تحفظ ناموس رسالت بل، خواب سے حقیقت تک

 توہین مذہب ہر دور میں ایک جرم رہا ہے۔صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں اس جرم کی باضابطہ فوجداری سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ یہ ایک تفصیلی موضوع ہے جس پر عنقریب تحقیقی کالم لکھوں گا۔ فی الوقت آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت بل کے حوالے سے چند حقائق اور معروضات عرض کرنی ہیں۔ پاکستان میں تحفظ ختم نبوت کا قانون 1974 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بنا۔ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں اس سے ایک سال قبل مسلم کانفرنس کے دور حکومت میں ایم ایل اے میجر سردار محمدایوب مرحوم نے 26 اپریل 1973 کو پیش کیا تھا۔ بعد ازاں حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صاحب رح کی سرپرستی اور ایماء پر پیر طریقت جناب صاحبزادہ محمد عتیق الرحمن سجادہ نشین ڈھانگری شریف نے 2001 میں ختم نبوت کا بل اسمبلی میں پیش کیا۔ کئی وجوہات کی بناء پر ختم نبوت کا جامع قانون نہ بن سکا ۔ اگر یہ قانون پہلے بن چکا ہوتا تو پھر کسی نئی قرارداد کی ضرورت ہی کیا تھی۔ البتہ انہوں نے اخلاص نیت کے ساتھ کوشش ضرور کی اﷲ کریم ان کی سعی کو قبول فرمائے اور جزائے خیر دے۔ نئی اسمبلی بننے کے بعد جید علماء و مشائخ کے ایک وفد نے علامہ سید نذیر حسین گیلانی صدر تنظیم المدارس آزاد کشمیر کی قیادت میں اسمبلی کے کمیٹی روم میں پیر محمد علی رضا بخاری ایم ایل اے و سجادہ نشین آستانہ عالیہ بساہاں شریف سے ملاقات کرکے ختم نبوت کی قانون سازی کی طرف بھرپور توجہ دلائی۔پیر سیدمحمد علی رضا بخاری نے اس سلسلے میں بھرپور کرداد کرنے کا وعدہ کیا۔ بعد ازاں انہوں نے ناموس رسالت اور ختم نبوت کا بل اسمبلی میں پیش کیا جو 26اپریل 2017کو پاس ہوا اور 6 فروری 2018کو تاریخ میں پہلی دفعہ متفقہ طور پر اسے آئین کا حصہ بنا دیاگیا۔ اس دیرینہ خواب کو حقیقت تک پہنچنے کی لمحہ بہ لمحہ روئیداد کچھ یوں ہے۔ تین مارچ2017 کو پیر سید محمدعلی رضابخاری نے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کو خط لکھا اور ختم نبوت پر قانون سازی کے اقدامات کے لئے استدعا کی۔وزیراعظم نے یہ خط وزارت قانون کو ریفر کر دیا اور ہدایت کی کہ قانون سازی کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ 14 اپریل 2017 کو ختم نبوت بل (پرائیویٹ) سپیکر اسمبلی شاہ غلام قادر کو ان کے چیمبر میں جمع کرا دیاگیا۔اسمبلی سیکرٹریٹ نے وزارت قانون سے اس پر رائے مانگی۔ وزارت قانون سے مشاورت کی روشنی میں اسمبلی سیکرٹریٹ کی طرف سے رائے دی گئی کہ اس پر قرارداد جمع کروائیں۔ 18اپریل2017 کو پیر علی رضابخاری نے ایک جامع قرارداد ختم نبوت و تحفظ ناموس رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروائی۔ سپیکر کی منظوری سے 25 اپریل کے منعقدہ اسمبلی اجلاس کے ایجنڈہ میں اس قرارداد کو شامل کردیا گیا۔ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ کل صبح اجلاس میں سب سے پہلے قرارداد ختم نبوت کو ایون میں پیش کر کے منظور کیا جائے گا۔ چنانچہ 26اپریل 2017کے منعقدہ اجلاس میں پیر علی رضابخاری نے اجلاس میں قرارداد پیش کی۔اس قراردادکے بعد راجہ محمد صدیق ایم ایل اے نے بھی ختم نبوت پر قرارداد پیش کی۔ اسی روز کے ایجنڈہ میں شامل ہر دوقراردادوں کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ بعدازاں اس کے فالواپ میں کام ہوتا رہا لیکن ضرورت اس امر کی تھی کہ پاکستان کی طرح آزادکشمیر کے آئین میں بھی منکرین ختم نبوت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دلوایا جائے۔ اس حوالہ سے پیر علی رضا بخاری کی آئینی ترمیمُ کا مجوزہ مسودہ قانون تیار کر کے وزیر اعظم کو جنوری کے وسط میں پیش کر دیا ۔درایں اثنا وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کی خصوصی دلچسپی سے کابینہ کی سب کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی نے 22 جنوری2018 کو اجلاس کر کے رپورٹ کابینہ کو بھیج دی اور کابینہ نے اس کمیٹی کے مسودہ قانون کو 23جنوری2018 کو منظور کر کے اسمبلی کو منظوری کے لئے بھیج دیا۔ 2فروری 2018کے اسمبلی کے منعقدہ اجلاس میں وزیر قانون راجہ نثار نے یہ بل اسمبلی میں پیش کیا۔ پیر علی رضا بخاری نے اس بل پر بحث کا آغاز کیا اور پھر دیگر ممبران اسمبلی نے بھی بحث کی۔ اسمبلی کے اسی سیشن میں اس بل کو اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس میں پیش کرنے کے لئے منظور کر لیا گیا۔ 5 فروری 2018 کو مشترکہ اجلاس میں پیش کر کے اس بل کو کمیٹی کے سپرد کرنے کی منظوری لی گئی۔ اسی شام کمیٹی کا اجلاس ہوا ۔ کمیٹی نے بل کوحتمی شکل اور اپروول دے کر حتمی منظوری کے لئے اگلے روز کے مشترکہ اجلاس میں پیش کرنا تھا۔ کمیٹی کے اجلاس میں وزیر قانون راجہ نثار، وزیر تعلیمُ بیرسٹر افتخار گیلانی،ممبر اسمبلی پیر علی رضا بخاری، ممبر اسمبلی محمد احمد رضا قادری، ممبر اسمبلی راجہ محمد صدیق، ممبر کشمیر کونسل پرویز اختر اعوان، سیکرٹری قانون ارشاد قریشی، سکریڑی اسمبلی چودھری بشارت حسین و دیگر وزارات قانون و اسمبلی سیکٹرٹریٹ کے افسران نے شرکت کی۔ اس کمیٹی نے انتہائی محنت، احتیاط اور باریک بینی سے بل کی نوک پلک سنواری اور ممبران کے دستخطوں کے بعد اسمبلی سیکرٹریٹ کے سپرد کر دیا گیا۔ 6 فروری 2018 کا دن ازادکشمیر کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جائیگا۔ اس دن ختم نبوت بل کو وزیر قانون نے حتمی منظوری اور آئین کا حصہ بنانے کے لئے ایوان میں پیش کیا۔ تقریباً تمام ممبران اسمبلی و کشمیر کونسل نے اس پر بحث کی۔ اضافہ و کمی کے تمام تر مراحل سے گزرنے کے بعد متفقہ مندرجات پر مبنی بل کو ممبران اسمبلی اور ممبران کونسل نے منظور کر کے آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔اس موقع پر مصلح امت شیخ الحدیث پیر سید محمد حسین الدین شاہ دامت برکاتہم العالیہ، دیگر علماء و مشائخ اور ہر مکتبہ فکر کے راہنماؤں نے نو فروری کے جمعۃ المبارک کو یوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔وزیر اعظم، سپیکر اور جملہ ممبران قانون ساز اسمبلی آزاد جموں و کشمیر اس اہم کارنامے کو سرانجام دینے پر خراج تحسین کے مستحق ہیں۔

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218202 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More