سردی کا موسم ہو اور مچھلی کاذکر نہ آئے یہ کیسے ممکن ہے
. مچھلی کے فوائد تو آپ نے اکثر سنے ہوں گے لیکن مچھلی خریدنے کے نقصانات
آج ہم آپ کو بتاتے ہیں .
مچھلیاں ہوں یا پرندے اکثر اپنے رنگوں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں کو لبھاتے
ہیں لیکن یہاں ہم موخر الذکر کے جمالیاتی حسن کا کیسے شکار ہوئے سن کرآپ
بھی حیران رہ جائیں گے-
قصہ کچھ یوں ہے کہ ہم افلاطون بچے کے ہمراہ حسب عادت مڑ گشت کر رہے تھے .اس
بچے کو ننھا افلاطون بنانے میں کچھ ہاتھ ہمارا بھی ہے کیونکہ ہم گاہے بگاہے
اس بچے کو جو ہمراہ کزن بھی ہے نصابی کتب کے علاوہ انساکلوپیڈیا اور دیگر
کتب تحفے میں دینا اور سیر و تفریح کے لیے لے جانا ہمارا محبوب مشغلہ ہے .ننھے
افلاطون کی والدہ ایک دھان پان سی خاتون ہیں .انھیں ہماری آوازہ گردیاں ایک
آنکھ نہیں بھاتی لیکن اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اکثر وہ ہماری بات
مان جایا کرتی ہیں .
خیر بات ہو رہی تھی افلاطون بچے کی .وہ مچھلی فروش کی دکان پر پہنچے تو
گویا اس کے پاؤں وہیں جم کر رہ گئے .دکان میں بھانت بھانت کی مچھلیاں ڈبوں
میں بھری رکھی تھی جنھیں محفوظ کرنے کے لیے برف ڈالی گئی تھی .ان مچھلیوں
میں مختلف سائز کی مچھلیاں تھیں جن میں راہو, (عام طور پر مل جانے والی
مچھلی ) مہاشیر , الیکڑک ایل (یہ نام ہمیں ننھے افلاطون نے بتایا تھا اگرچہ
ہم خود اس نام سے نابلد تھے ) توا مچھلی, گلابی رنگ کی مچھلی ,لمبی مونچھوں
والی مچھلی اور ایک مچھلی جس کی لمبائی بمشکلچھ انچ تھی بڑے سلیقے سے رکھی
گئی تھی .
افلاطون بچہ چونکہ ہمارا لاڈلا ہے اور یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ اس کی
فرمائش پوری کی جائے گی .اس نے پہلے تمام مچھلیوں کا جائزہ لیا پھر کہنے
لگا کہ اسے الیکڑک ایل جو کہ غالبا سانپ مچھلی تھی خریدنا ہےاورسب سے چھوٹی
مچھلی .افلاطون بچے کی دیکھادیکھی ایک اور بچہ بضد ہو گیا کہ اسے گلابی رنگ
کی مچھلی خریدنا ہے .
دوکاندار دونوں بچوں کو بغور دیکھ رہا تھا افلاطون بچے کی طرف دیکھ کر کہا
یہ مچھلی چونکہ سمندر میں سب مچھلیوں سے تیزچلتی ہے اس لیے یہ مچھلی ذہانت
کو تیز کرتی ہے .اور دوسرے بچے کی جانب دیکھ کر بولا گلابی مچھلی دنیا کی
بہترین مچھلی ہے .
گویا دوکاندار نے دونوں ننھے گاہکوں کو قائل کیا .آپی پلیز.ننھے افلاطون نے
ہمارا ہاتھ دبایا .ہم ٹھہرے کمزور دل کے مالک .اس کی للچائی ہوئی نظروں کا
تعاقب کرتے ہوئے آدھا کلو سب سے چھوٹی مچھلی اور بقول افلاطون الیکڑک ایل
خریدنے کو کہا .مچھلی والا اپنی فتح پر مسکرایا .اور کم از کم ۱۲ کے قریب
مچھلیاں جو کہ وزن میں آدھا کلو تھیں صاف کرنے کے لیے دکان میں کام کرنے
والے لڑکے کو دے دے دی .
اس نے خونیں آنکھیوں سے ہمیں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ اس سے چھوٹی مچھلی
کیوں نہ لی .اتنی دیر میں ہم نے اپنیتوجہ افلاطون بچے کی جانب کی جو گاہے
بگاہے مچھلیوں کو چھوکر ,اٹھا کر دیکھتا پھر اپنی قمیض سے صاف کر لیتا.
تھوڑی دیر بعد کہنے لگا آپی مجھے مچھلی کی بو آرہی ہے .ہم مسکرائے کہ
مچھلیوں کے معانے بعد اگر ہاتھوں کو اپنی قمیض سے صاف کیا جائے تو بو آنے
کے امکانات واضع اور لازم ہیں .خیر کم وبیش آدھے گھنٹے کے بعدہمیں وہ
ننھیننھی مچھیلیاں ہمارے حوالے کی .
ہم خوشی خوشی گھر لوٹے .اب مرحلہ آیا مچھلی پکانے کا .ہم نے افلاطون کی
والدہ سے کہا لیجیے پکایے .انھوں نے ایک بار ہماری جانب دیکھا اور دوسری
بار مچھلی کی جانب ان کی آنکھوں میں غصے کے آثار واضع تھے .وہ بولی یہ
مچھلی ہے مچھلی کے نام پر دھبہ .
گویا جو لائے وہی پکائے کے مصادق یہ ذمہ داری بھی ہمارے سر آئی .مچھلی جو
کہ پکنے کے بعد مزید چھوٹی ہو گئی کافی لذیذتھی .اس میں کانٹے اتنے چھوٹے
تھے کہ نظر آنا محال .اس مچھلی کو پکانے اور اس کے ننھے ننھے کانٹے چبانے
کے بعد ہم نے سوچا کیوں نہ اس سے بھی چھوٹی مچھلی لائی جائے- |