اللہ پاک ہم سے کیا چاہتے ہیں ؟

صرف چند کام ۔۔۔۔۔۔!

اللہ کا فر مان انسانو ں کے نا م ۔۔۔۔

چھوٹے بچوں کو چلنا سکھانے کے لیے ایک خاص طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس طریقے کے مطابق جب بچہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہوسکے تو ہم اسے دیوار کے سہارے کھڑا کر دیتے ہیں۔ پھر اس سے ذرا دور ہٹ کر دونوں ہاتھ اس کی طرف پھیلاکر اسے اپنی طرف بلاتے ہیں ۔ اور جیسا کہ بچے کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ ہم اسے گود میں لیں لہذا وہ یہ سمجھ کر کہ ہم اسے گو د میں لینا چاہتے ہیں ، اپنا سہارا یعنی وہ دیوار جس سے ٹیک لگا کر وہ کھڑا ہوتا ہے ، چھوڑدیتا ہے اور ہماری طرف بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش میں اس کے نو آموز قدم لڑکھڑاتے ہیں۔ لیکن ہم تک پہنچنے کی خواہش میں وہ ایک کے بعد دوسرا قدم زمین پر ٹکا کر اپنا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ شروع شروع میں وہ بمشکل ایک دو قدم ہی اٹھا پاتا ہے مگر آہستہ آہستہ اسے اپنا توازن برقرار رکھنا آ جاتا ہے اور وہ خود اپنے قدموں پر چل کر ہمارے پاس آنے لگتا ہے اور یوں وہ چلنا سیکھ لیتا ہے۔

اس عمل کے دوران میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے بچے کو بانہیں پھیلاکر اپنی طرف بلایا ہو اور جب اس نے اپنا سہارا چھوڑ دیا ہوتو ہم نے اسے گرنے دیا ہو۔ جب تک بچہ چل سکتا ہے۔ ہم اسے چلنے دیتے ہیں اور خود پیچھے ہٹتے چلے جاتے ہیں ، مگر جس لمحے بچہ گرنے لگتا ہے، ہم آگے بڑھ کر اسے سنبھال لیتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمارا مقصد بچے کو گرانا ، اسے تکلیف دینا نہیں ، بلکہ چلنا سکھانا ہوتا ہے۔

یہ ایک مثال ہے جس کے ذریعے سے ہم خدا اور بندے کے تعلق کو سمجھ سکتے ہیں۔ وہ تعلق جو اس وقت شروع ہوتا ہے جب اس کائنات کا رب ایک کمزور بندے کو اپنی طرف بڑھنے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ بندہ اس ربِ کریم کی پکار پر لبیک کہہ کر آگے بڑھتا ہے۔ وہ راہ وفا پر قدم رکھ دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ خدا کی سمت چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنی ہر دیوار چھوڑنی ہوگی۔ خود کو بے سہارا کرنا ہوگا۔ لیکن وہ اپنے رب پر بھروسا کرکے ڈگمگاتا ہوا، لڑکھڑاتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب دنیا والے اسے احمق خیال کرتے ہیں۔ اس کی کم عقلی پر ماتم کرتے ہیں۔ اسے ملامت کرتے ہیں۔ لیکن اس کی نگاہوں میں تو اس کا رب ہوتا ہے۔ اس کے اٹھے ہوئے ہاتھ ہوتے ہیں۔ اسے اعتماد ہوتا ہے کہ یہ اٹھے ہوئے ہاتھ اتنے کمزور نہیں کہ اسے سنبھال نہ سکیں۔

اس میں شک نہیں کہ یہ عالمِ اسباب خدا نے انسانوں کی آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے۔ لیکن یہاں اسبا ب کی ڈوریاں بھی وہی ہلاتا ہے اور آزمائش کی بساط بھی وہی بچھاتا ہے۔ اور ایسا اس کی صفتِ علم و حکمت کے تحت ہی ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو زمانے کے سرد وگرم سے آزماتا ہے اور اپنے نیک بندوں کو تو کچھ زیادہ ہی آزماتا ہے۔ کبھی ان کے کھوٹ دور کرنے کے لیے ، کبھی جنت میں ان کے درجات بلند کرنے کے لیے اور کبھی دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرنے کے لیے ۔ تاہم اس آزمائش کی ایک حد ہوتی ہے، اس حد کا انحصا ر خدا پر نہیں ، بلکہ بندے پر ہوتا ہے۔ اس کی بلندی شوق پر ہوتا ہے۔ کوئی تو یہ چاہتا ہے کہ اسے راہِ حق میں کانٹا بھی نہ چبھے اور کوئی موسیٰ کے مقابلے میں آنے والے جادوگروں کی طرح وقت کے فرعون کے سامنے اس لیے ڈٹ جاتا ہے کہ اسے موت کی شکل میں خدا کی رحمت بالکل سامنے نظر آرہی ہوتی ہے۔

خدا ہر شخص کو جنت کی طرف پکارتا ہے مگر اس کی یہ جنت بے قیمت نہیں ۔ اس راہ میں طرح طرح کے اندیشے ستاتے ہیں ۔ قدم قدم پر مشکلات کے پہاڑ سامنے آجاتے ہیں۔ بے یقینی کے مہیب سائے بار بار انسان کو گھیر لیتے ہیں ۔ ایسے میں خدا پر توکل ہی اسے آگے بڑھاتا ہے۔ خدا کے اٹھے ہوئے ہاتھوں کی کشش اسے آخری دم تک خدا کی طرف بڑھتے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ مگر جس لمحے اس کے قدم اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیتے ہیں وہاں عرش کا مالک خود فرش پر آتا ہے اور گرنے سے پہلے اسے سنبھال لیتا ہے۔ یہ راہِ خدا ہے تماشا نہیں ۔ اس کا اصول یہ بھی ہے کہ انسان خود کو برباد کرے اور اس کا اصول یہ بھی ہے کہ خدا بندے کو برباد نہ ہونے دے۔

اس امت کو بھی کچھ ایسے ہی صاحبانِ دل اور صاحبانِ شوق درکار ہیں ۔ جو خدا کے لطف و عنایت کی امید پر خود کو برباد کرنے کے لیے آمادہ ہوں یہ الگ بات ہے کہ خدا کی شانِ کریمی ایسا نہ ہونے دے ۔ تو پھر اب کوئی تو ہو جو یہ کہتا ہوا خود کو بے سہارا کردے :

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ہیں۔

Syed zeeshan Ali shah
About the Author: Syed zeeshan Ali shah Read More Articles by Syed zeeshan Ali shah: 25 Articles with 53337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.