توکل کے معنی اپنے عجزو بیچارگی کو ظاہر کرنے اور دوسرے
پر اعتماد و بھروسہ کرنے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں توکل سے مراد یہ ہے
کہ بندہ اپنے ہر معاملہ کو خدا کے سپرد کردے، اپنے تمام مقاصد اور کاموں
میں صرف اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ عالی پر اعتماد کرے اور اسی ذات کے آگے اپنا
دستِ سوال دراز کرے۔ توکل کی اصل حقیقت بس اتنی ہی ہے۔حجۃ الاسلام امام
غزالی ؒ اپنی کتاب کیمیائے سعادت میں توکل کی حقیقت کے بارے میں تحریر
فرماتے ہیں کہ توکل دل کی حالتوں میں سے ایک حالت ہے اور یہ خداوندِ کریم
کی وحدانیت اور اس کے لطف و کرم پر ایمان لانے کا نتیجہ ہے۔ توکل کے معنی
یہ ہیں کہ دل وکیل یعنی کارساز پر اعتماد کرے اور اس سے مطمئن رہے۔تذبذب کا
شکار نہ ہو اور اپنی روزی کے باب میں فکرمند نہ ہو۔اسبابِ ظاہری میں خلل
پڑنے سے مایوس اور دلگیر نہ ہو بلکہ حق تعالیٰ پر ہی اپنا بھروسہ رکھے۔
یوں تو توکل کا تعلق تمام امور اور معاملات پر ہوتا ہے لیکن اکثر اس کا
استعمال رزق کے بارے میں ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ بندوں کے رزق کا ضامن ہے۔
حصولِ معاش کے لئے جائز و حلال ظاہری وسائل و ذرائع ترک کرنا گو توکل کے
صحیح ہونے کی شرط نہیں ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ اصل اعتماد و بھروسہ ان
وسائل و ذرائع پر نہ ہو۔چنانچہ توکل کا تعلق اصل میں دل سے ہے ۔ اگر دل میں
حق تعالیٰ کے ضامن ہونے کا یقین جاگزین ہوگیا تو توکل کا مفہوم پورا ہو
جائے گا۔ ظاہری اسباب و تدابیر کا ترک کردینا توکل کے لئے لازم نہیں
ہے۔حضراتِ انبیاء علیہم السلام خاص کر خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ اور آپ کے
صحابہ کرام اور ہر دور کے عارفین کاملین کا توکل یہی تھا۔یہ سب حضرات اس
کارخانہ ہستی کے اسبابی سلسلے کو اﷲ تعالیٰ کے امر و حکمت کے ماتحت اور اس
کی حکمت کا تقاضہ جانتے ہوئے عام حالات میں اسباب کا بھی استعمال کرتے تھے
لیکن دل کا اعتماد اور یقین صرف اﷲ ہی کے حکم پر ہوتا تھا۔ نیز وہ یہ بھی
یقین رکھتے تھے اﷲ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی پابند نہیں ہے۔وہ اگر چاہے
تو ان کے بغیر بھی سب کچھ کرسکتا ہے اور کبھی کبھی وہ اﷲ تعالیٰ کی اس قدرت
کا مشاہدہ اور تجربہ بھی کرتے تھے۔
توکل ایمان اور توحید کے اعمال کا لازمی ثمرہ ہے۔ جس کو توکل نصیب نہیں
یقیناََ اس کا ایمان اور اس کی توحید کامل نہیں ہے۔توکل کی صفت مقربین کے
مقامات میں داخل ہے اور اس کا بڑا ذریعہ ہے۔ خداوندِ بزرگ و برتر نے تمام
بندوں کو توکل کا حکم دے کر اس کو ایمان کی شرط ٹھہرایا ہے اور قرآنِ پاک
میں ارشاد فرمایاکہ
وعلی اﷲ فتوکلو ا ان کنتم مومنون
ترجمہ: اور اﷲ پر توکل کرو اگر تم ایمان والے ہو۔
صاحبِ مظاہرِ حق فرماتے ہیں کہ غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ
کی ذات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے وعدہ کی صداقت کے جزوایمان ہونے کا
اعتقاد رکھتا ہے ، اگر وہ اس کے ضامن ہونے پر اعتماد نہ رکھے تو اس کا
ایمان کہاں رہے گا اور وہ کس طرح کاخدا کا بندہ کہلانے کا مستحق قرار پائے
گا ؟ ہرمومن کو چاہیے کہ وہ دنیا، اس کے مال واسباب اور کسب و عمل کو محض
حصولِ رزق کا ایک ظاہری وسیلہ و بہانہ اور سبب سمجھے، اس سے زیادہ اور کچھ
نہ جانے اور یہ یقین رکھے کہ حقیقی رازق صرف اﷲ تعالیٰ ہے۔ وہ اتنی بڑی
قدرت کا مالک ہے کہ اس کے نزدیک ظاہری وسائل و اسباب کی چنداں اہمیت نہیں
ہے۔ وہ توکل و اعتماد کرنے والوں کو بے سبب و وسیلہ اور بلا کسب و عمل بھی
روزی پہنچاتا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ومن یتوکل علی اﷲ فھو حسبہ
ترجمہ : جو شخص اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ کرے ، اﷲ تعالیٰ اس کو کافی ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا ، آپ
ارشاد فرماتے تھے کہ اگر تم لوگ اﷲ پر ایسا توکل اور اعتماد کرو جیسا کہ اس
پر توکل کا حق ہے تو وہ تم کو اس طرح روزی دے جس طرح پرندوں کو دیتا ہے۔ وہ
صبح کو بھوکے اپنے آشیانوں سے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے واپس آتے
ہیں۔(ترمذی)
امام قشیری ؒ فرماتے ہیں کہ توکل کا اصل مقام قلب ہے اور حصولِ معاش کے لئے
حرکت وعمل ایک ظاہری فعل ہے جو توکل کے منافی نہیں ہے بشرطیکہ اصل اعتماد
اپنے کسب و عمل کے بجائے محض اﷲ تعالیٰ پر ہو۔اسی لئے حدیث میں پرندے کے
ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے ۔پرندہ اگرچہ اپنی روزی کی تلاش میں نکلتا ہے اور
سارے جہاں میں مارا مارا پھرتا ہے لیکن اس کا اصل اعتماد اﷲ تعالیٰ پر ہی
ہوتا ہے نہ کہ اپنی طلب اور جدوجہد اور اپنی تدبیر و قوت پر۔لہٰذا اس سے
واضح ہوا کہ انسان کا حصولِ معاش کے لئے معقول اور مناسب طریقہ پر جدوجہد
اور سعی کرنا اﷲ تعالیٰ پر توکل کرنے کے منافی نہیں ہے۔
اہلِ توکل کی فضیلت میں قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ان اﷲ یحب المتوکلین
ترجمہ: بے شک اﷲ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
نیز اسی ضمن میں حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ
نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں ستر ہزار افراد بغیر حساب کے جنت میں
جائیں گے وہ، وہ بندگانِ خدا ہوں گے جو منتر نہیں کراتے اور شگونِ بد نہیں
لیتے اور اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں(بخاری و مسلم)۔حضرت مولانا محمد
منظور نعمانی صاحب ؒ اپنی مایہ ناز تصنیف معارف الحدیث میں اس حدیث کے ذیل
میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ایک پیشین گوئی اور آخرت میں پیش آنے والے ایک
واقعہ کی صرف خبر نہیں ہے بلکہ حدیث کا منشاء یہ ہے کہ آپ ﷺ کے جن امتیوں
کو یہ حدیث پہنچے وہ اپنی زندگی کو توکل والی زندگی بنانے کی کوشش کریں
تاکہ اﷲ کے فضل سے جنت میں بے حساب داخل ہونے والوں کی فہرست میں ان کا نام
بھی آجائے۔
صاحبِ نہایہ نے کہا ہے کہ مذکورہ بالا اوصاف کاملین کی خصوصیات میں سے ہیں
کہ وہ پاک نفس لوگ دنیا کے اسباب و وسائل اور ان کے متعلقات سے بے اعتنائی
برتتے ہیں اور دنیا سے تعلق رکھنے والی کسی چیز کی طرف مائل و ملتفت نہیں
ہوتے اور یہی درجہ ہے جو خواص کے لئے مخصوص ہے اور اس درجے تک عوام کی
رسائی نہیں ہوتی ۔ لیکن جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو ان کے لئے اس میں کوئی
مضائقہ نہیں ہے کہ وہ حلال اسباب و ذرائع کو اختیار کریں اور دوا وغیرہ کے
ذریعے علاج معالجہ کرائیں۔
ایک اور حدیث شریف میں حضورِ اکرم ﷺ کا پاک ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص
خدا کی پناہ میں جائے گا ، حق تعالیٰ اس کے کاموں کی کفالت فرمائے گا اور
اس کو ایسی جگہ سے روزی پہنچائے گا جہاں اس کا گمان تک نہیں جائے گا اور جو
شخص دنیاوی اسباب پر بھروسہ کرے گا حق تعالیٰ اس کو دنیا کے ساتھ چھوڑ دے
گا۔
حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن میں رسول اﷲ ﷺ کی
سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا کہ آپ نے ( مجھے مخاطب کرکے) فرمایا کہ
اے لڑکے: اﷲ تعالیٰ کے تمام احکام کا خیال رکھو، اﷲ تعالیٰ تمہارا خیال
رکھے گا اور دنیا و آخرت کی آفات وبلیات سے تیری حفاظت فرمائے گا ۔ اﷲ
تعالیٰ کے حق کا خیال رکھو گے تو تم اﷲ تعالیٰ کو اپنے ساتھ پاؤ گے۔جب تم
سوال کا ارادہ کرو تو صرف اﷲ تعالیٰ کے آگے دستِ سوال دراز کرو۔ جب تم مدد
چاہو تو صرف اﷲ تعالیٰ سے مدد مانگو۔اور خوب سمجھ لو کہ اگر سارے انسان مل
کر تجھے کوئی نفع پہنچانے کا ارادہ کریں تو تجھ کو اس سے زیادہ کچھ نفع
نہیں پہنچا سکتے جو اﷲ نے تیرے لئے لکھ دیا ہے ، اگر سب جمع ہوکر کوئی
نقصان پہنچانا چاہیں تو تجھ کو اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اﷲ نے
تیرے لئے لکھ دیا ہے (پھر ارشاد فرمایا کہ تقدیر کے فیصلے لکھے جاچکے ) قلم
اٹھا لئے گئے اور صحیفے خشک ہوچکے(ترمذی)
مندجہ بالا گذارشات کا حاصل یہ ہے کہ بندہ اپنی ساری ضروریات کو اﷲ تعالیٰ
کے سپرد کردے اور اس پر توکل و اعتماد کرے، اس کے احکام کا پابند ہوکر
زندگی گزارے اور دنیوی ضرورتوں کے سلسلے میں اپنی جدوجہد کو بھی اس کے
احکامات کے تحت کردے۔ پھر اﷲ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہوگا اور وہی اس کی
ضروریات پوری کرتا رہے گا۔
|