چاہے دنیاداروں سے لیکن برہنہ قرطاس پر خود کو کئے
ہوئے ہے عجب ظرف کا آدمی ہے یہ عاصم تنہا۔امید لگائے رکھتا ہے:
گماں کہتا ہے میرا کہ ایک دن مجھ پر
تری وفا، تری چاہت کا مان برسے گا
یوں بھی کوئی تا عمر قید کاٹتا ہے بھلا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر لمحے کو
مٹا کر نیا لمحہ پیدا کرتا ہے لیکن اس نے تو وقت کا سامنا کرنے کی ٹھان
رکھی ہے، اس قدر محبت پہ ایمان رکھتا ہے کہ ہر لمحے کو زندہ رکھنے کیلئے
وقت کو الفاظ کے جادو میں مقید کر دیا ہے جس کے سحر سے وقت کبھی نہیں
چھٹکارا پائے گا۔یوں وقت پر اختیار رکھتا ہے اور کبھی جب اداس ہو جائے ،
آخر کو انسان ہے ضبط ٹوٹ بھی سکتا ہے، اور ٹوٹ جائے تو کہتا ہے:
ایک مدت تو چپ رہیں آنکھیں
پھر اچانک ہی بلبلا اٹھیں
یہ عاصم تو مجھے دور جدید میں جون ایلیا کا عکس لگتا ہے، یہ محبت کرنے
والوں کیلئے بیان عشق ہے اور ہجر زدوں کیلئے اس کی شاعری مثل میٹھی آہنگ ہے
جو مائیں بچوں کو گود میں تھپکی دیتی سلاتے ہوئے گاتی ہیں۔پھر عاصم خود کی
تنہائی کا گلہ نہیں کرتا بلکہ فخر سے کہتا ہے:
وہی جو ہجر میں ٹھہرے ہوئے ہیں
محبت میں بہت پہنچے ہوئے ہیں
محبت میں ہجر جو نصیب بنا تو ہمت بھی نہیں ہاری، عارضی ضبط بکھر گیا تو کیا
ہوا یہاں حوصلہ ہمالیہ سے بڑا، اور آہنی ہے، برملا کہہ رہا ہے کہ محبت کا
پھل اصل میں ہجر کی تڑپ ہے جو انسان کو بلندیوں پہ لے جاتی ہے۔آج عاصم تنہا
جن بلندیوں کو چھو رہا ہے سب اسی بے لاگ محبت کا نتیجہ ہے اور میں دیکھتا
ہوں کہ یہ مستقبل میں استاذ شعراء کی جگہ سنبھالے گا۔اﷲ پاک اس پر اپنا
سایہ رحمت قائم رکھے اور اس کی قلم کو یونہی دوام بخشے۔
|