ریس کوسٹ میں موجود ان دودوستوں کودیکھ کر ظاہری یہی
لگتا تھا کہ ان کاجنم جنم کا ساتھ ہے،مگر حقائق کچھ اور تھے۔فائر ہونے والا
تھا،جس کے ساتھ ہی گھوڑے اپنے مطلوبہ ہدف کی طرف دوڑ پڑتے۔دونوں دوستوں نے
الگ الگ گھوڑوں پر پیسا لگایا ہوا تھا۔ماہر کھلاڑی دوست نے جس گھوڑے پہ
پیسالگایا تھا وہ ناقابل یقین صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے ہار گیا،جب کہ
دوسرا دوست جو اس کھیل میں نیا تھا اس کا گھوڑا جیت گیا۔ریس ختم ہوئی،ماحول
تبدیل ہوا،محفل سجی تو پہلے دوست نے حیران ہو کر پوچھا ’’تم نے جس گھوڑے پر
پیسا لگایا تھا وہ کئی سالوں سے ہارتا ہوا آرہاہے،اور اس پر کوئی بھی اپنی
جمع پونجی لگا کر،کنگال ہونا نہیں چاہے گا۔پھر تم کیسے جیت گئے۔‘‘
دوسرادوست ہنسا، اور بولا،’’گیم کا جو اصول میں نے کھیلا وہ یہ تھا کہ اپنے
گھوڑے کے علاوہ باقی سب کو خرید لو،اور جیت کا جشن مناؤ۔
ملکی سیاست کے بڑے شہسوار یہ بات بھول گئے کہ ماحول اب تبدیل ہوچکا ہے۔وہ
کردار نہیں رہے کہ جاتی امرا اپنے مقاصد کے لئے ریاست کے مؤقر اداروں کو
اپنا اوڑھنا،بچھونا بنا لیں۔ اور جب مرضی سکے کو اچھال کر رخ موڑ لیں۔پہلے
دیکھ لینا چاہیے کہ جس کے کاندھے پر بندوق رکھ کر فائر کیا جا رہا ہے،وہ
ڈھال مضبوط ہے کہ نہیں۔اب اس بات کا احساس جاگزیں ہوچکا ہے کہ، اداروں کے
لیے یہی کمزور روش زہر قاتل ہے۔آزاد ریاست کے سائے میں سانس لینے والے ہر
ذی روح پر فرض ہے کہ وہ آئین کی پاسداری کرے۔محاذ آرائی کرکے اگر ریاست کے
نظام عدل کی توہین کے مرتکب ہوں گے،تو پھر سزائیں بھی ہوں گی۔آرٹیکل 63 ون
جی بھی لاگو ہوگا، اور آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت جرمانے اور نااہلی بھی
ہوگی۔
جمہوریت کا حسن ہے کہ اختلاف رائے کو خندہ پیشانی اور برداشت سے ڈیل کیا
جائے۔عدلیہ، الیکشن کمیشن،سٹیبلشمنٹ،اور نظام عدل پر تنقید،اشتعال انگیز
بیان دے کر اس کے وقار کو مجروح کرنا جمہوری روایات کے خلاف ہے۔پارلیمانی
روایات ہیں کہ ریاستی ادارے، ایوان زیریں وبالا اپنے انداز تکلم میں
شائستگی رکھتے ہوں، دل آزاری سے پاک ہوں۔ایسے میں عدلیہ کی تضحیک دراصل
جمہوریت کی خدمت کا مذاق ہے۔ایسی جنگ کی فضا پید اکرکے صرف انار کی پھیلائی
جاسکتی ہے،اور جمہوری اقدار،سیاسی رواداری، ریاستی اداروں کا نقصان کیا
جاسکتا ہے۔عدلیہ اپنے احترام میں جو تعمیری کام کر رہی ہے اور مرتکبین
توہین کے ذمہ داران کو جمہوری وقانونی طرزعمل میں سزائیں دے رہی ہے،یہ نظام
عدل،اور جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرے گا۔اور آئندہ قیادت میں یہ احسا س پید
اہوگا کہ عدالتوں میں زیر بحث،اور زیر سماعت مقدمات کس حساسیت کے حامل
ہیں۔اس سے معاشرے میں عدل کی عملداری،اور انساف کی بلا روک ٹوک فعالیت کو
تقویت ملے گی۔عام آدمی جوانصاف سے محروم ہے،اور انصاف سے اس قدر دور ہونے
کے باوجود،وہ اس پر تنقید اور عدالتی نظام وججز کو ٹارگٹ نہیں کر سکتا، مگر
وہ دل ہی دل میں اس خلیج پر کڑھتا ضرور ہے۔ اب نظام عدل میں واضح تبدیلیاں
آنی چاہئیں۔
سیاست دانوں کے لئے عدلیہ ایسا ٹارگٹ بن گئی ہے کہ وہ یہاں من چاہے حملے
کرتے ہیں۔اور عدلیہ ہی ان کے لئے تختہ مشق بنی ہوئی ہے۔عدالت کی تضحیک کرنے
میں ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر مشق کرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔یہ عدالت کا ظرف
ہے کہ وہ کمال ضبط سے ہر دفعہ برداشت سے کام لیتی رہی۔بالآخر کسی ایک کو
سبق تو سیکھانا تھا،اور یہ عدالتی توقیر کے لیے بے حد ضروری تھا۔تاکہ
اداروں کے لیے بھی وہ نشان عبرت بنے۔مگر ابھی اس نظام کو عبرت کے نشانات کی
مزید ضرورت ہے، امید ہے کہ اس چرکھے میں دانیال عزیز، طلال چودھری پھنسیں
گے کیونکہ توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں،اور ان کا نمبربھی آنے
ولا ہے۔
ہمارے نظام عدل اور انصاف کے ترازو کے بارے میں یہ تاثر قائم ہے کہ یہ
بوسیدہ ہوچکا ہے۔یہ نئے دور کے تقاضوں پر پورا نہیں اتر سکتا۔اس نظام عدل
کی بوسیدگی و کمزوری کا رونا تو بہت رویا جاتا رہا، مگر اس پر قابل قدر
سنجیدہ کوششیں کبھی نہیں کی گئیں۔موجودہ اور آئندہ آنے والے فیصلے اس بات
کا عندیہ ہیں کہ عدلیہ ایک بیرئیر ہے۔اس کے وقار کو دانستہ یا نادانستہ
مجروح کرنے والے شعلہ نوا کے جوش جنوں کو قانونی گرفت سے ٹھنڈا کیا جائے
گا۔تب غیر مشروط معافی بھی قبول نہیں ہوگی۔تاریخ کا یہ سبق سب یاد رکھیں کہ
عدالت کی توہین اوراس سے کھلواڑ کرنا، قانون کی بالا دستی و عملداری کے آگے
روڑے اٹکانا اور اسے نقصان پہچانا ہی عدالت کو سخت فیصلے کرنے پر مجبور
کرتی ہے۔پھر عدالتیں ہر چیز کو بالائے طاق رکھ کر اپنے اصولوں کی پیروی
کرتے ہوئے اپنے وقار کو قائم رکھتی ہیں۔سیاست دان گیم میں شامل رہیں،مگر
اپنی جیت کے لیے ریس کے گھوڑوں کی تربیت بھی اچھی طرح کیا کریں۔
تحریر:ڈاکٹر رابعہ اختر
|