حسنہ آخری قسط

“ والی ،،، والی رکو! “ وہ اسے دیکھ کر جلدی سے بھاگ کر اسکے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔ تیزی سے ایک دم اٹھ کر بھاگنے سے اسکا سانس پھول رہا تھا۔
“ میری بات سنو پلیز “ اس نے کمر پر ہاتھ رکھ کر زرا جھک کر بے ترتیب سانسوں کو ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔
“ مجھے نہ تمہاری کوئی بات سننی ہے نا ہی تمہاری شکل دیکھنا چاہتا ہوں ، سو پلیز تم میرے سامنے سے چلی جاؤ۔“ والی نے اسے دیکھے بغیر کہا۔
“ میری بات تو سنو! “
“ مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی مس مریم “ اس نے آنکھوں میں دیکھ کر کہا اور آگے بڑھ گیا۔ وہ پھر جلدی سے بھاگ کر اسکے سامنے آگئی اور بازو اسکے آگے کر دیا۔
“ یہ کیا حرکت ہے ؟ والی نے غصے سے کہا۔
“ پلیز میری ایک بار بات سن لو اس کے بعد کبھی تمہارے سامنے نہیں آؤں گی پلیز ، پلیز “ اس نے التجا کرتے ہوئے کہا۔
“ ہمم بولو “ والی نے گہرا سانس لے کر کہا
“ جب میں لاسٹ ٹائم گھر گئی تو مجھے پتا چلا میری ماں ہسپتال میں ہے مجھے بتایا گیا کہ ان کی اچانک سے طبعیت خراب ہوگئی تو انہیں ہسپتال لے گئے میں فوراً ہسپتال گئی وہاں میری ماں کے پاس سوائے مالک مکان کے اور کوئی نہیں تھا۔ میں اپنی ماں سے جب ملی تب وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی ، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اس نے مالک مکان سے کہا کہ وہ میری بیٹی سے شادی کرلے میرے بعد وہ دربدر نہ ہو ، وہ بڑی مشکل سے بول رہی تھی۔ وہ جلدی سے راضی ہوگیا اتنے میں میرے تایا وہاں آئے اور انہوں نے بھی وہ بات سن لی۔ میں کچھ کہنے والی تھی کہ میری ماں میری بات سنے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ میرے تایا نے سوچا یہ ہمارے پلے نہ پڑ جائے تو چوتھے دن مکان کو حق مہر قرار دے کر میرا نکاح پڑھوا دیا گیا۔“ اس نے یہ کہہ کر بات ختم کر کے والی کی طرف دیکھا۔ وہ خاموش تھا۔ کچھ لمحوں بعد اس نے بولنا شروع کیا۔
“ تمہارے پاس میرا نمبر تھا،،،،،، تھا نہ؟ “ والی نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جہاں انگارے دھک رہے تھے۔ والی نے اسے بازو سے پکڑا اور وہاں سے گسھیٹتا ہوا اپنی گاڑی میں لا کر پٹخا اسے، یونیورسٹی کے سارے لوگ اسے اس طرح جاتا دیکھ رہے تھے مگر اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ ندا اور باقی دوستوں نے اسے آواز بھی دی پر وہ رکا نہیں۔ اس نے اسے فرنٹ سیٹ پر پھینکا اور جلدی سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہی گاڑی سٹارٹ کر کے چلا گیا جب تک اس کے دوست وہاں تک پہنچے وہ دور نکل چکا تھا۔ وہ دور تک اس کی گاڑی کو دیکھتے رہے۔
والی چپ چاپ گاڑی چلاتا رہا ، وہ پوچھتی رہی ہم کہاں جا رہے پر والی نے اپنے منہ سے ایک لفظ نہیں نکالا وہ بھی جب کوئی جواب نہیں ملا تو چپ کر کے بیٹھ گئی۔ والی بہت تیز ڈرائیو کر رہا تھا مریم کا دل اندر سے کانپ رہا تھا اس نے سوچا تک نہیں تھا کہ اسکے ساتھ ایسا ہوگا۔والی نے گاڑی ایک ویرآنے میں لا کر روکی ، اور پھر جلدی سے اتر کر مریم کو بازو سے پکڑ کر پہلے جھٹکے سے باہر نکالا پھر اسکے منہ پر اتنا زور سے تھپڑ مارا کہ وہ دور تک جا کر گری۔ وہ اس طرح کہ اچانک حملے کے لیئے تیار نہیں تھی اس لئے گال پر ہاتھ رکھ کر والی کو دیکھنے لگی۔
“ کیا کہا تم نے کہ تم گھر گئی تو ماما ہاسپٹل تھی ؟ “ مریم نے ایسے ہی گال پر ہاتھ رکھے سر اثبات میں ہلا کر تصدیق کی۔
“ جھوٹ ،،،، جھوٹی ہو تم“ والی نے اپنا پاؤں زور سے گاڑی کے ٹائر پر مارا جسے دیکھ کر مریم وہی ڈر سے پیچھے ہٹی۔
“ جب تم نے اپنی ماں سے کہاں کہ وہ مالک مکان سے تمہاری شادی کر دے تب وہ ہسپتال پہنچی، کیونکہ تم اپنی سے دگنی عمر کے آدمی سے صرف مکان کی لالچ میں شادی کرنا چاہتی تھی ۔ جسے سن کر تمہاری ماں برداشت نہ کر پائی اور ہسپتال پہنچ گئی۔“ والی نے آگے بڑھ کر اسے زمین سے اٹھا کر ایک اور تھپڑ اسکی گال پر رسید کیا وہ پھر وہی جا گری۔
“ یہ تھا پہلا جھوٹ! پھر تم اسے ہسپتال لے گئی اور وہ کمینہ بھی تمھارے ساتھ تھا۔اور جب ڈاکٹر نے کہا اب وہ قدرے بہتر ہے تب تمہارا تایا ہسپتال ان کی خبر لینے آیا تب تم نے اپنی ماں سے پھر کہا اگر وہ اس شادی سے راضی نہیں تو میں کورٹ میرج کرلوں گی، یہ تھا دوسرا جھوٹ جسے سن کر تمھاری ماں برداشت نہ کر سکی اور اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔“ والی نے پھر اسے ایک اور تھپڑ لگایا جب وہ گرنے لگی تو والی نے اسے بالوں سے پکڑ لیا۔
“ اور اب تیسرا جھوٹ سنو ، تمھارا تایا تم سے رشتہ ختم کر کے جا چکا تھا اور تم نے پھر بھی اس انسان سے شادی کرلی بس ایک گھر کے لیے ؟ تم اتنا گر گئی تف ہے تم پہ ارے تم تو اتنی گڑی ہوئی ہو کہ ،،، تم نے اپنی ماں کے چالیسویں کا بھی انتظار نہیں کیا۔ “ والی نے اسے ایک جھٹکے سے زمین پر پٹخا ۔
“ جانتی ہو مجھے یہ سب کیسے پتا چلا؟ اس دن جب میں تمہارے گھر سے نکل رہا تھا تب تمھارے تایا ابا نے مجھے ساری حقیقت اور تمھارے عشق کا اور جو اتنے عاشق تمہارے وہاں بنے ان سب کا بتایا۔“ والی اسے ایک اور تھپڑ مارنے والا تھا کہ اس کے دوست وہاں اسکا پیچھا کرتے ہوئے پہنچ گئے ۔ ندا نے مریم کو اٹھایا اور اسکے ہونٹ سے نکلنے والے خون کو صاف کیا۔
“ کیا کر رہے ہو یہ پاگل ہو تم ؟ “ والی کے دوست نے اسے قابو کرتے ہوئے کہا
“ ندا اسکو لے جاؤ میرے سامنے سے میں قتل نہ کردو اس کا۔“ ندا والی کو اتنا غصے میں دیکھ اسے اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گئی اسکے بعد والی دو تین دن اپنے دوستوں کی طرف رہا جب کچھ سنبھلا تو ، یونیورسٹی چھوڑ کر بزنس میں لگ گیا۔
“ بس یہ میری کہانی تھی جو میں تم سے بیان کرنا چاہتا تھا۔“ والی نے حسنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا
“ پاگل تھی وہ لڑکی ،،،، جس نے آپ جیسے انسان کو ٹھکرا کر بس ایک مکان کو اہمیت دی۔ خیر،،، “ حسنہ نے ایک گہرا سانس لیا۔
“پھر اسکا کیا بنا ؟“ حسنہ نے اشتیاق سے پوچھا۔
“میں نے کبھی اسکی خبر نہیں لی پر کہانی یہی ختم نہیں ہوتی،،، چھوڑو اسے ،، تمہیں کچھ اور بھی بتانا ہے۔“ والی نے کہا ۔
“ جی بتائیں سن رہی ہوں ۔ “ حسنہ نے تجسس سے کہا
“ ایک دن جب میں آفس سے گھر آ رہا تھا۔ تم مجھے گیٹ کے پاس کھڑی نظر آئی، تم نے بالکل اسی کی طرح خود کو چادر میں چھپایا ہوا تھا۔ مجھے ایک لمحے کے لئے لگا کہ مریم ہو شاید ، میرا خون کھولنے لگا۔ لیکن جب گاڑی پاس آئی تو میری نظر تمہارے چہرے پر پڑی۔ تم مریم نہیں تھی کوئی اور تھی۔ پر تھی تو مڈل کلاس ہی بڑی سی چادر والی خود کو پارسہ سمجھنے والی، پھر اس دم میں نے اپنا سارا غصہ تم پر نکالا۔ اسی طرح جب مجھے پتا چلا تم میری کزن ہو میں پاگل ہو گیا تھا۔ مجھے مڈل کلاس بڑی چادر والی لڑکیوں سے نفرت ہونے لگی تھی۔ اس لئے میں نے تمھارے ساتھ ایسا رویہ رکھا۔ جب کہ تمہارا کوئی قصور نہیں تھا۔
پھر جب ماما نے وہ فوٹو مجھے بھیجی تب تو میں پاگل ہو گیا تھا۔ مجھے لگا تھا شادی کہ بعد جب روز تمہیں ٹارچر کروں گا تم خود مجھے چھوڑ جاؤ گی ۔ پر میں تمھارے صبر کے آگے ہار گیا۔ تمھارا پیار میرے دل میں جگہ بنانے لگا۔ پھر جب میں تمھیں ڈانٹا کرتا تھا میں خود ہرٹ ہونے لگ گیا۔ اور،،، اور جب اس دن تم نے مجھے لگنی والی گولی خود پر لے لی اس دن ،،، اس دن مجھے پتا چلا میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں،،،، تم میرے لئے کتنی خاص ہو تمہارے صبر اور پاکدامنی نے میرا دل جیت لیا تھا۔ میں آج تم سے کہتا ہوں میں بہت پیار کرتا ہوں تم سے ،،،، تمھارے بغیر ادھورا ہوں پلیز مجھے معاف کردو،،، “ آتنا کہہ کر والی ہاتھ جوڑ کر رونے لگا۔
“ کیا کر رہے ہیں آپ ؟ میں ناراض کب تھی ، کب خفا تھی جو آپ معافی مانگ رہے ہیں پلیز مجھے شرمندہ نہیں کریں۔ میرے لئے یہی بہت ہے کہ آپکو میری محبت کا یقین ہو گیا۔ اللہ بڑا مہربان ہے، وہ بندے کی ضرور سنتا ہے جیسے آج اس نے آپ کو میرا بنا کر میری سنی۔“ حسنہ نے والی کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو پکڑ کر کہا۔ اتنے میں فجر کی آذان کانوں میں گونجنے لگی وہ دونوں نماز ادا کرنے کے لئے آنکھوں میں محبت کے آنسو لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔ (ختم شد)

Zeena
About the Author: Zeena Read More Articles by Zeena: 92 Articles with 212499 views I Am ZeeNa
https://zeenastories456.blogspot.com
.. View More