آج پھر جنید آفس کے کام میں اس قدر محو تھا، کہ اس کو وقت
گزرنے کا احساس هی نہیں ہوا، گھڑی پر نظر پڑی تو اسے خیال آیا کہ کہیں آخری
ٹرین بھی مس نہ ہوجائے. Calgary کی سرد رات میں آخری ٹرین مس هونے کا خیال
کچھ ایسا هولا دینے والا تھا کہ اگلے دس منٹ میں وہ ٹرین کے اسٹیشن پر تها،
ٹرین میں بیٹھ کر اس نے سکھ کا سانس لیا. آج پھر اس کے بچے اس کا انتظار
کرتے کرتے سوچکے هونگے،بیوی بھی کچھ روٹهی روٹهی هوگی لیکن حسب عادت کوئی
گلہ نہیں کرے گی، پردیس میں ایک آدمی کا اکیلے کما کر پورے کنبے کو کهلانا
اور پیچھے پیسہ بھیجنا، آسان نہیں ہے، انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ اس کا
اسٹیشن آگیا، ٹرین سے اترا تو سرد ہوا نے اسے کپکپا دیا. کوٹ کے کالر اوپر
کئے اور مفلر کو منہ پر لپیٹ لیا. بس سٹاپ پر پہنچ کر گهڑی کو دیکھا تو اسے
اندازہ ہوا کہ آخری بس پانچ منٹ پہلے جاچکی ہے. لہٰذا دل کڑا کر اس نے اپنے
آپ کو تسلی دی کہ بیس منٹ میں وہ پیدل گهر پہنچ هی جائے گا.
مرتا کیا نہ کرتا، اس نے اپنے قدم بڑھائے، دس منٹ کی مسافت کے بعد اس نے
ایک موڑ مڑا اور چند لمحے کے لیے وہ چکرا سا گیا. اس کو ایسے لگا جیسے وہ
اپنے گاوں کے کسی راستے پر کهڑا هے، دنوں طرف بلند برگد کے درخت تھے، برف
کا دور دور تک کوئی نشان نہی تھا. ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے موسم گرما کی
کوئی رات هو، آسمان پر چاند جگمگا رہا تھا. جنید نے بےیقینی سے اردگرد
دیکھا، اچانک دور سے کسی عورت کے رونے کی آواز اس کے کانوں میں پڑی،اخبارات
کی تمام بری خبریں اس کی یادداشت میں تازہ هو گی، غیر ارادی طور پر اس نے
اپنے قدم تیز کر دیے، اچانک هی بے بے کی بات یاد آئی کہ پتر مصیبت ذدہ کی
مدد کرنے والے کی مدد اللہ خود کرتا ہے. چنانچہ اس نے دل مضبوط کر کے آواز
کی طرف قدم بڑھا دئیے، اس نے دیکھا کہ ایک عورت ایک گٹھڑی سامنے رکھکر رو
رہی ہے. اس کے قریب پہنچ کر اس نے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے هلکا
سا کھنکارا، اور پوچھا کیا بات ہے؟
اس کے متوجہ کرنے پر عورت نے سر اٹھایا.
جنید نے دیکھا کہ وہ ایک بزرگ خاتون تھیں، ان کے کپڑے جابجا سے پھٹے ہوئے
تھے، جسم زخم زخم تها، چہرے مہرے سے وہ خاندانی محسوس ہوتی تھی، جسم کے
زیورات سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کسی نے نوچ لیے تهے مگر آکا دکا قیمتی
زیور ابھی بھی نظر آرها تھا. پوشاک کسی وقت میں قیمتی هوگی لیکن اب صرف چند
چیتھڑوں پر مشتمل تھی. جنید نے زندگی میں کبھی اتنا گہرا سرخ رنگ نہی دیکھا
تھا جتنا اماں جی کے کپڑوں کا رنگ سرخ تھا. اماں جی نے کسی وقت میں میں
هاته بهر چوڑیاں پہنی هوگی مگر اب وہ ان کی کلائی میں پیوست تھیں جن سے خون
رس رہا تھا.
جنید کا دل پگھل گیا وہ اکڑوں اماں جی کے برابر بیٹھ گیا اور نرمی سے بولا
"اماں جی آپ کون هیں ؟
اماں جی نے سر اٹھایا اور بڑی بےیقینی سے کہا
تم نے بھی مجھے نہیں پہچانا؟
جنید یہ سوال سن کر سٹپٹایا.
بے اختیار بولا "میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا هوں؟
اماں جی ایک ٹھنڈا سانس بهرا اور بولی" میری یہ گٹھڑی میری کمر پر رکهوا
دو."
جنید نے گٹھڑی اٹھانے کی کوشش کی مگر اسے هلانے میں بھی کامیاب نہ ہوا.
اسی جدوجہد میں گٹھڑی کهل گئی.
جنید کا خون خوف سے منجمد سا هوگیا.
وه گٹھڑی کیا پورا قبرستان تها.
انگنت لاشیں، جوان مرد، عورتیں، بچے بوڑھے، کچھ تازہ لاشیں تهیں، کچھ سال
خوردہ تهیں.
اچانک ان لاشوں میں حرکت هوئ اور وہ اٹھ کر جنید کے گرد چکر لگاتے لگی.
جنید نے دیکھا اس میں کچھ بچے اور جوان طالبعلم لگتے تھے. ان کے یونیفارم
خون سے تر بتر تهے. کچھ پولیس اور فوج کے جوان تھے، ان کی وردیاں خون سے
تربتر تهیں. کچھ معصوم بچیاں اپنے زخم دیکھ کر روتی جاتی تھیں. سب سے آگے
ایک سبز آنکھوں والی گڑیا تهی جس نے شاید اپنا نام "
زینب " بتایا تھا.
لاتعداد نوجوان تھے جن کے تن گولیوں سے چھلنی تهے ان کی سربراہی جو خوبرو
جوان کر رہا تھا، جنید اس سے بخوبی واقف تھا وہ وهی "نقیب اللہ محسود " جس
کی بےگناہ خون نے اسے کئی راتیں سونے نہیں دیا تھا.
کچھ جوان دوشیزاوں کی خوستہ لاشیں بهئ تهیں.
جنید نے خوف سے کانپتے ہوئے بوڑھی عورت سے دوبارہ پوچھا
تم کون هو؟
جواب میں اماں جی کڑک کر بولیں :
ابھی بھی میں بتاو کے میں کون هو؟
"میں اقبال رحمہ اللہ کا خواب اور قائد اعظم کی تعبیر هوں. میں ان سب بچوں
کی ماں هوں. یہ وه طالبعلم هیں جو گھر سے تعلیمی اداروں میں جاتے هیں اور
واپس ان کی لاشیں آتی هیں.
یہ وہ پولیس اور فوج کے جوان هیں جو اپنے هموطنوں کی دہشتگردی کا شکار هیں.
یہ وہ بچیاں هیں جو اپنے هموطنوں کی هوس کا نشانہ بنی هیں.
یہ وہ نوجوان هیں جو اپنے هموطنوں کے هاته جھوٹے پولیس مقابلوں میں مارے
جارهے هیں.
یہ جلی هوئ لکڑیاں وه هیں جن کو ان کے هموطن کبھی بہو کے روپ میں جلا کر،
کبھی کاری " کر اور کبھی قرآن سے حق شفا کروا کر مار دیتے هیں.
یہ پرانی بوسیدہ لاشیں ان کی هیں، جنهوں نے اپنی جانیں میرے حصول کے لئے
قربان کیں. "اتنا کہہ کر وه مزید گویا هوئ
میرا یہ حال میرے اپنوں کی مہربانی ہے. تم بتاو تم سندھی هو یا بلوچی؟
پنجابی هو یا پٹھان؟
سرائیکی هو یا اردو سپیگنگ؟
شیر کے همنوا هو یا جئے بھٹو کا نعرہ گو هو؟
پی ٹی آئی کے ساتھی ہو یا ایم کیو ایم کا راگ الاپتے هو.
یا کسی مذہبی پارٹی کے همنوا هو.
جنید کے منہ سے بے اختیار نکلا
"میں پاکستانی هوں. "
ساتھ هئ اس کے کانوں میں هارن کی آواز آئی. اس نے دیکھا وہ مارٹن ڈیل
بولیورڈ کے اوپر عین سڑک کے بیچ کھڑا تھا.
اس نے عزم کیا کہ آج اس نے پاکستانی هونے کا جو دعوے کیا ہے اس کو کبھی
عصبیت کا شکار نہیں هونے دیگا.وه نہ سندھی هے نہ بلوچی،
نہ پٹهان نہ پنجابی،
نہ سرائیکی نہ اردو سپیگنگ.
وہ صرف پاکستانی هے اور اردو پاکستان کی قومی زبان هے.
وہ مادر ملت کی یہ فریاد سب هموطنوں تک ضرور پہنچائے گا. |