چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جناب ثاقب نثار کی عوامی
خدمات کے حوالہ سے لکھنے کا پروگرام تھامگر اچانک عاصمہ جہانگیر کے انتقال
کی خبر نے ہلا کررکھ دیامگر میں چیف جسٹس صاحب کا انتہائی شکر گذار ہوں
جنکی وجہ سے آج سڑکوں پر پڑی ہوئی رکاٹیں اٹھادی گئی چیف صاحب اصل میں وہ
کام کررہے ہیں جو ایک حقیقی عوامی نمائندے کو کرنا چاہیے صرف نام رکھنے سے
کوئی خادم اعلی نہیں بن جاتابلکہ اس کے لیے عوام کی خدمت کرنا پڑتی ہے اپنی
حفاظت کے لیے رکاوٹیں لگا کر عوام کو تنگ کرنا ،پولیس کے ہاتھوں تذلیل
کروانا اور گندے پانی سے عوام کی خدمت کرنا ایسے افراد کا کام نہیں جو عوام
کے ہی ووٹوں سے برسراقتدار آئے ہوں بلکہ خود تکلیف برداشت کرکے عوام کو
آسانی پہنچانا اصل میں عوامی نمائندے کا کام ہوتا ہے مگر یہاں پر حکومت کے
کرنے والے تمام کام عدلیہ کررہی ہے چونکہ بار اور بنچ کا ساتھ چولی اور
دامن جیسا ہے اس رشتے ہو مزید مضبوط بنانے میں عاصمہ جہانگیر کا بہت بڑا
کردار ہے عاصمہ جہانگیر ایک ایسی شخصیت کا نام تھا جو صدیوں میں بھی پیدا
نہیں ہوتی جنہوں نے عورت ہوتے ہوئے مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا سیاست عاصمہ کو
اپنے باپ سے ورثہ میں ملی تھی اور آمریت کے بتوں سے ٹکرانا اسکے خون میں
شامل تھا انکے والد ملک غلام جیلانی نے ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست
میں بھر پور حصہ لیا اور فوجی آمریت کے خلاف ڈٹے رہے انہیں کئی بار جیل اور
گھر پر بھی نظر بند کیا گیا جبکہ عاصمہ کی والدہ نے اس وقت اعلی تعلیم حاصل
کی جب مسلمان خواتین میں تعلیم کا رواج تک نہ تھا عاصمہ جہانگیر نے بھی
والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آمروں سے ٹکر لیے رکھی عاصمہ جہانگیر کو
سوئٹرز لینڈ،کینڈااور امریکہ کی یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں بھی
عطا کررکھی تھیں عاصمہ جہانگیر پاکستان میں کلاء کی سیاست میں ایک ایسا نام
تھا کہ وہ جس بھی امیدوار پر اپنا ہاتھ رکھ دیتی تھیں تو پھر کامیابی اسی
کا مقدر بنتی تھی عاصمہ جہانگیر نے وکلاء کی سیاست میں وہ مقام حاصل کیا جو
آج تک کسی اور کے حصہ میں نہیں آیا پاکستان میں سپریم کورٹ بار کی پہلی
خاتون صدر کا اعزاز بھی انہی کے پاس تھا عاصمہ جہانگیر کی انتقال کے وقت
عمر 66 برس تھیں، وہ 27 جنوری1952 کو لاہور میں پیدا ہوئیں انہوں نے عدلیہ
بحالی تحریک میں بھی کردار ادا کیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر نے انسانی حقوق کے
لیے ہمیشہ آواز اٹھائی کئی کتابیں بھی تصنیف کیں اور آجکل عاصمہ جہانگیر
آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے مقدمے میں بھی سپریم کورٹ میں پیش
ہورہی تھی اور آخری مرتبہ انہوں نے 9 فروری کو پیش ہو کر عدالت کے روبرو
دلائل دیے تھے۔عاصمہ جہانگیر ایک ایسی دلیر ،جرات مند اور حوصلے والی خاتون
تھی کہ میں نے کبھی بھی انہیں پریشان نہیں دیکھا زندگی کوانتہائی خوبصورت
انداز سے انہوں نے گذارا یاد داشت اتنی شاندار تھی کہ مدتوں بعد بھی ملاقات
ہو تو فورا پہچان جاتی تھی جونیئر وکلاء سے انکا پیار کسی ماں کی طرح کا
تھا انکی لائبریری ہر کسی کے لیے ہر وقت کھلی رہتی تھی انسانی حقوق کے
متعلق انکی جدو جہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں بلخصوص خواتین اور بچوں کے
حوالہ سے جو کام انہوں نے کردیا وہ رہتی دنیا تک انکے لیے ایصال ثواب اور
صدقہ جاریہ کاکام کرتا رہے گا ججز بحالی تحریک میں بھی عاصمہ جہانگیر کا
نہایت اہم کردار رہا اب 28اکتوبر2010 کی ایک یاد گار خبر جس میں پاکستان کی
تاریخ میں ایک خاتون کا بطور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا اعلان ہوا
جس دن عاصمہ کی جیت کا اعلان ہوا تو اس دن خبر کچھ یو ں تھی۔پاکستان کے
سینیئر وکلاء کی نمائندہ تنظیم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اراکین نے
انسانی حقوق کی نامور کارکن عاصمہ جہانگیر کو اپنا صدر چن لیا ہے۔سپریم
کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق عاصمہ
جہانگیر نے ایک کڑے اور اعصاب شکن مقابلے کے بعد چالیس ووٹوں سے اپنے حریف
احمد اویس کو ہرا دیا ہے۔انسانی حقوق کمیشن کی سابق سربراہ عاصمہ جہانگیر
پہلی خاتون وکیل ہیں جو پاکستانی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر منتخب
ہوئی ہیں۔پاکستان میں معزول ججوں کی بحالی کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی
ایشن کے دوسرے انتخابات تھے اور حامد خان کی قیادت میں قائم پروفیشنل گروپ
کو گزشتہ چاروں برسوں میں پہلی بار شکست ہوئی ہے۔احمد اویس کو وکلاء تحریک
کے رہنما حامد خان کی سربراہی میں قائم پروفیشنل گروپ کے کی حمایت حاصل
تھی۔نیوز لائن انٹرنیشنل (این ایل آئی) کو موصول ہونے والے غیرحتمی نتائج
کے مطابق عاصمہ جہانگیر کو آٹھ سو چونتیس جبکہ احمد اویس کو سات سو چھیانوے
ووٹ ملے۔اسی عہدے پر تیسرے امیدوار اکرام چودھری تھے جن کو ایک سو ستائیس
ووٹ ملے۔بدھ کو ہونے والے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات کے لیے
پاکستان کے چاروں صوبوں میں وکلاء نے ووٹ ڈالے اور دوہزار سے زائد وکیلوں
نے اپنی نئی قیادت کو منتخب کیا۔سب سے زیادہ ووٹ پنجاب کے صوبائی
دارالحکومت لاہور میں ڈالے گئے جہاں پر نو سو کے لگ بھگ ووٹ ڈالے گئے۔سپریم
کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اس سال ہونے والے انتخابات میں وکلاء تحریک کے صف
اول کے رہنما بھی بٹ گئے ہیں اور ماضی کی طرح کسی ایک متفقہ امیدوار کی
حمایت نہیں کر سکے۔عاصمہ جہانگیر کو وکلاء کے تحریک کے رہنما علی احمد
کرد،مینر اے ملک اور طارق محمود کے علاوہ جسٹس فخرالدین ابراہیم، عابد حسن
منٹو اور لطیف کھوسہ کی حمایت حاصل تھی جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ قاف
کے علاوہ ان ججوں کی حمایت بھی حاصل تھی جنہیں تین نومبر کے بعد جسٹس
عبدالحمید ڈوگر کی سفارشات کی روشنی میں اعلی عدلیہ میں جج مقرر کیا گیا
تھا۔دوسری جانب رشید اے رضوی، محمود الحسن، سید اقبال حیدر اور باز محمد
کاکڑ احمد اویس کے حامیوں کے طور پر سامنے آئے تھے۔پاکستان کی سپریم کورٹ
نے عاصمہ جہانگیر کی ایک درخواست پر جنرل یحیْ خان کو غاصب قرار دیا
تھا۔عاصمہ جہانگیر جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے دوران انیس سو چوراسی میں
پنجاب بارکونسل کی رکن منتخب ہوئیں۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ
انتخابات میں صدارت کے منصب پر ہرسال ملک کے چاروں میں سے ایک صوبے کی باری
ہوتی ہے اور اس مرتبہ صوبہ پنجاب کی باری تھی۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن
کے سیکرٹری کے عہدے پر قمرالزمان قریشی کامیاب ہوئے ہیں ان کو مشرف دور کے
اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم کی حمایت حاصل تھی اور وہ تیسری مرتبہ اسی عہدے
کے لیے لڑ رہے تھے۔غیر سرکاری نتائج کے مطابق پنجاب سے نائب صدر کے عہدے پر
زبیر خالد منتخب ہوئے جو سابق نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد کے بیٹے
ہیں۔فنانس سیکرٹری کے عہدے پر ثناء اﷲ خان زاہد پہلے ہی بلا مقابلہ منتخب
ہوچکے ہیں۔ججوں کی بحالی کی تحریک کے دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے
انتخابات بھی خاصی اہمیت حامل ہوگئے ہیں اور ملک کی سیاسی اور عدالتی صورت
حال پریہ انتخابات کے گہرے نقوش مرتب کرتے ہیں۔ |